ملک میں نظام قضا اور اس کی فعالیت

مفتی نادر القاسمی
( اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا )
ہم لوگ مسجد کے ممبر و محراب اور جلسوں، کانفرنسوں اور اصلاح معاشرہ کے اسٹیجوں سے ہمیشہ یہ کہتے اور اعلان کرتے رہتے ہیں کہ اپنے ازدواجی معاملات اور عائلی تنازعات دار القضا سے رجوع ہوکر حل کرائیں، اس وقت صورت حال یہ ہےکہ مسلم پرسنل لا میں صرف فسخ اور تفریق کا مسئلہ ایسا رہ گیا ہے، جس میں دار القضا میں خال خال فیصلے ہوجایا کرتے ہیں، اس میں بھی زیادہ تر ایسے فیصلے امارت شرعیہ بھار اور حیدرآباد تلنگانہ کے دار القضا میں ہو پاتے ہیں، اس کے علاوہ مسلم پرسنل لا کے تحت قائم مختلف شہروں میں دارالقضا، جمعیۃ علما کے تحت چلنے والے دارالقضا، بریلوی حضرات کے مختلف شہروں میں موجود دارالقضا وغیرہ، ان میں برائے نام تفریق کے مقدمات آتے ہیں میرے اندازے کے مطابق، کیونکہ ملک میں کسی تنظیم نے ایسی کوئی سروے رپورٹ اب تک شائع نہیں کی ہے ۔ باقی واللہ اعلم ۔ اہل حدیث حضرات کا کوئی ایسا نظم میرے علم میں نہیں ہے اور نہیں ان کے مقدمات کبھی ان اداروں میں اس تعلق سے آتے ہیں، وجہ وہ خود بتائیں گے کہ اس کی وجہ کیا ہے، کیا ان کے یہاں آج تک ازدواجی تنازع سے متعلق کوئی کیس ہوا ہی نہیں یا اندرونی طور سے کوئی سماجی اور جماعتی نظم ہے جہاں اپنے مسائل حل کرلیتے ہیں، جہاں تک شیعوں کا معاملہ ہے ان کے بارے میں بھی کبھی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ ان کیا نظام ہے، اس لئے ہندوستان میں نظام قضا سے متعلق ایک جامع سروے رپورٹ آنی چاہئے، تاکہ اندازہ ہوسکے کہ یہ نظام قضا اس ملک کتنا مستحکم ہے۔ کن کن جماعتوں کا ہے اور کس طرح کام کر رہا ہے، عائلی اور ازداوجی معاملات میں عمومی طور سے مسلمانوں کا رجوع ملکی عدالت کی طرف ہے یا ان درالقضاووں کی طرف؛ اگر سرکاری عدالتوں کی طرف زیادہ ہے اور یقیناً ہے تو ایسا کیوں ہے ؟ کیا مسلمانوں کو اپنے نظام پر اطمینان نہیں ہے، یا ان کو تسلی بخش حل نہیں مل پا رہا ہے یا مقدمہ میں خواتیں کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا ہے کہ وہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی عدالتوں اور ” ویمن سیل “ کے وہ اور ان کے اہل خانہ چکر لگا رہے ہیں؟۔ ملک کے بعض دارالقضا کے بارے میں یہ بات بھی بارہا سامنے آئی ہے کہ وہ خلع سے متعلق کیس نہیں لیتے ہیں اور خلع والے مسئلہ میں کہتے ہیں کہ جاؤ پہلے شوہر کو لے کر آو، سوال یہ کہ اگر وہ عورت یا اس کے گھر والے شوہر کو لانے اور حاضر کرنے پر قادر ہوتے تو پھر وہ آپ کے پاس کیوں آتے؟ اپنے گھر میں بیٹھ کر گواہوں کے سامنے شوہر سے ایک طلاق بائن دلا کر خلع حاصل نہ کرلیتے؟، قادر نہیں ہیں تب ہی دار القضا سے انصاف کی امید پر رجوع کیا ہے ۔ یہ سوال میرے ذہن میں اس وقت اس لئے تازہ ہوا کہ آج بھی انقلاب کے ممبئی ایڈیشن جلی سرخی میں ازدواجی معاملات میں دارالقضا سے رجوع کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔ دارالقضا سے مسلمانوں کی بےرغبتی، حکومت کی بدنگاہی اور پرسنل لا کی بابت بد نیتی، یہ سارے امور ہمیں ان امور کی طرف بھی متوجہ کرتے ہیں، ایسالگتا ہے ہمارا نظام بھی فعال اور تسلی بخش کردار نہیں ادا کر رہا ہے۔ ملک کی عدالت بلاوجہ کسی سماج کے سماجی نظام پر ہاتھ نہیں ڈالتی ، کیونکہ اس ملک کے قانونی اور دستوری (جوڈشیل) نظام اور سسٹم میں سماجی رسوم و رواج، اعراف و عادات اور کسٹم کو آج بهھی بڑی اہمیت حاصل ہے، اس لئے مختلف زاویے سے اپنے نظام اور خامیوں اور کوتاہیوں کا بڑی باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا اور مسلمانوں اور خاص طور سے خواتین کے دل و دماغ میں یہ بات بٹھانی ہوگی کہ آپ کی تسلی، حقوق کا تحفظ اور مکمل سیکوریٹی اسی نظام میں ہے اور حکومت اور میڈیا نے جس طرح ان کے جذبات کا استحصال کیا ہے اور کررہا ہے اس کی سنگینی ہمیں عملی میدان میں آکر دهول مٹی اور جبہ ودستار ، شیروانی اور کوٹ پر داغ دھبے کی پرواہ کئے بغیر بتانی ہوگی اور صرف اسٹیٹمنٹ جاری کرنے اور قرار داد منظور کرکے اخبارات میں چھپادینے سے کسی سماجی انقلاب کی توقع چهھوڑ دیجئے، بالا خانوں میں بیٹھ کر ملت کی تعمیر نہیں ہونے والی ایسی سنت دنیا میں کبھی رائج نہیں رہی ۔ آپ زبانی دفاع پر اکتفا کرتے ہیں اور آپ کا دشمن گھر گھر جاکر اور آنسو پونچھ کر اپنا ہمنوا بنا رہاہے، آپ خود غور فرما لیجئے آپ کی بات مؤثر ہوگی یا ان کی عملی کوشش ؟ اللہ ہمیں جذبۂ صادق اور دیدہ بینا سے سرفراز فرمائے (آمین) 

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں