‎ اللہ حافظ اور خُدا حافظ کا تعلق مذہب سے ہے یا تہذیب سے ؟

عامر کاکا زئی

عربوں کے لیے اللہ لفظ نیا نہیں تھا۔ یہ یہودیوں سے آیا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ﷲ عربی نام
تھا اس پروردگار کا جس نے ہم سب کو پیدا کیا۔ لفظ ﷲ عبرانی سے آیا ہوا ہے، یہ نام ایل یلہ
(Al ilah)
انگلش میں اس کا مطلب ہے The God یا عربی میں ﷲ کہتے ہیں
‎عبرانی میں ایلوہم (elohim) کہتے ہے۔

لفظ ﷲ عرب میں اسلام کے آنے سے پہلے ہی سے موجود تھا۔ عرب کے تقریباً تمام مذاہب اُس زات کو ﷲ ہی کہتے تھے۔ تقریباٍ دس ملین عرب عیسائ ابھی تک لفظ ﷲ ہی استمال کرتے ہیں۔
قران میں رب نے اپنے لیے اللہ کا لفظ اس لیے کہا کہ یہ لفظ، پہلے ہی سے عربی زبان میں موجود تھا اور اہلِ عرب پہلے ہی سے یہ لفظ استعمال کر ریے تھے۔ اس لیے جب رسول پاک ﷺ نے رب کے لیے یہ لفظ استعمال کیا تو عربوں کے لیے یہ لفظ نامانوس نہیں تھا۔
مختلف قومیں مختلف زبانوں میں یہ لفظ استمال کرتی رہی ہیں اور کرتی ہیں
باپسٹ، بہائی ، مالٹا ، ملیشیا اور انڈونیشیا کے عیسائ بھی لفظ ﷲ استمال کرتے ہیں۔
لفظ ﷲ اسلام سے پہلے کے لوگ بھی استعمال کرتے تھے اور اس کا ثبوت ہے ھمارے پیارے رسولﷺ کے والد صاحب کا نام عبدللہ، جس کا مطلب ہے، خدا کا بندہ۔ قریش قبیلہ ﷲ کو اپنے تمام بتوں سے افضل سمجھتا تھا۔
آب آتے ہیں اپنے مُدّعا پر کہ لفظ ﷲ حافظ کہنا چاہیے یا خدا حافظ۔ انڈیا میں پروردگار کے لیے لفظ خدا، فارسی زبان سے، مغلوں کے ساتھ آیا۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ ہماری دوسری علاقائ زبانیں کیا کہتی ہیں، پروانگی کے وقت۔ پشتو میں ‘پہ خداۓ پیامان ‘ کہتے ہیں اور فارسی میں پامانِ خدا۔اسی طرح پنجابی میں رب راکھا، سندھی میں ﷲ واہی، بنگالی میں ابر دیکھا ہوبی یا خدا حافظ ہی کہتے ہے۔
ان تمام لفظوں کا تعلق تہذیب، سوسائٹی، کلچر سے ہے نہ کہ مذہب سے۔ انڈو پاک میں یہ سب کچھ صرف ایک ملک اس کی زبان اور اس سے جُڑے ہوے ایک مکتبہ فکر سے نفرت کے اظہار میں کیا جا رہا ہے جو کہ غلط ہے۔ اس ارکھا میں اپنی شریں زبان اردو کو تو بد وضع نہ کریں اور اگر اپ لوگ واقعی میں مذہب کے مطابق کہنا چاہتے ہیں تو حریم لفظ ہے۔ السلام علیکم (تم پر سلامتی ہو) آتے ہوۓ بھی اور جاتے ہوۓ بھی، مگر کم از کم اردو میں غلطِ عام کو عام مت کیجیے۔ یہ بھی ملحوظِ خاطر رکھیے کہ عربی زبان میں آگیا لیتے وقت یہ جملہ اللہ حافظ نہیں بولا جاتا بلکہ السلام علیکم بولا جاتا ہے، کیونکہ اس جملے اللہ حافظ کا عربی زبان میں کوئ وجود نہیں ہے۔

ہمیں قطاً کسی بھی لفظ کو اردو میں شامل کرنے پر اعتراض نہیں، مگر اعتراض ہے تو صرف اس بات پر کہ ایک مکتبِ فکر اور ایک ملک کی ضد میں اپ اپنی زبان، اپنی تہذیب کو چھوڑ کر ایک دوسری تہذیب کی خاطر اپنی ہی زبان کے دشمن ہو گۓ ہیں۔ اور اگر ضد میں نہیں ہے تو اردو زبان کے لیے یہ لفظ ﷲ حافظ غلط عام ہے۔

ہمیں یہ بات بھی ملحوظ خاص رکھنا پڑے گا کہ جو ہستی ہماری پروردگار ہے کیا اس کو ہم کسی ایسے نام سے پکار سکتے ہیں، جس سے اس کی بے ادبی ہوتی ہو۔ اس کا سادہ سا جواب ہے کہ نہیں۔ اب لفظ “خدا” پکارنے سے کیا ہمارے پروردگار کی بے عزتی ہوتی ہے؟ اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔ لفظ ” خدا “ بھی عربی زبان کے اور ناموں کی طرح ایک خوبصورت نام ہے۔ بس فرق اتنا ہے کہ وہ الفاظ عربی میں ہیں اور یہ فارسی میں۔
بدقسمتی سے میڈیا نے، خاص کر ھم ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے ڈراموں، جن میں عمیرہ احمد کے لکھے ہوے ڈرامے پیش پیش ہیں، نے اس غلطِ عام کو مشہور کیا۔ اور عام لوگ جانے انجانے میں اس رو میں بہتے چلے گۓ۔ اس کے ساتھ ساتھ تبلیغی جماعتوں نے بھی اہم کردار انجام دیا، اردو زبان میں فرقہ واریت کو داخل کرنے میں۔ کچھ لوگ خدا کہنے کو شرک سے بھی تشبّہ دیتے ہیں، ان کے لیے عرض ہے کہ جب بزرگانِ دین کے مزاروں پر جانے میں کوئی برائی نہیں تو خدا حافظ کہنے میں کیا قباحت ہے؟ کسی بھی زبان کا تہزیب و تمدن اور ثقافت کے ساتھ تعلق ہوتا ہے نہ کہ مذہب سے۔
ایک اور بات بھی سمجھ میں نہیں اتی کہ اس ملک، اس مکتبہ فکر اور اس سے جڑی ہر چیز سے زیادہ ضد اس علاقے کو ہے جو صوفی لوگوں کی سرزمین ہے۔ صوفی لوگوں میں صرف محبت ہوتی ہے ہر ایک سے، مگر ایک ملک سے ناپسندیدگی کی وجہ سے وہ لفظ خدا سے بھی نفرت کر بیٹھے ہیں۔ اب لفظ خدا کی طرح مزاروں پر جانا اور صوفیوں سے محبت بھی تو اسی ملک سے ھمیں ورثے میں ملا ہے یہ۔

ایک اور بات بھی سمجھ میں نہیں اتی کہ اس ملک، اس مکتبہ فکر اور اس سے جڑی ہر چیز سے زیادہ ضد اس علاقے کو ہے جو صوفی لوگوں کی سرزمین ہے۔ صوفی لوگوں میں صرف محبت ہوتی ہے ہر ایک سے، مگر ایک ملک سے ناپسندیدگی کی وجہ سے وہ لفظ خدا سے بھی نفرت کر بیٹھے ہیں۔ اب لفظ خدا کی طرح مزاروں پر جانا اور صوفیوں سے محبت بھی تو اسی ملک سے ھمیں ورثے میں ملا ہے۔ یہ سب کچھ بھی ترک مغل ہی لاۓ تھے۔ اب اگر ایک اور ملک کی محبت میں صرف ﷲ حافظ پر ہی اصرار ہے تو پھر وہ ملک تو صوفیوں کو کافر اور مزاروں پر جانے کو بھی کفر سمجھتا ہے ، کیا اپ اپنا علاقائ تشخص چھوڑ دیں گے اور صوفیوں کے وطن کو محبت کی بجاۓ نفرت کا نشان بنایں گے؟ اب جو بھی عرب کریں اپنی تہزیب اور کلچر کے نام پر تو کیا وہ سب ہمارے مزہب کا حصہ بن جاۓ گا؟ کیا ہم سب وہ کر سکتے ہیں نقالی میں؟ اخر میں ہم اس تحریر کو اپنے پیارے دوست عدنان خان کاکڑ صاحب کے اس لکھے ہوۓ جملے پر ختم کریں گے کہ اگر پچھلے ہزار سال میں خدا حافظ کہنے سے اسلام خطرے میں نہیں پڑا تو آگے بھی محفوظ رہے گا۔ تو اب آپ جب بھی ازنِ رخصت لیں تو کہیں ‎السلام علیکم، رب رکھا، خدا حافظ۔، پہ خداۓ پیامان