نایاب حسن
برماکے روہنگیا مسلمانوں کا بحران عالمی بحران بنتا جارہا ہے، اگست کے اواخر میں برمی فوج کے نئے سلسلۂ مظالم کے بعد کم و بیش ڈیڑھ لاکھ روہنگیا بنگلہ دیش کی طرف ہجرت کرچکے ہیں، رپورٹس کے مطابق فوجی کریک ڈاؤن میں دوسے تین ہزار روہنگیا مارے گئے، جبکہ سیکڑوں لوگ جان بچاکر بھاگنے کی کوشش میں برما۔بنگلہ دیش کی سرحدوں پر دریاؤں میں ڈوب کر جاں بحق ہوگئے۔ اقوامِ متحدہ یا انسانی حقوق کی دوسری عالمی تنظیمیں مسلسل میانمار کے حالات پر نظر رکھے ہوئی ہیں اور وہاں کی سربراہ آنگ سان سوچی سے انسانی حقوق کے تحفظ کی اپیل کررہی ہیں، مگر سوچی کو اس پر سوچنے کا موقع ہی نہیں، ان کی حکومت کا موقف یہ ہے کہ فوج جن لوگوں کو تہہ تیغ کررہی ہے، وہ سب کے سب دہشت گرد ہیں اور ان سے بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔ ایک طرف دنیا بھر کا میڈیا ہے، جو میانمار میں ظلم و ستم جھیل رہے روہنگیا مسلمانوں کی حالتِ زار پر مسلسل احتجاج کررہا ہے، جبکہ دوسری طرف وہاں کی حکو مت ہے، جس کا ماننا یہ ہے کہ فرضی تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے میانمار میں دہشت گردی کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دنیا کا ایک بہت بڑا طبقہ اس بحران کو انسانی نقطۂ نظر کی بجائے مذہبی نقطۂ نظر سے دیکھتا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ روہنگیا چوں کہ مسلمان ہیں، سو پچاس سے زائد مسلم ممالک کو اس سلسلے میں اقدام کرنا چاہیے، حالاں کہ یہ ایک غیر اخلاقی و غیر انسانی موقف ہے، مگر پھر بھی اس میں کچھ نہ کچھ دم ہے، دنیا کے نقشے پر موجود مسلم ممالک میں زیادہ تر معاشی اعتبار سے خوشحال و فارغ البال ہیں اور عالمی سیاست میں ان کی بات سنی بھی جاتی ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ انھیں خود آپس میں دست و گریباں ہونے سے فرصت نہیں ، تو وہ کسی دوسرے ملک کے مسلمانوں کے بارے میں کیا سوچیں گے، ایک ترکی ہے جو روہنگیا مہاجرین کو بنگلہ دیش میں رہایش و اسبابِ معیشت مہیا کرانے کے لیے تگ و دو کررہا ہے، مگر بنگلہ دیش بھی کوئی بہت مضبوط ملک توہے نہیں، اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ وہاں پہلے سے ہی کم و بیش چار لاکھ روہنگیا مہاجرین پناہ گزیں ہیں، جبکہ گزشتہ پندرہ بیس دنوں میں لاکھوں مزید پناہ گزینوں کا اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ تھائی لینڈ، ملیشیا، انڈونیشیا وغیرہ میں بھی روہنگیا پناہ گزیں موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے زیادہ تر ملکوں نے ان مہاجرین کو مذہبی بنیادوں پر پناہ دی ہے یا انسانیت کی بنیاد پر،حالاں کہ مہاجرین کو پناہ دینے کے سلسلے میں اقوام متحدہ کاعالمی دستور ہے، جس کی پابندی ہر ممبر ملک کو کرنا ہوتی ہے، مگر کرتا کون ہے؛ چنانچہ مشرقِ وسطیٰ کی خانہ جنگیوں سے جان بچاکر یورپ کے مختلف ممالک میں پہنچنے والوں کے سلسلے میں ہم سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں کہ بعض ممالک یا تو بہت زیادہ عالمی دباؤ کے بعد کچھ مہاجرین کو اپنے یہاں ٹھہرنے دیتے ہیں، جبکہ کئی ممالک ایسے ہیں، جو کسی بھی مہاجر کو سرے سے پناہ نہیں دینا چاہتے۔ ہمیں یاد ہے کہ برطانیہ جیسے ملک نے اپنے یہاں شامی مہاجرین کو پناہ دینے پر بریگزٹ کو ترجیح دی، جبکہ امریکہ جیسے روشن خیال و عالمی سربراہ ملک کے لوگوں نے جن بنیادوں پر ریالٹی شو چلانے والے ایک بزنس مین کو اپنا صدر منتخب کیا، ان میں ایک بنیاد یہ بھی تھی کہ اس بندے نے امریکہ سے مہاجرین کو نکال باہر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ جو ممالک اپنے یہاں مہاجرین کو پناہ نہیں دینا چاہتے، ان کی اپنی دلیلیں بھی ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ ایسے لوگ ملکی معیشت پر بوجھ بن جاتے ہیں یا یہ کہ یہ لوگ ڈرگ اسمگلنگ یا دہشت گردی جیسے جرائم میں ملوث ہو جاتے ہیں وغیرہ۔
میانمارمیں روہنگیا مسلمانوں کی کل تعداد ایک ملین ( دس لاکھ ) سے کچھ زائد بتائی جاتی ہے، ان کا مسئلہ نیا نہیں ہے، گزشتہ کئی دہائیوں سے انھیں معاشی، شہری نابرابری اور انسانی حقوق سے محرومی کا سامنا ہے۔ 1982ء کے شہریت کے قانون کے مطابق روہنگیا میانمارکے اصلی شہری نہیں ہیں اور جب وہ اس ملک کے شہری ہی نہیں ہیں، تو خود بخود وہ بے شمار ان حقوق سے محروم ہیں، جو کسی ملک کے باشندے کو حاصل ہوتے ہیں۔ میانمارحکومت کا دعویٰ ہے کہ اس ملک میں روہنگیا قوم کا کوئی وجود نہیں، جتنے روہنگیا مسلم ہیں سب بنگالی / بنگلہ دیشی ہیں۔ 2014ء میں میانمار حکومت نے اعلان کیا کہ وہ صرف ان روہنگیا کو حقِ شہریت دے سکتی ہے، جو اپنے آپ کو بنگالی مانتے ہیں، اس کے نتیجے میں ہزاروں روہنگیا حوالۂ رسن و دار کردیے گئے۔ اس سے پہلے 2012ء میں بدھسٹ دہشت گردوں نے اراکان ( راکھائن ) میں بڑے پیمانے پر فسادات مچایا تھا، جن میں کم از کم 160 لوگ مارے گئے جبکہ ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ بے گھر ہوئے۔ وہاں کی حکومت اور فوج نے حالات کو غیر جانب داری اور انصاف پسندی کے ساتھ قابو کرنے کی بجائے بدھسٹوں کو سیاسی پناہ دی، ان کے مظالم کو چھپایا، جبکہ اس کے مقابلے میں روہنگیا مسلمانوں کی جانب سے جو چند ایک بولنے والے لوگ تھے، انھیں پابندِ سلاسل کیا گیا۔
2012ء کے بحران میں ہی ہزاروں روہنگیا مہاجرین ہندوستان آئے تھے، ان کی تعداد موجودہ سرکار چالیس ہزار بتاتی ہے، جبکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حکومت ان کے خلاف ماحول سازی کے لیے تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے، یعنی حقیقت میں ہندوستان میں پناہ گزیں روہنگیا کی تعداد چالیس ہزار نہیں ہے۔ حال ہی میں مودی کے وزیر کرن رجیجو نے روہنگیا مسلمانوں کے بارے میں ایک بیان دیا تھا کہ ’’ یہ تمام کے تمام غیر قانونی طور پر یہاں رہ رہے ہیں، انھیں یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے، جو کوئی بھی غیر قانونی طور پر یہاں مقیم ہے، اسے ملک بدر کیا جائے گا ‘‘۔ حالاں کہ یہاں مقیم روہنگیا مسلمانوں میں سے 16500 لوگوں کو اقوامِ متحدہ کے کمشنر براے پناہ گزین کی جانب سے ایک شناختی کارڈ مہیا کرایا گیا ہے، جس کی رو سے انھیں کوئی ہراساں نہیں کرسکتا، قید نہیں کیا جاسکتا اور ناہی ملک بدر کیا جاسکتا ہے۔
