ینگون: (ملت ٹائمز )
میانمار کی قائد آنگ سان سوچی نے عالمی دباو کے بعد بالآخر راکھین اسٹیٹ کا خل اپنا پہلا دورہ کیا جہاں سے روہنگیا مسلمانوں کی کثیر تعداد کو فوجی کارروائی کے ذریعہ نکال باہر کیا گیا تھا۔ سوچی نوبل انعام یافتہ قائد ہیں جنہوں نے میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف کامیاب مہم چلاتے ہوئے ملک میں جمہوریت کو بحال کروایا لیکن روہنگیاؤں کی حالتِ زار پر لب کشائی نہ کرنے پر انہیں عالمی سطح پر تنقیدوں کا سامنا ہے کیونکہ سوچی فی الحال ایک ایسے موقف میں ہیں جہاں وہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ اگر ہمدردی کا اظہار کرتیں تو تشدد اور قتل عام کے لرزہ خیز واقعات رونما نہ ہوتے اور نہ ہی روہنگیاؤں کی کثیر تعداد (تقریباً 15 لاکھ ) ملک سے فرار ہوکر بنگلہ دیش میں پناہ لیتی۔ میانمار کی فوج پر یہ الزام بھی ہیکہ اس نے نہ صرف روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام کیا بلکہ ان کے مکانات کو آگ لگا کر خواتین کی عصمت ریزی بھی کی۔ میانمار کی فوج اس کارروائی کیلئے روہنگیا دہشت گردوں کو موردالزام ٹھہرا رہی ہے جبکہ دوسری طرف اقوام متحدہ کا یہ کہنا ہیکہ میانمار میں روہنگیاؤں کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ اس طرح آنگ سان سوچی پر اس وقت عالمی دباؤ ہے اور شاید یہی وجہ ہیکہ انہوں نے راکھین اسٹیٹ کا دورہ کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ ان سے واضح طور پر مطالبہ کیا گیا ہیکہ وہ روہنگیا مسلمانوں کونہ صرف تحفظ فراہم کریں بلکہ بنگلہ دیش سے ان کی واپسی کو بھی یقینی بنائیں۔ سوچی کو ملک میں ”اسٹیٹ کونسلر” کا عہدہ تفویض کیا گیا ہے موصوفہ پہلے راجدھانی ستوے پہونچی اور اس کے بعد وہ مونگ ڈا اور باتھیڈوانگ بھی گئیں ۔ سرکاری ترجمان ژاٹے نے اسی دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ اطلاع دی تاہم سوچی کے دیگر پروگرامس کی کوئی تفصیلات نہیں بتائی۔
میانمار میں یوں تو 2012ء سے ہی فرقہ وارانہ تشدد کا سلسلہ جاری ہے جہاں بودھ مت کے راہب مسلمانوں کا وجود برداشت نہیں کرتے حالانکہ بودھ مت بھی عدم تشدد کی تعلیم دیتا ہے لیکن آج کا زمانہ ایسا ہے کہ کسی بھی مذہب کا پیروکار اپنے مذہب کی تعلیمات پر مکمل طور پر عمل آوری نہیں کررہا ہے۔ بہ الفاظ دیگر کوئی بھی اپنے متعلقہ مذہب کے تئیں پُرخلوص نہیں ہے چاہے وہ مسلمان ہو، ہندو ہو، سکھ ہو، عیسائی ہو، پارسی ہو، جین ہو یا بودھ۔ تشدد کے ان واقعات نے عالمی سطح پر میانمار کی نیک نامی کو متاثر کیا ہے۔ اب تک یہ بھی واضح نہیں ہوا ہیکہ سوچی ان سینکڑوں مواضعات میں سے چند مواضعات کا دورہ کریں گی یا نہیں جنہیں میانمار کی فوج نے جلاکر راکھ کردیا تھا۔ یہ بھی واضح نہیں ہیکہ وہ ان علاقوں کا بھی دورہ کریں گی یا نہیں جہاں اب بھی روہنگیا مسلمان موجود ہیں لیکن انتہائی خوف کے عالم میں زندگی گذار رہے ہیں۔ فاقہ کشی نے بھی ان کی حالت ابتر کردی ہے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں اپنے پڑوسیوں سے بھی خطرات لاحق ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہیکہ ہزاروں روہنگیا مسلمان مونگ ڈا کے ساحل پر توقف کئے ہوئے ہیں اور انہیں اس کشتی کا انتظار ہے جو انہیں بنگلہ دیش پہنچادے۔ بودھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت والے میانمار میں مسلمانوں سے نفرت کی جاتی ہے اور انہیں کوئی شہری حقوق حاصل نہیں ہیں بلکہ انہیں بنگالی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ مبصرین کا یہ ماننا ہیکہ سوچی نے یہ ذہن بنا لیا ہیکہ وہ میانمار کی فوج پر کوئی تنقید نہیں کریں گی کیونکہ فوج کا موقف بیحد مستحکم ہے اور ملک میں سیکوریٹی کے تمام معاملات کی فوج ہی نگرانکار ہے۔ ایسے حالات میں فوج سے پنگا نہیں لیا جاسکتا۔ علاوہ ازیں اندرون ملک روہنگیا مسلمانوں کے تئیں کوئی ہمدردانہ جذبات نہیں پائے جاتے اور اگر ایسی صورتحال میں سوچی اقلیتوں کی طرفداری کریں گی تو اس سے اکثریتی بودھ طبقہ ان کے (سوچی) خلاف محاذ آرائی کرسکتا ہے۔ فی الحال سوچی ایک ایسی کمیٹی کی قیادت کررہی ہیں جسے راکھین اسٹیٹ کی تعمیرنو اور بنگلہ دیش فرار ہونے والے روہنگیاؤں کو میانمار واپس بلانے کی ذمہ اری سونپی گئی ہے۔