اردو زبان کے فروغ میں مدارس کا کردار

مفتی ریاض احمد قاسمی
استاذ حدیث جامعہ رحمانی مونگیر
(ملت ٹائمز)
اسلام کا پہلا تعلیمی و تربیتی مرکز ’’دار ارقم ‘‘ہے جہاں ابتدائی دور کے اہل اسلام جمع ہوتے اور رسول اللہ ﷺ اسلامی خطوط پر ان کی فکری وعملی تربیت فرماتے ، اس کے بعد تقریباً تین سالوں تک ’’شعب ابی طالب ‘‘میں یہ فریضہ انجام دیا گیا، پھر ہجرت کے ابتدائی دنوں میں’’ مسجد قبا‘‘ کو یہ شرف حاصل رہا، اس کے بعد جب مسجد نبوی تعمیر ہوئی تو اس سے متصل ایک چبوترہ بنوایاگیا، جس کا نام’’ صفہ‘‘ تھا، یہ باضابطہ پہلا ’’مدرسہ نبوی‘‘ تھا ، جہاں کے فضلاء کی تعداد چارسوتک بتائی جاتی ہے، اس کے بعد اسلام کا دائرہ جیسے جیسے وسیع ہوتا گیا، ویسے ویسے صفہ کا دائرہ بھی بڑھتا گیا، یہاں تک کہ مشرق سے مغرب تک اسلام کا پرچم لہرانے لگااور ایک کونے سے دوسرے کونے تک صفہ کا جال بچھ گیا، ’’صفہ‘‘ کے اسی توسیعی تسلسل کا نام مدارسِ اسلامیہ ہے ، جن کا بنیادی مقصد خدائی ہدایات کے مطابق انسانیت کی مکمل تعلیم و تربیت ہے ، تاکہ دنیا میں ہمیشہ وہ’’ خاص جماعت‘‘ موجود رہے جو دین و شریعت میں مہارت تامّہ رکھتی ہو، خود حق پر قائم ہو، اور حق کو غالب کرنے کے لئے مخلصانہ جد وجہد کرتی رہتی ہو، مادّی دنیا میں روحانیت کی ترقی اس کا مقصد حیات ہو، اور اسلام کی بے لوث خدمت اس کی زندگی کا نصب العین ہو۔
یہ مدارسِ اسلامیہ کے قیام کا اصل مقصد ہے ،مگر ظاہر ہے کہ یہ عظیم مقصد اپنے مروّجہ وسائل کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا، اس لئے مدارسِ اسلامیہ کے منہج تعلیم میں ابتداء ہی سے وسائل کی تعلیم کو لازم قرار دیا گیاہے، چنانچہ خود آنحضور ﷺ نے حضرت زید ابن ثاب‘ؓ کو عبرانی زبان سیکھنے کا حکم فرمایا تھا، جسے انہوں نے صرف پندرہ دنوں میں سیکھ لیا، چونکہ برّصغیر کے اکثر علاقوں میں اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے ، اسلئے یہاں کے مدارس نے اہم وسیلہ کے طور پر اردو زبان کی تعلیم کو اپنے نصاب میں اوّلیت کا درجہ دیا، بلکہ جن علاقوں میں اردوزبان نہ بولی جاتی ہے ، نہ سمجھی جاتی ہے ، وہاں بھی مدارس نے اردو زبان کی باضابطہ تعلیم کا نظام قائم کررکھا ہے، منی پور ، آسام ، میگھالیا،بنگال اور دوسری طرف گجرات ، کرناٹک،تملناڈواور کیرالہ کے مدارس کا جائزہ لیجئے، تو پتہ چلے گاکہ مدارس نے اردو کے گیسوئے برہم کو کہاں کہاں اور کن کن حالات میں سنوار رکھا ہے، انہیں مدارس کی دین ہے کہ آج عربی کے بعد اسلامیات کا سب سے بڑا سرمایہ اردو زبان میں موجود ہے ،اور مدارس کے فضلاء عربی زبان میں تقریر و تحریر کی اچھی صلاحیت رکھتے ہیں ، بلکہ مدارس کے فضلاء کی ایک بڑی تعداد، اردو ادب ، اردو صحافت ، اور اردو شاعری کے حوالے سے بھی نمایا ں خدمات انجام دیتی آرہی ہے ، چنانچہ اردو کا کوئی قدیم یا جدید اخبار یا رسالہ اٹھا کر دیکھ لیجئے، مختلف موضوعات پر فضلاء مدارس کے قیمتی مضامین و مقالات اوّل نظر میں مل جائیں گے ، ظاہر ہیکہ یہ تعلیم اور اردو زبان وبیان کا یہ ذوقِ سلیم انہوں نے مدارس ہی سے حاصل کیا ہے ، کیوں کہ مدارس میں اس کے لئے مختلف سطح پر محنت کرائی جاتی ہے ،چنانچہ: (۱) اردو انجمن ، طلباء کے اندر زبان وبیان کا ملکہ پیدا کرنے کے لئے ہر جمعرات کو تقریری پروگرام منعقد کرتی ہے ، جس میں ہر طالب علم کے لئے معیاری زبان میں یاد کی ہوئی تقریر پیش کرنا لازم ہے ، طلبہ کی تعداد زیادہ ہونے پر حسب ضرورت متعدد مجلسیں تشکیل دی جاتی ہیں ، جن کی نظامت بھی طلبہ ہی کے سپرد ہوتی ہے ۔ (۲) اردو دیواری پرچہ مدارس اسلامیہ کی خاص ایجاد ہے ، جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اساتذہ کی نگرانی میں طلبہ کی ایک مجلس ادارت بنائی جاتی ہے ، جو ماہانہ ، پندرہ روزہ ، یا ہفتہ وار علمی و تحقیقی مضامین کی ترتیب و اشاعت کی ذمّہ داری انجام دیتی ہے ، دارالعلوم دیوبند کے صدر دروازے سے داخل ہوتے ہی جو چیز سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ یہی دیواری پرچے ہیں ، جو پچاسوں کی تعداد میں سلیقے کے ساتھ دیواروں پر آویزاں نظر آتے ہیں ۔ یہ حقیقت ہے کہ مدارس کا مکمل نصاب عربی زبان میں ہے ، مگر عربی سے زیادہ اردو دیواری پرچے شائع ہوتے ہیں اور عربی سے زیادہ ارود میں تقریریں کرائی جاتی ہیں ۔ (۳) اردو لائبریری طلبہ کے ذوق اور تعلیم و تربیت کے مناسب اردو زبان وادب کی کتابیں عاریۃً فراہم کرتی ہے ، جن سے وہ اپنی تقریرو تحریرکی تیار ی میں مدد لیتے ہیں ۔ (۴) اردو مقالہ نگاری کا مسابقہ سال میں دو مرتبہ کرایا جاتا ہے ، جس کے عنوانات اور صفحات متعین ہوتے ہیں اوربحث و تحقیق کا ذوق پیدا کرنے کے لئے قدیم سرمایہ سے استناد کو شرط قرار دیا جاتا ہے۔ (۵) اردو بیت بازی کا پروگرام عموماً پندرہ روز میں منعقد ہوتا ہے جس میں عام معمول کے مطابق شرکاء پانچ سو سے ایک ہزار تک معیاری اشعار پیش کرتے ہیں ، نگراں اساتذہ کو جن اشعار پر شبہ ہوتا ہے ان کی تحقیق کرائی جاتی ہے ، پھر فاتح اور مفتوح کا اعلان کیا جاتا ہے ۔ (۶) ان تمام پروگراموں میں شریک طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے سالانہ انعامی جلسہ کیاجاتا ہے اور دینیات کے ساتھ ساتھ ، اردو زبان و ادب کی کتابیں انعام کے طور پر دی جاتی ہیں ۔ (۷)اردو خوش خطی تو مدارس کی شناخت ہے،بڑے مدارس میں تو باضابطہ خوش خطی کاشعبہ قائم ہے اور دیگر مدارس میں خوش خطی کی پابندی سے مشق کرائی جاتی ہے جس کا نتبجہ یہ کہ ارباب مدارس کی اردو تحریر اوروں سے صاف ممتاز اور انتہائی پر کشش ہوتی ہے۔(۸) اردو ماہانہ مشہور مدارس کا ترجمان ہوتا ہے ، جس میں اہل قلم علماء اور طلبہ کے قیمتی مضامین اور تحقیقی مقالات کے علاوہ ، حالات حاضرہ پر تجزیاتی ادارئے اور مدرسے کے شب و روز کی سرگرمیاں بھی شامل اشاعت ہوتی ہیں ۔(۹) اردو اکیڈمی اُمُّ المدارس دارالعلوم دیوبند میں’’ شیخ الہند اکیڈمی‘‘ کے نام سے قائم ہے ، جہاں منتخب فضلاء کو اردو صحافت اور انشاء پردازی کا سلیقہ سکھایا جاتاہے، اور اردو زبان و ادب کے موضوع پر تحقیقی مقالات لکھوائے جاتے ہیں ۔(۱۰)ان مسلسل کاوشوں کے ساتھ ساتھ اہل مدارس کی خصوصیت ہے کہ اردوزبان کے تقریبًا آدھے عربی فارسی الفاظ کے صحیح تلفظ ، معنویت اور استعمال سے وہ بخوبی واقف ہوتے ہیں ، اسلئے ان کی زبان پر جب اردو جلوہ افروز ہوتی ہے ، تواور زیادہ پیاری لگنے لگتی ہے ۔ اردو زبان کے تئیں مدارس کے ان خدمات کا اعتراف بھی ہونا چاہئے اور اظہار بھی، ارباب مدارس کو خراج تحسین بھی پیش کرنا چاہئے اور جذباتِ تشکرو امتنان بھی ، اور اردو زبان و ادب کی دنیا میں ان کا پرزور استقبال بھی ہونا چاہئے اور شاندار حوصلہ افزائی بھی، ان ارباب اردو کی طرف سے جو سرکاری سطح پر اردو اور اہل اردو کی خدمت پر معمور ہیں ۔

SHARE