ایک اینٹ اور گر گئی دیوار حیات سے

عمر فاروق قاسمی

کچھ ہی دیر بعد پرانا عیسوی کلینڈر اتر کر نیا کلینڈر میری اور آپ کی دیوار پر لٹک جائے گا، یعنی ہم 2017 سے 2018 عیسوی میں قدم رکھ دیں گے اس کے ساتھ ہی ہمارے احباب کی طرف نیا سال مبارک ہو جیسے جملوں سے مبارک بادیوں کا تسلسل قائم ہو جائے گا، جانے انجانے ہمارے احباب بھی عیسائیوں کے اس رسم و رواج میں شامل ہوجائیں گے۔ اس موقع سے جشن منانا، مبارکبادیوں کا سلسلہ قائم کرنا جائز ہے، ناجائز ہے، مکروہ ہے، تشبہ بالغیر ہے یا شرعی اعتبار سے کچھ اور ہے؟ یہ تو ارباب فتاوی ہی بتائیں گے، تاہم اس موقع یہ جشن یہ خوشی مسرت عقل سے بالاتر معلوم ہوتی ہے، شادی ایک خوشی مسرت کی چیز ہے، ہماری دونوں عیدیں تو مسرت کو بتلاتی ہی ہیں، کامیابی و کامرانی کا موقع جشن پر ابھارتا ہی ہے، نئی چیز کا حصول کسے نہیں خوشی سے مالا مال کرے گا ، لیکن کسی چیز کے گم ہونے پر کوئی مبارک بادی پیش کریں تو آپ کو عجیب سا لگے گا، آپ کا بیٹا گم ہوجائے اور آپ کو کوئی مبارکبادی دے تو غمی اور دو بالا ہو جائے گی، آپ کی اہلیہ کا زیور راہ سفر میں کھو جائے اور آپ کہیں زیور گم ہو جانا مبارک ہو تو چپلوں سے کتنی ضیافت ہوگی آپ سمجھ سکتے ہیں، لیکن افسوس! چراغِ حیات کی ایک اور بتی جل کر خاک ہوگئی اور ہم جشن منارہے ہیں ؟ ملی ہوئی محدود زندگی کا ایک اور سال مجھ سے چھوٹ گیا اور ہم مبارکباد قبول کریں؟ شباب زندگی کا ایک اور آفتاب غروب ہوگیا اور ہم ہپی نیو ایر ( Happy New Year ) کا پیغام بھیجیں؟ زیادہ سے زیادہ سو سال کے قیمتی لمحات ملے تھے جس میں میں لگ بھگ انتالیس لہو لعب میں گذر گئے اور ہم جشن منائیں؟ متاع حیات کی ایک اور پونجی میری الماری سے غائب ہوگئی اور ہم شاباشی دیں اور لیں؟ میری سمجھ سے تو یہ بات بالاتر معلوم ہوتی ہے۔
ہاں اس موقع سے اگر کوئی چیز سمجھ میں آتی ہے تو یہ کہ ہم اپنا احتساب کریں، نیا سال منانے کی جگہ یوم احتساب منائیں، ہم اپنے ماضی کے ایک ایک لمحہ پر غور کریں، یادِ ماضی کے ایک ورق کو الٹ پلٹ کر دیکھیں، سری سری نہیں بنظرِ غائر مطالع کریں، کہ ہماری گذری ہوئی زندگی کے اوراق کوڑے تو نہیں رہ گئے؟ یا لکھے ہوئے ہیں تو کیا لکھے ہوئے ہیں، یونہی داغ کر چھوڑ دیا ہے یا کچھ کام کی باتیں بھی ہیں.؟ خدا نے خلافت ارضی کی جو ذمہ داری ہمیں دی تھی عمرِ فنا میں ہم نے کتنی ادا کی؟ ملک و قوم کے لیے ہماری زندگی کا کتنا حصہ صرف ہوا اور کتنا ضائع؟ کتے لمحے عبادت و ریاضت میں گئے اور کتنے لہو و لعب میں؟ زندگی کی پونجی کتنے غریبوں، مسکینوں، بیواؤں، یتیموں اور مظلوموں کی امداد رسی میں صرف ہوئے اور کتنے ان لوگوں کا حق مارنے میں؟ اگر ہم اہل قلم ہیں تو یہ غور کریں کہ ہمارے قلم کی تلوار سے کتنے ظالموں کا صفایا ہوا اور کتنے مظلوموں کی جانیں گئیں؟ ہم اہل ثروت ہیں تو سوچیں کہ ہماری دولت نے کتنے اجڑے گھروں کو بسایا اور کتنے بسے ہوئے گھروں پر بلڈوزر چلائی ؟ اگر ہم اہل سیاست اور صاحب اقتدار ہیں تو دیکھیں کہ ہم نے اپنی رعیت کے لئے کتنے کام کئے اور کتنے باقی رہ گئے؟ ہم اگر صاحب اولاد ہیں تو غور و فکر کریں ہم نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر کتنا دھیان دیا جس سے وہ دنیا میں بھی سر بلند ہوں اور آخرت میں بھی سرخ رو ؟ اگر ہم ضعیف و کمزور ماں باپ کے بیٹے ہیں تو دیکھیں کہ ہماری جائز اطاعت و فرماں برداری میں کمی رہ گئی یا معاملہ ٹھیک ٹھاک ہے؟ ہم اگر شوہر ہیں تو بیوی کے بارے میں غور کریں کہ ہم نے اس ناتواں پر ظلم ڈھائے یا اس کے حقوق ادا کئے؟ اگر مسلمان ہیں تو اپنے ماضی کے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کریں کہ ہم نے اسلام کا کتنا فریضہ ادا کیا اور کتے باقی رہ گئے؟ کتی نمازیں ہماری چھوٹی ہیں اور کتنی قضا؟ کتنے روزے ہمارے ترک ہوئے اور کتنے ادا؟ کلمہ طیبہ اور کلمہ شہادت کے کتنے تقاضے ہم نے ادا کئے اور اپنے عمل سے ہم نے اس کا کتنا انکار کیا؟ اگر ہم انسان ہیں تو سوچیں کہ انسانیت کی خدمت میں ہمارا ٹائم گذار یا انسانیت کی بنیاد اکھاڑنے میں؟ غرض یہ ہم جو بھی ہوں ہمیں اپنے ماضی پر جھانک کر احتساب کرنا چاہیے کہ متاعِ حیات کا کتنا لمحہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں نکلا اور کتنا نادانیوں میں؟ ان سارے سوالوں کا سو فیصد جواب آپ کے پاس ہے تو جتنا آپ خوشیاں منائیں منا سکتے ہیں اور اگر ایک فیصد بھی جواب ناقص ہے تو پھر سوچیں اور جشن منانے کی جگہ مستقبل کا لائحہ عمل تیار کریں، اور یہ احتساب صرف آج نہیں بلکہ ہر دن کریں کیونکہ زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے کائنات کی سب سے عظیم شخصیت محمد صل اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک نے قیامت کے دن کے سوال و جواب کے بارے میں کتنے عبرت انگیز انداز میں بیان فرمایا ہے

لاتزولُ قدما عبدٍ يومَ القيامةِ حتى يُسألَ عن أربعٍ : عن عُمرِه فيما أفناه ، وعن عِلمه ماذا عمل فيه ، وعن مالِه من أين اكتسَبه ، وفيما أنفقَه ، وعن جسمِه فيما أبلاهُ
بندہ کے دونوں قدم اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکیں گے جب تک چار چیزوں کا سوال ان سے نہ کر لیا جائے، عمر کہاں خرچ کیا، علم پر کتنا عمل کیا، مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا، جسم کو کہاں صرف کیا؟
اور کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے ؎

ایک اینٹ اور گر گئی دیوار حیات سے
نادان کہ رہے ہیں نیا سال مبارک ہو

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں