محمد عرفان ندیم
اس کام کا آغاز قرون وسطیٰ میں ہواتھا، قرون وسطیٰ میں سارا یورپ پوپ اور کلیسا کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا تھا ۔کلیسا کو پطرس کا نائب سمجھا جاتا تھا اور پوپ کو شارح کے ساتھ شارع کے اختیارات بھی حاصل تھے ۔ بائبل کو پڑھنے اور سمجھنے کی اجازت نہیں تھی ، بائبل کا ترجمہ ممنوع ہوا ، رہبانیت پر زور دیا جانے لگا ، پادریوں کی آمریت قائم ہوئی ، عورت کو معاشرے میں منحوس سمجھا جانے لگا ، چرچ افراد کی نجی زندگی میں دخیل ہوا ، ہر علاقے کے عوام لے لیئے ضروری ہوا کہ وہ کم از کم سال میں ایک بار پادری کے سامنے حاضر ہو کر اپنے گناہوں کا اقرار کریں ، عورتوں کی آزادی اور تفریح پر حملے ہوئے ، عوام کو چرچ کے تسلط میں رکھنے کے لیئے خوفزدہ کیا جانے لگا ۔ عوام میں بد عنوانی اور توہمات بڑھ گئے ، لوگ ڈاکٹر کی بجائے پادریوں کے پا س جانے لگے ، دعائیں مانگتے ، فالیں نکلواتے اور تبرکات کی پوجا کرتے۔ رومی تہذیب میں جہاں سرکس ،حمام ، تالاب، فوارے ، کھیل کے میدان اور جمنازیم تھے اب کلیسا نے وہاں چرچ ، خانقاہیں اور مقبرے بنوا دیئے۔چرچ معاشرے پر حاوی ہوگیا ، پیدائش کے بعد بپتسمہ، شادی اور موت کے وقت پادری سے مذہبی رسومات اداکروائی جاتیں ۔ چرچ کی گھنٹی سے سونے اور جاگنے کے اوقات کا تعین ہوتا ، عوام کو ہر لمحے عیسائی ہو نے کا احساس دلا یا جاتا ، چوکیدار یہ آواز لگاتے ’’سونے والو اٹھو اور اپنے پیاروں کے لیئے مغفرت کی دعا کرو ‘‘ مغفرت نامے لکھوائے گئے جس میں پوپ نے اعلان کیا کہ جو جنت میں جانے چاہیں وہ اتنی رقم کے عوض مغفرت نامے لکھوا لیں ۔ جن کے آباء اجداد وفات پا گئے تھے ان کے ورثا کو خیال آیا تو وہ بھی مغفرت نامے لکھوانے پوپ کے پاس پہنچ گئے ۔ یہ ساری صورتحال صلیبی جنگوں تک جاری رہی ،صلیبی جنگوں کے نتیجے میں مشرق اور مغرب کا ملا پ ہوا تو اہل یورپ کونئے علوم وفنون کی ہو الگی ، دوسری طرف اندلس کی ترقی یافتہ تہذیب کے اثرات اٹلی اور سسلی کے راستے یورپ پہنچنا شروع ہوئے،چرچ او ر کلیسا کے ہاتھوں یرغمال عیسائی معاشرے نے جب اسلامی تہذیب کے روشن پہلوؤں کو دیکھا تب انہیں اپنے حقوق کا احساس ہوا،اب چرچ اور کلیسا کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں ،عیسائی دانشوراور ترقی پسند لوگ آگے بڑھے اور انہوں نے پاپائیت اور چرچ کی اجارہ داری کو چیلنج کر دیا ۔ یہاں سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا ،انہوں نے سوچا کہ پوپ اور کلیسا تورات اور انجیل کا سہار ا لے کر ہمارا استحصال کرتا آیا ہے آخر ہم خود تورات اور انجیل کیوں نہیں پڑھتے ، اس مقصد کے لیے جب تورات اور انجیل کا مطالعہ کیا گیا تو وہ مطمئن نہ ہوئے کہ یہ تحریف شدہ کتابیں ہیں ، اب عیسائیت کی اصل تعلیمات اور تورات وانجیل کے اصل نسخوں کی تلاش شروع ہوئی ، عیسائی دانشوروں اور محققین نے دنیا بھر کی لائبریریوں کو چھان مارا لیکن انہیں اصل تورات نہ ملی،اس تحقیق اور جستجو کے دوران وہ علوم وفنون کے ایک نئے خزانے سے متعارف ہوئے،یہ خزانہ مخطوطات کا خزانہ تھا، اسلامی عہد میں لکھے گئے یہ لاکھوں مخطوطات اس وقت کی لائیبریریوں میں محفوظ تھے ، تیرھویں اور چودھویں صدی میں جب اسلامی سلطنت کمزور ہوئی اور یورپی حملہ آوروں نے اس علاقوں پر قبضہ کیا تو یہ سارے مخطوطات ان کے ہاتھوں میں چلے گئے ،ان مخطوطات کی تعداد ہزاروں نہیں لاکھوں میں تھی اور آج بھی یہ مخطوطات یورپ بھر کی لائبریریوں میں موجود ہیں،عیسائی دانشوروں اور محققین کی یہ دریافت غیر شعوری تھی لیکن بہر حال انہیں ایک نیا خزانہ مل گیا تھا۔ یہ مخطوطات منظر عام پر آئے تو مستشرقین کی ایک نئی جماعت پیدا ہوئی ،انہوں عربی زبان سیکھی اور ان مخطوطات پر کام شروع کر دیا ،انہوں نے اپنی مرضی کا مواد منتخب کیا اور اس پر ریسرچ شروع کردی،وہاں سے پھر یہ مخطوطات مسلم دانشوروں اور تحقیق کاروں کی توجہ کا مرکز بنے اور آج ان لاکھوں مخطوطات میں سے کچھ مدون ہو کر منظر عام پر آ چکے ہیں ۔
