مولانا ندیم الواجدی
روہنگیا مسلمانوں کے خلاف تازہ مظالم کا سلسلہ ابھی بند نہیں ہوا، جس تسلسل کے ساتھ آگ زنی ، قتل وغارت گری اورانسانی جانوں کے اتلاف کی خبریں گردش کررہی ہیں ان سے ایسا لگتا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کا درد اس سے کہیں زیادہ تکلیف دہ ہے جتنا ہم محسوس کررہے ہیں، یہ وہ قوم ہے جو ستر برسوں سے دکھ جھیل رہی ہے، بلکہ اگر دیکھا جائے تو اس کے دکھوں کا سلسلہ اس وقت سے چل رہا ہے جب سے اراکان پر جہاں وہ صدیوں سے رہتی چلی آئی تھی اور جس پر اس نے ساڑھے تین سو برس تک حکومت بھی کی تھی؛ پڑوسی ملک برما کی نیت خراب ہوگئی اور اس نے اس پر قبضہ کرلیا، اگر قبضے ہی پر اذیتوں کی داستان ختم ہوجاتی تب بھی غنیمت تھا، مگر برما کی حکومت نے تو طے کرلیا تھا کہ اس چھوٹے سے ملک پر نہ صرف یہ کہ قبضہ کرکے اس کو اپنی نوآبادیات بنا نا ہے بلکہ اس کے حقیقی باشندوں کو یہاں سے بھگانا بھی ہے، جیسے ہی برطانیہ نے اس علاقے سے رختِ سفر باندھا برما کو کھُل کھیلنے کا موقع مل گیا، پہلے تو اُن کو غیر ملکی قرار دیا گیا، پھر ان سے تمام شہری حقوق چھین لئے گئے، اس کے بعد ان پر ظلم وستم کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہواتا کہ وہ گھبراکر یہاں سے چلے جائیں،بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ لاکھوں لوگ اپنے باپ دادا کی سر زمین سے یوں بے آسرا ہو کر نکل پڑیں، پھر بھی جس کو موقع ملا وہ نکلا،اس طرح لاکھوں لوگ ترکِ وطن کرکے دوسرے ملکوں میں جا پڑے، زیادہ تر ان ملکوں میں جو ان بے یارو مدد گار مسلمانوں سے اخوتِ اسلامی کے رشتے میں بندھے ہوئے تھے، ایک آدھ ملک کو چھوڑکر باقی ملکوں میں بھی ان کی حالت قابل رحم ہی ہے، بس اتنی بات ہے کہ اب وہ قتل گاہوں میں نہیںہیں، البتہ زندگی کی سہولتوں سے اب بھی محروم ہیں، یہی کیا کم ہے کہ زندہ ہیں، اللہ ہی جانتا ہے کہ ان مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی قسمت میں کیا لکھا ہے، جہاں تک مسلمانانِ عالم کی بات ہے وہ ان کی حالت زار پر دل سے رنجیدہ ہیں،مگر دعا کرنے اور آنسوبہانے کے سواوہ کربھی کیا سکتے ہیں۔
روہنگیا مسلمانوں کے خلاف شدومد کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ وہ موجودہ حکومت کے خلاف برسرِ پیکار ہیں، میانمار کی فوج محض اپنا دفاع کررہی ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، جہاں تک روہنگیا مسلمانوں کی بات ہے ان میں نہ حوصلہ ہے، نہ ہمت اور نہ ان کے پاس اتنے وسائل ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف ہتھیار اٹھاسکیں،وہ بے چارے سرتو اٹھانہیں سکتے ہتھیار کیا اٹھائیں گے، یہ محض پروپیگنڈہ ہے جس کا پردہ فاش ایک بین الاقوامی تنظیم ’’ہیومن واچ‘‘ نے سٹلائٹ سے لی گئی تصویروں کے ذریعہ کیا ہے، ان تصویروں میں صاف نظر آرہا ہے کہ میانمار کی فوجیں کس طرح مسلمانوں کی آبادیوں میں گھس کر قتلِ عام کررہی ہیں اور کس طرح ان کے گھروں کو نذرِ آتش کیا جارہا ہے، انسانی حقوق کی دوسری عالمی تنظیم فورفائیو رائٹ نے بھی عینی مشاہدین کے حوالے سے بتلایا ہے کہ میانمار کے فوجیوں نے بڑی تعداد میں روہنگیا عورتوں کو گرفتار کرکے بانس کے بنے ہوئے جھونپڑے میں بند کردیا اور اسے آگ لگادی ، عام طورپر حکومت صحافیوں اور عالمی اداروں کے نمائندوں کو اراکان جانے کی