سہیل انجم
روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی اور ان پر توڑے جانے والے وحشیانہ مظالم پر پوری دنیا چیخ اٹھی ہے۔ بیشتر ملکوں میں ان کے حق میں اور میانمار حکومت، وہاں کی فوج اور نوبیل امن انعام یافتہ خاتون اور میانمار کی اسٹیٹ کونسلر آنگ سان سوچی کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اگست میں شروع ہونے والے تازہ تشدد کے بعد سے امن پسند طبقات کی جانب سے صدائے احتجاج مسلسل سنائی دے رہی ہے۔ رفتہ رفتہ عالمی ضمیر بھی بیدار ہو رہا ہے اور مظلومین میانمار سے اظہار یکجہتی کا سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا ضمیر بھی زندہ ہو گیا ہے۔ اس کی جنرل اسمبلی کا ایک اجلاس منعقد ہو چکا ہے اور دوسرا بدھ کے روز ہونے جا رہا ہے۔ لیکن امن کے نام پر نوبیل انعام حاصل کرنے والی خاتون آہن پر نہ تو مظلوموں کی آہ و بکا کا کوئی اثر ہو رہا ہے اور نہ ہی عالمی اپیلوں کا۔ وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت بھی نہیں کر رہی ہیں۔ سوشل میڈیا کے توسط سے جو تصاویر منظر عام پر آرہی ہیں وہ انتہائی لرزہ خیز ہیں۔ اس انداز میں انسانیت کا قتل عام شاید ہی پہلے کبھی ہوا ہو۔ وہ بھی اس ہستی کے پیروکاروں کے ہاتھوں جس نے پوری دنیا میں امن کا پیغام دیا تھا۔ جس نے دنیاوی آلائشوں سے خود کو پاک کیا تھا اور جسے امن کی تلاش میں نروان حاصل ہوا تھا۔ اس شخصیت کے پیروکار نسل کشی کی ایسی تاریخ رقم کر رہے ہیں جس سے انسانیت تو انسانیت حیوانیت بھی شرمسار ہو جائے۔ لیکن خاتون آہن تو واقعی خاتون آہن نکلیں۔ انھوں نے جس سنگ دلی کا مظاہرہ کیا ہے اور کر رہی ہیں وہ نوبیل انعام پر کلنک کا ٹیکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد نوبیل انعام یافتہ شخصیات کی جانب سے یہ باوقار عالمی انعام چھین لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
ضمیر تو ہندوستان کی حکومت کا بھی مردہ ہو چکا ہے۔ حالانکہ یہاں زیادہ روہنگیا نہیں ہیں۔ میانمار سے اب تک گیارہ لاکھ کی آبادی میں سے پانچ لاکھ سے زائد دوسرے ملکوں میں پناہ لے چکے ہیں۔ صرف بنگلہ دیش میں چار لاکھ ہیں۔ ہندوستان میں صرف چالیس ہزار ہیں۔ ان میں سے بھی ساڑھے سولہ ہزار کے پاس اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزیں کی جانب سے جاری کردہ کارڈ بھی ہے۔ اس کے باوجود یہاں کی حکومت ان کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دے کر ان کو واپس میانمار بھیجنے کا اعلان کرتی ہے۔ دہلی میں مقیم دو پناہ گزینوں نے حکومت کے اس اعلان کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے حکومت سے اپنا موقف واض ©ح کرنے کو کہا ہے۔ پٹیشن میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ عالمی قوانین کے مطابق کوئی بھی ملک اپنے یہاں سے پناہ گزینوں کو ان کے ملک واپس نہیں بھیج سکتا اور وہ بھی اس صورت میں تو بالکل نہیں جبکہ وہاں ان کی جان کو خطرہ ہو۔ در اصل ہندوستان نے ایسے متعدد عالمی قوانین پر دستخط تو کیے ہیں لیکن یہاں کی پارلیمنٹ سے ان کو منظور نہیں کرایا ہے۔ لیکن اس کے باوجود انسانی اور اخلاقی پہلو کو اگر نظر انداز کر دیں اور صرف قانونی پہلو کو دیکھیں تب بھی حکومت ان کو واپس نہیں کر سکتی۔ اب وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ ۷۱ ستمبر کو یعنی پیر کے روز سپریم کورٹ میں نیا حلف نامہ داخل کرکے حکومت کا موقف پیش کیا جائے گا۔ ان کو واپس بھیجنے کے پس پردہ حکومت کی یہ دلیل ہے کہ یہ مجبور و مقہور اور بے بس و لاچار لوگ، جن میں بڑی تعداد میں بچے، عورتیں اور ضعیف ہیں، یہاں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ وہ ایسا اس لیے کہہ رہی ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔ اسی لیے اس نے یہ بہانہ تراشا ہے کہ لشکر طیبہ، جیش محمد اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروپوں کے کارکن ان پناہ گزینوں میں داخل ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ملک کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ ادھر روہنگیا مسلمانوں کی تنظیم اراکان سالویشن آرمی کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا رہا ہے اور اس کی آڑ میں ہندوستان دہشت گردی کا راگ الاپنے لگا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی اراکان سالویشن آرمی کوئی دہشت گرد تنظیم ہے۔ اس سوال کا ابھی تک کہیں سے کوئی جواب نہیں ملا ہے۔ اس نے ایسی کوئی کارروائی بھی نہیں کی ہے جس کی بنیاد پر اسے دہشت گرد قرار دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہائیوں سے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ جب پانی سر سے اوپر گزرنے لگا اور ان کی جان و مال کے ساتھ ساتھ عزت و آبرو میں خطرے میں پڑ گئیں تو انھوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کر لیا۔ (ذرائع کے مطابق سیکورٹی جوان مسلم گھروں میں گھس جاتے ہیں اور خوبصورت لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ اپنی ہوس کی پیاس بجھاتے ہیں۔ تارکین وطن خواتین میں سے اکثریت کی آبرو ریزی کی جا چکی ہے۔) اس مزاحمانہ کارروائی کے نتیجے میں اراکان سالویشن کے کارکنوں نے سیکورٹی فورسز کی بعض چوکیوں پر حملے کیے جس کے نتیجے میں کئی سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے اور املاک کو نقصان پہنچا۔ لیکن یہ اقدام انھوں نے حق خود حفاظت کے تحت اٹھایا نہ کہ دہشت گردی انجام دینے کے لیے۔ اگر ان مزاحمتی کارروائیوں کو دہشت گردی کہا جائے تو ہندوستان میں ان سے بڑی بڑی وارداتیں انجام پاتی ہیں۔ لیکن ان کو دہشت گردی نہیں کہا جاتا۔ تازہ واقعات گرمیت سنگھ کے غنڈوں کی غنڈہ گردی ہے جس کے نتیجے میں ۰۳ افراد اور سیکڑوں زخمی ہوئے اور کروڑوں روپے کی املاک کا نقصان ہوا۔ یہ تشدد اراکان سالویشن کے تشدد سے کہیں زیادہ سنگین تھا۔ لیکن یہاں کی حکومت اِن وارداتوں کو دہشت گردی قرار نہیں دیتی۔
ہندوستان کی یہ دیرینہ روایت رہی ہے کہ یہا ںجو بھی مظلوم آیا اسے پناہ دی گئی۔ خود آنگ سان سوچی کے والد کا جب قتل ہوا تو انھیں بھی یہیں پناہ ملی تھی۔ انھوں نے یہیں دہلی کے لیڈی شری رام کالج سے اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان کی جلاوطنی کے زمانے میں عالمی مسلم تنظیموں نے کھل کر ان کا ساتھ دیا اور ان کے حق میں آواز بلند کی تھی۔ ہندوستان نے ہزاروں تبتی بودھوں کو یہاں پناہ دی۔ دھرم شالہ میں دلائی لامہ کو جلاوطن حکومت چلانے کی اجازت دی گئی جو کہ اب بھی قائم ہے۔ اس نے تملوں کو پناہ دی۔ چکما رفیوجیوں کو دی۔ بلکہ اب تو ان کو شہریت تفویض کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ہندووں کو پناہ دی گئی۔ اور بھی دوسرے بہت سے لوگوں کو یہاں پناہ حاصل ہے۔ ان میں سے کسی کے گلے میں دہشت گردی کی تختی نہیں لٹکائی گئی۔ اس نے تمام پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے۔ لیکن جب میانمار سے مسلمان آگئے تو ان کے لیے دروازے بند کرنے کا اعلان کر دیا گیا۔ وجہ بہت صاف ہے۔ یہ حکومت مذہب کی بنیاد پر سیاست کرتی ہے۔ مظلوموں کو ہندو اور مسلم کے چشمے سے دیکھتی ہے۔ اس کی اس سیاست کی وضاحت اس سے بھی ہوتی ہے کہ اس نے اعلان کر رکھا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور یہاں تک کہ دنیا کے کسی بھی ملک سے ستائے ہوئے ہندو (مسلمان نہیں) یہاں آتے ہیں تو ان کے لیے ہمارے دروازے کھلے ہیں۔ اس کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلم دشمن جذبات کی تسکین کی جائے۔ مسلم مخالف طبقات کی ہمدردی حاصل کی جائے۔ ان کے ووٹ بٹورے جائیں۔ اب اس کے رویے میں ذرا سی نرمی آئی ہے۔ سیاسی مشاہدین کے مطابق اس نے مسلم دشمن جذبات کی آبیاری کرنے کے بعد اپنا رویہ بدلا ہے۔ اس نے بنگلہ دیش میں پناہ گزیں روہنگیا مسلمانوں کے لیے سات ہزار ٹن امدادی اشیا سپلائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ۳۵ ٹن اشیا سپلائی کی جا چکی ہیں۔ مشاہدین کے خیال میں ہندوستان کے موقف میں یہ تبدیلی چین کی وجہ سے آئی ہے۔ ابھی تک چین نے اس مسئلے پر خاموشی اختیار کر کھی تھی۔ لیکن اب اس نے میانمار حکومت اور فوج کی کارروائیوں کی حمایت کر دی ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے یعنی حب علی میں نہیں بلکہ بغض معاویہ میں ہندوستان نے بنگلہ دیش کے پناہ گزینوں کی امداد کرنے کا فیصلہ کیا۔ وقت، قانون اور انسانیت کا تقاضہ ہے کہ ہندوستان ان پناہ گزیوں کے لیے اپنے گھر اور دل دونوں کے دروازے کھول دے۔ اس سے وہ عالمی مذمت اور مظلوموں کی آہوں سے بچ جائے گا اور اپنی صدیوں پرانی روایت کا پاسدار بھی بن جائے گا۔
sanjumdelhi@gmail.com