لاہور(ایجنسیاں)
صدر ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے سے پہلے کچھ اہم مسلم ممالک سے مشورہ کیا تھا جسکے بعد انہوں نے اپنے اس فیصلے کا اعلان کیا۔یہ دعویٰ پاکستان کے ایک سینئر صحافی ضیاءشاہد نے اپنے پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے اسرائیلی ٹی وی کے حوالے سے ان ممالک کے نام بھی بتائے جن میںسعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر کا نام تھا تاہم فوری طور پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
پاکستانی اخبار روزنامہ پاکستان نے لکھاہے کہ ضیاشاہد نے کہا کہ سیدہ عابدہ حسین نے ہمارے پروگرام میں کہا تھا امریکہ سے اپنے مطالبات منوانے کا صرف ایک طریقہ ہے وہ یہ کہ اسرائیل پر دباﺅ ڈالا جائے یورپ اور دیگر ممالک تو اس فیصلے کے خلاف ہیں،ان کے خیال میں سب سے بڑا ہتھیار تیل کی فراہمی معطل کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ہر قسم کی تجارت اس کے ساتھ بند کر دی جائے تو امریکہ ایک گھنٹے میں درست ہو جائے گا۔ دوسرے سرتاج عزیز نے کہا ہم اس پر مضبوط لائحہ عمل اختیار کریں گے تاکہ امریکہ کو مجبور کیا جا سکے، میں نے پہلے ہی کہا کہ زبانی جمع خرچ سے اب کچھ نہیں بنے گا۔ جماعت اسلامی کے رہنما کا خیال تھا کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس اعلان سے قبل اس نے مسلمان ممالک سے مشاورت کی ہے۔ اس نقطے پر مجھے حیرت بھی ہوئی۔ جماعت اسلامی کے رہنما عبدالعزیز غفار سے بھی دوبارہ پوچھا۔ اسرائیل کے چینل 10کی نشریات میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے جن مسلمان ممالک کا ذکر کیا ہے ان میں سے پہلے سعودی عرب کا نام آتا ہے، محمد بن سلمان کچھ عرصہ سے اسرائیل کے ساتھ خفیہ طور پر روابط رکھے ہوئے ہیں بلکہ اپنی بادشاہت کو مستحکم کرنے کےلئے کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ درپردہ مدد حاصل کر سکیں گے۔ محمد بن سلمان کے علاوہ متحدہ عرب امارات یعنی ابودبئی کا بھی نام لیا جا رہا ہے کہ یہ بھی مشاورت کیے جانے والے مسلم ممالک میں شامل ہے تیسرے نمبر پر مصر کا نام اسی چینل نے لیا ہے۔ مصری صدر السیسی اس قدر امریکہ کے مرہون منت ہیں کہ مصر کے صدر کو قید کیا گیا انہیں سزا سنائی گئی۔ امریکہ نے جمہوریت کا ساتھ دینے کی بجائے الٹا السیسی کو بھرپور مالی امداد فراہم کی۔ جنرل السیسی نے ریاست کی طرف سے اپنا سب سے بڑا اعزاز ”ٹرمپ“ کو پیش کیا ہے۔ 6 روزہ مصری جنگ کے سربراہ صدر ناصر تھے۔ انہوں نے نہر سوئیز عبور کر کے اسرائیل پر حملہ کیا تھا لیکن زبردست شکست کھائی۔ بعد ازاں انہوں نے اسرائیل سے صلح کی اور صدر ناصر نے ڈرامہ کرتے ہوئے استعفیٰ بھی دے دیا۔ وہ بھی سیاسی آمر تھے جو فوج کی مدد سے برسراقتدار آئے تھے۔ جنرل نجیب کو رخصت کرنے کے بعد کرنل ناصر سیاہ اور سفید کے مالک بن بیٹھے۔ شکست کے بعد مصر نے اسرائیل کو تسلیم کیا اور آج تک اس کے بہترین تعلقات استوار ہیں۔ اس طرح مصر پہلا اسلامی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ امریکہ نے مصر کو قبضہ میں رکھنے کےلئے بے پناہ مالی امداد دی۔ طیب اردگان اگرچہ دنیا میں ممتاز مقام ضرور رکھتے ہیں لیکن ترکی نے بہت عرصہ سے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔ ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ وہ کوئی اہم کردار ادا کر سکے گا۔ روس اور چین، فلسطینیوں کی حمایت کےلئے نہیں بلکہ امریکہ کی مخالفت پر سامنے آ سکتے ہیں اسے یونی لیٹرل کہتے ہیں۔ یقیناً یہ دونوں ممالک امریکہ کو کلین چٹ نہیں دینے دیں گے اور دونوں مدافعت کریں گے لیکن کسی حد تک۔ اگر امت مسلمہ جن کا یہ اصل میں بچہ ہے۔ اگر وہ اپنی بزدلی اپنے مقاصد کےلئے سامنے نہیں آئیں گے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ پاکستانی حکومت ماضی کی طرح بھاگ دوڑ کر کے اگر اسلامی ممالک کو اکٹھا کر دیتی ہے جیسا کہ بھٹو دور میں اور کچھ ضیائ الحق کے دور میں ہوا تھا۔ پاکستان کی معاشی قوت بہت زیادہ کمزور ہے۔ سالانہ بجٹ کےلئے 1/3 حصہ ہمیں آئی ایم ایف سے مانگنا پڑتا ہے۔ جب تک ہم خود کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نہیں نکال لیتے اس وقت تک ہم اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہو سکتے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ میں 1995ءمیں سفارتخانہ تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا قانون منظور ہوا تھا۔ سینٹ اور ایوان نمائندگان کی بھاری اکثریت نے اس کی منظوری دی تھی جس میں دونوں امریکی جماعتوں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ کے ارکان نے ووٹ دئیے تھے۔ اس وقت تمام مسلمان ممالک کو اس کا علم تھا مگر کسی نے احتجاج نہیں کیا۔ اس کے بعد یہ چوتھا امریکی صدر ہے جو ہر چھ ماہ بعد اس قانون پرعملدرآمد نہ کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔ صدر اس قسم کے استثنیٰ کے وقت قرار دیتا ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد قومی تقاضوں کے منافی ہے۔ یہ استثنیٰ گزشتہ بائیس برس سے دیا جا رہا ہے اور سب مسلمان ملکوں کو اس کا علم تھا مگر انہوں نے خاموشی اختیار کئے رکھی۔ صدر ٹرمپ نے اب اس قانون کے مطابق اعلان کیا ہے جو 1995ئ میں منظور ہوا اور جسے یروشلم ایمبیسی ایکٹ کا نام دیا گیا تھا۔
اصل خبر تک رسائی حاصل کرنے کیلئے یہاں کلک کریں





