حامد اقبال صدیقی
ممبئی اور اس کے مضافات میں جتنی بڑی تعداد میں پرائمری اور سیکنڈری اردو اسکول ہیں، شاید ہی ملک کے کسی دوسرے شہر میں ہوں۔ ہم نے وہ منظر بھی دیکھا ہے جب ان میں سے کئی اسکولوں میں اپنے بچوں کو داخلہ دلوانے کے لیے لوگ رات رات بھر قطاریں لگاتے تھے اور داخلے کی تاریخ پر بھیڑکا یہ عالم ہوتا تھا کہ نظم و ضبط کے لیے پولس کی مدد لینی پڑتی تھی۔ اب حالات ایسے بدلے ہیں کہ یہ سب ناقابلِ یقین سا لگتا ہے۔ اب طلبہ کی کمی کے سبب بعض اسکولوں کے بند ہوجانے کی نوبت ہے تو کئی بڑے اسکولوں میں ڈویژن کم ہونے لگے ہیں۔
اخبارات اور سوشیل میڈیا میں وقتاً فوقتاً دبی دبی سی آوازیں اٹھتی ہیں کہ اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں داخلہ دلوائیں، ردِّ عمل کے طور پر کچھ بزعمِ خود بیدار، اردو بیزار افراد رٹے رٹائے دو جملے دہرا کر ان آوازوں کو خاموش کر دیتے ہیںپہلا یہ کہ اردو اسکولوں کے اساتذہ خود اپنے بچوں کو انگلش اسکولوں میں پڑھوا رہے ہیں اور دوسری بات یہ کہ اردو اسکولوں کا معیار بہت ہی خراب ہے۔ پہلی بات بہت حد تک درست ہے اور اس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے مگر دوسری بات سے مجھے سخت اختلاف ہے، اب بھی کچھ اردو اسکول ایسے ہیں جہاں کا معیار بہت اچھا ہے۔
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اردو اسکول غیر معیاری ہیں تو اس کی کئی وجوہ ہیں جن پر غور نہیںکیا جاتا۔ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اب اردو اسکولوں میں متمول اور تعلیم یافتہ گھرانوں کے بہت کم بچے آتے ہیںاور بیشتر طلبہ پسماندہ علاقوں کے انتہائی غریب اور ناخواندہ خاندانوں کے ہوتے ہیں جو تعلیمی ماحول سے یکسر ناآشنا ہوتے ہیں، کچھ تو اتنے غریب ہوتے ہیں کہ دو دو وقت کے بھوکے پیاسے اسکول آتے ہیں، ان کے پاس نہ ڈھنگ کا یونیفارم ہوتا ہے اور نہ ہی ضروریات کی چیزیں جیسے جیومیٹری باکس ڈرائنگ کا سامان وغیرہ ، انھیں پڑھانا اس لیے بھی مشکل ہوتا ہے کہ ان کے نا خواندہ والدین یا دیگر کھر کے افراد سے کسی قسم کا کوئی تعاؤن نہیں ملتا وہ کسی بات کی اہمیت کو سمجھ ہی نہیں پاتے حتیٰ کہ پی ٹی اے میٹنگ تک میں نہیں آتے۔ اس کے باوجود ساٹھ ستّر فیصد سیکنڈری اردو اسکولوں کا ایس ایس سی کا رزلٹ صد فیصد ہوتا ہے یہی نہیں بلکہ انھی ناخواندہ اور پسماندہ گھرانوں کے لاتعداد بچے ان امتحانات میں اسّی نوّے فیصد مارکس حاصل کرتے ہیں،ان کو اسکولی تعلیم کے علاوہ کوچنگ کلاس اور ٹیوشنس تو کُجا، گھر پر پڑھنے لکھنے کی بنیادی سہولیات تک میسّر نہیں ہوتیں۔ اعداد و شمار پر غور نہیں کیا جاتا ورنہ یقین کیجیے کہ ہر سال یہ تعداد انگلش اسکولوں سے کہیں زیادہ بہتر ہوتی ہے۔تمام تر نا مساعد حالات، ناقص اور فرسودہ انفرا اسٹرکچر نیز محدود وسائل کے باوجود کیا یہ نتائج حیرا ن کن نہیں؟ کیا اس کارنامے کے لیے ارود کے یہ تعلیمی ادارے اور ان میں خدمات انجام دینے والے اساتذہ لائقِ ستائش نہیں؟ آج ہمارے سماج میں جتنے نامور ڈاکٹر، وکیل۔ صحافی، صنعتکار یا دیگر پروفیشنلز ہیں ان میں سے زیادہ ترلوگوں نے اردو میڈیم سے ہی تعلیم حاصل کی۔
اردو اسکولوں کے ناقص اور فرسودہ انفرا اسٹرکچر اور محدود وسائل کے ذمے دار ہم خود بھی تو ہیں، ان اسکولوں کی مالی اعانت ہماری ترجیحات میں شامل ہے ہی نہیں، حکومت سے جو گرانٹ ملتی ہے اسی پر قناعت کرنے والے ایڈیڈ اسکولس تو کسی حد تک کام چلا لیتے ہیں مگر نان ایڈیڈ اسکول چلانا کتنا دشوار ہے اس کا اندازہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔سرمائے کی کمی کے سبب ان اسکولوں میں برسہا برس رنگ روغن نہیں لگ پاتا، پنکھے لائٹ، فرنیچر، طہارت خانوں کی مرمت، اساتذہ کے لیے تدریس میں معاون اشیا وغیرہ وغیرہ، سب کچھ فراہم کرنا کتنا دشوار ہوتا ہے اس پر ہم کبھی نہیں سوچتے۔ایک ایک کمپیوٹر حاصل کرنے کے لیے ذی حیثیت افراد یا سیاسی لوگوں کے کیسے کیسے نخرے برداشت کرنے پڑتے ہیں اس کے تصور سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے۔
ہم اپنے بچوں کو انگلش اسکولوں میں داخلہ دلوانے کے لیے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھ دو لاکھ یا اس سے بھی کچھ زیادہ ڈونیشن یا دلالوں کو رشوت دینے کے لیے آمادہ رہتے ہیں، خطیر رقمیں دینے کے باوجود ان اسکولوں کے چوکیداروں، چپراسیوں اور کلرکوں کی جھڑکیاں برداشت کرتے ہیں کہ کسی طور ایڈمیشن ہو جائےلیکن اگر کسی اردو اسکول کے لیے دس روپیہ مانگ لیا جائے تو اسکول انتظامیہ اور پرنسپل کو ہم شک کی نگاہ سے دیکھنے لگ جاتے ہیں اور بغیر سوچے سمجھے فقرہ کس دیتے ہیں ’’ کھانے کمانے کا رستہ ڈھونڈ لیا ہے‘‘ ان سے حسابات طلب کرنے کے خواہاں ہوجاتے ہیں، بلکہ بد عنوانی کا الزام تک لگ جاتا ہے مگر ان انگلش اسکولوں کی انتظامیہ کو مستحسن نگاہوں سے دیکھتے ہیں جنھیں ہم اپنی قوم کا کروڑوں روپیہ ہر سال ڈونیشن کے نام پر دے دیتے ہیں، ان سے حسابات پوچھنے کی کسی میں جرأت نہیں ہوتی، ہم دراصل یہ رقمیں انھیں اسی لیے تو دیتے ہیں کہ وہ ہمارے بچوں کو کسی طور ہماری اپنی زبان اور تہذیب سے دور کردیں اور اس کا سب سے بھیانک نتیجہ جس پر ہم غور ہی نہیں کرنا چاہتے وہ یہ ہے کہ جن گھروں سے کبھی خواتین مکمل پردے میں نکلتی تھیں آج ان ہی گھروں کی بچیاں جینز اور ٹی شرٹ پہنے کوچنگ کلاسیز، گلی کوچوں، سڑکوں اور بازاروں میں گھومتی پھرتی نظر آتی ہیں، بچہ ٹیوشنس سے گھر لوٹ کر اپنے باپ سے پوچھتا ہے کہ کیا آج اپنا کوئی فیسٹیول ہے؟ مسجد میں لائٹنگ کی گئی ہے، بیٹی ماں سے پوچھتی ہے کہ چھپّن ستّاوَن کو انگلش میں کیا کہتے ہیں؟
اب ذرا یہ بھی سوچئے کہ کیا دیتے ہیں ہم اپنے ان اردو اسکولوں کو سوائے چند تضحیک آمیز جملوں کے جہاں بچے اذان اور وضو کو اذان اور وضو ہی پڑھتے ہیں اڈھان ADHAN اور وڈھو VADHU نہیں پڑھتے، جنھیں یہ پتہ ہے کہ وہ روز مرّہ کی جو زبان بولتے ہیں وہ ہندی نہیں بلکہ اردو ہے، جو اپنی مذہبی کتابیں اپنی مادری زبان میں ہی پڑھتے ہیں کسی غیر ملکی زبان میں نہیں۔ ایک اہم بات جس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ گزشتہ انّیس برسوں سے اردو اسکولوں کے بچوں کے لیے جنرل نالج کوئیز مقابلے منعقد کرتے ہوئے میں ان اسکولوں کے طلبہ کی ذہانت اور اساتذہ کی محنت کا قائل ہوگیا ہوں اور چند برسوں سے یہ کھلا چیلنج دے رہا ہوں کہ معلوماتِ عامّہ کے شعبے میں اردو اسکولوں کے طلبہ کا مقابلہ بڑے سے بڑے انگلش اسکول کے طلبہ سے کروا کر دیکھ لیں مجھے یقین ہے کہ اردو کے طلبہ ان پر حاوی رہیں گے۔ صرف اتنی سی بات ہے کہ: ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔
ہم اپنے بچے کو انگلش اسکول میں ڈال کر یقیناً یہی خواب دیکھتے ہیں کہ معیاری تعلیم حاصل کرکے ہمارے بچے کا مستقبل سنور جائے گا لیکن دراصل ہمارے ذہنوں میں کہیں نہ کہیں بلند معیارِ زندگی کی نمائش کی تمنا موجزن ہوتی ہے اور ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ بلند معیارِ زندگی کی پہلی شرط انگلش بولنا ہے۔ انگلش اسکولوں میں نرسری اور پری پرائمری میں بچوں کو اداکاری کے ساتھ کچھ پوئٹریز رٹا دی جاتی ہیں، ہم بہت خوشی اور فخر کے ساتھ مہمانوں اور رشتے داروں کے سامنے بچوں سے پوئٹری پڑھواتے ہیں یہ باور کرانے کے لیے کہ ہمارا بچہ انگریزوں اور امریکیوں کی طرح غٹر غٹر انگلش بول رہا ہے ۔۔۔ لیکن اس سے آگے کیا؟ایک وقت آتا ہے جب ہمیں لگتا ہے کہ انگلش بولنے اور سیکھنے کے لیے اور امتحانات میں اچھے نمبر حاصل کرنے کے لیے اسکول کی تعلیم ناکافی ہے اور پھر ہزاروں روپیہ خرچ کرکے ٹیوشن لگاتے ہیں۔ اول تو مجھے نہیں لگتا کہ انگلش اسکولوں میں پڑھنے والے بچے درست اور معیاری انگلش بول پاتے ہیں، لیکن فرض کیجیے کہ ہمارا بچہ انگلش بولنا سیکھ بھی جائے تو کون سا کمال کرے گا؟ فی زمانہ ایک ان پڑھ جاہل مزدور بھی دن بھر کی گفتگو میں دس پندرہ فی صد انگلش کے الفاظ استعمال کر ہی لیتا ہے مثلاً ٹائم پاس، ٹریفک جام، موبائل بیلینس ریچارج، ٹرین لیٹ ہے، کنفرم ٹکٹ وغیرہ وغیرہ۔
یہاں ایک بات اور یاد آگئی، کچھ لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ اردو اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کی انگلش کمزور ہوتی ہےاسی لیے کالجوں میں جانے کے بعد ان میں خود اعتمادی کا فقدان ہوتا ہے، وہ پیچھے رہ جاتے ہیں، اور دلیل کے طور پر خود اپنی ہی مثال پیش کرتے ہیں اور اس بات پر مصر رہتے ہیں کہ انگلش اسکولوں میں پڑھے بغیر ہمارے بچے ترقی نہیں