داعی اسلام مولانا سید عبداللہ حسنی ندویؒ : یادیں کچھ باتیں

شاہ اجمل فاروق ندوی 

داعی اسلام مولانا سید عبداللہ حسنی ندویؒ (۷۵۹۱- ۳۱۰۲) کی وفات کو پانچ سال مکمل ہوگئے۔ اس پانچ سال کی مدت میں مولانا کی یادیں ماند نہیں پڑیں۔ وہ لوگوں کے ذہن و دماغ سے اوجھل نہیں ہوئے۔ اُن کے مشن کی معنویت کم نہیں ہوئی۔ آج بھی دنیا بھر میں پھیلے اُن کے وابستگان کو اُن کی یادیں تڑپاتی اور بے قرار کرتی ہیں۔ اُن کے ساتھ گزرے لمحات کو یاد کرکے اُن کے دامن گرفتوں کے ہونٹوں پر کبھی مسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور کبھی آنسووں کا ایک طویل سلسلہ جاری ہوجاتا ہے، جو دعائے مغفرت اور ایصال ثواب پر ختم ہوتا ہے۔ اس سے کئی گنا بڑی چیز وہ دعوت اور مشن ہے، جس کو مولانا نے اپنا اوڑھنا بچھونا، بلکہ اپنی روح اور جان بنا لیا تھا۔ تعارف اسلام اور غیرمسلموں میں دعوت اسلامی کا مشن۔ اللہ تعالیٰ کو اپنے اس پیارے بندے کی دعوتی تڑپ اتنی پسند آئی کہ اُس نے اسی سلسلے کے ایک طویل سفر کو اُن کے سفرِ آخرت کا آغاز بنا دیا۔ جنوبی ہند کے ایک طویل دعوتی سفر کے دوران اُن کی بیماری شروع ہوئی اور اُسی بیماری میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ 
ہمیں خوب یاد ہے کہ ۳۲ نومبر ۰۱۰۲م کو دارالمعارف الٰہ آباد میں عالمی رابطۂ ادب اسلامی کی بر صغیر شاخ کا یک روزہ سمی نار منعقد ہوا ۔ رات میں اختتامی اور عوامی نشست تھی۔ اس نشست کی نظامت استاد گرامی قدر مولانا نذرالحفیظ ندوی ازہری فرما رہے تھے۔ مولانا نے کئی مقررین کے بعد فرمایا: ”اب میں خانوادۂ علم اللٰہی کے نیر تاباں حضرت مولانا سید عبداللہ حسنی ندوی سے گزارش کر رہا ہوں کہ وہ اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔“ سچ یہ ہے کہ استاد گرامی کی زبان سے نکلے ہوئے یہ کلمات مولانا سید عبداللہ حسنی ندوی کے مقام و مرتبے کے نہایت جامع ترجمان تھے۔ وہ ایک طرف مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کے منظور نظر اور چہیتے، ملت اسلامیہ ہندیہ کے قائد و رہ نما مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی اور دوسرے متعدد بزرگوں کی امیدوں کا مرکز تھے۔ تو دوسری طرف ہم جیسے ہزاروں طلبہ و معتقدین کے لیے دینی، دعوتی، علمی و تعلیمی مسائل کی تپش میں سائبان کی حیثیت رکھتے تھے۔ اپنے متعدد مثالی اوصاف اور مختلف و مسلسل سرگرمیوں کی وجہ سے وہ واقعتا پورے خانوادۂ علم اللٰہی کے لیے ”نیر تاباں“ کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔ ایک ایسا سورج جس کی تابانی آہستہ آہستہ ملک کے گوشے گوشے تک پہنچتی جارہی تھی۔ ہر شخص محسوس کر رہا تھا کہ یہ تابانی بڑھتے بڑھتے ایک عالم کو مستفید کرنے والی ہے۔ لیکن مرضی رب کا علم کسی کو نہ تھا۔ 
داعی اسلام مولانا سید عبداللہ محمد حسنی ندویؒ کی زندگی کا سب سے روشن پہلو غیر مسلموں میں دعوت کا پہلو ہے۔ مولانا نے بڑی سادگی اور خاموشی کے ساتھ غیر مسلموں میں دعوت کا کام شروع کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں برکت عطا فرمائی اور آہستہ آہستہ مولانا نے دعوتی کام کرنے والوں کی ایک ٹیم اور پورا نظام قائم کردیا۔شاید اس سے پہلے ندوةالعلماءکے اسٹیج سے غیر مسلموں میں دعوت کا کام اتنے منظم انداز میں نہیں ہوا تھا۔ مولانا کی زندگی کا یہ ایسا تاب ناک پہلو ہے جو انہیں تقریباً سوا صدی پر محیط ابنائے ندوہ کی مختلف النوع خدمات میں بالکل ممتاز و منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ الحمد للہ آج ہندستان میں مختلف ادارے اور افراد دعوت کا کام کر رہے ہیں۔ وہ سب لائق تعریف ہیں۔ لیکن اُن سب کے درمیان مولانا کے شروع کیے گئے کام کا امتیاز یہ تھا کہ وہ پوری طرح قرآنی اصولوں پر مبنی تھا۔ انھوں نے اپنے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والوں کی گنتی بڑھانے، اسلام پر کلّی اطمینان کے بغیر کلمہ پڑھا دینے، قبول اسلام کے بعد اُن کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دینے ، مدعو کے ناراض ہوجانے کے ڈر سے کفر و شرک کی مضرت بیان نہ کرنے، قرآن اور وید وغیرہ میں بے تکی یکسانیت تلاش کرنے اور اِن جیسے دوسرے غیر قرآنی اور غیر نبوی طریقوں کا سہارا نہیں لیا۔ انہوں نے جو بھی کیا قرآنی اصولوں کی روشنی میں کیا۔ نبوی طریقے پر کیا۔ رضائے امت کے لیے نہیں، رضائے الٰہی کے لیے کیا۔شور شرابے اور پروپیگنڈے کے بغیر کیا۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر ندوے کے طلبہ اور مولانا سے ملنے جلنے والے اکثر افراد کو بھی نہیں معلوم تھا کہ مولانا نے غیر مسلموں میں دعوت کا ایک مضبوط نیٹ ورک تیار کر رکھا ہے۔ جو ملک بھر میں بڑی یکسوئی کے ساتھ کارِ دعوت میں مشغول ہے اور بے شمار لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن رہا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ مولانا سے اس طرح کے ہلکے اور غیرمستند اندازِ دعوت کی امید کی بھی نہیں جاسکتی تھی۔ کیوں کہ وہ ایک موقر عالم دین، معتبر محدث ، سلف صالحین کی تاریخ کے گہرے واقف کار اور ایک مرشد برحق تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے فضل و کرم سے مولانا کا شروع کیا ہوا کام آج بھی پوری قوت کے ساتھ جاری ہے اور اُن ہی اصولوں کے مطابق جاری ہے، جو داعی اسلامؒ نے قرآن و سنت سے اخذ کیے تھے۔ آج یہ کام پھیل کر ہندستان کی سرحدوں سے آگے بڑھ چکا ہے۔ امریکا، چین، انگلینڈ، ساؤتھ افریقا اور دوسرے ممالک تک اس کے اثرات پہنچ چکے ہیں۔ ان شاءاللہ مستقبل میں بھی یہ کام جاری رہے گا۔ 
مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی شروع کردہ تحریک پیام انسانیت کو بھی مولانا نے بڑی حکمت کے ساتھ آگے بڑھایا۔ سچ تو یہ ہے کہ انھوں نے اس تحریک میں نئی روح پھونک دی تھی۔ انھیں روز بہ روز نئے ادارے قائم کرنے کا چسکا نہیں تھا۔ وہ تو مضبوط اور ٹھوس کام کرنے والے انسان تھے۔ جو کرتے تھے ، کام کے لیے کرتے تھے، نام کے لیے نہیں۔ ورنہ وہ چاہتے تو موجودہ عام رویے کے مطابق ادارے پر ادارے قائم کرتے چلے جاتے، لیکن وہ ہلکا کام کرنا نہیں جانتے تھے۔ اپنے بڑوں کی مرضی سے ذرہ برابر ہٹنے کو بھی غلط سمجھتے جاتے۔ وہ اُن لوگوں میں سے نہیں تھے ، جو شہرت و ناموری کے لیے تو اپنے بزرگوں کا نام استعمال کرتے ہیں، لیکن جب طریقۂ کار اور فرماں برداری کی بات آتی ہے تو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ضرور بناتے ہیں۔ چاہے اُس کی حفاظت و صیانت کی صلاحیت و طاقت ہو یا نہ ہو۔ لیکن ہمارے مولانا ایسے نہیں تھے۔ وہ ہر کام اپنے بزرگوں کی مکمل سرپرستی میں کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے دعوتی مشن کے لیے تحریک پیام انسانیت کو اختیار کیا۔ اس طرح کہ تحریک کا اصل کام بھی چلتا رہے اور اُن کی مقدس مقاصد کی تکمیل بھی ہوتی رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ملک بھر میں پیام انسانیت کے جلسے بڑی تعداد میں منعقد ہونے لگے ۔ مولانا ان جلسوں میں اپنی ٹیم کے ساتھ شرکت کرتے۔ کہیں مختصر اور کہیں عظیم الشان مجمعوں کو خطاب کرتے۔ تعارف اسلام پر مبنی لٹریچر تقسیم کراتے۔ کتابوں کے اسٹال لگواتے۔ ذاتی ملاقاتیں کرتے۔ غرض یہ کہ وہ پیام انسانیت سے اسلامی دعوت کے امکانات پیدا کرتے تھے۔ پھر اُن امکانات کا بہترین استعمال کرکے باتوفیقوں کو دائرۂ اسلام میں داخل کرتے چلے جاتے تھے۔ انھیں تو کام کرنے کا وقت کم ملا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اُن کے اخلاص اور پاکیزہ جذبے کو قبول فرمایا۔ اُن کے بعد اُن کا شروع کیا ہوا کام اور دھواں دار طریقے سے آگے بڑھنے لگا۔ نہ جانے کتنے نئے لوگ اس قافلے سے جڑے اور لاتعداد غیر مسلموں کے قلوب و اذہان کو صاف کرنے اور انھیں دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کا سبب بننے لگے۔ تقریباً روزانہ ملک بھر سے اس کاروانِ عزیمت کی امید افزا خبریں موصول ہوتی ہیں اور قلب و نگاہ کو ٹھنڈک پہنچاتی ہیں۔ بلاشبہ یہ تناور درخت اُس کڑھن اور بے قراری کا نتیجہ ہے، جو داعی اسلامؒ کے دل و دماغ سے ہوتی ہوئی اُن کے رگ و ریشے میں سرایت کرگئی تھی۔ بے قراری کے عالم میں اللہ کے اُس بندے نے یکہ و تنہا کھڑے ہوکر بت کدۂ ہند میں ایمان کا ایک پودا لگایا، اسے سینچا، پروان چڑھایا اور جب وہ پودا، پیڑ کی شکل میں مضبوط تنے پر کھڑا ہوگیا تو وہ مخلص بندہ اپنے رب کے پاس چلا گیا۔ 
جانے والے تو روز جاتے ہیں۔ لیکن داعی اسلام ؒ عام لوگوں میں سے نہ تھے۔ وہ گئے بھی تو ایک عظیم پیغام چھوڑ کر۔ بہتر ہوگا کہ اُن کا پیغام اُن ہی کی زبانی ملاحظہ کیجیے: 
”اس دنیا میں ہم لوگ دعوت و اصلاح کا کام کرنے آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو اس کام کے لیے منتخب فرماتے ہیں۔ انبیاءکرام علیہم السلام تشریف لائے۔ صحابہ، علماء اور مصلحین آئے۔ سب اپنا کام کرکے رخصت ہوگئے۔ کسی کو کام کرنے کا زیادہ اور کسی کو کم موقع دیا گیا۔ ےہ اللہ کا نظام ہے۔ اس کی حکمت و مصلحت ہے۔ مجال دم زدن معاذ اللہ۔ اللہ تعالیٰ جس حال میں رکھیں، جس کو جتنی عمر دیں، جس کو جتنا موقع دیں، ان کا فضل ہے۔ وہ اپنے بندوں پر فضل ہی فرماتے ہیں۔ زمان و مکان سب ان کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ جس بندے کو جہاں رکھیں، جس طرح رکھیں، ان کا فضل ہی فضل ہے۔ بندے کی شان بندگی يہ ہے کہ وہ ہر حال میں راضی رہے۔ اس کے فیصلے پر، اس کے ہر حکم پر لبیک کہے۔ حضرت رسول پاک ﷺ کو ۳۶سال عمر دی گئی۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بھی ۳۶ سال کا وقفۂ حیات دیا گیا۔ حضرت سید احمد شہیدؒ نے ۶۴سال کی عمر میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ سید صاحب نے کس قدر قلیل عرصے میں کتنے کثیر و عظیم کام انجام ديے۔ دعوت و اصلاح کا، دینی تعلیم کی اشاعت کا، سنت و شریعت کے فروغ کا، نظام حق نافذ کرنے کا۔ ان سب باتوں کا تصور بھی اتنے قلیل عرصۂ حیات میں محال ہے۔ يہ سب مالک کی توفیق سے ہوتا ہے۔ يہ حیاتِ مستعار اللہ کا انعام ہے۔ اس میں بندہ اللہ کے دین کا کچھ کام کرجائے تو کیا کہنے۔
ہمارا آپ کا کافی دن ساتھ رہا۔ ہمارے کاموں کو آپ دیکھ رہے ہیں۔ میری محنت اور جدوجہد آپ کے سامنے ہے۔ آپ کوشش کریں کہ يہ سلسلہ ختم نہ ہو۔ اپنے ساتھیوں کو ، شاگردوں کو، اولاد کو اور اپنے خاندان کو اس مشن پر لگائیں۔ لوگ آئیں گے جائیں گے۔ ان شاءاللہ يہ کام ختم نہیں ہوگا۔ محنت کرنے والے اجر پائیں گے۔
باطل طاقتوں سے، شرپسند قوتوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ يہ لوگ بہ ظاہر بڑے وسائل والے ہیں، لیکن اللہ کی طاقت سب سے بلند و برتر ہے۔ مسلمان مسلمان بن کر رہیں، ایمان و تقویٰ پر قائم رہیں، اجتماعیت کو ختم نہ کریں، ان شاءاللہ کوئی بھی ان کا بال بیکا نہ کرسکے گا۔ اللہ کی مدد شامل حال رہے گی۔ وَأنتم الأعلون إن کنتم مؤمنین۔“ (داعی اسلام شخصیت اور پیغام، ص: ۴۲۲) 
داعی اسلام مولانا سید عبداللہ حسنی ندویؒ نے یہ پیغام اپنی وفات سے چند روز قبل دیا تھا۔ اس کا حرف حرف اُن کے اخلاص کامل، جذبۂ صادق ، بے مثال تڑپ اور غیرمتزلزل عزم و حوصلے کا آئینہ دار ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ وہ جاتے جاتے ہم سے کچھ کہہ رہے ہیں۔ وہ تو اپنا کام کرکے چلے گئے۔ اب ہماری باری ہے۔ آئیے ! اپنے مولانا کے آخری پیغام کو لے کر اٹھیں۔ اس لیے کہ اس سے بہتر خراج عقیدت ممکن نہیں ہے۔ ٭٭٭

(مضمون نگار معروف قلم کار اور انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز، نئی دہلی میں اردو سیکشن کے انچارج ہیں)

E.mail. afnadwi@gmail.com