عبدالرشید طلحہ نعمانی
’’ محرم الحرام ‘‘ اُن چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے جس سے بابرکت اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے ، یہ مہینہ جہاں کئی ایک شرعی فضیلتوں کا حامل ہے وہیں بہت سی تاریخی اہمیتیں بھی اپنے اندررکھتا ہے بالخصوص دس محرم کا دن تو اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا دن ہے ۔
محرم کی دسویں تاریخ کو عاشوراءکہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں دسواں دن ، اس دن کے مقدس ہونے کے مختلف اسباب بیان کئے جاتے ہیں؛ جن میں سے کچھ تو صحیح اوربرحق ہیں؛ جب کہ بعض اسباب ووجوہات کی کوئی دلیل اور بنیاد نہیں، البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اس دن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت وبرکت کے نزول کے لیے منتخب فرمایا، اسی دن بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کے ذریعہ فرعون سے نجات دلوائی اور فرعون اپنے لاو ¿لشکر سمیت غرق آب ہوگیا۔
عاشوراءکا یہ دن زمانہ جاہلیت میں بھی قریشِ مکہ کے نزدیک بڑا محترم تھا، اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے ، امکان ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا کہ قریش ملتِ ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے ، ان کاموں میں آپ ان سے اتفاق واشتراک فرماتے تھے ، اسی بنا پر حج میں بھی شرکت فرماتے تھے ، اپنے اس اصول کی بنا پر آپ قریش کے ساتھ عاشورہ کا روزہ بھی رکھتے تھے ؛ لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے ، پھر جب آپ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے ، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی اور فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں!
عاشوراءکا روزہ : جب تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے اُس وقت تک عاشوراءکا روز ہ رکھنا فرض تھا بعدمیں جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت تومنسوخ ہوگئی؛ مگر حضور اقدس ﷺ نے اس دن روزہ رکھنے کو سنت اور مستحب قراردیا ۔
رسول اللہﷺنے ارشادفرمایا: مجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ جو شخص عاشورہ کے دن کا روزہ رکھے گا تو اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ کا کفارہ ہوجا ئے گا (صحیح مسلم )
رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: ماہ ِ رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے مہینے ماہ ِ محرم الحرام کے روزے ہیں (صحیح مسلم )
حضور اکرم ﷺکی حیات ِ طیبہ میں جب بھی عاشورہ کا دن آتا ،آپ روزہ رکھتے ؛ لیکن وفات سے پہلے جو عاشورہ کا دن آیا تو آپ نے عاشورہ کا روزہ رکھا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ ۱۰محرم کو ہم بھی روزہ رکھتے ہیں اور یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں ، جس کی وجہ سے اُن کے ساتھ ہلکی سی مشابہت پیدا ہوجاتی ہے اس لئے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ ۹یا ۱۱ محرم الحرام کوبھی رکھوں گا تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت ختم ہوجائے ، لیکن اگلے سال عاشورہ کا دن آنے سے پہلے ہی حضور اکرم ﷺکا وصال ہوگیا اور آپ کو اس پر عمل کرنے کا موقع نہیں ملا، حضور ﷺکے اس ارشاد کی روشنی میں صحابہ کرامؓ نے عاشورہ کے روزہ کے ساتھ ۹یا ۱۱ محرم الحرام کوبھی ایک روزہ ملا کر رکھنے کا اہتمام فرمایا، اور اسی کو مستحب قراردیا اور صرف عاشورہ کا روزہ رکھنا خلاف ِ اولیٰ قرارپایا ، یعنی اگر کوئی شخص صرف عاشورائکا روزہ رکھ لے تو وہ گناہ گا رنہیں ہوگا؛بلکہ اس کوعاشورہ کا ثواب ملے گا؛ لیکن چوں کہ آپ ﷺکی خواہش2روزے رکھنے کی تھی اس لیے اس خواہش کی تکمیل میں بہتر یہی تھاکہ ایک روزہ اور ملا کر دوروزے رکھے جاتے لہٰذا ۹اور۱۱دودن یا ۱۰ اور ۱۱دو دن روزہ رکھ لیں،اگر کسی وجہ سے 2روزے نہیں رکھ سکتے تو صرف ایک روزہ عاشورہ کے دن رکھ لیں۔ابن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺکو اس (یوم عاشوراءکے ) دن اور اس مہینہ یعنی رمضان المبارک کے روزوں کے علاوہ کسی اور دن کا روزہ رکھ کر فضیلت حاصل کرنے کی کوشش کرتے نہیں دیکھا،(صحیح بخاری حدیث نمبر:2718 )
حدیث میں استعمال شدہ لفظ یتحری کا معنی یہ ہے کہ ثواب حاصل کرنے کی رغبت رکھتے ہوئے اس کا روزہ رکھا کرتے تھے ۔
اور نبی علیہ السلام کا فرمان ہے : یوم عاشوراءکا روزہ رکھنے میں مجھے اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ وہ پچھلے ایک برس کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے (صحیح مسلم )
یوم عاشوراءکونسادن ہے ؟:امام نوویؒ کہتے ہیں کہ عاشوراءاور تاسوعاءیہ دونوں ہی اسم ممدود ہیں ، اور کتب لغت میں یہی مشہور ہے ،ہمارے اصحاب کہتے ہیں : عاشوراءمحرم کی دس تاریخ ہے اور تاسوعاءمحرم کی نو تاریخ کو کہا جاتا ہے ، ہمارا مذہب یہی ہے اور جمہور علماءکرام کا بھی یہی کہنا ہے اور احادیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے اور لفظ کے اطلاق کا تقاضہ بھی یہی ہے اور اہل لغت کے ہاں بھی یہی معروف ہے (المجموع )
عاشوراءکے ساتھ نو محرم کا روزہ رکھنا بھی مستحب ہے :عبداللہ بن عباس ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺنے عاشوراءکا روزہ خود رکھا اور اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ائے اللہ کے رسول ! اس دن کی یہودی اور عیسائی تعظیم کرتے ہیں تو رسول کریم ﷺفرمانے لگے : آئندہ سال ان شاءاللہ ہم 9تاریخ کا بھی روزہ رکھیں گے ۔لہٰذا جب اگلا برس آیا تو ہم نے 9محرم کا روزہ رکھا ، ابن عباسؓ کہتے ہیں اگلا برس آنے سے قبل ہی رسول کریم ﷺوفات پاگئے(صحیح مسلم حدیث نمبر:2722)
امام اعظم ابوحنیفہ ؒامام شافعیؒ ، امام احمد ، امام اسحاق اور دوسروں کا کہنا ہے کہ : 9اور10محرم دونوں ہی کا روزہ رکھنا مستحب ہے ، کیوں کہ رسول کریم ﷺنے دس تاریخ کا روزہ رکھا اور 9تاریخ کے روزہ رکھنے کی نیت فرمائی،تو اس بناءپر عاشوراءکے روزے کے مراتب ہیں اس کا کم از کم مرتبہ یہ ہے کہ صرف عاشوراءکا ہی روزہ رکھا جائے ،اور اس سے بڑا اوراونچامرتبہ یہ ہے کہ دس کے ساتھ 9تاریخ کا بھی روزہ رکھا جائے اور محرم میں جتنے بھی زیادہ روزے رکھے جائیں گے اتنا ہی بہتر اور افضل ہوگا ۔
نو محرم کو روزہ کھنے میں استحباب کی حکمت : امام نووی ؒ کہتے ہیں : ہمارے اصحاب اوردیگر علماءکرام نے نو محرم کا روزہ رکھنے کی حکمت کا ذکر کرتے ہوئے کئی ایک وجوہات ذکر کی ہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے یہودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت مراد ہے کہ وہ صرف دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں ، جیساکہ ابن عباس ؓ سے مروی ہے ۔دوسری وجہ یہ کہ اس سے یوم عاشوراءکے ساتھ روزہ ملانا مراد ہے جیسا کہ نبی علیہ السلام نے صرف جمعہ کے دن کا تنہاروزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے ،جیساکہ امام خطابیؒ اور دوسروں نے ذکرکیا ہے ۔
تیسر ی وجہ یہ کہ صرف دس تاریخ کا روزہ رکھنے میں احتیاط ہے کہ کہیں چاند میں کمی نہ ہو ،اور اس طرح روزہ غلط ہوجائے کیوں کہ اس بات کا امکان ہے کہ نو تاریخ چاند کے اعتبار سے دس ہو ۔ انتھی
ان وجوہات میں سب سے قوی وجہ یہ ہے کہ اس میں اہل کتاب کی مخالفت ہے ، شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں : نبیﷺنے بہت ساری احادیث میں اہل کتاب کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے ، مثلاً رسول کریم ﷺنے عاشوراءکے بارے میں فرمایا: اگر میں آئندہ برس زندہ رہا تو ضرور نو تاریخ کا روزہ رکھوں گا(الفتاوی الکبری)
حافظ ابن حجر ؒ اس حدیث (اگر میں آئندہ برس زندہ رہا تو نو تاریخ کا روزہ رکھوں گا )پرتعلیقاً ارقام فرماتے ہیں:نبی ﷺکا نو تاریخ کو روزہ رکھنے کے ارادے کا معنی یہ نہیں کہ صرف نوتاریخ کے روزے پر ہی اقتصار کیا جائے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ یا تو احتیاط کی بناءپر دس تاریخ کے ساتھ نو کا بھی روزہ رکھا جائے یا پھر یہودیوں اور عیسائیوں کی مخالفت کی بناءپر، اور راجح بھی یہی ہے اور مسلم شریف کی بعض روایات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔(فتح الباری )
صرف یوم عاشوراءکوروزہ رکھنے کا حکم :شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ کہتے ہیں :یوم عاشوراءکا روزہ رکھنا ایک برس کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے اور صرف عاشورائ
(دس محرم (کا روزہ رکھنا مکروہ نہیں ۔ (الفتاوی الکبری )البتہ خلاف اولیٰ ضروری ہے ۔
علامہ ابن حجر ؒ کہتے ہیں : صرف عاشوراءکا روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں (تحفة المحتاج باب صوم التطوع ج۵)
بعض فقہاءنے لکھا ہے کہ صرف یوم عاشوراءکا روزہ رکھنا مکروہ ہے ؛ لیکن حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒنے فرمایا ہے کہ عاشوراءکے روزہ کی تین شکلیں ہیں: ۱)نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے۔ ۲) نویں اور دسویںیا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے۔۳) صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے ۔ ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے ، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے ، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے ، تو حضرت شاہ صاحب نے فرمایا کہ تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے اسی کو فقہاءنے کراہت سے تعبیر کردیا ہے ، ورنہ جس روزہ کو آپ نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے ۔ (معارف السنن)
عاشوراءکا روزہ کس چیز کا کفارہ ہے ؟:امام نووی ؒ کہتے ہیں: کبیرہ گناہوں کے علاوہ سب صغیرہ گناہوں کا کفارہ بنے گا ،پھر اس کے بعد کہتے ہیں: یوم عرفہ کا روزہ دوبرس کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے اور یوم عاشوراءایک برس کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے اور جب اس کی آمین فرشتوں کی آمین کے موافق ہوجائے تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
یہ سب مذکورہ اعمال کفارہ بننے کے اہل ہیں لہٰذا اگر صغیرہ گنا ہ ہوں تو یہ ان کا کفارہ بن جاتے ہیں لیکن اگر نہ تو کبیرہ گناہ ہوں اور نہ ہی صغیرہ ، تو پھر ان کی بناءپر نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور درجات بلند کردئیے جاتے ہیں ، اور اگر صغیرہ گناہ نہ ہوں بلکہ کبیرہ گناہ ہوں تو ہم امید رکھتے ہیں کہ کبیرہ گناہوں میں تخفیف کا باعث بنتے ہیں (المجموع شرح المہذب صوم یوم عرفہ )اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ کہتے ہیں : وضو، طہارت ،نماز اور رمضان المبارک ،یوم عرفہ اور یوم عاشوراءکے روزے صرف صغیرہ گناہوں کا کفارہ بنتے ہیں (الفتاوی الکبری )