کرسکتے، یہ اس دور کے لوگ ہیں جب اردو اسکولوں میں پانچویں جماعت سے انگلش پڑھائی جاتی تھی، آج ہمارے اسکولوں میں بھی پری پرائمری سے ہی انگلش لازمی ہےاور پھر یہ الزام اس لیے بھی مضحکہ خیز لگنے لگا ہے کہ موبائل فون، انٹرنیٹ، فلم، ٹیلی ویژن نے انگلش کو روزمرّہ بنا دیا ہےاور آج کے بچے چاہے کسی میڈیم میں پڑھتے ہوںوہ اب ٹوٹی پھوٹی سہی، انگلش بولنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتے جو کہ مذکورہ لوگوں کا المیہ تھا۔ اگر اردو اسکولوں میں انگلش کا اضافی ٹیچر ہو جو ایکسٹرا کلاس لے یا ان بچوں کو بھی کوچنگ کلاس نصیب آجائے تو انگلش پر عبور حاصل کرنا ان کے لیے بھی تو دشوار نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فی زمانہ عالمی سطح پر تقریباً ہر شعبے میں انگلش رابطے کی زبان ہے مگر یہ مفروضہ سراسر غلط ہے کہ انگلش اسکول میں پڑھے بغیر بچے ترقی نہیں کر سکتے۔ جاپان نے الیکٹرانکس اور روبوٹکس میں، روس نے خلائی سائنس میں، چین نے عالمی منڈی میں اور جرمنی نے طب اور ادویات کے شعبوں میں جو ترقی کی کیا وہ انگلش کی وجہ سے ہے؟ نہیں ان سبھی ممالک کے عوام نے اپنی قومی اور علاقائی زبانوں کے ذریعے ہی ان شعبوں میں اپنے ملک کو عظمتیں دیں اور آج بھی ان کی اپنی زبانیں ہی ان کی شناخت ہیں۔
ہمارے بزرگوں نے نہ جانے کیسی کیسی قربانیاں دے کر اردو کے یہ تعلیمی ادارے قائم کیےجنھیں ہم نے ظاہری چکاچوند والے انگلش اسکولوں کی ہوڑ میں یکسر فراموش کر دیا ہے، اس چکا چوند میں جو ہمارے اپنے ہی پیسوں سے قائم ہے۔ للہ اردو کے ان تعلیمی اداروں کو بند ہونے سے بچائیے۔ اگر تعلیم یافتہ اور اقتصادی طور پر بہتر گھروں کے بچے بھی اردو اسکولوں میں پڑھنے لگیں، اگر مشترکہ یا انفرادی طور پر ہم ان اسکولوں کی مالی اعانت کرسکیں، اگر ہم اپنے اطراف کے اردو اسکولوں کے مسائل پر تھوڑی سی توجہ دے دیں، اگر ہم اردو اسکولوں کے اساتذہ کو احترام دے کر ان میں خود اعتمادی پیدا کریں اور ان کی محنتوں کو سراہیں تو یہ ادارے نہ صرف قائم رہیں گے بلکہ ان کا معیار بھی بلند ہوگا۔ ممبئی کے صاحبِ حیثیت افراد ہر سال رمضان میں ملک بھر کے دینی مدارس کو زکوۃ اور عطیات کی صورت میں مالی امداد کرتے ہیں جو کہ لائقِ صد ستائش ہے اور بہت ضروری بھی، اسی طرح اگر ممبئی کے اردو اسکولوں کی بھی مالی اعانت کی جائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج نکل سکتے ہیں۔ آئیے ہم اپنی سوچ کو بدلیں، پُر اعتمادی کے ساتھ اپنے بچوں کو اردو اسکولوں میں داخلہ دلوائیں، اپنی پیاری اردو زبان کو فروغ دینے میں معاون بنیںتشکیک اور منفی رجحانات زبان اور اس کی تہذیب کے لیے ہی نہیں بلکہ سماج کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ مثبت سوچ کے ساتھ اٹھیں ۔۔۔ ایک نئی صبح ہماری منتظر ہے۔