مخطوطہ سے مراد مختلف علوم وفنون پر مشتمل وہ پرانی کتب اور ان کے نسخے ہیں جو مصنف نے خود اپنے ہاتھ سے لکھی یا بعد میں انہیں کاتبین سے لکھوایا گیا ۔اسلامی تہذیب کے ابتدائی دور میں جب پریس اور چھاپہ خانہ ایجاد نہیں ہوا تھا اس وقت کتابیں اسی طرح ہاتھ سے لکھی اورلکھوائی جاتی تھیں آج ایسی تمام کتب امھات کا درجہ رکھتی ہیں اور انہیں تحقیقی عمل میں بنیادی مصادر ومراجع کا درجہ حاصل ہے۔ یہ مخطوطات چمڑے ،جانوروں کی کھالوں ، درختوں کے پتوں اور دیگر دھاتوں پر لکھے جاتے تھے ۔کاتبین وحی سے شروع ہونے والا تحریر کا فن دوسری اور تیسری صد ی میں اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا ،دوسری اور تیسری صدی ہجری میں تفسیر ،حدیث اور سیر مغازی پر بیشمار مخطوطے لکھے گئے۔ تیسری صدی ہجری میں وراقین کا طبقہ وجود میںآیا ،یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے تحریر و کتابت، کاغذ سازی ،جلد بندی، کتابوں کی تصحیح اور اسٹیشنری کی مارکیٹیں قائم کیں اور انہیں روز گار کا ذریعہ بنایا ،یہ لوگ بیک وقت کاتب، پبلشر اور ناشر ہوا کرتے تھے ۔بغداد اور قرطبہ میں ایسے بڑے بڑے بازار قائم تھے جہاں کتب تحریر کی جاتی تھیں ،وراقین کی باقاعدہ دکانیں اور دفاتر ہوا کرتے تھے ، یہ ایسے ہی تھا جیسے آج ہمارے ہر بڑے شہر میں اردو بازار قائم ہیں،صرف بغداد میں اسٹیشنری کی سو سے زائد دکانیں قائم تھیں ۔حکم ثانی کے دور میں قرطبہ علم کی عالمی مارکیٹ بن چکا تھا ، دنیا بھر سے سیاح ریسرچ،تحقیق اور کتابیں خریدنے کے لیے قرطبہ آیاکرتے تھے ۔قرطبہ کی مارکیٹ میں بیس ہزار سے زائد مکتبے تھے ،یہاں
صرف کتابیں فروخت نہیں ہوتی تھیں بلکہ ماہر خطاط بیٹھتے تھے اور کتابوں کی نقول تیار ہوتی تھیں ،ان خطاطوں میں خواتین بھی شامل تھیں اور قرطبہ کے صرف ایک محلے میں 170خواتین قرآن لکھنے میں مصروف ہوا کرتی تھیں ۔حکم ثانی کی لائیبریری اپنے دور کی سب سے بڑی لائیبریری سمجھی جاتی تھی جس میں مختلف علوم و فنون پر مشتمل چھ لاکھ کتب موجود تھیں ۔اسلامی تہذیب کے ابتداء میں مسلمانوں نے ایک طرف یونانی علوم کو زندہ کیا اور ان کی تہذیب و تدوین کر کے انہیں قابل استفادہ بنایا اور دوسری طرف دنیا کو نئے علوم و معارف سے متعارف کروایا،وہ علوم جن سے مسلمانوں نے دنیا کو پہلی بار متعارف کروایا ان میں قرآن و علوم قرآن ،حدیث و علوم حدیث ، فقہ اجتہاد ، فلسفہ و تصوف ، تاریخ و سیرت، علم الکلام ، لسانیات اور طبیعی علوم تھے ،مسلمانوں نے ان علوم و فنون پر مشتمل ہزاروں لاکھوں کتب تحریر کیں ، مخطوطات لکھے ،جب مسلم ریاستوں پر زوال آیا ،بغداد کو ہلاکو خان اور اسپین کو فرڈیننڈ اور ازابیلا نے تبا ہ و برباد کیاتو یہ سارا علمی خزانہ یورپ کی دسترس میں چلا گیا ،جن کتب کووہ لوگ ساتھ لے جا سکتے تھے ساتھ لے گئے اور باقیوں کو جلا کر اور دیگر طریقوں سے ختم کر دیا گیا۔ بعد میں یہی کتب سینکڑوں سالوں تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہیں۔ اکثر حملہ آور یورپ سے آئے تھے اس لیئے آج بھی یورپ کی لائیبریریوں میں ایسی لاکھوں کتب اور مخطوطات محفوظ ہیں ۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مخطوطات کی تدوین اور ایڈیٹنگ کر کے انہیں منصہ شہود پر لایا جائے۔یورپ کی کس لائیبریری میں کتنے مخطوطے پڑے ہیں اس کی تفصیل اگلے کالم میں ۔(ملت ٹائمز)
(کالم نگار پڑوسی ملک پاکستان کے نوجوان صحافی اور تجزیہ نگار ہیں )