اجازت نہیں دے رہی ہے، لیکن بی بی سی کا ایک نمائندہ دوسرے کچھ صحافیوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح وہاں پہنچ گیا، واپسی پر اس نے جو رپورٹ شائع کی ہے وہ آنکھیں کھول دینے والی ہے اس کے ساتھ ہی وہ میانمار کے حکام کے دعووں کی قلعی بھی کھول رہی ہے، ان صحافیوں کو سخت پہرے میں لے جایا گیااور ان مقامات سے دور رکھا گیا جہاں زندہ جلادینے کے واقعات رونما ہوئے ہیں اور جہاں ان کی پوری کی پوری آبادیاں تہِ تیغ کردی گئی ہیں ، انھیں ایسے لوگوں سے ملایا گیا جو حکومت کے خلاف لب کشائی کرنے کے لیے تیار نہیں تھے،اس کے باوجود ان صحافیوں نے اپنی تجربہ کار آنکھوں سے بہت کچھ دیکھ لیا، حفاظتی ٹیم سے نظر بچاکر لوگوں سے بہت کچھ سن بھی لیا، انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ جگہ جگہ آگ کے شعلے بلند ہورہے ہیں اور دور علاقوں سے دھواں اٹھ رہا ہے، ایسے ہی ایک گاؤں میں وہ لوگ حفاظتی گھیراتوڑ کر پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ پولیس کی موجود گی میں بودھ مذہب کے پیروکار نوجوان گھروں کو آگ لگارہے ہیں، ان صحافیوں کو اچانک اپنے روبرو دیکھ کر وہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے لیکن دیکھنے والوں کو وہ حقیقت نظر آگئی جو دنیا سے چھپانے کی کوشش کی جارہی تھی، اس وقت ساری دنیا میں ان مظالم کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں،جکارتہ ، واشنگٹن، ماسکو، لندن سب جگہ سے خبریں آرہی ہیں، اگر سناٹا ہے تو مسلم ملکوں میں، اوآئی سی تنظیم سے بڑی امیدیں تھیںلیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان واقعات کے صدمے نے اسے سکتے میں ڈال دیا ہے۔
در حقیقت یہ مسئلہ مسلم ملکوں کی دلچسپی اور بڑے ملکوں کی مداخلت کے بغیر حل نہیں ہوسکتا، ترکی اور ایران کے علاوہ اب تک کسی مسلم ملک نے لب کشائی کی جرأت نہیں کی، اس میں بھی ایران زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھا ، ترکی نے کچھ عملی اقدامات ضرور کئے ہیں مگرکوئی ٹھوس قدم اس نے بھی نہیں اٹھایا، بلا شبہ صدر طیب اردگان کی بیگم بنگلہ دیش پہنچیں، انھوں نے خانماں برباد روہنگیا مسلمانوں کے کیمپوں کا دورہ کیا ، وہ خواتین سے گلے بھی ملیں، انھوں نے بچوں کے سروں پر دست شفقت بھی رکھا، جوانوں کی ڈھارس بھی بندھائی، وہ پھوٹ پھوٹ کر بھی روئیں، وہ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ سے بھی ملیں، صدر طیب اردگان اعلان کرچکے ہیں کہ بنگلہ دیش میں آنے والے روہنگیا پناہ گزینوں کے تمام مصارف وہ برداشت کریں گے، خبر آئی ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت نے دو ہزار ایکڑ زمین پر ان مہاجرین کی بازآبادکاری کا فیصلہ کیا ہے، ان تمام خبروں کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے، مگر یہ سوال اپنی جگہ باقی رہے گاکہ کیا یہ سب کچھ اس مسئلے کا حل ہے، آخر ترکی، ایران، پاکستان، سعودی عرب جیسے بااثر مسلم ممالک میانمار کی حکومت پر دباؤ کیوں نہیں ڈالتے، کیوں وہ امریکہ اور روس جیسی بڑی طاقتوں کو اس معاملے میں مداخلت پر آمادہ نہیں کرتے، یو این او صرف بیان بازی کررہا ہے، کیا یہ ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ سلامتی کونسل کی ہنگامی مٹنگ طلب کی جاتی اور میانمار کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جاتا، مگر یہ اسی وقت ہوتا جب مسلم ممالک چاہتے، وہ تو خاموش ہیں، مہر بلب ہیں، آنکھیں بند کئے اور کانوں میں روئی ٹھونسے بیٹھے ہیں، اگر ان ملکوں کا یہی حال رہا تو کچھ ہی دنوں میں اراکان مسلمانوں سے خالی ہوجائے گایاتو وہ لاشوں کا ڈھیر بن جائیں گے، یا سمندروں کی آغوش میں سما جائیں گے، جو بچ جائیں گے وہ بنگلہ دیش جیسے کسی غریب ملک میں در در کی ٹھوکریں کھاتے پھریں گے، خدا کی زمین ان بے چارے روہنگیا مسلمانوں پر تنگ ہوتی چلی جارہی ہے، ہندوستانی حکومت نے بھی اعلان کیا ہے کہ جو چند ہزار روہنگیا مسلمان یہاں پڑے ہوئے ہیں ان کو باہر نکال دیا جائے گا، یہ خبر ان مظلوم، بے کس اور لاچار پناہ گزینوں کے لیے کسی ایٹم بم سے کم نہیں ہے، وہ نہیں چاہتے کہ انھیں یہاں سے واپس بھیجا جائے، وہ لوگ واپس جانے کے بہ جائے مر جانا پسند کریں گے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں مر کر چند گز کفن کا کپڑا اور دو گز قبر کی زمین تو مل جائے گی، برما میں تو انھیں زندہ جلا دیا جائے گا اور ان کی بے گور وکفن لاشیں چیل کوّوں کے لیے چھوڑ دی جائیں گی، خبر آئی ہے کہ ان پناہ گزینوں نے سپریم کورٹ سے درخواست کی ہے کہ انھیں واپس نہ بھیجا جائے اس سلسلے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ کیا ہوگا، ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا البتہ مودی حکومت کے تیور بتلارہے ہیں کہ وہ ہر حال میں ان بے چاروں کو باہر کا راستہ دکھلائے گی کیوں کہ بد قسمتی سے یہ صرف پناہ گزین نہیں ہیں بلکہ مسلمان بھی ہیںاور یہی ان کا جرم ہے جس کی انھیں سزا ملے گی۔
اس انسانی المیّے کے تناظر میں دو خبریں اور بھی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ایک تو ہمارے ملک کے ہردل عزیز وزیر اعظم کا دورۂ میانمار جو ٹھیک اس وقت ہوا جب وہاں ظلم کی چکّی پوری رفتار سے چل رہی تھی، ایک بڑے جمہوری ملک کے وزیر اعظم سے یہ توقع ضرورتھی کہ اس المیے پر وہ کچھ نہ کچھ ضرور بولیں گے اور میانمار کی حکومت سے کہیں گے کہ وہ اپنے شہریوں کا قتل عام بند کرے، مگر تین دن کے اس دورے میں اس حوالے سے وہ مکمل طور پر خاموش رہے، کہنے والے تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ شاید انھوں نے آنگ سان سوچی کی پیٹھ ضرورتھپ تھپائی ہوگی اور ان سے پوچھا ہوگا کہ آخر انھوں نے مسلمانوں کا یہ حشر کیسے کیا ہمیں بھی یہ طریقہ بتلاؤ، ہمارے یہاں بھی مسلمانوں نے بڑا سر اٹھا رکھا ہے، ہمیں بہر حال یہ امید نہیں ہے کہ ہمارے وزیر اعظم نے ایسا کہا ہوگا، دوسری خبر یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت نے میانمار کو اسلحے کی فراہمی کا سلسلہ تیز کردیا ہے یہ خبر کسی اور نے نہیں بلکہ اسرائیل کے سرکاری اخبار آرثض نے جاری کی ہے، اس کے مطابق ہتھیار برآمد کرنے والے اسرائیلی ادارے کے سربراہ میشل بن ہاروخ نے گزشتہ دنوں میانمار کا دورہ بھی کیا تھا، بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور میانمار کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی کے بعد سے ہی روہنگیا مسلمانوں کے خلاف حملوں میں شدت پیدا ہوئی ہے اور ان کے نسلی تصفیے کا عمل تیز ہوگیا ہے، ان تین خبروں کو ملاکر کونسی خبر بننے جارہی ہے اسے آپ بھی جانتے ہیں اور ہم بھی۔
nadimulwajidi@gmail.com