اب اتنا بھی بیوقوف نہ سمجھا جائے!

سہیل انجم

بعض اخباروں میں شائع ہونے والی ایک خبر پڑھ کر جوسب سے پہلا خیال دل و دماغ میں آیا وہ یہی تھا کہ کیا مسلمان اتنے احمق ہیں کہ وہ ایسے لوگوں سے دوستی کر لیں گے جو ان کے جان و مال اور دین و ایمان کے درپے ہوں۔ جو چاہتے ہوں کہ مسلمان غلاموں کی زندگی بسر کریں۔ استثنائی صور تحال ہر جگہ ہوتی ہے۔ ہر معاشرے میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی نظر صرف حقیر مفادات پر ہوتی ہے اور جن کے نزدیک مادی فوائد ہی اہم ہوتے ہیں۔ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کے نزدیک دین و ایمان کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایسے افراد ہر زمانے میں رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ایسے علماءاور مفتی بھی رہے ہیں جو حکمرانوں کی خوشامد میں اسلامی عقائد کے خلاف فتوے صادر کرتے رہے ہیں۔ آج بھی ایسے علماءموجود ہیں جن کو دنیا پرست یا علمائے سو کے خطاب سے نوازا جاتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمانوں کا سواد اعظم بھی کھلونوں کے عوض اپنے دین و ایمان کا سودا کر نے کے لیے تیار ہو جائے گا۔ یہ باتیں ہم اس لیے کہہ رہے ہیں کہ ملک کی حکمراں جماعت بی جے پی اس وقت مسلمانوں کے درمیان ممبرسازی کی مہم چلا رہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ مسلمان جوق در جوق اس کے ممبر بنیں اور اس کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں معاون و مددگار ثابت ہوں۔ کون سا ایجنڈہ؟ وہی ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا ایجنڈا۔ وہ ہندوستان کو ایک ایسے ملک میں تبدیل کرنے کی مہم میں شریک ہو جائیں جس میں اقلیتوں اور دبے کچلے طبقات دوسرے درجے کے شہری بن جائیں۔ لیکن جب بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ذمہ داران اپنی مہم لے کر مسلمانوں کے درمیان پہنچے تو انھیں ایسے سخت سوالوں کا سامنا کرنا پڑا کہ دانتوں تلے پسینہ آگیا۔ یہاں تک کہ اقلیتی مورچہ میں شامل بعض مسلمانوں نے بھی مرکزی ذمہ داروں کے سامنے وہی سوالات اٹھائے۔ یہ سوالات وقف ترمیمی بل، یونیفارم سول کوڈ، مسلمانوں کی لنچنگ، ان پر حملے کرنے والوں کو حکومت کی جانب سے کھلی چھوٹ، حکومت و انتظامیہ کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ برتے جانے والے امتیازی رویے اور اسی طرح کے دیگر امور سے متعلق تھے۔

جب اس سلسلے میں بی جے پی اقلیتی مورچہ کی 27 اگست کو دہلی میں میٹنگ ہوئی تو اس میں یہ سوالات اٹھائے گئے۔ اور جب دو ستمبر کو اس مہم کا آغاز کیا گیا تو بی جے پی کے اقلیتی کارکنوں کو سخت چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ دہلی میں ہونے والی میٹنگ میں جب مسلم کارکنوں نے کہا کہ وہ جب مسلمانوں میں جائیں گے تو ان سے وقف ترمیمی بل پر سوال کیا جائے گا۔ اس پر انھیں بتایا گیا کہ وہ مسلمانوں سے کہیں کہ یہ بل اس لیے لایا گیا ہے تاکہ وقف کے کام کاج میں شفافیت لائی جائے۔ ان کو یہ بتایا جائے کہ ضرورت مند مسلمان اس سے فائدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔ کچھ بااثر لوگوں نے وقف املاک پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ان سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کو سمجھائیں کہ اپوزیشن اس معاملے پر انھیں گمراہ کر رہا ہے۔ واہ جناب کیا بات کہی ہے۔ گویا مسلمان آنکھ بند کرکے اس دلیل کو تسلیم کر لیں گے۔ کیا انھیں نہیں معلوم کہ اس بل کا مقصد کیا ہے۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ ترمیمی بل سے وقف املاک پر سرکاری قبضے کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ دراصل اس وقت مسلمانوں کے درمیان اس بل کو مسترد کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے اور اب تک کروڑوں مسلمان اس میں حصہ لے چکے ہیں۔ یہ مہم کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ الگ مسئلہ ہے۔ لیکن مسلمان کسی بھی قیمت پر وقف جائدادوں کے انتظام و انصرام میں غیر مسلموں اور حکومت کومداخلت کرنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بی جے پی اقلیتی مورچہ کے لوگوں کا کہنا ہے کہ جب وہ بی جے پی کا ممبر بنانے کے لیے مسلمانوں کے پاس پہنچے تو ان سے ایسے سوالات کیے گئے جن کے جواب ان کے پاس نہیں تھے۔ ان سوالوں میں ان پر ہونے والے حملوں کا سوال بھی تھا۔ ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے جب ہریانہ میں مغربی بنگال کے ایک مسلم مزدور کو بیف کھانے کے الزام میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں پانچ افراد کو گرفتار تو کیا گیا ہے لیکن انھیں کب ضمانت مل جاتی ہے اور کب وہ باہر آجاتے ہیں کسی کو پتہ ہی نہیں چلے گا۔ اسی طرح مہاراشٹر کے ٹرین میں ایک مسلم بزرگ پر حملے کا واقعہ بھی بالکل تازہ بہ تازہ ہے۔ اس سے قبل گزشتہ دس برسوں میں مسلمانوں کی لنچنگ کے جانے کتنے واقعات ہو چکے ہیں لیکن مجال ہے کہ کسی کو سزائے موت ملی ہو۔ بلکہ ایسے لوگوں کی عزت افزائی کی جاتی ہے۔ ان کو انعام و اکرام سے نوازا جاتا ہے۔ امروہہ کے ایک اسکول میں گوشت کی بریانی لے جانے پر ایک سات سال کے معصوم کا اسکول سے اخراج کر دیا گیا۔ اس سلسلے میں وائرل ویڈیو میں پرنسپل اس بچے کے بارے میں جو زبان استعمال کر رہا ہے اس سے اس کی ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔

اترپردیش بی جے پی اقلیتی مورچہ کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ اس کے سامنے مسلمانوں کے خلاف قابل اعتراض تقاریر کا معاملہ اٹھایا گیا۔ یوں تو بی جے پی میں ایسے لیڈروںکی کمی نہیں ہے جو مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے رہتے ہیں۔ خود اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پر اس قسم کے الزامات بارہا لگتے رہے ہیں۔ آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما توروزانہ مسلمانوں کے خلاف کوئی نہ کوئی قانون لے آتے ہیں۔ ان لوگوں کو چھوڑیے خود وزیر اعظم نریندر مودی نے بارہا مسلمانوں کے خلاف بیانات دیے ہیں۔ پارلیمانی انتخابات میں تو وہ بالکل پٹری سے اتر گئے تھے۔ بھلا بتائیے کہ کیا مسلمان ان باتوں کو فراموش کر دیں گے۔ اگر وہ بی جے پی رہنماو¿ں کے سامنے ان معاملات کو اٹھا کر سوال کر رہے ہیں تو کیا غلط کر رہے ہیں۔ اتراکھنڈ کے ایک بی جے پی لیڈر کا کہنا ہے کہ وہ جب مسلمانوں کے درمیان پہنچا تو اس کے سامنے یونیفارم سول کوڈ اور چمولی میں مسلمانوں کی درجنوں دکانوں کو منہدم کرنے کا معاملہ اٹھایا گیا۔ انھوں نے ریاستی حکومت کی جانب سے یونیفارم سول کوڈ منظور کرنے کے پس پردہ حکومت کی نیت پر سوال کیا۔ یاد رہے کہ اتراکھنڈ حکومت نے اس سلسلے میں ایک قانون منظور کیا ہے جس میں بہت سی شقیں اسلام مخالف ہیں۔ اتراکھنڈ کے رودرپریاگ کے متعدد مواضعات میں مسلمانوں کے داخلے کے خلاف بورڈ آویزاں کیے جانے کا معاملہ تو بالکل تازہ ہے۔ ان بورڈوں پر لکھا گیا ہے کہ وہاں مسلمانوں اور روہنگیاو¿ں کا داخلہ ممنوع ہے۔ اس پر سرکردہ مسلمانوں کی جانب سے شدید اعتراض کیا جا رہا ہے۔ اتراکھنڈ میں مسلمانوں پر لینڈ جہاد کا بھی الزام لگایا گیا۔ مسلمانوں نے پوچھا کہ جب وہ لینڈ جہاد میں ملوث ہیں تو بی جے پی کے ممبر کیسے بن سکتے ہیں۔ ہماچل پردیش کے شملہ میں ایک تاریخی مسجد کے خلاف ہندو تنظیموں کا احتجاج جاری ہے۔ جبکہ متعدد تاریخی مساجد کے خلاف عدالتوں میں مقدمات دائر کیے جا چکے ہیں۔ کیا ان حالات میں مسلمان بی جے پی کا دامن تھام سکتے ہیں۔ بی جے پی رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی فلاحی اسکیموں کا مسلمان بھی فائدہ اٹھارہے ہیں اور یوپی میں مستفید مسلمانوں کی تعداد تقریباً تین کروڑ ہے۔ رپورٹوں کے مطابق یوپی میں پانچ ہزارورکروں کے ذریعے پانچ لاکھ مسلمانوں کو ممبر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اتراکھنڈ میں تین لاکھ مسلمانوں کو بی جے پی کے ممبر بنانے کی مہم چل رہی ہے۔ دیگر ریاستوں میں بھی اس مہم کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے مدارس کا بھی دورہ کیا جائے گا اور مسلم خواتین اور صوفیاءسے بھی ملنے کی کوشش کی جائے گی۔ خواتین کے سامنے طلاق ثلاثہ کے خاتمے کا حوالہ دیا جائے گا۔ لیکن اہل مدارس کے سامنے کس فیصلے کا حوالہ دیا جائے گا۔ یوپی، آسام اور دیگر ریاستوں میں مدارس کے خلاف جو مہم چلائی جا رہی ہے کیا اہل مدارس اسے نظرانداز کر دیں گے۔ بی جے پی ’مسلم لابھارتھیوں‘ کی بھی بات کرتی ہے۔ گویا پارٹی مسلمانوں کو کھلونے دے کر بہلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیا مسلمان اتنے بیوقوف ہیں کہ وہ معمولی فلاحی اسکیموں کے عوض اپنے جان و مال اور دین و ایمان کا سودا کر لیں گے۔

sanjumdelhi@gmail.com

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com