معصوم مرادآبادی
ایک سرکردہ مسلم لیڈرکو پچھلے دنوں حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک سرمایہ دار نے یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کئے جانے کی وکالت کردیں تو انہیں ایک کروڑ روپے بطور معاوضہ ادا کردیئے جائیں گے۔ مذکورہ مسلم لیڈر نے جواب میں کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 17کروڑسے زائد ہے، لہٰذا انہیں کم ازکم 17کروڑ روپے تو ادا کئے جائیں۔ یعنی ایک مسلمان کی قیمت کم ازکم ایک روپیہ تو ہونی ہی چاہئے۔ معاملہ طے نہیں ہوسکا اور بات بگڑگئی ۔ دراصل آج کل حکمراں جماعت کے لوگ ایودھیا تنازع کو عدالت سے باہر حل کرنے کے لئے ایسے مسلمانوں پر ڈورے ڈال رہے ہیں، جو انہیں بکاؤ مال نظر آتے ہیں۔ظاہرہے ہر کوئی بکاؤ مال نہیں ہوتا، اس لئے انہیں کہیں کہیں منہ کی بھی کھانی پڑرہی ہے۔ بعض ننگ ملت قسم کے لوگ دولت اور اقتدار کی ہوس میں سنگھ پریوار کے فریب میں آچکے ہیں اور ایسے بیانات دے رہے ہیں کہ ان کے مسلمان ہونے پر ہی شبہ ہوتا ہے۔ یہاں ہم ایسے لوگوں کا نام لکھ کر اپنے قلم اور آپ کے ذہن کو آلودہ نہیں کرنا چاہتے۔
گزشتہ دنوں بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کے حوالے سے جتنے بھی بیانات منظرعام پر آئے ہیں، وہ دراصل سنگھ پریوار کی مذکورہ کوششوں کا ہی نتیجہ ہیں ۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئندہ 6دسمبر کو بابری مسجد کی شہادت کو 25برس پورے ہونے والے ہیں اور اس سے قبل یعنی 5دسمبر سے سپریم کورٹ میں ایودھیا تناز ع پر یومیہ سماعت شروع ہونے والی ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کے سب سے سنگین تنازع پر عدالتی فیصلہ کیا ہوگا ، یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ بابری مسجد کے لئے مسلمانوں کی لڑائی محض ایک قطعہ اراضی کی ملکیت کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی تشخص اور دستوری حقوق سے ہے ۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے مسجد اللہ کی ملکیت ہوتی ہے اوراس کی سوداگری کرنے کا اختیار کسی کو بھی نہیں ہوتا۔ بابری مسجد کی تعمیر مغل شہنشاہ بابر کے سپہ سالار میر باقی نے 1528میں ایک غیر متنازع اور صاف ستھری جگہ پر کرائی تھی۔ یہاں صدیوں مسلمانوں نے اپنی جبینوں کو سجدوں سے روشن کیا ہے۔ بابری مسجد کے باہر ایک چبوترے پر انگریزوں کے دور میں تنازع ضرور کھڑا ہوا تھا لیکن مسجد پر کبھی کوئی انگلی نہیں اٹھائی گئی۔22دسمبر 1949 کی شب یہاں آخری مرتبہ عشاء کی نماز ادا کی گئی لیکن اس کے بعد ایک سازش کے تحت دیوار پھاند کر زورزبردستی مسجد کے منبر پر مورتیاں رکھ دی گئیں۔ حالانکہ اس وقت کی مرکزی قیادت یہ چاہتی تھی کہ بابری مسجد کے منبر سے مورتیاں ہٹاکر مسجد کا تقدس بحال کردیاجائے لیکن اس وقت کے اترپردیش کے وزیراعلیٰ گووند ولبھ پنت نے مرکزی قیادت کے اس حکم کو تسلیم نہیں کیا اور اس طرح ایک ایسے تنازع کی داغ بیل ڈال دی گئی جس نے آگے چل کر ہندوستانی سیاست کا بیڑہ غرق کردیا۔ اگر یہ تنازع پیدا نہیں ہوتا تو آج ملک میں فرقہ پرستی کو نہ تو اتنا عروج حاصل ہوتا اور نہ ہی فرقہ پرست طاقتیں اقتدار میں آتیں۔
یکم فروری 1986کو اگرچہ بابری مسجد کا تالا فیض آباد کی ایک عدالت کے حکم پر کھولا گیا تھا لیکن اس کی تشہیر سرکاری ٹی وی چینل دوردرشن پر جس انداز میں کی گئی اس سے بخوبی اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ کام ایک منصوبہ بند حکمت عملی کے تحت کیاگیا ہے۔ بابری مسجد کو عام پوجا پاٹھ کے لئے کھولنا دراصل فرقہ واریت کے خوفناک جن کو بوتل سے باہر کرنے کے مترادف تھا۔ تمام سیکولر طاقتیں اپنی بہترین کوششوں کے باوجود اس جن کودوبارہ بوتل میں بند نہیں کرسکیںا ورآج یہ اتنا طاقتور ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کو ہی نگل پر آمادہ نظر آتا ہے۔
آر ایس ایس کے خاص آلہ کار شری شری روی شنکر کی طرف سے ایودھیا تنازع کو عدالت کے باہر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوششوں کا آغاز ان ہی لوگوں نے کرایا ہے جو بابری مسجد اور مسلمانوں کے تمام حقوق غصب کرنا چاہتے ہیں۔ جن نام نہاد مسلمانوں نے بنگلور میں شری شری روی شنکر سے ملاقات کی ہے یا ان سے فون پر رابطہ قائم کیا ہے، وہ درحقیقت اپنا سب کچھ سنگھ پریوار کے پاس گروی رکھ چکے ہیں۔ یہاں ہم ضمیر جیسی باوقار شے کا نام تو نہیں لیں گے کیونکہ اگر ان کے پاس ضمیر ہوتا تو وہ فسطائی طاقتوں کا کھلونا بننے سے ہی انکار کردیتے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ شری شری سے ملاقات اور گفتگو کرنے والوں میں مسلمانوں کی ایک ایسی باوقار تنظیم کے بعض عہدے داران اور ممبران کا نام بھی سامنے آیا ہے، جس پر مسلمان اپنی شریعت کے تحفظ کے حوالے بہت اعتماد رکھتے ہیں۔ دراصل بعض خداترس بزرگوں کی رحلت کے بعد اب اس تنظیم کی کمان ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے جو اس باوقار پلیٹ فارم کو اپنی سیاسی آرزوؤں کی بھینٹ چڑھادینا چاہتے ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جولوگ بابری مسجد کے مسئلے کو مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی باتیں کررہے ہیں ان کا نہ تو کبھی اس تنازع سے واسطہ رہا ہے اور نہ ہی وہ اس کے پیچ وخم سے واقف ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ایودھیا تنازع کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی سب سے سنجیدہ کوشش 1991 میں آنجہانی وزیراعظم چندرشیکھر کے دور اقتدار میں ہوئی تھی۔ راقم الحروف نے ان مذاکرات کی رپورٹنگ کی تھی، اس لئے اس دور کی بہت سی باتیں آج بھی ذہن میں محفوظ ہیں۔ ان مذاکرات میں بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے تمام سرکردہ عہدیداران اور وشوہندوپریشد کے لیڈروں کے علاوہ تین ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ بھی شریک تھے۔ ان میں یوپی سے ملائم سنگھ یادو ،مہاراشٹر سے شرد پوار اور راجستھان سے بھیروں سنگھ شیخاوت شرکت کررہے تھے۔ ان مذاکرات کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب وشوہندو پریشد کا جارحانہ اور ہٹ دھرمی والا رویہ تھا۔ وہ اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ اس وقت بابری مسجد اپنے مقام ایستادہ تھی اور آنجہانی وزیراعظم چندرشیکھر یہ چاہتے تھے کہ اس مسئلے کاکوئی قابل قبول حل نکل آئے۔ لیکن وشو ہندو پریشد بابری مسجد کے مقام پر ہی رام مندر بنانے کے لئے اصرار کرتا رہا۔ آج بابری مسجد اپنے مقام موجود نہیں ہے کیونکہ اسے 6دسمبر 1992کو دہشت گردوں نے شہید کردیا تھا۔ لیکن مسجد کی اراضی آج بھی موجود ہے، جہاں اس وقت رام مندر کا ایک انتہائی مضبوط ڈھانچہ کھڑا ہواہے۔ گزشتہ 25برس کے عرصے میں تمام تر قانونی کوششوں کے باوجود نہ تو بابری مسجد کے مجرموں کو سزا ملی ہے اور نہ ہی اس وقت کے وزیراعظم آنجہانی نرسمہاراؤ کے وعدے کے مطابق مسجد کی تعمیر نو ہوپائی ہے۔ البتہ اس عرصے میں ناجائز رام مندر کے ڈھانچے کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ یوں تو مرکز میں بی جے پی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہی بابری مسجد کے مقام پر رام مندر تعمیر کرنے کی جابرانہ کوششوں کا آغاز ہوگیا تھا ۔لیکن ان کوششوں میں اضافہ اترپردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے برسراقتدار آنے کے بعد ہوا ہے۔ یوگی کے گرو مہنت اویدھ ناتھ رام جنم بھومی مکتی آندولن کے نائب صدر تھے اور انہوں نے بابری مسجد کے خلاف ماحول سازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ بابری مسجد کے مقام پر گندم نما جوفروش مسلمانوں کی مدد سے رام مندر بنانے کی کوششوں کو مرکزی حکومت کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ بی جے پی 2019 کا الیکشن بابری مسجد کی اراضی پر عالیشان رام مندر بنانے کے موضوع پر لڑنا چاہتی ہے۔ 2014 کے انتخابات میں وزیراعظم نریندر مودی نے عوام سے جو سنہرے وعدے کئے تھے، ان میں سے کوئی بھی وفا نہیں ہوا ہے۔ عوام میں معاشی بحران اور مالی تنگی کے سبب شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ اس ناراضگی کو دور کرنے کے لئے بی جے پی ایک بار پھر فرقہ وارانہ صف بندی کے اپنے آزمودہ فارمولے کو استعمال میں لانا چاہتی ہے اور اسی مقصد کے تحت نام نہاد مسلمانوں کو بابری مسجد کا سودا کرنے کے لئے آمادہ کیا جارہا ہے۔