محمد آصف ا قبال
ملت ٹائمز
ملک کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی ضابطہ اخلاق نافذ ہو گیا ہے۔یہ پانچ ریاستیں کیرلہ، آسام،تمل ناڈو،مغربی بنگال اور پانڈیچری ہیں۔جہاں14اپریل سے 16مئی کے درمیان ووٹ کا حق استعمال کریں گے ۔19مئی کو ووٹوں کی گنتی اور نتائج سامنے آئیں گے۔ان اسمبلی انتخابات کی خوبی یہ بھی ہے کہ یہاں پہلی مرتبہ نوٹا(ان میں سے کوئی نہیں)کے لیے انتخابی نشان ہوگا جسے نیشنل اسکول آف ڈیزائن نے تیار کیا ہے۔اسمبلی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی ملک کے بڑے حصہ پر سیاسی بساط پر شہ اور مات کا کھیل شروع ہوگیا ہے۔ان حالات میں تمام ہی بڑی و چھوٹی اور قومی و علاقائی پارٹیوں کی کوشش ہے کہ وہ عوام کو اپنی جانب متوجہ کریں۔اور اس ہمنوابنانے اور اپنی جانب راغب کرنے کے لیے مختلف پارٹیاں مختلف قسم کی کوششیں کرتی نظر آئیں گی۔وہیں غربت و اٖفلاس،کرپشن اور ذات پات سے نجات کی باتیں بھی تمام ہی سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈران کرتے نظر آئیں گے۔تاکہ ملک کی شہری آئین ہند کی روشنی میں تمام حقوق و اختیارات کے ساتھ ایک بہتر اور عزت دار زندگی گزارسکیں۔ لیکن یہ نعرے اور وعدے الیکشن سے قبل ہر مقام پر ہر مرتبہ دہرائے جاتے ہیں۔اس کے باوجود ملک میں کرپشن بھی ہے اورحد در جہ غربت و افلاس بھی ۔ساتھ ہی ساتھ ذات پات کا نظام جس میں انسان اپنے ہی جیسے دیگر انسانوں کو ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں،اس میں بھی ایک طویل عرصہ گزرنے کے باوجود کوئی نمایاں مثبت تبدیلی نہیںآسکی ہے۔
چونکہ ذات پات کا نظام ہندو سماج میں رچ بس چکا ہے۔ساتھ ہی اس کو برقرار رکھنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔لہذا اِس نظام سے نجات کے نعرے ،حقیقی نہیں بلکہ انتخابی ہی ہوتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے بعد ان نعروں کو نہ اہمیت دی جاتی ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت سمجھی جاتی ہے کہ اس غیر انسانی نظام پر گرفت کی جائے ۔بلکہ واقعہ یہ ہے کہ وہ افراد اور گروہ جو دراصل ذلت و رسوائی سے دوچار ہیں،اُن کے خود کے لیڈران اِس نظام کو برقرار رکھنے میں کسی حد تک معاون و مددگار ہوتے ہیں۔مددگار اس لیے کہ نظام کی برقراری میں وہ خود فائدے محسوس کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس نظام کے خلاف گزشتہ چند دہائیوں میں کبھی کوئی بڑی مہم نہیں چھیڑی۔البتہ الیکشن کے دوران وہ چھوٹی موٹی مہمات اور جلسے وجلوس کرتے آئیں ۔برخلاف اس کے انہوں خود سیاسی میدان میں اتر کر بلاواسطہ اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ چونکہ وہ ایک الگ ذات اورمخصوص طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں لہذا ان کی الگ شناخت برقرار رکھتے ہوئے مخصوص اختیارات دیئے جانے چاہیں۔اور یہ شناخت اور مخصوص اختیارات ہی ہیں جو انہیں اپنی الگ سیاسی پارٹیاں بنانے پر اکساتے ہیں۔نیز ان سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ وہ خودساختہ سیاست کرتے ہیں،مخصوص طبقہ سے وابستہ افراد کو منظم کرتے ہیں اور وہ تمام فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں جو دیگر لیڈران حاصل کرتے آئے ہیں یا کیا چاہتے ہیں۔گفتگو کے پس منظر میں فی الوقت ہندو ستان میں مرحوم روہت ویمولا اور انقلابی کنہیا کمار کو میدان میں سیاست میں اتارنے کا فیصلہ اور منصوبہ نہ صرف تیار کیا جاچکا ہے بلکہ اس کے مظاہر بھی سامنے آرہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ چند اہل فکر یہ کہتے آپ کو سنائے دیں گے کہ کنہیا کمار کا بھی حشر وہی نہ ہو جو اس ملک میں باقی سوکالڈ انقلابی رہنماؤں کا ہوا ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کنہیا بھی صرف اقتدار اور حکومتوں کے پھیر میں پھنس جائے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ کنہیا اُن کمیونسٹوں کے اقتدار کی بھوک مٹانے کا محض ذریعہ بن جائے جنہوں نے گزشتہ الیکشن میں مغربی بنگال میں بڑی ناکامی کا سامنا کیا تھا۔بحرحال ،کنہیا کا کیا ہوگا ؟ وہ کہاں جائیگا اور کیا کرے گا،اِس کا فیصلہ تو وہ خود کرے گا۔لیکن اس موقع پر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو لازماً اپنے موقف کو واضح طور پر سامنے لانا چاہیے جبکہ ملک میں پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کیا جا چکا ہے۔موقف اس بات کا کہ وہ اس مرتبہ کون سی اسٹریٹجی اختیار کریں گے؟موقف اس بات کا کہ جس طرح گزشتہ دنوں وہ فسطائیت کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے بے شمار مسلمان اور اقلیت نواز نمائندوں کی حمایت کرتے رہے اور ناکام ہوئے،کیا اس مرتبہ بھی یہ لوگ وہی طریقہ اختیار کریں گے؟یا پھر انتخابی حلقوں کی سماجی و معاشی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے نیز مختلف قسم کے اعداد و شمارکے تجزیے اورجائزے کی روشنی میں کسی نتیجہ خیز فیصلہ تک پہنچنے کی سعی کریں گے؟
آپ یہ بات بھی خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی طرح کے انتخاب سے قبل الیکشن کمیشن آف انڈیا ضابطہ اخلاق جاری کرتا ہے۔یہ ضابطہ اخلاق کیا ہے؟اور اس کی کیا اہمیت ہے؟یہ بات بھی ہمیں معلوم ہونی چاہیے۔نیز وہ تمام سیاسی پارٹیاں اور ان کے نمائندے جن کے لیے ضابطہ اخلاق جاری ہوتا ہے،انہیں بھی لازماً اُس پر عمل کرنا چاہیے۔ساتھ ہی عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس پر نظر رکھیں کہ آیا ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد ہو ریا ہے یا نہیں۔فائدہ یہ ہوگا کہ الیکشن اوراس سے قبل جو دھاندلیاں اور غلطیاں دہرائی جاتی ہیں،جبکہ وہ صاف طور پر منع ہیں،اس پر گرفت ہو گی۔نیز ایک صاف ستھرے ماحول میں انتخابی عمل مکمل ہوگا۔دوسری جانب ان افراد اور گروہوں کو بھی میدان سیاست میں آنے کا موقع ملے گا جو موجودہ سیاست اور اس کے نمائندوں کا متبادل پیش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔اس پس منظر میں جب ضابطہ اخلاق کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے کہ اس کی کل 7شقیں ہیں اور ان 7شقوں کی چند ذیلی شقیں ۔ضابطہ اخلاق کا آغاز پہلی شق کی ذیلی شق میں کہا گیا ہے کہ:i)I)۔کسی بھی سیاسی پارٹی یا اس کے نمائندے کو ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے ، جو مختلف ذاتوں، مذہبوں،یا زبانوں کے لوگوں کے درمیان موجود اختلافات کو بڑھائے یا نفرت کا ماحول پیدا کرے یا کشیدگی پیدا کرے۔ .I(ii)کہتی ہے کہ:جب دیگر سیاسی پارٹیوں کی تنقید کی جائے،تو وہ ان کی پالیسیوں اور پروگراموں،سابقہ ریکارڈاور کاموں تک ہی محدودہونی چاہیے۔یہ بھی لازم ہے کہ انفرادی زندگی کے ایسے تمام پہلوؤں کی تنقیدنہیں کی جانی چاہیے،جن کا تعلق دیگر پارٹیوں کے لیڈران یا کارکنوں کی عوامی سرگرمیوں کی سے نہ ہو ۔پارٹیوںیا ان کے کارکنوں کے بارے میں کوئی ایسی تنقید نہیں کی جانی چاہیے، جو ایسے الزامات پر جن کی صداقت واضح نہ ہوئی ہویا جو توڑ مروڑ کر کہی گئی باتوں پر منحصر ہوں۔.I(iii)شق کہتی ہے کہ:ووٹ کے حصول کے لیے نسلی یا فرقہ وارانہ جذبات کی دہائی نہیں دی جانی چاہیے۔مسجدوں،گرجاگھروں،مندروں یا عبادت کے دیگر مقامات کا انتخابی مہم کے اسٹیج کی شکل میں استعمال نہیں کیا جائے گا۔.I(iv)میں کہا گیا ہے کہ :سبھی پارٹیوں اور ان کے نمائندوں کو ایسے کسی بھی کام سے ایمانداری کے ساتھ بچنا چاہیے ،جو الیکشن کے طریقہ کار کے تحت کرپٹ پریکٹس میں بطور جرم درج ہیں۔جیسے ووٹروں کو رشوت دینا،ووٹروں کو ڈرانہ؍دھمکانہ،ووٹروں کی نقالی،پولنگ مراکزکے 100میٹر کے اندر ووٹ مانگنا،انتخابی مہم کے خاتمہ کے لیے مقررہ 48گھنٹے کے دوران عوامی جلسے کرنا اور ووٹروں کو گاڑیوں سے پولنگ مراکز تک لانا اوروہاں سے واپس لے جانا۔اسی طرح.I(v)شق کہتی ہے کہ :سبھی سیاسی پارٹیوں اور نمائندوں کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ہر شخص کی پرسکون خانگی زندگی کے اختیارکا لحاظ رکھے۔چاہے وہ اس کے سیاسی افکاریا کاموں سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ رکھتی ہو۔اشخاص کے افکار و نظریات اور کاموں کی مخالفت کرنے کے لیے ان کے گھروں کے سامنے احتجاج یا دھرنہ دینے کا سہاراکسی بھی حالت میں نہیں لینا چاہیے۔
درج بالا ضابطہ اخلاق کی پہلی شق کی پانچ ضمنی شقوں میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کو صاف ستھرے اور پرسکون انداز میں مکمل کروانے کی حددرجہ کوششیں کرتے ہیں۔اس کے باوجود وہ تمام کام انجام دیے جاتے ہیں جن سے ان شقوں میں منع کیا گیا ہے۔ایسی حالت میں عوام جو بظاہر انتخابات کے ذریعہ “اپنا نمائندہ”منتخب کرتے ہیں۔اُنہیں بھی متوجہ اور باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔کہیں بھی کسی بھی سطح پر اورکسی بھی طرح کی خلاف ورزیاں ہوتے دیکھیں تو فوراً الیکشن کمیشن آف انڈیا یا متعلقہ اسٹیٹ اور حلقہ جات کے ذمہ داران کو متوجہ کرنا چاہیے۔ساتھ ہی متعلقہ ذمہ داران کو اِس حد تک توجہ دلائیں کہ وہ خاطیوں کے خلاف کاروائی کریں۔برخلاف اس کے غلطیاں دیکھنا اور سہتے رہنا یا خاموشی اختیار کرنا مزید غلطیوں کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔لہذا ملک کے ہر شہری کو باخبر اور باشعور ہونا چاہیے ۔کیونکہ ہر زمانے میں باخبر اور باشعور شہری ہی برائیوں کے ازالہ میں ہر سطح پر مددگار و معاون ثابت ہوئے ہیں!
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com