ہر سخن موقع و ہر نقطہ مقام دارد

محمد علم اللہ
​جامعہ مليہ اسلاميہ کے قيام کی سالگرہ کی مناسبت سے لگے تعليمی ميلہ کی کچھ تصاوير ميں نے فيس بک پر شيئر کيں۔ تصاوير شيئر ہوتے ہی کچھ دوستوں ميں عجيب اضطراب ديکھا گيا۔ تحقيق کرنے پر پتہ چلا کہ ان ميں سے کچھ تصاوير ميں جامعہ کی طالبات بھی نظر آ رہی تھيں جس سے بعض حضرات کی نگاہوں کا روزہ ٹوٹ گيا۔ تصاوير ميں نظر آ رہيں طالبات نہ تو نا مناسب لباس ميں تھيں اور نہ ہی ناچ گانا کر رہی تھيں پھر بھی کئی افراد کو تصاوير ميں ان کی موجودگی جامعہ کا اخلاقی زوال معلوم ہوئی۔ پتہ نہيں ايسا کيا ہوا جو طالبات کی موجودگی ان معصوم افراد پر اتنی شاق گذری ؟
اس سے بھی حيرتناک امر يہ کہ ان ميں کئی جامعہ کے ہی عربی اور اسلامک اسٹيڈيز شعبوں کے طالب علم تھے۔ ميں اس قسم کی گفتگو نہيں کرتا ليکن منافقت کو بے نقاب کرنے کے لئے ميں يہ کہنے کو مجبور ہوں کہ تصوير ميں طالبات کی موجودگی سے نالاں طالب علموں ميں کئی ايسے ہيں جو اپنے اپنے شعبے کے کھمبوں کی آڑ سے دوسرے شعبوں کی طالبات کو تاڑتے اکثر ديکھے جا سکتے ہيں۔
ايسے نيک سيرت معترض طالب علموں کی خدمت ميں اس حقير کی چند گذارشات ہيں۔ بری لگيں تو پيشگی طور پر معافی کا طلب گار ہوں۔
اول: جامعہ مليہ اسلاميہ نہ تو کوئی خانقاہ ہے نہ کوئی امام باڑہ، يہ ندوہ، اصلاح اور فلاح بھی نہيں ہے بلکہ يہ ايک دانش گاہ ہے جس ميں عربی اور اسلاميات کے علاوہ بھی درجنوں شعبہ جات ہيں، ان ميں ہزاروں طلبہ ہيں۔ يہ سب طلبہ مسلمان نہيں ہيں اور جو مسلمان بھی ہيں لازمی نہيں کہ وہ ايسے ہی نيک طينت ہوں جيسے ہمارے معزز معترضين ہيں اس لئے ايک يونيورسٹی کو حرم شريف بنانے کا خواب ديکھنا خلاف عقل ہے۔
دوم: جامعہ مليہ اسلاميہ کے قيام کا مقصد کسی مدرسہ کا قيام نہيں تھا بلکہ جديد تعليم کے فروغ کے لئے اس کی بنياد گذاری ہوئی تھی ۔ چونکہ مسلمان بانيان اس ادارے کی ترويج ميں پيش پيش رہے اس لئے اس ميں اسلاميات اور عربی کے شعبے بھی ہيں۔ مگر يہ ياد رکھئے کہ ديگر شعبہ اسلاميات اور عربی کے طفيل ميں نہيں ہيں۔
سوم: جامعہ مليہ اسلاميہ کو چاہ کر بھی کسي مدرسہ جيسا نہيں بنايا جا سکتا جہاں ناظم صاحب طالب علم کو ٹوپي نہ لگانے يا سلام نہ کرنے پر قمچی سے سونت ديں۔ يہ يونيورسٹی ہے جس ميں مختلف افکار اور ثقافتيں ايک دوسرے کے تحصيل علم کے عمل ميں مددگار ہوتی ہيں۔ اس کو کنواں بنا دينے سے اس کے طالب علم ويسے ہی مينڈک بن کر نکليں گے جيسے کئی ديگر اداروں سے جوق در جوق نکل رہے ہيں۔
چہارم: معترضين کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہيں ہے۔ آج ان کی آنکھوں ميں خواتين کھٹک رہی ہيں، کل وہ ان سب کو برقعہ اڑھانا چاہيں گے اور پرسوں شائد کہنے لگيں کہ جامعہ سے ہندی اور سنسکرت کا شعبہ ختم کرو، ميوزک کلب کو ختم کرو اور ماس کميونی کيشن ميں آنے والی طالبات بشمول ہندو بچيوں کو حرملہ کٹ برقعے پہنواؤ۔
پنجم: معترضين کی نيک نيتی اپنی جگہ ليکن ہر سخن موقع و ہر نقطہ مقام دارد کا اصول ہميشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ جامعہ مليہ اسلاميہ کا ماحول ديگر يونيورسٹيوں کے مقابلے بہت اچھا ہے۔ يہاں کی غير مسلم طالبات بھی لباس کے معاملہ ميں ہماری مسلمان بہنوں کی طرح خيال رکھتی ہيں اس لئے اب انگلی پکڑ کر گلا پکڑنے سے باز آئيے، اور جو اچھائی ہے اس کا اعتراف کيجئے۔ ​

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں