سوچی اور روہنگیائی مسلمان

محمد عمران
حالانکہ آنگ سان سوچی پوری دنیا میں ایک مشہور و معروف شخصیت رہی ہیں۔ ان کو نوبل انعام سے بھی نوازا جا چکا ہے۔تاریخ بتاتی ہے کہ فوجی بالادستی والی غیر جمہوری حکومت کے بر خلاف عوامی اور جمہوری حکومت کے قیام کو اہم سمجھنے والی اور اس کے لئے فوجی حکومت سے لوہا لینے والی سوچی نے کبھی شکست نہیں مانی اور اپنے ہی ملک میں نظر بندی کی زندگی گزارنے کو ترجیح دی لیکن آزاد رہ کر دوسرے ملک میں رہنا قبول نہیں کیا۔عوامی حقوق کی حصول یابی کے لئے اپنے دل میں ایک ٹیس محسوس کرنے والی سوچی کو اپنے وطن سے گہری عقیدت اور محبت رہی ہے۔ ان کے لئے وطن سے دور رہ پانا قطعی نا ممکن تھا۔ان کی جہد مسلسل او رقربانیوں نے دنیا کے سیاسی اور حکومتی کینوس پر اپنے اثرات مرتب بھی کئے۔ میانمار میں حزب اختلاف کی قائد رہتے ہوئے بھی دنیا ان کو ایک بڑے رہنما کی حیثیت سے تسلیم کرتی رہی ہے۔ان کی خوبیوں کی ہندوستان نے بھی پہچان کی تھی۔ایسا ماناجاتاہے کہ محترمہ سوچی مہاتما گاندھی کو اپنا آئیڈیل تسلیم کرتی ہیں اور ان کے اصولوں سے استفادہ کرنے کو اہم سمجھتی ہیں۔ وہ میانمار میںجمہوریت کو قائم کرنے اور اس کی بقا کے لئے مسلسل جنگ لڑتی رہی ہیں۔ہندوستان سے ان کا گہرا اور دیرینہ لگاو ¿ رہا ہے۔ماضی میںان کے والد اور والدہ دونوں ہی ہندوستان میں برما کے سفیر کی حیثیت سے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات گزار چکے ہیں۔خود آنگ سان سوچی نے بھی اپنی طالب علمی کا زمانہ ہندوستان میں گزارا ہے۔ اور وہ دہلی کے لیڈی شری رام کالج سے فارغ التحصیل ہیں۔اس اعتبار سے ہندوستان کے عوام کی ان میں دلچسپی کا جواز بھی موجود ہے اور اسی لئے ان سے جمہوریت کو دوام دینے کی امیدیں بھی وابستہ رہی ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو مقبول و معروف لیڈر ہوتا ہے اس کے قول و فعل کا بھی بغور جائزہ لیا جاتا ہے۔خوشی کے لمحات میں توبہت کچھ نظر انداز بھی کیاجاسکتا ہے لیکن غم کے موقع پر نگاہیں ہمیشہ اسی کی متلاشی ہوتی ہیں۔اور اپنے دکھ کا مداوابھی اسی سے چاہتی ہیں۔یادکیجئے جب برما میں فوجی حکومت تھی اور سوچی میانمار کی بے حد مقبول لیڈر تھیں، انسانی حقوق کے حصول کے لئے ان کی کوششیں تاریخ میں بھی رقم ہوچکی تھیں۔ایسے وقت میں جب برما میں انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانے کی زوروں پر مشق ہوئی تھی اور اقلیتوں کو نہ صرف ان کے حقوق سے محروم کیا جانے لگا تھا بلکہ ان کا قتل عام بھی ہونے لگا تھا ،انہیں ملک بدر ہونے کے لئے مجبور کیا جانے لگا تھااوران پر ستم رسانی کے لئے شر پسندوں کے ساتھ پولس اور فوج کی طاقتیں علی الاعلان معاونت کرنے لگی تھیں تو سب کی نگاہیں سوچی کی جانب اٹھنا بھی لازمی تھیں۔لیکن ایسے موقع پر انسانی حقوق اور جمہوریت کا علم بلند کرنے والی رہنماآنگ سان سوچی کی پر اسرار خاموشی سب کو متحیر کردینے کے لئے کافی تھی۔ اس وقت یہ واقعہ ایک سوال بن کر کھڑا ہوگیا تھاکہ آخر وہ کیسے خاموش رہ پائی تھیں جب مسلمانوں کا قتل عام ہوا تھااوران کی نسلیں تباہ کرنے کی سازشیں عام ہوئی تھیں۔جب عورتوں کی عصمت کو تارتار کیا جانے لگا تھا، تو ایک عورت ہوتے ہوئے وہ عور ت کے رتبے کو کیسے نہیں سمجھ پائی تھیں۔جب اقلیتوں کے گھروں کو نذر آتش کیا جانے لگا تھا اور اس کے شعلے دنیاکی آنکھوں میں روشنی پہنچانے کے لئے ناکافی ثابت ہونے لگے تھے تو اس وقت محترمہ سوچی کی نگاہیں یہ سب کیوں نہیں دیکھ پائی تھیں۔
اس وقت دنیا کے سامنے یہ بھی سوال تھا کہ کیا آنگ سان سوچی نے یہ تک بھی نہیں د یکھا تھا کہ 80 ہزار سے بھی زیادہ روہنگیا مسلمان خیموں میں پناہ گزیں ہونے کو مجبور ہوگئے تھے۔ان کا سارا ساز وسامان لوٹ لیا گیا تھا اور وہ خیموں میں بے سروسامان ہی آگئے تھے۔ان کے پاس سہولیات کے نام پر کچھ بھی تو نہیں تھا۔اور ان کی عورتیں، ان کے مرد، ان کے بوڑھے،ان کے بچے اوران کے جوان سب ایک ساتھ مرغیوں کی طرح خیمہ نمادڑبے میں قید کردئے گئے تھے۔ جہاںحاجات ضروریہ سے فارغ ہونے تک میں بھی انہیں دشواریوں کا سامنا کرناپڑرہا تھا۔انہیںلمبی لمبی قطاروں میں کھڑا ہونا پڑ رہا تھا۔ جس کے سبب بیشتر اوقات میں اکثر افراد کو رفع حاجت تک سے بھی محروم ہونا پڑ رہا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر راحت رسانی کے جو ادارے ان تک پہنچنا چاہتے تھے انہیں اس کی اجازت تک بھی نہیں دی جاتی تھی۔جو اشیائے خوردنی ان تک پہنچانے کی سعی کی جاتی تھی وہ ظالمانہ وغیرمنصفانہ طریقے سے غیر مستحقین میں تقسیم کردی جاتی تھی۔خوراک کی عدم فراہمی کی وجہ سے روہنگیائی مسلمانوںکے بوڑھوں،بچوں اور حاملہ عورتوں میں بیماریاں عام ہونے لگی تھیں تو اس وقت بھی طبی سہولیات کی فراہمی میں کجی اور کوتاہی کا مظاہرہ کیا جاتاتھا۔ اور بین الاقوامی سطح پر دواو ¿ں کی شکل میں جو امداد پہنچائی جاتی تھی اسے خیموں کے منتظمین بیماروں تک نہیں پہنچنے دیتے تھے۔اگر وہ دوائیں فراہم کراتے بھی تھے تو وہ نقلی ہوتی تھیں جو شفا کے بجائے وبا بن جاتی تھیں۔سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ آنگ سان سوچی نے اس وقت یہ سب کیوں نہیں دیکھا تھا اور کیوں نہیں اس ظالمانہ روش کے خلاف امن عالم کی صدا بلند کرنے کے لئے وہ آگے آئی تھیں؟
دنیاجانتی ہے کہ محترمہ سوچی نے ماضی میں انسانی حقوق پر بہت کام کیا ہے۔اس لئے وہ فوجی حکومت کے دوران بھی اچھی طرح سمجھنے کا مزاج رکھتی تھیںکہ فسادات میں 75000 پناہ گزینوں کے لئے جو خیمے درکار تھے وہ پورے نہیں کئے جاسکے تھے ۔5000 گھروں کو نذر آتش کردیا گیاتھا۔اس کے بعد روہنگیا مسلمانوں کی بستیوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ مظالم کا شکار بنایا گیاتھا۔جس میں 112ہلاک ہوئے تھے اور مزید2000گھروں کو آگ کے حوالے کردیا گیا تھا۔اس وقت ایسے ثبوت بھی فراہم ہوئے تھے کہ بودھ جنونیوں کے ساتھ حکومت نے بھی براہ راست مسلمانوں پر مظالم ڈھائے تھے۔جب روہنگیا مسلمان اپنی جان بچا کروہاں سے بھاگ رہے تھے تو پولس اور فوج کے ذریعے ان پر گولیاں چلائی گئی تھیںجو ان کے مخفی متعصبانہ نظریات کی کامل عکاسی کرتا تھا۔ مظالم سے تنگ آکر مسلمان کشتیوں میں بیٹھ کر بھاگنے کو بھی مجبور ہوئے تھے اورجب کشتی الٹ گئی تھی تو پانی میں ڈوبنے کو بھی مجبور ہوئے تھے۔ امن کے لئے نوبل انعام حاصل کرنے والے کوخصوصاً یہ سوچنا چاہئے تھا کہ ان کی جانےں بھی تو اتنی ہی قےمتی تھیں،جتنی کسی بھی دوسرے انسان کی ہوتی ہیں۔لےکن آخر کےا بات تھی کہ مسلمانوں پر مظالم ہوئے تو اس وقت سوچی بھی خاموش ہو گئی تھیں۔جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرے مذاہب کے کسی اےک فرد پر بھی کوئی ادنیٰ سا ظلم بھی ہوتا ہے تو اس کی گونج اقوام متحدہ تک سنائی دےنے لگتی ہے ،لیکن فوجی حکومت کے دوران جب برمی مسلمان کو اذیتوں کا شکار بناےاگیا تھا تو محترمہ سوچی جیسی عالی ا لمرتبت برمی رہنما بھی اپنے لب کو وا نہیں کر پائی تھیں۔ جبکہ عوام میں تو یہ مشہور تھا کہ گاندھی جی کے اصولوں کی پےروکار اور انسانی حقوق کی علمبردار جمہوریت نواز لےڈر آنگ سان سوچی عوام کے درمےان کوئی تفرےق نہیں کرسکتی ہیں۔
غور طلب بات ہے کہ اگر ان کا یہ انداز فکر حکومت سازی کی مجبوری کے پےش نظر بودھوں کو ناخوش نہےں کرنے کا نظرےہ تھا تو بھی ےہ سوچی جےسی شخصےت کے لئے نا موزوں ہی تھا۔ کےونکہ انسانی حقوق کی پاسداری کے لئے ہی انہوں نے فوجی حکومت کے خلاف ایک طوےل لڑائی لڑی تھی۔اور اس سلسلے مےں انہےں کئی مراحل سے بھی گزرنا پڑا تھا۔اس لئے اس وقت یہ گمان کرپانا ممکن نہیں تھا کہ مسلمانوں کے خلاف نسل پرستی اور تعصب پر مبنی رویہ اپناتے ہوئے انہےں شہریت کے حقوق سے محروم کئے جانے کی کوششوں کو محترمہ سوچی آسانی سے ہضم کرلےں گی۔لیکن ایسا ہوا تھا، جودنیامیں امن کی کوشش کرنے والوں کے لئے تشویش کی بات تھی۔حد تو یہ تھی کہ اس سلسلے میں اس وقت محترمہ سوچی کا اپنا کوئی نظریہ بھی واضح نہیں تھا،یاشاید وہ دنیاکے سامنے روہنگیائی مسلمانوں کے لئے اپنے متعصبانہ خیالات کو کچھ عرصے تک پوشیدہ رکھناچاہتی تھیں۔یاد کیجئے ،اگرمیڈےا کبھی ان سے مسلمانوں پر ستم ڈھائے جانے کے سلسلے میں کوئی سوال پوچھتا تھا تو ان کا جواب ہمیشہ مبہم ہی ہوتا تھا۔
آج میانمار میں فوجی حکومت نہیں ہے بلکہ سوچی کی جماعت کی واضح اکثریت کے ساتھ حکومت ہے ،تو ان کے نظریات بھی واضح ہونے لگے ہیں۔حیف ہے کہ فوجی حکومت سے زیادہ جمہوری حکومت میں روہنگیائی مسلمانوں پرستم ڈھائے جارہے ہیںاوراس وقت ان پر مظالم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے۔آج معصوم روہنگیا مسلمان بچوں کو تہہ تیغ کیاجارہا ہے اورمحترمہ سوچی خاموش ہیں۔بچوں کو نذر آتش کیا جارہا ہے اور سوچی کو کوئی بھی فرق نہیں پڑ رہاہے۔مسلمان عورتیں بلبلاتی پھررہی ہیں اور سوچی کی حکومت ان کے آنسو پونچھنے کے بجائے ان پر ستم کا پہاڑ ڈھانے میں لگی ہوئی ہے۔آج میانمار میں مسلمانوں کے خلاف ایک ایسا قیامت کا منظر ہے کہ انسانیت کی چیخیں نکل جارہی ہیں۔حالات اس قدر سنگین ہوگئے ہیں کہ مظالم کے سارے سابقہ ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔سیکڑوں کی تعداد میں روہنگیا مسلمان موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں،کم وبیش ایک لاکھ مسلمانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیاگیا ہے۔آتش زنی اور قتل وغارت گری کے ایسے بھیانک مناظر سوشل میڈیاپر گشت کررہے ہیں کہ ان کاذکر کرنے تک سے بدن میں جھرجھری اٹھ رہی ہے،آج انسانیت بلبلااٹھی ہے۔لیکن سوچی اپنے نوبل انعام کے ساتھ ہی چپکی نظر آرہی ہیں،انہیں یہ فکرتک بھی نہیں کہ جب ملک کے شہریوں پر،انسانیت پر اور روہنگیا مسلمانوںپر تاریخ کوشرمندہ کرنے والے مظالم نہ صرف ان کی نظروں کے سامنے بلکہ ان کی حکومت میں ہورہے ہیں اور وہ خاموش ہیں تو ان کو اپنے پاس نوبل انعام رکھنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے۔ حق تو یہ تھا کہ اس وقت بین الاقوامی سطح پر یہ صدا بلند کی جاتی ،لیکن حیف ہر چہار جانب سناٹا پسرا ہوا ہے۔میڈیا بھی مظالم کی ان خبروں کو نشر کرنے سے گریز کررہاہے۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ مسلمانوں پر مظالم ہوں تو خاموشی اور دوسری اقوام کا ایک فرد بھی کہیں ہلاک ہوتووہ سرخیوں والی خبر بن جاتی ہے اور اس کی جانچ پڑتال بھی شروع ہوجاتی ہے۔ اف!آج امن کانعرہ بلند کرنے والے بھی خاموش ہوگئے ہیں۔
(کالم نگار اینگلو عرب اسکول کے سینئر استاذ اور آزاد صحافی ہیں )
mohd1970imran@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں