مولاناعبدالرشیدطلحہ نعمانی
اس بات میں اب ادنی تردد کی گنجائش نہیں کہ یہ فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے اور روئے زمین کا کوئی بھی گوشہ ان فتنوں سےمحفوظ نہیں ۔
ملت اسلامیہ پر سازشی فتنوں،گمراہ فرقوں اور باطل تحریکوں کی چو طرفہ یلغار ہے ،بدعقیدگی و بدعملی کا فتنہ،مادیت پسندی و نفس پرستی کا فتنہ ،خدابیزاری اور دہریت کا فتنہ،تہذیبی زوال اور حیاباختگی کا فتنہ ،اسلام دشمنی اور گروہ بندی کا فتنہ اور خود کو مہدی موعود اور مسیح ظاہر کرکے مسلمانوں کا استحصال کرنے والےضمیر فروشوں کا فتنہ ۔۔۔
آج کے اس خوف ناک ماحول میں گلی گلی ، کوچے کوچے اور گھر گھر میں آزمائشوں کی بساط بچھی ہوئی ہے ،علم سے محروم حضرات فتنوں کے جال میں گھر کر تباہ ہو رہے ہیں، کفر اپنی پوری توانائی کے ساتھ حملہ آور ہے اور جنگ کی صورت حال یہ ہے کہ اندرون خانہ بھی یہی مشق جاری ہے،اک ذرا سی غفلت ہوئی اور لمحے بھر میں آدمی شکار ہو گیا ۔ ایک طرف اسلام دشمن عناصر اپنی پوری قوت سے حملہ آور ہیں اور دوسری طرف اسلام کا نام لے کر اس کا استحصال کرنے والے بھی اپنا پورازور اسی پر صرف کر رہے ہیں ۔امت کی آزمائش کا ایسا سخت ترین زمانہ اگر چہ تاریخ میں پہلے بھی رہا ہو؛مگر ان خوفناک اسلحوں کے ساتھ نہیں ،اس تسلسل و روانی کے ساتھ نہیں،اس حشر سامانی اور فریب کاری کے ساتھ نہیں ۔
دما دم فتنوں کے نزول کی پیشین گوئی دیتےہوئے مخبر صادق،نبی برحق ﷺ نے ارشاد فرمایا،جب کہ آپ مدینہ منورہ کے ایک ٹیلہ پر چڑھ کر لوگوں سے مخاطب تھے:”میں جو کچھ دیکھتا ہوں کیاتم بھی دیکھتے ہو؟ لوگوں نے کہا نہیں ! تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں فتنوں کو دیکھتا ہوں کہ وہ تمہارے گھروں کے درمیان اس طرح گر رہے ہیں جیسے بارش برستی ہے ۔“(بخاری)
صدا قتوں کی یہ تعبیر کتنی واضح ہے اور آج کا یہ دور اس پر کس طرح پورا اُتر رہا ہے کہ کسی لفظ سےسرمو انحراف کی گنجائش نہیں ۔
ایک اور روایت میں عصر حاضر کی فتنہ سامانیوں اور ہنگامہ خیزیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے نبی رحمت ﷺ نے فرمایا: عنقریب کئی فتنے ہوں گے؛جن میں انسان صبح کو مسلمان ہو گا اور شام کو کافر ہو گا۔ ہاں جسے اللہ تعالیٰ علم کے ذریعے محفوظ رکھے ۔“(ابن ماجہ)
آپ ﷺ کے بیان کردہ ان ہی زہرناک فتنوں میں ایک مہدی ومسیح کذاب “شکیل بن حنیف” کا فتنہ ہے ؛جو ان دنوں سر چڑھ کر بول رہاہے۔
شکیلی سرگرمیوں کی تازہ رپورٹ :
نئی دہلی(ملت ٹائمز کی خاص رپوٹ )مہد ی مسیح ہونے کا دعوی کرنے والے شکیل بن حنیف کا فتنہ مسلسل بڑھتا جارہاہے ،ملت ٹائمز کو معتبر ذرائع سے ملی خبروں کے مطابق ہندوستان بھر میں اب تک 10 ہزار سے زائد مسلمان اس فتنہ کے شکار ہوکر مرتد ہوچکے ہیں ،بہار ،یوپی اور مدھیہ پردیش جیسی ریاستیں سب سے زیادہ متاثر ہیں ،ا س پورے معاملے میں چونکانے والی رپوٹ یہ ہے کہ مرتد ہونے والوں میں 80 فیصد تعداد تبلیغی جماعت سے وابستہ رہ چکے افراد کی ہے ۔
فتنہ شکیلیت کے خلاف مسلسل کام کرنے والے جنا ب ذیشان احمد(خادم مجلس تحفظ ختم نبوت پٹنہ) نے ملت ٹائمز کی آفس میں آکر آج اس بارے میں تفصیل بتاتے ہوئے کہاکہ بہار کے دربھنگہ ضلع سے تعلق رکھنے والے شکیل بن حنیف کا دعوی ہے کہ وہ امام مہدی ہے ،حالیہ دنوں میں اورنگ آباد کو اس نے اپنا ہیڈ کوارٹر بنارکھاہے اور اس کے ماننے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہاہے ۔متعدد شہروں میں شکیل بن حنیف نے اپنا خلفاء بنارکھےہیں جو اس کی نمائندگی کرتے ہیں ۔
ذیشان احمد نے تفصیل بتاتے ہوئے کہاکہ بہار میں پٹنہ ، سیمانچل کے اضلاع اور چمپارن سب سے زیادہ اس فتنہ سے متاثر ہیں، تقریبا چار ہزار لوگ اب تک مرتد ہوچکے ہیں،کئی گھرانے مکمل طور پر اس اس فتنہ کے شکار ہیں،دوسرے نمبر پر مدھیہ پردیش کا معروف شہر بھوپال ہے جہاں فتنہ شکیلیت بہت مضبو ط ہوچکی ہے اور اب تک وہاں 2500 سے زائد مسلمان مرتد ہوچکے ہیں،تیسر نمبر پر یوپی ہے جہاں گورکھپور ، بدایوں ، سدھارتھ نگر ،رامپور ،جونپور سمیت متعدد اضلاع اس کی زد میں ہیں اور تقریبا دو ہزار سے زائد لوگ مرتد ہوچکے ہیں،اس کے علاوہ آندھر اپردیش ، مہاراشٹرا ، کرناٹک ، گوا سمیت متعدد صوبوں میں بھی یہ فتنہ تیزی سے بڑھ رہاہے ۔
شکیل بن حنیف کون ؟:
شکیل بن حنیف، دربھنگہ، بہار کے موضع عثمان پور کا رہنے والا ایک شخص ہے، جس نے چند برس قبل، جب کہ وہ دہلی میں تھا، سب سے پہلے مہدی ہونے اور پھر مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور ساتھ ہی اپنے باطل دعوی کو رکیک تاویلات وتحریفات کے ذریعہ نصوص سے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ،ابتداء میں اس شخص نے دہلی کے مختلف محلوں میں اپنی مہدویت و مسیحیت کی تبلیغ کی، دہلی کے زمانہٴ قیام میں اس نے خاص کر نوجوان طبقے کو اپنا نشانہ بنایا جو دہلی کی مختلف تعلیم گاہوں میں زیر تعلیم تھا ؛ لیکن ہر جگہ سے اسے کچھ دنوں بعد ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ،اس کے باوجود عربی کی مشہور مثل لکل ساقطۃ لاقطۃ کے عین مطابق کچھ سادہ لوح مسلمان اس کے ہم نوا ہوگئے؛ مگر ساتھ ہی غیرت مند احباب نے جرئت و ہمت کے ساتھ اس کی مخالفت کی ،بالآخر اسے دہلی سے ہٹنے کا فیصلہ کرنا پڑا، اور اس نے اپنی تبلیغ کا رخ موڑ دیا اورمہاراشٹر کے ضلع اورنگ آباد میں مستقل سکونت اختیارکرلی،اور پھر اس کےکسی خلیفہ نے ایک پورا علاقہ خرید کر اس کے حوالے کردیا، جس میں وہ اور اس کے ”حواری“ رہتے ہیں۔
اس فتنہ کی دعوت اور اس کے داعیوں کا طریقہٴ کار:
اس سلسلہ میں محترم جناب الیاس نعمانی رقم طراز ہیں کہ :ان لوگوں کا طریقہٴ کار یہ ہے کہ یہ خفیہ طور پر کسی نوجوان سے رابطہ کرتے ہیں، یہ نوجوان عام طور پر کسی کالج یا یونیورسٹی کا ایسا طالب علم ہوتا ہے کہ جس کا کسی عالم، دینی جماعت یا دینی تنظیم سے کوئی رابطہ نہ ہو، یہ پہلے اس سے عام دینی گفتگوئیں کرتے ہیں، اور چونکہ اس فتنہ کے تمام داعی اپنا حلیہ ایسا بنائے پھرتے ہیں کہ ان کو دیکھ کر ہر شخص یہی محسوس کرے کہ یہ متبعِ سنت قسم کے دین دار نوجوان ہیں،مثلا لمبی داڑھیاں رکھتے ہیں، لباس میں لمبے کرتے اور اونچی شلوار کا اہتمام کرتے ہیں، گفتگو میں بار بار الحمد للہ، سبحان اللہ، ماشاء اللہ، ان شاء اللہ اور ان جیسے دیگر الفاظ کی کثرت رکھتے ہیں؛ اس لیے وہ سادہ لوح اور ناواقف نوجوان ان سے بہت زیادہ متاثر ہوجاتا ہے، اور انہیں بہت دین دار سمجھنے لگتا ہے،اپنی بابت یہ تاثر قائم کرنے کے بعد یہ اپنے مخاطب سے علاماتِ قیامت کا تذکرہ کرتے ہیں اور ان کا مصداق نئے انکشافات، نئی ایجادات اور معاصر دنیا کے بعض حالات وواقعات کو قرار دیتے ہیں، اس درمیان یہ بہت ہوشیاری کے ساتھ یہ کوشش بھی کرتے ہیں کہ اپنے مخاطب کے ذہن میں علماء کی تصویر ایسی بنادیں کہ وہ ان کی کسی بات کی تصدیق علماء سے کرانے کی ضرورت نہ سمجھے، مثلا یہ کہتے ہیں کہ علماء کو ان علامات قیامت کا کچھ علم نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ انھیں زمانہٴ طالب علمی میں یہ حدیثیں پڑھائی ہی نہیں جاتیں، انھیں بس حدیث کی کتابوں کے چند منتخب ابواب پڑھا دیے جاتے ہیں، جن کا تعلق نماز، روزہ جیسے مسائل سے ہوتا ہے؛ تاکہ یہ کسی مسجد کے امام یا کسی مدرسہ کے مدرس بن سکیں۔ انکا مخاطب جو اب تک ان کے دین دار ہونے کا تاثر رکھتا ہے، یہ باتیں سن کر ان کو دین کا ایسا ماہر بھی سمجھنے لگتا ہے کہ جو علما سے زیادہ دین کو جاننے والا ہے، اور اب اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ یہ اسے جو بتادیں وہ اس پر یقین کرلے۔
اس کے بعد انھیں باور کراتے ہیں کہ دجال کی آمد ہوچکی ہے، وہ امریکا وفرانس کو دجال بتاتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ رسول اللہ … نے ایک حدیث میں جو یہ بتایا تھا کہ دجال کی پیشانی پر ’کافر‘ لکھا ہوگا اس سے آپ … کا اشارہ یہی دونوں ممالک تھے؛ اس لیے کہ جب ان دونوں کا نام ایک ساتھ لکھا جائے (امریکا فرانس) تو بیچ میں کافر لکھا ہواہوتا ہے، دجال کی ایک آنکھ ہونے کا مصداق وہ سیٹلائٹ کو قرار دیتے ہیں، بعض روایات میں دجال کے بارے میں ہے کہ وہ ایک گدھا ہوگا، یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد فائٹر پلین ہے، اور اسی طرح کی کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔
دجال کی بابت اپنی ایسی گفتگو کے بعد داعیانِ شکیلیت یہ کہتے ہیں کہ دجال کی آمد کے بعد مہدی ومسیح کو آنا تھا، اور وہ آچکے ہیں، اور اب نجات کا بس یہی ایک ذریعہ ہے کہ ہم ان کے ہاتھ پر بیعت کرلیں، اگر مخاطب بہت سادہ لوح ہوتا ہے اور یہ خواہش ظاہر کرتا ہے کہ مجھے بھی اس ’سفینہٴ نجات‘ میں سوار ہونا ہے تو اسے (عام طور پر) پہلے صوبائی امیرکے پاس بھیجا جاتا ہے، مثلاً یوپی میں بنارس بھیج دیا جاتا ہے، جہاں بنارس ہندو یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک نوجوان سے اس کی ملاقات ہوتی ہے،یہ صاحب یوپی میں اس جھوٹے مہدی ومسیح کے مشن کے امیربتائے جاتے ہیں، اور پھر کچھ دنوں کے بعد اورنگ آباد بھیج کر شکیل کے ہاتھ پر بیعت کرادی جاتی ہے؛ لیکن اس بات کا بہت اہتمام کیا جاتا ہے کہ بیعت سے پہلے اس جھوٹے مہدی ومسیح کا اصلی نام سامنے نہ آئے، یہاں تک کہ لوگوں کے دریافت کرنے پر بھی یہ لوگ اس کا اصلی نام نہیں بتاتے ہیں؛تاکہ اگر یہ شخص کہیں کسی سے تذکرہ کر بھی دے تو بھی لوگوں کو معلوم نہ ہوپائے کہ یہ کس ’مسیح‘ کی دعوت دی جارہی ہے۔(ماہ نامہ دارالعلوم :مارچ2016)
مہدی علیہ الرضوان کا ظہور:
آنحضرتﷺ کی احادیث کی روشنی میں سیدنا مہدی علیہ الرضوان کے ظہور کی مندرجہ ذیل شناخت بیان کی گئی ہیں:
حضرت فاطمہؓ کی اولاد سے ہوں گے۔
مدینہ طیبہ کے اندر پیدا ہوں گے۔
والد کا نام عبداللہ ہوگا۔
ان کا اپنا نام محمد ہوگا اور لقب مہدی۔
چالیس سال کی عمر میں ان کو مکہ مکرمہ حرم کعبہ میں شام کے چالیس ابدالوں کی جماعت پہچانے گی۔
وہ کئی لڑائیوں میں مسلمان فوجوں کی قیادت کریں گے۔
شام جامع دمشق میں پہنچیں گے، تو وہاں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد پہلی نماز حضرت مہدی علیہ الرضوان کے پیچھے ادا کریں گے۔
حضرت مہدی علیہ الرضوان کی کل عمر ۴۹ سال ہوگی، چالیس سال بعد خلیفہ بنیں گے ، سات سال خلیفہ رہیں گے، دو سال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نیابت میں رہیں گے، ۴۹ سال کی عمر میں وفات پائیں گے۔
’’ثم یموت ویصلی علیہ المسلمون‘‘ (مشکوٰۃ:۴۱۷)
پھر ان کی وفات ہوگی اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کریں گے۔ تدفین کے مقام کے متعلق احادیث میں صراحت نہیں۔ البتہ بعض حضرات نے بیت المقدس میں تدفین لکھی ہے۔(الخلیفۃ المہدی فی الاحادیث الصحیحہ)
حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا نزول:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ رب العزت کے وہ جلیل القدر پیغمبر و رسول ہیں۔ جن کی رفع سے پہلی پوری زندگی، زہد و انکساری، مسکنت کی زندگی ہے۔
یہودی ان کے قتل کے درپے ہوئے اﷲتعالیٰ نے یہودیوں کے ظالم ہاتھوںسے آپ کو بچاکر آسمانوں پر زندہ اٹھالیا۔
قیامت کے قریب دو فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے ہوئے نازل ہوں گے۔
دو زردرنگ کی چادریں پہن رکھی ہوں گی۔
دمشق کی مسجد کے مشرقی سفید مینار پر نازل ہوں گے۔
پہلی نماز کے علاوہ تمام نمازوں میں امامت کرائیں گے۔
حاکم عادل ہوں گے، پوری دنیا میں اسلام پھیلائیں گے۔
دجال کو مقام لد پر (جو اس وقت اسرائیل کی فضائیہ کا ایئربیس ہے) قتل کریں گے۔
نزول کے بعد پینتالیس سال قیام کریں گے۔
مدینہ طیبہ میں فوت ہوں گے ،رحمت عالمﷺ ، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عمر فاروقؓ کے ساتھ روضہ اطہر میں دفن کئے جائیں گے۔ جہاں آج بھی چوتھی قبر کی جگہ ہے۔ ’’فیکون قبرہ رابعاً‘‘ (درمنشور بحوالہ تاریخ البخاری)
دجال کا خروج:
دجال …اسلامی تعلیمات اور احادیث کی روشنی میں شخص (متعین) کا نام ہے؛ جس کی فتنہ پردازیوں سے تمام انبیاء علیہم السلام اپنی امتوں کو ڈراتے آئے۔ گویا دجال ایک ایسا خطرناک فتنہ پرور ہوگا؛جس کی خوفناک خدا دشمنی پر تمام انبیاء علیہم السلام کا اجماع ہے۔
وہ عراق و شام کے درمیانی راستہ سے خروج کرے گا۔
تمام دنیا کو فتنہ و فساد میں مبتلا کردے گا۔
خدائی کا دعویٰ کرے گا۔
ممسوح العین ہوگا، یعنی ایک آنکھ چٹیل ہوگی (کانا ہوگا)۔
مکہ مدینہ جانے کا ارادہ کرے گا۔ حرمین کی حفاظت پر ماموراﷲتعالیٰ کے فرشتے اس کا منہ موڑ دیں گے۔ وہ مکہ، مدینہ میں داخل نہیں ہوسکے گا۔
اس کے متبعین زیادہ تر یہودی ہوں گے۔
ستر ہزار یہودیوں کی جماعت اس کی فوج میں شامل ہوگی۔
مقام لد پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوگا۔
وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حربہ (ہتھیار) سے قتل ہوگا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت مہدی علیہ الرضوان کی قریباً ایک سو اسی علامات آنحضرتﷺ سے منقول ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مہدی علیہ الرضوان کی تشریف آوری تواتر سے ثابت ہے۔
کتاب وسنت سے ماخوذ ان تفصیلات اور عقیدے کی ضروری معلومات سے شکیل بن حنیف کا موازنہ آسان ہوجائے گا۔
علماء امت کی ذمہ داریاں :
فتنۂ شکیل بن حنیف کی سرکوبی کے حوالے سے جنوبی ہند کی معروف علمی شخصیت ،ترجمان اہل سنت حضرت مولانا محمد عبدالقوی صاحب مدظلہ، شیخ الحدیث ومہتمم ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد کی تحریر سے یہ چشم کشا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
علماء دین اور ائمہ مساجد اور نظماء مدارس ! آپ دینِ اسلام اور مسلمانوں کے عقیدہ وایمان کی حفاظت پر مامور ہیں ، آپ کا یہ منصب ِ جلیل اپنی جلالت کے مطابق احساس اور جہد وعمل کا متقاضی ہے ، علاقے میں کسی فتنے کی موجودگی اور کسی ایک مسلمان کے بھی متاثر ہونے کی خبر آپ کی نیند اُڑانے اور بھوک وپیاس مٹا دینے کے لئے کافی ہوجانی چاہیئے ؛ اسلام کے خلاف اٹھنے والا ہر فتنہ اور اہل سنت والجماعت کے عقائد ِ حقہ کی مخالفت کرنے والا ہر فرقہ بستیوں کو جلا کربھسم کردنیے والی آگ اور آبادیوں کو مٹا کر رکھ دینے والے سیلاب سے زیادہ خطر ناک ہے؛ علماء کرام کو اطراف واکناف اور گرد وپیش کے حالات پر بہت گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے ، فتنہ کو دیکھنا تو بہت دو رکی بات ہے کہ اس کی بو سونگھتے او ربھنک لگتے ہی متیقظ وبیدار ہو کر اور قوت ِ ایمانی وغیر ت ِ محمدی کا اسلحہ لے کر اٹھ کھڑے ہونا چاہئیے ؛ علماء کی غیرت کے سامنے الحمد للہ تعالیٰ آج تک کسی فتنے کو جمنے کا جگر نہ ہوا ہے اور نہ ان شاء اللہ آئندہ ہوگا ۔
علماء کرام !احقا ق ِ حق اور ابطال ِ باطل کے فریضے کو ادا کرنے ، ملت ِ اسلامیہ کو قزّاقانِ دین ودیانت کی لوٹ مار سے بچانے اور اہل سنت والجماعت کے مقابلے میں سر اٹھانے والے ہر مدعی کا مغرور سر جھکانے اور مکروہ چہرہ دکھانے کے لئے سب سےزیادہ ضرورت جن چیزوں کی ہے وہ تین ہیں؛ ۱) علم صحیح اور اس کی تازگی ، ۲) عمل صالح کے ذریعہ باطن کی پختگی وتابانی ، ۳) آپس کا اتحاد ویک جہتی ؛ پہلی صفت کے حصول کے لئے کتبِ عقائد اور ردِّ فرق کا مطالعہ کیجئے ، دوسری صفت کے لیئے اکابر علماء دیوبند کی سوانح عمریاں دیکھئے ، تیسری صفت کے لئے کسی ولیِٔ کامل کی رہنمائی میں قلب کی صفائی کا انتظام کیجئے ، اس لئے کہ صفائے قلب کے بغیر اتحاد لفظ وبیان تک تو ہوسکتا ہے قلب وجان میں نہیں اتر سکتا اور لفظی اتحاد کا ہونا نہ ہونا دونوں برابر ہیں بلکہ اور مضر ہے ۔
علماءِ اسلام اور خُدامِ مسلمین ! جہاں تک شکیل بن حنیف کے اس تازہ اور پُر اسرار فتنے کا تعلق ہے تو اطلاعات کے مطابق یہ تیزی سے بڑھتا جارہا ہے ، مختلف علاقوں سے خبریں آرہی ہیں ،چوں کہ اس فتنے کے داعی ظاہری طور پر متشرع ومسنون حُلیئے بنائے ہوئے ہیں اس لئے عام مسلمان فریب میں مبتلا ہورہے ہیں ، خصوصیت کے ساتھ دعوت وتبلیغ سے وابستہ بھولے بھالے اور علم وعلماء سے دوررہنے والے نوجوانوں پر یہ لوگ حملے کرکے دامِ تزویر میں مبتلا کر تے جارہے ہیں ، ایسے حالات میں نہایت بیدار مغزی اور حکمت ِ عملی کے ساتھ اس فتنے کا تعاقُب کرنے کی ضرورت ہے ، اس اعتبارسے بھی اس فتنے کی سنگینی بڑھ جاتی ہے کہ شکیل سے بیعت ہوجانے کے بعدیہ لوگ کسی عالم سے ملنے اور بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اور کچھ ایسی کیفیت ہوجاتی ہےکہ سحر وجنون کا شبہ ہونے لگتا ہے، اللہ ہی ملت ِ اسلامیہ کی حفاظت فرمائے ۔آمین
آخری بات یہ کہ چودہ سو سالہ اسلامی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جب تک عوام الناس اپنے کو علماء ومشائخ کا محتاج سمجھتے رہے اور ان کے تابع رہ کر زندگی گذارتے رہے ان کے دین پر کوئی آفت نہ آسکی اور وہ کسی الحاد وزندقہ کے شکار نہ ہوسکے ؛ اس کے برخلاف جب جب انہوں نے علماء ربانیین کی سرپرستی اور راہنمائی سے اپنے کو آزاد سمجھنے کا جرم ِ عظیم کیا کائنات کا ہر فتنہ ان کے گھر کا مہمان ہوگیا؛ اس لئے تمام مسلمانوں کو چاہئیے کہ وہ علم کی عظمت واہمیت کو سمجھیں اور اس کے حصول کے لئے علماء کرام سے بھر پور استفادہ کریں ، قرآن کریم صحیح پڑھنا سیکھیں اور پورے قرآن کی تلاوت کا اہتمام کریں ، نیز عقیدہ سے لے کر اخلاق تک دین کے تمام شعبوں میں بقدر ِ ضرورت معلومات حاصل کرتے رہیں ، علماء کے علاوہ کسی بھی شخص کی بات نہ سنیں اور نہ اس کا دیا ہوالٹریچر پڑھیں ، کسی شخص کی باتوں اور سرگرمیوں پر ذرا بھی شبہ ہو تو علماء کرام کو مطلع کریں ۔(ماہ نامہ اشرف الجرائد)
المختصر:آج کا دور دو بدو مناظروں اور ہزاروں کے ازدحام میں دلیل وحجت کا نہیں ہے ،آج ہر تحریک زمین دوز ہو چکی ہے اور بے آواز وہ سب کچھ کہہ دیا جاتا ہے جس کو کہنے کے لئے پہلے بہت بلند آواز آلہ جات کا سہارا لینا پڑتا تھا ،آج خاموشیوں میں اس غضب کا شور ہے کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی پڑ رہی اور بند کمروں کی تحریک بغیر کسی شور ہنگامہ کے گھر گھر پہنچ رہی ہے ۔بولنے والے کا چہرہ نظر آتا ہے ،نہ کہنے والے کی زبان ! مگریہ کیسا تلا طم ہے کہ فضا در فضا زہر پھیلا ہوا ہے اور پوری فضا زہر سے موسوم ہو ئی جا رہی ہے ؟ اب ایسا نہیں ہے کہ گھر کے دروازے بند ہوں گے تو سلامتی ہو گی ،بلکہ اب تو یہ حال ہے کہ گھر کا دروازہ قفل در قفل کر دیجئے جب بھی اندر دشمن اپنے زہریلے ہتھیار کے ساتھ موجود ملے گا۔