ملک شام کی مختصر تاریخ و موجودہ صورتحال حکمراں ” بے حس “ امت ” بے بس “

فواد کیفی

عمان، مسقط
سلام ہے ان غیور مجاھدین ملت کو جو اس مسلسل بمباری کا مقابلہ کرنے کو ان طاغوتی قوتوں سے دو دو ہاتھ کرنے کو اپنے سارے عیش و آرام کو تج کرکے ملک ”شام“ کی حفاظت میں بڑی جانبازی سے میدان جہاد میں کود پڑے ہیں۔۔اللہ عزو جل انھیں اس مقصد عظیم میں کامیابی عطا کرے اور ظاموں کی سازشوں کو ناکام و ناکارہ کر دے۔۔یہ لڑاٸ نہ اقتدار کی ہے نہ کرسی کی اور نہ ہی یہ اپنے آپ کو عالمی طاقتور دکھانے کی ہے۔بلکہ یہ جنگ سیدھے سیدھے اسلام کے اور جزیرةالعرب کے خلاف چل رہی برسوں کی سازشوں کی ایک کڑی ہے، دشمنان اسلام کو اس سرزمین کے اس خطے کی ”اہمیت“ اسکی ”فضیلت“ جو اللہ اور اللہ کے نبی آخرالزماں حضرت مُحَمَّد ﷺ نے بیان کیا ہے ، کا خوب علم ہے۔۔۔انھیں وہ پیشین گویاں بھی معلوم ہیں جو ملک ”شام“ سے متعلق ہیں، کہ ظہور مہدی کی زمین یہی ہوگی، اور نزول عیسیٰ علیہ اسلاة وسلام بھی اسی علاقے سے ہونا ہے، لہاذا وہ کوٸ کسر نہیں چھوڑے جارہے ہیں۔بلکہ روزانہ انکے حملے تیز سے تیز تر ہوتے جارہے ہیں۔انھیں اس بات کی پوری خبر ہے کہ اس زمین سے ایسی عظیم طاقت ابھرنے والی ہے جو آخری جنگ عظیم میں فیصلہ کن مقابلہ کرنے والی ہے ، لہاذا انکا شدید حملہ معصوم بچوں پر اسی لیے ہو رہا ہے کہ آنے والی مسلم نجواں نسل اور جیالے کو خدانخواسطہ بچپنے میں ہی نیست و نابود کر دیا جاۓ۔۔۔۔اللھم محفظنا۔۔

ملک شام کی مختصر تاریخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مورخوں کے مطابق شام سریانی زبان کا لفظ ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت سام بن نوح کی طرف منسوب ہےایسا مانا جاتا ہے۔حضرت نوح علیہ اسلاة وسلام کے زمانے میں جب اللہ نے اس عظیم طوفان کو بھیجا جس کی تفصیل قران میں ہے، اسی طوفان نوح کے بعد حضرت سام اسی علاقہ میں آباد ہوئے تھے۔۔۔۔ یہ مبارک سرزمین پہلی جنگ عظیم تک عثمانی حکومت کی سرپرستی میں ایک ہی خطہ تھی۔ بعد میں انگریزوں اوراہل فرانس کی سیاسی پالیسیوں اور سازشوں نے اس سرزمین کو چار ملکوں (سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن) میں تقسیم کرادیا،لیکن قرآن وسنت میں جہاں بھی ملک شام کا تذکرہ وارد ہوا ہے اس سے یہ پورا خطہ مراد ہے جو عصر حاضر کے چار ملکوں (سوریا، لبنان، فلسطین اور اردن)پر مشتمل ہے۔

اسی مبارک سرزمین کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات احادیث کی کتابوں میں محفوظ ہیں مثلاً اسی مبارک سرزمین ”شام“ کی طرف حضرت امام مہدی حجاز مقدس سے ہجرت فرماکر قیام فرمائیں گے اور مسلمانوں کی قیادت فرمائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی اسی علاقہ یعنی دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر ہوگا۔ غرضیکہ یہ علاقہ قیامت سے قبل اسلام کا مضبوط قلعہ و مرکز بنے گا۔

ملک ”شام“ کا شہر ”غوطہ“ مومنوں کا ہیڈکواٹر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن ابی الدردا ٕ نّ رسول اللہ انّ فسطاط المسلمین یوم الملحمطتہ الکبریٰ بالغوطہ الیٰ جانب مدینتہ یقال لھا دمشق من خیر مداین الشام۔۔۔۔سنن ابو داود،ج ٤ص ١١١ مستدرک ج ٤ ص ٥٣٢
ترجمہ۔۔۔حضرت ابو الدردا ٕ ؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺنے فرمایا ۔جنگ عظیم کے وقت مسلمانوں کا خیمہ ) آج کی زبان میں ہیڈ کواٹر( شام کے شہروں میں سب سے اچھا شہر دمشق کے قریب ”الغوطہ“ کے مقام پر ہوگا۔

(رواہ ابو یعلی ورجالہ ثقات، قال الہیثمی فی مجمع الزوائد( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قتل کرنے کے دن (یعنی جنگ میں) مسلمانوں کا خیمہ الغوطہ میں ہوگا جو دمشق کے قریب واقع ہے۔ (مسند احمد ، ابو داؤد( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں کا خیمہ الغوطہ میں ہو گا۔ اِس جگہ دمشق نامی ایک شہر ہے جو شام کے بہترین شہروں میں سے ایک ہے۔ (صحیح ابن حبان( حضرت عوف بن مالکؓ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھوٹے خیمہ میں موجود تھے ۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت مجھے قیامت کی چھ نشانیاں بتائیں۔۔۔ ۱) میری موت۔۔ ۲) بیت المقدس کی فتح۔۔۔۔ ۳) میری امت میں اچانک موتوں کی کثرت ۔۔۔۔ ۴) میری امت میں فتنہ ،جو اُن میں بہت زیادہ جگہ کرجائے گا۔۔۔۔ ۵) میری امت میں مال ودولت کی فراوانی کہ اگر تم کسی کو ۱۰۰ دینار بھی دوگے تو وہ اس پر (کم سمجھنے کی وجہ سے) ناراض ہوگا۔ ۔۔۔۶) تمہارے اور بنی اصفر (صیہونی طاقتوں) میں جنگ ہوگی، ان کی فوج میں ۸۰ ٹکڑیاں ہوں گی اور ہر ٹکڑی میں ۱۲۰۰۰ فوجی ہوں گے۔۔۔۔ اس دن مسلمانوں کا خیمہ الغوطہ نامی جگہ میں ہوگا جو دمشق شہر کے قریب میں واقع ہے۔ (رواہ الطبرانی باسناد جید، بیہقی( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شام والو! تمہارے لئے خیر اور بہتری ہو۔ شام والو! تمہارے لئے خیر اور بہتری ہو۔ شام والو! تمہارے لئے خیر اور بہتری ہو۔ صحابۂ کرام نے سوال کیا : کس لئے یا رسول اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رحمت کے فرشتوں نے خیر وبھلائی کے اپنے بازو اس ملک شام پر پھیلا رکھے ہیں (جن سے خصوصی برکتیں اس مقدس خطہ میں نازل ہوتی ہیں)۔ (ترمذی ۳۹۵۴، مسند احمد( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : الشام ارض المحشر ۔۔۔۔ شام کی سرزمین سے ہی حشر قائم ہوگا۔ (مسند احمد، ابن ماجہ( * رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر ہوگا ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی
کیا یہ خبر ان اسلام دشمنوں کو نہیں ہوگی جن کی زندگی کا اصل مقصد ہی اسلام کا روۓ زمین سے خاتمہ ہے اور وہ اس پر برسوں نہیں صدیوں سے لایحہ عمل کے تحت اپنے کارنامے انجام دیتے آرہے ہیں۔۔۔۔۔ انھیں ضرورپتہ ہے کہ حالات کس قدر نازک ہونگے ۔۔۔۔لہازا انھوں نے پوری حکمت عملی سے اس حملے کی تیاری پوری کی اور نتیجہ آج دنیا دیکھ رہی ہے۔۔۔افسوس اپنی قوم پر ہوتا ہے کہ جس پیشین گوٸ کو اسلام دشمن عناصر نے جاننے کے بعد سچ مانا اور خود کو اس کے لیے تیار کیا ہم نے اپنے نبیﷺ کی اس حدیث کو اگر سنا بھی تو بھلا دیا ۔۔۔۔ورنہ ابھی صورتحال ایسی نہیں ہوتی ، تب صرف ”حملہ“ نہیں ”مقابلہ“ ہو رہا ہوتا آج جو مسلم قیادت خواب غفلت میں اور اپنے بیش قیمتی ،مضبوط محلوں میں نرم وگداز بستروں پر سو رہی ہے ، اگر انھوں نے ان احادیث پر یقین کر لیا ہوتا تو آج دنیا ایک ساتھ بڑی تعداد میں اسلامی لشکروں کو اپنے اپنے کمانڈرکے ساتھ میدان جنگ میں موجود دیکھتی۔

سفر معراج کا واقعہ اور ملک شام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک ”شام“ کی اور اس سرزمین کی ایک اور فظیلت یہ ہے کہ قبلہ اول یہیں ہے جس کی طرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام نے تقریباً ۱۸ ماہ نمازیں ادا فرمائی ہیں۔جسے بعد میں اللہ نے اپنی مصلحت کے تحت تبدیل کیا اور تاریخ شاہد ہے کہ عین نماز کی حالت میں قبلہ کی تبدیلی ہوتی ہے۔۔ مسجد حرام اور مسجد نبوی کے بعد سب سے بابرکت وفضیلت کی جگہ مسجد اقصیٰ ہے۔ اسی سرزمین میں واقع مسجد اقصیٰ کی طرف ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ مکرمہ سے لے جایا گیا اوروہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء کی امامت فرماکر نماز پڑھائی، اور ”امام النبیا“ کہلاۓ ،پھر بعد میں اسی سرزمین سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمانوں کے اوپر لے جایا گیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اللہ تبارک وتعالیٰ کے دربار میں حاضری ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت وجہنم کے مختلف مناظر دیکھاۓ گۓ، اور سات آسمانوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مختلف انبیاء کرام سے ملاقاتیں بھی ہوئیں۔

”سدریٰ سے بھی آگے کون گیا جبریل امیں سے پوچھو“
”معراج کا دولھا کون بنا جبریل امیں سے پوچھو “

یہ مکمل واقعہ رات کے ایک حصہ میں انجام پایا۔ مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ کے اس سفر کو اسراء اور مسجد اقصیٰ سے اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضری کے اس سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ سورة اسرا ایت ١ ۔۔۔۔۔

قبلہ اول اور اسامہ بن زید ؓ کا لشکر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ قبلۂ اول بیت المقدس حضرت عمر فاروق ؓ قبلہ عہد خلافت میں فتح ہوا، لیکن اس کی بنیاد حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ ؓ کے لشکر سے پڑ چکی تھی جس کی روانگی کا فیصلہ ماہ صفر ۱۱ہجری میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی خبر سن کر یہ لشکر مدینہ منورہ کے قریب خیمہ زن رہا۔ اس لشکر نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دور خلافت میں پہلی فوجی مہم شروع کی۔ ملک شام میں دین اسلام پہونچنے سے پہلے یہاں سریانی زبان ہی بولی جاتی تھی، لیکن جب انھوں نے اسلام کا استقبال کیا تو بہت کم عرصہ میں عربی زبان کو اپنی مادری زبان بنا لیا ، یہ انکا حد سے زیادہ خلوص تھا ، پھر اسی زبان کے بڑے بڑے جید محدثین، فقہاء وعلماء کرام اس سرزمین میں پیدا ہوئے۔ دمشق کے فتح ہونے کے صرف٢٦ یا ۲۷ سال بعد دمشق اسلامی خلافت/حکومت کا دارالسلطنت بن گیا۔جس طرح اللہ تعالیٰ نے بعض انسانوں کو منتخب کرکے ان کو رسول ونبی بنایا، اسی طرح زمین کے بعض حصوں (مثلاً مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور ملک شام ) کو دوسرے حصوں پر فوقیت وفضیلت بھی بخشی دی۔

ملک شام کا قران میں تزکرہ

نبیوں اور رسولوں کی سرزمین ملک ”شام“ قرآن کریم میں اس بارکت زمین کا ذکر خیر موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔ پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ کو رات ہی میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے۔ یہ علاقہ قدرتی نہروں اور پھلوں کی کثرت اور انبیاء کا مسکن ومدفن ہونے کے لحاظ سے ممتاز ہے، اس لئے اس کو بابرکت قرار دیا گیا۔ (سورۂ الاسراء آیت ۱) ہم نے تند وتیز ہوا کو سلیمان علیہ السلام کے تابع کردیا جو اُن کے فرمان کے مطابق اسی زمین کی طرف چلتی تھی جہاں ہم نے برکت دے رکھی ہے،،، (سورۂ الانبیاء آیت ۸۱) یعنی ملک شام کی سرزمین۔ جس طرح پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد علیہ السلام کے لئے مسخر کردئے گئے تھے، اسی طرح ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام کے تابع کردی گئی تھی وہ تخت پر بیٹھ جاتے تھے اور جہاں چاہتے، مہینوں کی مسافت، لمحوں اور ساعتوں میں طے کرکے وہاں پہنچ جاتے۔ ہوا آپ کے تخت کو اُڑا کرلے جاتی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا: اے میری قوم والو! اس مقدس زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ تعالیٰ نے تمہارے نام لکھ دی ہے۔ (سورۂ المائدہ آیت ۲۱) بنی اسرائیل کے مورث حضرت یعقوب علیہ السلام کا مسکن بیت المقدس تھا لیکن حضرت یوسف علیہ السلام کی امارت مصر کے زمانے میں یہ لوگ مصر جاکر آباد ہوگئے تھے۔ تب سے اس وقت تک مصر ہی میں رہے جب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں راتوں رات فرعون سے چھپ کر نکال نہیں لے گئے۔ ہم ابراہیم اور لوط کو بچاکر اس زمین کی طرف لے گئے جس میں ہم نے تمام جہاں والوں کے لئے برکت رکھی تھی۔ (سورۂ الانبیاء آیت ۷۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام عراق سے مقدس سرزمین ملک شام ہجرت فرماگئے تھے۔ ہم نے ان لوگوں کو جو کہ بالکل کمزور شمار کئے جاتے تھے اس سرزمین کے مشرق ومغرب کا مالک بنادیا جس میں ہم نے برکت رکھی ہے۔(سورۂ الاعراف آیت ۱۳۷) زمین سے مراد شام کا علاقہ فلسطین ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے عمالقہ کے بعد بنی اسرائیل کو غلبہ عطا فرمایا۔

رسولوں اور نبیوں کی زمین …. شام

اللہ تعالیٰ نے ملک شام کی سرزمین کو اپنے پیغمبروں کے لئے منتخب کیا چنانچہ انبیاء ورسل کی اچھی خاصی تعداد اسی سرزمین میں انسانوں کی رہنمائی کے لئے مبعوث فرمائی گئی۔ خلیل اللہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے جلیل القدر رسول اپنے بھتیجے حضرت لوط علیہ السلام کے ہمراہ ملک عراق سے ہجرت فرماکر ملک ”شام“ ہی میں سکونت پذیر ہوئے۔ اسی مقدس سرزمین سے ”حضرت ابراہیم علیہ السلام“ نے مکہ مکرمہ کے متعدد سفر کرکے مکہ مکرمہ کو آباد کیا اور وہاں بیت اللہ کی تعمیر کی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کے بے شمار انبیاء علیہم السلام (مثلاً حضرت اسحاق، حضرت یعقوب، حضرت ایوب، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت الیاس، حضرت الیسع، حضرت زکریا، حضرت یحیےٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام) کی یہ سرزمین مسکن بھی رہی اور بعد میں مدفن بھی بنی۔ غرضیکہ آسمانی تینوں مزاہب مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے لئے یہ سرزمین بہت بابرکت ہے۔

قدیم عرب کا تجارتی بازار اور مُحَمَّد ﷺ کا تجارتی سفر شام

عرب میں تجارتی سفر علامہ ابوعلی مرزوقی ؒ کتاب ’’الازمنہ والامکنہ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ عرب میں کل13بڑے بازار لگتے تھے۔ جو ایک چین سسٹم کی طرح چلتے تھے، ’’دومۃ الجندل‘‘ شام اور مدینہ کے درمیان مدینہ سے پندرہ دن کی مسافت پر جبلِطے کے قریب ربیع الاول میں لگتاتھا۔ یہاں شام اور روم کے تاجر آتے تھے۔ ’’مشقر‘‘ (موجودہ مسقط) نجران اور بحرین میں واقع تھا۔ دومۃالجندل کے اختتام پر تاجر یہاں آتے اور پورے جمادی الآخر یہیں رہتے۔ یہاں اہلِ فارس بڑی کثرت سے آتے تھے۔ ’’صُحار‘‘ کا بازار ماہِ رجب میں لگتا یہ یمن کی بستی عمان میں ایک پہاڑ سے متصل تھا۔ یہاں چین اور ہند کے تاجر آتے تھے۔ ’’دبّا‘‘ (موجودہ دُبئی) عمان کی بندرگاہ کا بازار تھا جو رجب کے اختتام پر لگتاتھا۔ سندھ، ہند اور چین کے تاجر یہاں آتے تھے۔ شحرمہرہ کا بازار عدن اور عمان کے درمیان ساحل پر لگتاتھا اور ہند ، فارس اور حمیر کے تاجر یہاں آدھا رمضان گزارتے تھے، پھر تجارتی قافلہ یمن کے دارلحکومت’’صنعاء‘‘ پہنچتا اور رمضان کے اختتام تک بازار جاری رہتاتھا۔ یہاں سے تجارتی قافلے دو حصوں میں بٹ جاتے ایک قافلہ حضر موت کے بازار’’سوق رابیہ‘‘ چلاجاتا اور دوسرا قافلہ نجد کے بالائی علاقے عکاذ کے بازار میں جاتا۔ یہ دو بازار ماہ ذی قعدہ میں لگتے تھے اور پھر ذوالحجہ کا چاند نظر آتے ہی بازار ذوالمجاز منتقل ہوجاتا جو عرفات سے تین میل دور لگتاتھا۔ حجاج اور مکہ کے لوگ اس میں ضرورشریک ہوتے تھے۔ان کے علاوہ سوق نطاۃ خیبر میں، سوق حجر یمامہ میں، سوق مجنہ جو ذوالمجاز اور سقی کے قریب واقع تھا۔ سوق دیرایوب،سوقِ بصریٰ اور سوق اذرعات بھی عرب کے مشہور بازاروں میں شمار کیے جاتے تھے۔ (الازمنہ والامکنہ ۔ مرزوقی)ممکن ہے کہ چین سسٹم کے ان بازاروں میں حضورپاک.. ﷺ نے بھی تجارتی سفر کیے ہوں اس موضوع پر چند روایات اور حوالے ملتے ہیں جنہیں ہم یہاں پیش کررہے ہیں۔ عالمی تجارتی سفر محمد رسول اللہﷺ کے تجارتی سفر لڑکپن کے دور میں محمد رسول اللہ ﷺکے تجارتی اسفار کا تذکرہ ملتاہے۔ اس سفر میں آپ ﷺاپنے چچا ابو طالبؓ اور حضرت زبیرؓ کے ہمراہ شریکِ تجارت رہے۔ آپ ﷺ کے یہ اسفار یمن، بحرین اور شام کی طرف تھے۔ علامہ شبلی نعمانی سیرت النبیؐ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضور ﷺ جب سنِ شعور کو پہنچے تو اپنے چچا زبیرؓ کے ہمراہ تجارتی سفروں میں شریک ہوا کرتے تھے۔ بحوالہ:سیرت النبی : صفحہ31 آپ ﷺ نے دس سال کی عمر میں اپنے چچا حضرت زبیرؓ کے ساتھ یمن کا سفر کیا۔ بحوالہ:تاریخِ محمدؐ۔ایم ڈی فاروق بعض افراد آپ . ﷺ کی عمر15سے 19سال بتاتے ہیں۔ اس سفر میں آپ ﷺ کو تجارت کے اصولوں سے آگاہی ہوئی۔ اس تجارت میں آپ . ﷺ کے ساتھی تاجروں کو کافی منافع حاصل ہوا۔ بحوالہ:سیرت دحلانیہ۔ نقوش رسول نمبر جلد 2، روضہ الاحباب رسالت مآب ﷺ کی عمر تقریباً بارہ سال کی ہوگی جب آپ . ﷺکے چچا جناب ابو طالب نے حسبِ دستور شام کے سفر کا ارادہ کیا آپ ﷺ بھی ان کے ہمراہ روانہ ہوئے۔ اس سفر کا ایک واقعہ مشہور ہے ۔ قافلہ نے جب شام کے شہر بصریٰ میں پڑاؤ ڈالا تو یہاں موجود صوامعہ(خانقاہ) کے ایک راہب بحیرا نے آپ ﷺ کے اوصاف کو پہچان لیا اور ابوطالب سے کہا کہ یہ پیغمبر آخر الزماں ہیں، انہیں واپس لے جائیں ، کہیں کوئی انہیں نقصان نہ پہنچادے۔بحوالہ:سیرت النبی ۔ علامہ شبلی، شواہد النبوت ڈاکٹر حمید اﷲ اس سفر کو شام کے بجائے فلسطین کا سفر لکھتے ہیں۔بحوالہ:کتاب محمد رسول اﷲ، بصریٰ کا یہ بازار25دن لگاکرتاتھا۔ بحوالہ:الازمنہ والامکنہ۔ مرزوقی نوجوانی میں حضوراکرم. ﷺ نے تجارت کو ہی اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ چنانچہ حضور نبی کریم. ﷺ کی عمر بیس سال کی ہوئی تو آپ. ﷺ نے دوبارہ ”شام“ کی طرف سفر کیا۔ ایک روایت کے مطابق اس سفر میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی آپ ﷺ کے ہمراہ تھے اور اسی سفر نے آپ دونوں کو زندگی بھر کا رفیق بنادیاتھا۔ بحوالہ:نقوشِ رسول نمبر جلد 2 حضور نبی کریم. ﷺ کی عمر جب پچیس برس ہوئی تو آپ ﷺ نے ”شام“ کا تیسرا سفر کیا۔ یہ وہ مشہور سفر ہے جس میں حضرت خدیجہؓ کے ملازم ’’میسرہ‘‘ آپ کے ہمسفر بنے۔ اس سفر میں آپ ﷺ نے بصریٰ میں قیام فرمایا۔ یہاں بھی ایک راہب نسطورا کا تذکرہ ملتاہے۔ جب مکہ مکرمہ واپسی ہوئی تو حضرت خدیجہؓ کے سامانِ تجارت کو پہلے کی نسبت دوگنامنافع حاصل ہوا۔ اس سفر میں آپ ﷺ کی صداقت و امانت سے معترف ہوکر حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ سے نکاح کا پیغام بھجوایا۔ بحوالہ:الوفا، ابن جوزی، سیرت النبیؐ۔شبلی نعمانی، سیرت ابن ہشام

قیامت کی نشانیاں اور ملک شام

اسلامی تواریخ پر عبور رکھنے والے بہت سارے جید اہلعلم ہر زمانے میں پیدا ہوتے رہے اور انھوں نے اپنی علمی لیاقت اور صلاحیت اپنی تحریروں کے زریعہ عوام الناس کے فایدے کی غرض سے آنے والی نسلوں کے لیے ایسی ایسی کتابیں تحریر رقم کیا جس سے آج بھی لوگ فیضیاب ہو رہے ہیں۔۔۔ایسے اہل علم و دانش کے بقول۔۔۔۔۔۔۔
قیامت کی بعض بڑی نشانیوں کا ظہور بھی اسی مقدس سرزمین پر ہوگا۔ چنانچہ حضرت مہدی اسی سرزمین سے مسلمانوں کی قیادت سنبھالیں گے۔ دمشق کے مشرق میں سفید مینار پر نماز فجر کے وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا،اور اسکے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام امت مسلمہ کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ دجال اور یاجوج وماجوج جیسے بڑے بڑے فتنے بھی اسی سرزمین سے ختم کئے جائیں گے۔ دنیا کے چپہ چپہ پر اسی علاقہ کی سرپرستی میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگی۔۔۔ یمن سے نکلنے والی آگ لوگوں کو اسی بابرکت سرزمین کی طرف ہانک کر لے جائے گی اور سب مؤمنین اس مقدس سرزمین میں جمع ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے بعد جلدی ہی قیامت قائم ہوجائے گی۔

ملک ”شام“ اور احادیث نبویﷺ

: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے اللہ! ہمیں برکت عطا فرما ہمارے ”شام“ میں، ہمیں برکت دے ہمارے یمن میں۔ آپ نے یہی کلمات تین یا چار مرتبہ دوہرائے۔ (بخاری، ترمذی، مسند احمد، طبرانی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب میں سویا ہوا تھا تو میں نے دیکھا کہ عمود الکتاب (ایمان) میرے تکیہ کے نیچے سے ہٹایا جارہا ہے، میری آنکھوں نے اس کا پیچھا کیا تو پایا کہ وہ بلند نو ر کی مانند ہے، (طبرانی( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں نے شب معراج میں دیکھا کہ فرشتے موتی کی طرح ایک سفید عمود اٹھائے ہوئے ہیں۔ جب میری آنکھ نے اس کا تعاقب کیا تو دیکھا کہ وہ ایک بلندنور کے مانند میرے سامنے ہے یہاں تک کہ اس کو شام میں رکھ دیا گیا۔ (طبرانی(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر اہل شام میں فساد برپا ہوجائے تو پھر تم میں کوئی خیر نہیں ہے۔ میری امت میں ہمیشہ ایک ایسی جماعت رہے گی جس کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوگی اور اس کو نیچا دکھانے والے کل قیامت تک اس جماعت کو نقصان نہیں پہونچا سکتے ہیں۔ (ترمذی، ابن ماجہ، طبرانی، صحیح ابن حبان( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ اللہ کے احکام کی پابندی کرے گی، جس کو نیچا دکھانے والے اور مخالفت کرنے والے نقصان نہیں پہونچا سکتے۔ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک وہ اللہ کے دین پر قائم رہیں گے۔۔۔۔۔ مالک بن یخامر ؒ نے کہا اے امیر المؤمنین! میں نے حضرت معاذ ؓ سے سنا ہے کہ یہ جماعت ملک شام میں ہوگی۔ (بخاری، مسلم، طبرانی( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں ایک جماعت حق کے لئے لڑتی رہے گی اور قیامت تک حق انہیں کے ساتھ رہے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے ملک شام کی طرف اشارہ کیا۔ (ابو دؤد، مسند احمد، طبرانی( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت میں ایک جماعت دمشق اور بیت المقدس کے اطراف میں جہاد کرتی رہے گی۔ لیکن اس جماعت کو نیچا دکھانے والے اور اس جماعت کی مخالفت کرنے والے اس جماعت کو نقصان نہیں پہونچا پائیں گے اور قیامت تک حق انہیں کے ساتھ رہے گا۔ (رواہ ابو یعلی ورجالہ ثقات، قال الہیثمی فی مجمع الزوائد(

( ان دنوں اِسی بابرکت خطہ خاص کر سوریا یعنی ”شام“ اور ”الغوطہ“ شہر میں مسلمانوں کا اور معصوم بچوں عورتوں اور بوڑھوں کا جس بیدردی سے ان طاغوتی بمبار طیاروں سے پے در پے حملے کر کے ناحق خون بہایاجا رہا ہے۔ ٢٠١١ سے مسلسل یہ حملے ہوتے رہے ہیں جس میں پچھلے ہفتے عشرے سے مزید تیزی سی آگٸ ہے اور میڈیا کے زریعہ اب عوام بھی اس انسانیت دشمنی کے شاہد بنتے جا رہے ہیں ۔۔۔
جس وقت یہ مضمون لکھا جا رہا ہے اور جب آپ یہ پڑھ رہے ہونگے اس وقت بھی ملک شام کے معصوموں پر بمباری جاری ہوگی۔۔۔آج ساری بین القوامی تحفظ انسانی تنظیمیں اور ادارے یا تو خاموش ہیں یا محض بیانبازی تک محدود ہیں ۔۔۔۔ اور ہمیں ان سے کوئی شکایت بھی نہیں ہے کیونکہ جب ہمارے اپنے ہی خاموش ہوں تو غیر سے کیسی شکایت ۔۔۔ تقریباً تمام عالم اسلام ساکت و سالم اور یوں خاموش ہے گویا کچھ ہوا ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ایسی مسلم حکمرانی کو بے حس نہ کہا جاے تو کیا کہا جاے۔۔۔
ہاں اسکےبرعکس مسلم عوام الناس میں اس رکیک حملے کے خلاف زبردست غم و غصہ دیکھا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ میڈیا کی مانیں تو چند اسلامی ممالک کے عوام تو بالکل تیار بیٹھیں ہیں کہ ذرا حکومت سے اشارہ ملتے ہی وہ سرحد پار جاکر اپنے اسلامی اور کلمہ گو بھای کی مدد کرتے ہوۓ اپنی جان نثار کر دیں۔۔۔ہمارے ملک کی تو صورتحال اور قانونی بندشیں ایسی ہیں کہ ہم چاہ کے بھی ایسا قدم نہیں اٹھا سکتے ۔۔۔۔۔۔اس لیے صرف اتنا ہی کہ سکتے ہیں ۔
اے ملک شام کے شہید ہونے والو معصوموں ہم بے بس ہیں ۔۔۔بے بس ہیں۔۔بے بس ہیں ۔۔۔

بے بسی کے باوجود کرنے کے کام

دعاوں کا زیادہ سے زیادہ اہتمام
قنوت نازلہ کا اجتماعی اہتمام
صدقہ کازیادہ سے زیادہ اہتمام
سڑکوں پر خاموش احتجاجی جلوس
امریکہ روس ایران اسرایل وغیرہ کے ایمبیسی کے سامنے احتجاجی مظاہرے۔
اللہ سے دعا کریں کہ اللہ ان اسلام دشمنوں کی تمام مکر اور چالوں اور سازشوں کو ناکام کر دے ۔۔۔ملک شام کے لوگوں کی غیب اور ملایکہ کے ذریعہ نصرت و مدد فرما۔۔۔منتشر مسلم قوم اور قاید کو متحد فرما ۔۔۔۔آمین ثم آمین ۔۔۔