ہندوستان میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کو نکالے جانے کے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے دو روہنگیا پناہ گزینوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں پیٹیشن داخل کی گئی ہے، روہنگیا پناہ گزینوں کی جانب سے معروف وکیل و سیاست داں پرشانت بھوشن کورٹ میں پیش ہورہے ہیں، پہلی سماعت میں چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی والی بنچ نے مرکزی حکومت سے پوچھا تھا کہ پناہ گزیں کے طور پر روہنگیا کے ہندوستان میں قیام کے سلسلے اس کا موقف کیا ہے؟11؍ستمبر تک جواب داخل کرنے کی ہدایت دی گئی تھی، ساتھ ہی کورٹ نے پرشانت بھوشن کو ہدایت دی تھی کہ اپنے پیٹیشن کی ایک کاپی مرکزی حکومت کے سپرد بھی کریں، البتہ کورٹ نے روہنگیا پناہ گزینوں کی منتقلی پر کسی قسم کا اسٹے لگانے سے انکار کیا تھا۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ابھی میانمار کا دورہ کیا تھا، تو لوگ توقع کررہے تھے کہ وہ اتنے بڑے انسانی بحران پر ضرور کچھ بولیں گے اور روہنگیا مظلوموں کی حمایت کریں گے، مگر صد افسوس کہ انھوں نے الٹے اس معاملے پر دبے لفظوں میں ہی سہی، میانمار حکومت کے موقف کی تایید کی، ملیشیا نے اس مسئلے پر غور و خوض اور عالمی اداروں کو میانمار کے بحران میں اپنا حصہ ڈالنے کی دعوت دینے کی غرض سے چالیس سے زائد ممالک کے نمایندوں کی میٹنگ بلائی، جس سے ہندوستانی نمایندے واک آؤٹ کرگئے۔ سوشل میڈیاسے لے کر مین سٹریم کے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیامیں بھی عام طور پر روہنگیا مہاجرین سے متعلق خبریں اس طرح چلائی جارہی ہیں کہ اگر انھیں ہندوستان میں رہنے دیا گیا، تو گویا وہ پورے ملک کے لیے خطرہ بن جائیں گے اور کوئی قیامت کھڑی کردیں گے۔ اسی ملک میں پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال یا سری لنکا وغیرہ سے ہندو مہاجرین آتے ہیں، تو انھیں مظلوم و مجبور سمجھ کر ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے اور اس پر ہمیں کوئی اشکال بھی نہیں ہے؛ لیکن اگر مسلمان مہاجرین آتے ہیں تو انھیں فوراً ایک دوسری عینک سے دیکھا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ ایک انسانی بحران کا معاملہ ہے اوراسے انسانیت کے نقطۂ نظر سے ہی دیکھا جانا چاہیے، جس طرح دوسرے مہاجرین کواس ملک میں پناہ دیا جاتا ہے ،اسی طرح روہنگیا مہاجرین کو بھی پناہ دیا جانا چاہیے۔ اسی طرح ہندوستان کا موقف میانمار میں جاری کشت و خون کے تئیں واضح نہیں ہے، مودی حکومت کو اس عظیم انسانی المیے پر کھل کر اپنا نقطۂ نظر واضح کرنا چاہیے۔