مسلمانوں کی سیاسی جلا وطنی

معصوم مرادآبادی
طلاق ثلاثہ کے خلاف قانون سازی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں میں ایسا ہی ہیجا ن پیدا ہوگیا ہے، جیسا کہ اب سے 30 برس پہلے شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیدا ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت سپریم کورٹ کے فیصلے کو تبدیل کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں قانون سازی کی گئی تھی جبکہ اس بار طلاق ثلاثہ کو غیر دستوری قرار دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر مہر لگانے کے لئے قانون بنایاگیا ہے۔پچھلی بار مسلمانوں کے جذبات کا احترام ہواتھا جبکہ اس بار مسلمانوں کی آواز کو پوری طرح کچل کر پارلیمنٹ نے ایک ایسا بل منظور کیا ہے جس سے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا خطرناک راستہ کھل گیا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ حکومت نے یہ کام مسلم خواتین کی ہمدردی کے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ کیا ہے اور وہ خود کومسلم خواتین کے حقوق کا سب سے بڑا چیمپئن قرار دے رہی ہے۔ مسلمان اس معاملے میں خود کو شکست خوردہ محسوس کررہے ہیں کیونکہ حکومت نے عددی طاقت کے زعم میں پارلیمنٹ سے بل منظور کراکے نہ صرف مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے بلکہ اس کی آڑ میں مسلم پرسنل لاء میں مداخلت کا دروازہ بھی پوری شدت کے ساتھ کھول دیا ہے۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بدترین فرقہ پرست جماعت بی جے پی مسلم پرسنل لاء کو ختم کرکے ملک میں یکساں سول کوڈ لانا چاہتی ہے اور مسلمانوں کو دستور سے حاصل مذہبی حقوق کو پوری طرح ختم کرنے پر کمربستہ ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ تین طلاق کو قابل سزا جرم قرار دینے کا قانون درحقیقت مسلم خواتین کو انصاف دلانے اور ان کے سرپر لٹکتی ہوئی طلاق کی تلوار کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی سمت اٹھایاگیا ایک تاریخی قدم ہے ۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ قدم مسلم خواتین کے لئے نئی مصیبتوں اورقانونی پیچیدگیوں کو جنم دے گا اور ان کی زندگیوں کو جہنم میں بدلنے والا قدم ثابت ہوگا۔ اتنا ہی نہیں اس قانون کے نفاذ کے ساتھ ہی ہندوستانی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد مزید بڑھ جائے گی اور نت نئے معاشرتی مسائل جنم لیں گے۔
اب سے کوئی 30برس پہلے جب سپریم کورٹ نے شاہ بانو کیس میں مسلم مطلقہ خواتین کو عدت کے بعد بھی نان ونفقہ ادا کرنے کا غیر شرعی فیصلہ سنایا تھا تو اس وقت مسلمانوں میں زبردست بے چینی پھیل گئی تھی اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی قیادت میں ملک گیرسطح پر ایک انتہائی منظم تحریک چلائی گئی تھی۔ اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی اور آنجہانی وزیراعظم راجیوگاندھی نے مسلمانوں کے زخمی جذبات کو محسوس کیا تھا۔ حکومت نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اکابرین سے مشورہ کرکے ایک مسودہ قانون پارلیمنٹ میں پیش کیا جس کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ کے شریعت مخالف فیصلے کی ہوا نکل گئی۔ لیکن اس مرتبہ صورت حال قطعی مختلف ہے کیونکہ مرکز میں ایک ایسی پارٹی برسراقتدار ہے جو مسلمانوں کو دستوری حقوق سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت نے طلاق ثلاثہ کو قابل سزا جرم قرار دینے کا قانون بناتے وقت مسلم پرسنل لاء بورڈ تو کجا کسی معمولی مسلم نمائندے سے بھی بات چیت کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ یہ کام اتنی عجلت میں کیاگیا ہے گویا تین طلاق کا معاملہ ہی ملک کی ترقی اور خوشحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا تھا اور اگر حکومت یہ قانون نہیں بناتی تو ملک زبردست پسماندگی کا شکار ہوجاتا ۔ المیہ یہ ہے کہ جس وقت یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیاگیا تو اپوزیشن کے ان اراکین نے بھی اس کی مخالفت نہیں کی جن سے مسلمانوں کو بہت امیدیں وابستہ تھیں اور وہ جماعتیں بھی خاموش رہیں جن کی سیاست ہی مسلم ووٹوں کے محور پر گردش کرتی ہے۔ تمام سیکولر جماعتیں اس موقع پر حکومت کے نرغے میں نظرآئیں۔ مخالفت کی صرف ایک آواز مجلس اتحادالمسلمین کے صدر بیرسٹر اسدالدین اویسی کی صورت میں ایوان میں گونجتی رہی، جنہوں نے اس بل کے مضمرات پر پوری طاقت اور دلائل کے ساتھ بحث کی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے دلائل اور ترمیمات کو ایوان کی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ ان کی طرف سے پیش کی گئی نہایت معقول ترمیمات کے حق میں زیادہ سے زیادہ چار ووٹ ڈالے گئے جب کہ اس وقت ایوان میں اپوزیشن کے اراکین کی مجموعی تعداد 150تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ کانگریس پارٹی جس کے لیڈر آنجہانی راجیوگاندھی نے مسلم مطلقہ قانون پاس کرانے میں پارلیمنٹ کے اندر اہم رول ادا کیا تھا، ان کے بیٹے اور کانگریس کے نومنتخب صدر راہل گاندھی اس موقع پر ایوان میں اپنے ممبران کو خاموش کرتے ہوئے نظرآرہے تھے۔ موجودہ سیاست کاسب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ حکمراں جماعت نے ملک میں ایسے حالات پیدا کردیئے ہیں کہ کوئی سیاسی جماعت مسلمانوں کی جھوٹی ہمدردی کا بھی ’خطرہ‘ مول لینے کو تیار نہیں ہے۔ وہ جماعتیں بھی جو پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں مسلم ووٹوں کے سہارے جیت کر آتی ہیں، اتنی خوف زدہ ہوگئی ہیں کہ وہ مسلم مسائل پر بات کرنا ہندوؤں کی مخالفت سے تعبیر کرنے لگی ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ گجرات چناؤ میں نئی زندگی ملنے کے باوجود کانگریس لیڈر اشوک گہلوت یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ ’’بی جے پی نے یہ تاثر قائم کردیا ہے کہ وہ ہندوؤں کے لئے اور کانگریس مسلمانوں کے لئے۔ ہمیں اس تاثرکو جلد ازجلد زائل کرنا ہے۔‘‘ ظاہر ہے یہ تاثر اسی وقت ختم ہوسکتا ہے جب کانگریس بھی پوری طرح بی جے پی کے خیمے میں نظر آئے اور وہ سیاست کا ہر وہ داؤ آزمائے جو مسلمانوں کو سیاسی طورپر اچھوت بنانے میں کارگر ہو۔ بی جے پی صدر امت شاہ نے 2014کے عام انتخابات سے قبل درست ہی کہاتھا کہ ہم اس ملک میں مسلم ووٹ کو ناکارہ بنانے کی حکمت عملی پرگامزن ہیں۔عام انتخابات کے نتائج نے یہ ثابت بھی کردیا کہ اب اس ملک میں مسلم ووٹ ’بے حیثیت‘ ہوچکا ہے۔ گجرات کے حالیہ انتخابات میں جہاں بی جے پی کے لئے مسلمان شجرممنوعہ کی حیثیت رکھتے تھے، وہیں کانگریس بھی انہیں اچھوت بنانے پرآمادہ تھی۔ جو لوگ یہ کہاکرتے تھے کہ’’ مسلمان اس ملک میں بادشاہ تو نہیں لیکن بادشاہ گر ضرور ہے‘‘ وہ آج ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہے ہیں۔ مسلمانوں کی سیاسی بے بسی کا نوحہ لکھتے ہوئے قلم کانپنے لگتا ہے۔یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہورہا ہے جہاں ووٹ کی بڑی قدروقیمت ہے اور ایک ایک ووٹ حکومت کے بننے اور بگڑنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا رہا ہے۔ ایک سیکولر جمہوری ملک کی سیاست کا ہندتو کے ہاتھوں یرغمال ہوجانا اور تمام سیاسی پارٹیوں کا اس کے نرغے میں آجانا کچھ کم غم انگیز نہیں ہے۔
پارلیمنٹ سے تین طلاق کے خلاف قانون منظورہوجانے کے بعد شریعت کے ماہرین ہی نہیں خود غیر مسلم مبصرین بھی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ تین طلاق کو قابل سزا جرم قرار دینے سے قبل مسلمانوں کے شبہات اور اندیشوں کو نظر انداز نہیں کیاجانا چاہئے تھا۔ کیونکہ کسی بھی معاشرے میں اصلاح کا سب سے بہتر عمل وہی ہوتا ہے جو اس معاشرے کے اندر سے شروع ہو۔ کسی بھی سماج پر اصلاح اوپر سے نہیں تھوپی جاسکتی۔ قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ تین طلاق کے خلاف قانون بن جانے کے بعد شوہر کے جیل رسید ہونے کی صورت میں بیوی اور بچوں کی کفالت کا مسئلہ سنگین شکل اختیار کرلے گا۔ شوہر اگر ملازمت پیشہ ہوا تو جیل جاتے ہی وہ ملازمت سے برخاست ہوجائے گا اور اس کی تنخواہ رک جائے گی۔ اگر وہ تاجر ہو اتو بھی اس کی آمدنی متاثر ہوگی۔ ایسے میں بیوی بچوں کا گزارہ کیسے ہوگا؟ عورت مرد کی جائیداد سے نان ونفقہ لے سکتی ہے یا نہیں، اس کی مجوزہ قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس معاملے میں مسلم مطلقہ قانون مجریہ 1986بھی نافذ نہیں ہوگا۔ کیونکہ وہ طلاق کے بعد کی حالت میں نان ونفقہ کے لئے بنایاگیا تھا۔ البتہ خاتون تعزیرات ہند کی دفعہ 125کے تحت نان ونفقہ طلب کرنے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتی ہے لیکن جب شوہر جیل میں ہوگا تو وہ نان ونفقہ کی ادائیگی کس طرح کرے گا۔ سوال یہ ہے کہ حکومت نے ایسی متاثرہ خواتین کی مالی امداد کے لئے کوئی فنڈ قائم کرنے میں دلچسپی کیوں نہیں لی۔ یہ قانون بنیادی طورپر دستور کی دفعہ 25کی خلاف ورزی ہے جس میں اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی حاصل ہے۔ مسلم پرسنل لاء کو بھی دستور کی اسی دفعہ کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ حکومت نے ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی عجلت میں ایک ناقص قانون پارلیمنٹ سے منظور کرالیا ہے۔ سیاسی مقاصد سے لبریز اس قانون کی پشت پر مسلم خواتین سے ہمدردی کا کوئی جذبہ کار فرما نہیں ہے۔ حکومت اگر مسلم خواتین کی ہمدرد ہوتی تو وہ اس بل کو پارلیمانی کمیٹی کو سونپ کر اس پر معاشرے میں ایک کھلی بحث کی دعوت دیتی لیکن حکومت نے تمام دروازے بند کرکے مسلم خواتین کو اندھی سرنگ میں داخل کردیا ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں