(ملت ٹائمز)
روئے زمین پر فلسطین وہ علاقہ ہے جہاں مسلمانوں کے لئے ہر سانس ایک جدوجہد ہے ‘ ہرقدم ایک جنگ ہے اور ہردن خون ریزی کا محض ایک مرحلہ۔ یہاں کے بچے ظلم وجارحیت کے درمیان آنکھیں کھولتے ہیں‘ شوریدگی اور سفاکی کے مقابل پرورش پاتے ہیں اور بڑے ہونے سے پہلے ہی کئی دہائیوں سے جاری اس جنگ کا حصہ ہوجاتے ہیں جو غاصب طاقتوں نے ان پر تھوپ رکھی ہے۔گوگل پر آپ نے کئی تصوئیردیکھی ہوں گی جن میں کبھی کوئی چھوٹا بچہ کسی اسرائیلی فوج کی مشین گن کے سامنہ تن کر کھڑا للکار رہا ہے تو کوئی نو عمر ٹینک پر کھڑے کسی فوج کو محض چھوٹے سے پتھر سے ڈرا رہا ہے جو اس نے اپنے ہاتھ میں اٹھارکھا ہے‘ توکسی تصوئیرمیں کوئی نہتی لڑکی کیل کانٹوں سے لیس کسی فوجی کو تمانچہ رسید کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
ان تصاویر کو دیکھ کر عام دنیا یہ سمجھتی ہے کہ ان بچوں میں کتنا حوصلہ ہے کہ اتنی کم عمری میں وی تیغ کیاچیز ہے ہم تو سے لڑجاتے تھے کی مثال بنے ہوئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح عام انسانوں کے لئے ہوا ‘ پانی ‘ غذا زندہ رہنے کے لئے بنیادی ضرورتیں ہیں ویسے ہی ان بچوں کے لئے یہ بے خوف مقابلہ آرائی ان کی زندگی کی بقا کا ذریعہ ہے۔ان دنوں دنیا بھر میں ایک بھورے بالو ں والی دوشیزہ کا ویڈیو وائرل ہورہا ہے جو ایک بندوق بردار اسرائیلی فوجی کو تھپڑ رسید کررہی ہے۔
اس لڑکی کا نام معمول کرنے میں صحافیوں کو زیادہ دیر نہیں لگی کیونکہ یہ احد تمیمی تھی جس نے پہلی بار ہتھیاروں سے لیس کسی اسرائیلی فوجی پر ہاتھ نہیں اٹھایا ہے بلکہ جنگ وجدل کے ماحول میں پیدا ہونے والی یہ لڑکی اس سے پہلے بھی کئی بار اسرائیلی فوج سے اپنی جرت مندی کی داد وصول کرچکی ہے۔احمد تمیمی کی عمر محض16سال ہے لیکن وہ بین الاقوامی میڈیا میں کئی بار بحث کا موضوع بن چکی ہے اور ہر باروجہ اسی کی یہی بے باکانہ مزاحمت رہی ہے۔سال2001میں فلسطین کے رملہ خطے کی نبی صالح علاقے میں پیدا ہونے والی احد تمیمی کی یہ بے خوفی سب سے پہلے 2012میں دنیاکی نظروں میں ائی تھی جب اسی سال ڈسمبر کے مہینے وہ اسرائیلی فوجیوں سے بھڑگئی تھی کیونکہ وہ اس کی ماں کو گرفتار کرکے لے جارہے تھے۔
اس کا ویڈیو دنیابھر میں پھیل گیا اور ان دنوں اسلامی ممالک کے مسائل پر کھل کر اقدامات کرنے والے واحد مسلم لیڈر رجب طیب اردغان اس لڑکی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ ترکی صدر نے تمیمی کو اپنے ملک بلاکر بہادری ایوارڈ سے نواز ا۔ اردغان نے احد سے پوچھا کہ آہ یو ں اسرائیلی فوجیوں سے کیوں لڑجاتی ہی تو اس کاجواب تھا کہ ” میں ایسا اس لئے کرتی ہوکہ وہ باربار میرے والد اور بھائی کو گرفتار کرکے لے جاتے ہیں۔ میں ایسا اس لئے کرتی ہوں کہ انہوں نے ہماری زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور میں ایسا اس لئے کرتی ہوں تاکہ ہم لوگ آزاد انسانوں کی طرح جی سکیں“
جب احد ترکی کے صدر کو یہ بے باکانہ جواب دے رہی تھی تو اس وقت اس کی عمر محض گیارہ سال تھی۔ اسی سال ترکی کی ایک میونسپل کاریوریشن نے احدکو ایوار ڈ سے بھی سرفراز کیااو راردغان نے اسے اپنے ساتھ ناشتہ کرنے کی دعوت دی۔ احد تمیمی کو یہ عزم وجرت اپنے والد باسم تمیمی سے ورثے میں لی ہے جو چھ روز جنگ والے سال یعنی 1967میں مغربی کنارہ واقع رملہ شہر میں پیدا ہوئے۔ بناسم خود اپنے بچپن سے ان فلسطینی مظاہرین میں شامل رہے ہیں جو اسرائیلی جارحیت کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں اور اپنے وطن کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں۔
وہ خود کئی بار اسرائیلی فوج کے تشدد کاشکار بنے ہیں کئی بار جیل گئے ہیں۔ مارچ30کو احد نے جب باسم اور نریمان تمیمی کے گھر میںآنکھیں کھولیں تو یہ گھر اسرائیلی ظلم وتشد د سے گھرا ہوا تھا۔ احمد اور اسکے بھائی واحد محمد اور سالم کے لئے زندگی کے معنی صرف گرفتاری اور ان کے مکان کا انہدام ہی ہے۔ چیک پوسٹ پر روک کر توہین آمیز تلاشی اورتشدد میں ان کی زندگی کے اضافی معمولات ہیں۔ایسی زندگی سے کم سے کم وہ قوم تو سمجھوتہ نہیں کرسکتی جو یہ یقین رکھتی ہو کہ یہ دنیا کسی انسان نے نہیں بنائی ہے‘ اس لئے اس دنیا پر تمام انسانوں کا برابر حق ہے او راپنے اس حق کو حاصل کرنے کے لئے فلسطینی اپنی جان کی قمیت ادا کرنے پر ہمیشہ آمادہ رہے جو کہ اسرائیلی حکومت نے مقرر کررکھی ہے۔ احد بھی جان کے بدلے آزادی والے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ ویسے یقین وایما کی بات بے معنی ہے کیونکہ جس عمر میں اس نے مزاحمت شروع کی۔