روہنگیا مسلمان اور بیداری مسلم

 مولانا تنویر احمد اعوان
گزشتہ سات دہائیوں سے انگریز سامراج کی ناانصافی اور بڈھشت دہشت گردی کا شکار روہنگیا مسلمان اپنی تاریخ کے کرب ناک دور سے گزر رہے ہیں ، ہجرتیں ، شہادتیں ، عصمت دریاں ،قید وبند کی صعوبتیں اور ریاستی ظلم وجبر کا شکار ،غربت کی لکیر سے نیچے کسمپرسی کی زندگی گزارنے والے رخائن کے باسی مسلمانوں پر 25 اگست سے بڈھشٹ ملیشیاؤں اور میانمار فوج نے انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنا رہے ہیں ، جس کے نتیجہ میں ڈھائی لاکھ سے زائد مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہو چکے ہیں اور ہزاروں جام شہادت نوش کرچکے ہیں ،ان تمام انسانیت سوز مظالم کے خلاف پوری دنیا اور بالخصوص پاکستان میں روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور او آئی سی، سارک ممالک ،اقوام متحدہ سے فیصلہ کن کردار ادا کرنے لیے مطالباتی و احتجاجی جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں ،یاد رہے کہ روہنگیا مسلمانوں کو پوری دنیاکی مظلوم ترین اقلیت مانا گیا ہے جن کو میانمار حکومت اپنے ملک میں رہتے ہوئے وہاں کا باسی ماننے سےانکار کرتی چلی آرہی ہے ،جب کہ برما کے آرمی چیف نے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کو دوسری جنگ عظیم کا ادھورا مسئلہ قرار دیتے ہوئے ملٹری و بڈھشٹ ملیشیاؤں کے ظلم و تشدد کو جواز فراہم کیا ہے ،یہی وجہ ہے کہ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق گذشتہ دو ہفتوں میں سوا لاکھ سےزائد روہنگیا مسلمان رخائن صوبے سے نقل مکانی کر کے بنگلہ دیش منتقل ہوئے ہیں،درجنوں گاؤں نذر آتش کردئیے گئے ہیں اور انسانیت سوز مظالم کی وجہ شہید ہونے والوں کی تعداد کا صحیح تعین میڈیا کی عدم رسائی کی وجہ سے نہیں کیا جاسکتا ہے،جب کہ سینکڑوں عورتوں کی عصمت دری کرنے کے ساتھ ساتھ معصوم بچوں کو تشدد کرکے ابدی نیند سلا دیا گیا ،نتیجتاً پوری دنیا میں انصاف پسند اور انسانیت کا درد رکھنے والاہر انسان کرب اور بے چینی کا شکار ہو ا ، یہی وجہ ہے کہ روس شہر کے ماسکو، چیچنیا کے شہر گروزنی، جاپان کے شہر ٹوکیو، فلیپائن، انڈونیشیا کے شہر جکارتہ، بھارت کے شہر نئی دہلی، چنئی، کلکتہ، افغانستان کے شہر کابل ، ملیشیا کے شہر کولالمپور ، آسٹریلیا کے شہر میلبورن ، مقبوضہ وادی جموں وکشمیر میں نماز جمعہ کے بعد ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر میانمار کے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور اقوام متحد ہ سے ظلم و جبر کے اس سلسلہ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا ۔

جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی 8 ستمبر یوم جمعہ کو یوم احتجاج کے طور پر منایا گیا جس کی کال جماعت اسلامی ،جمیعت علماء اسلام ،سول سوسائٹی اور دینی وعصری تعلیمی اداروں میں یکساں وجود رکھنے والی طلبہ تنظیم مسلم سٹودنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے دی تھی ،وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک کے تمام بڑے ،چھوٹے شہروں نماز جمعہ کے بعد احتجاجی مظاہرے کئے گے،مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے زیر اہتمام کراچی ،سکھر ،فیصل آباد ،پشاور ،مظفرآباد اور اسلام آباد میں برما لہو لہو کے عنوان سے ریلیاں نکالی گئیں جن میں غیرمعمولی تعداد میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنےہزاروں افراد نے شرکت ، ایم ایس او پاکستان کے زیر انتظام وفاقی دارالحکومت میں لال مسجد سے شروع ہوئی ،جو آبپارہ میں آل پارٹیز احتجاجی ریلی کے ساتھ ہوئی ،اس کی قیادت امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق ،ممبر صوبائی اسمبلی مولانا مسرور نواز جھنگوی اور ناظم اعلیٰ ایم ایس او پاکستان محسن خان عباسی نے کی ، ریلی سے مختلف سیاسی ،دینی جماعتوں کے نمائندوں کے علاوہ طلبہ تنظیموں کے قائدین ،وکلاء ،ایوان تجارت کے راہنماؤں اور سماجی کارکنوں نے خطاب کیا ،اگرچہ احتجاجی ریلی کی منزل برما ایمبیسی تھی لیکن حکومت کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کی وجہ سے احتجاجی ریلی کو اس عزم کے ساتھ سرینا چوک پر ختم کردیا گیا کہ ،مشترکہ اعلامیہ میں روہنگیا مسلمانوں کی بحالی ،اور ظلم کے مکمل خاتمے تک احتجاجی تحریک کو ملک بھرجاری رکھنے کا اعلان کیا گیا اور اس حوالے سے پانچ مطالبات پیش کئے گے، جن میں میانمار سے سفارتی تعلقات کے منقطع کرکے سفیر کو ملک بدر کرنے ،تمام معاہدات ختم کرنے، او آئی سی کا اجلاس بلانے ، میانمار کی حکمران آنگ سان سوچی سے امن کا عالمی نوبل انعام واپس کروانے اور عالمی سطح پر دباؤ بڑھا کر میانمار پر عالمی پابندیا ں لگوانے میں مؤثر کردار ادا کرنا شامل ہے ۔

یاد رہے کہ 8 اور 9 ستمبر کو ترتیب وار اسلام آباد اور کراچی پریس کلب کے سامنے اہلیا ن اسلام آباد اور کراچی نے روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور روئے زمین پر سب سے بڑے انسانی المیے کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے احتجاجی مظاہرے کئے جن میں کراچی و اسلام آباد کے مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔

بلاشبہ روہنگیا مسلمانوں کے حوالے سے اہل اسلام کی بیداری قابل تحسین ہے مگر عالمی امن کے ٹھیکیداروں کی مجرمانہ خاموشی ،اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری کا تجاہل عارفانہ ،اور مسلم حکمرانوں کی بے حسی برمی مظلوموں کے مسائل کو مزید گھمبیر بنارہی ہے،اس سارے منظر نامے میں ترکی ،مالدیپ ،سعودی عرب اور پاکستان کا کردار یقیناً حوصلہ افزا ءہے لیکن جب تک تمام مسلم ممالک میانمار سے سفارتی اور تجارتی تعلقات ختم نہیں کرتے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں میانمار حکومت کے مظالم کی روک تھام کے لیے قرارداد منظور کروانے ، روہنگیا مسلمانوں کو ان کا آئینی حق واپس دلوانے ،اور عالمی عدالت انصاف میں میانمار حکومت کو ا ن انسانیت کش جرائم کی پاداش میں انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے عالمی سطح پر مؤثر کردار ادا نہیں کرتے ،تب تک میانمار کے مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی داد رسی ناممکن ہے بلکہ یہ حالات و واقعات ایک بڑے انسانی المیہ کو جنم دینے کا باعث بن جائیں گے، جس پر قابو پانا شاید اقوام عالم کے لیے مشکل ہو جائے ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں