جوتے کاسفر۔۔۔بش سے کیجری وال تک

اظہارالحق قاسمی بستوی
جوتے کی پیدائش یقیناحضرت انسان کی پیدائش کے ساتھ یااس کے کچھ مابعد کی ہوگی لیکن شایدتاریخ میں لوگوں نے جوتوں کی اتنی اہمیت نہ جانی اور پہچانی ہوگی جتنی کہ موجودہ صدی میں؛چناں چہ موجودہ دورمیں حکمرانوں پرجوتااچھالنا ہیرو بننے اورشہرت حاصل کرنے کاسب سے مختصراورانتہائی اچھوتاطریقہ بن گیاہے جس کواپنانے والوں کی زیادہ ترتعدادصحافیوں کی ہے اوردوسرے میدانوں کے لوگ بھی اس حوالے سے کافی روادارہیں۔
جوتے پھینکنے کی روایت کا آغاز اور اس کوسب سے زیادہ شہرت اس واقعہ سے ہوئی جس میں۱۴؍دسمبر۲۰۰۸ ؁ میں عراق کے دورے پرآئے ہوئے تاریخ انسانی کے بدترین اور لاکھوں انسانوں کے قاتل حکمراں جونیرجارج ڈبلیوبش پر بغداد میں واقع اس وقت کے وزیراعظم نوری المالکی کے محل میں چل رہی الوداعی پریس کانفرنس کے دوران ایک عراقی صحافی منتظرالزیدی نے بش کے اوپرپہلاجوتااچھالتے ہوئے کہا:کتے!یہ عراق کے لوگوں کی طرف سے الوداعی سلام ہے۔ اور دوسراجوتا اچھالتے ہوئے کہا:اوریہ عراق کے مقتولین ، یتیموں اور بیواؤوں کی طرف سے ہے۔ اس گستاخی کے ردعمل کے طورپرمنتظرالزیدی کو فوری گرفتارکرلیاگیااورتقریبانوماہ تک قیدوبندکی صعوبتوں سے گذارنے کے بعد ۱۵؍ستمبر ۲۰۰۹ ؁ کو اسے جیل سے رہائی ملی ۔
صدربش کے ساتھ اس نام نہاد گستاخی پر منتظر الزیدی کے اس طریقہ احتجاج نے پوری دنیاکی اپنی طرف توجہ مبذول کرائی ۔منتظرالزیدی راتوں رات مسلم دنیاکاہیروبن گیا اورنہ صرف مسلم دنیاکابل کہ ؛ دیگرمظلوم ومقہوراقوام کابھی ۔ منتظرکے بش پر پھینکے ہوئے معمولی جوتے کوخریدنے کے لیے لوگوں نے لاکھوں ڈالرروپیوں کی پیش کرڈالی۔ اس کے احتجاج کے اندازنے پوری دنیا میں پذیرائی حاصل کی چناں چہ ۲۰۰۸ ؁ سے لے کرآج تک درجنوں ،بین الاقوامی ، قومی اورریاستی لیڈران کو جوتوں کی یہ مالاپہنانے کی سعی کرکے بڑے پیمانے پرلوگوں نے اپنے احتجاج کودرج کرایااور جوتاکلب کی تاریخ میں کئی لوگوں کے نام کاخود کوحصہ بناڈالا۔
اس واقعے کے بعدپوری دنیامیں جوتے نے ایک عظیم مقام حاصل کرلیا۔چناں چہ اس واقعے کے صرف ڈیڑھ مہینے کے بعد ۲؍فروری ۲۰۰۹ ؁ کو جس وقت چین کے وزیراعظم وین جیا باو کیمبرج یونیورسٹی میں ’چین اور برطانیہ کے مابین اقتصادی تعاون اورتعلقات‘ کے موضوع لیکچردے رہے تھے اسی وقت حاضرین میں سے ایک جرمن نیشنل مارٹن جانکے نامی طالب علم نے چینی وزیراعظم کو جھوٹااور ڈکٹیٹربتاتے ہوئے ان پراپنا جوتا اچھال دیا۔چپلوں نے بھی اپنے آپ کوجوتوں سے کم ترنہ سمجھاچناں چہ اس واقعے کے کچھ دنوں کے بعدہی ایک اسکول کے پرنسپل نے ۱۷؍مارچ ۲۰۰۹کو ؁ انڈین نیشنل کانگریس کے ایم پی کے امیدوار مسٹرنوین جندال کے اوپراپنی محبوب ترین چپل اچھال کرمسٹرنوین جندال کو ایک نئی تاریخ کاحصہ بنادیا۔اس واردات کے گذرے ہوئے ابھی دودہے ہی گذرے تھے کہ ۷؍اپریل ۲۰۰۹ ؁ کوایک ہندوستانی ہندی روزنامہ کے سکھ صحافی جرنیل سنگھ نے اس وقت کے وزیرداخلہ مسٹرپی چدمبرم کے اوپر۱۹۸۴ ؁ کے سکھ مخالف فسادات کے حوالے سے سی بی آئی کی طرف سے ملزم جگدیش ٹیٹلرکوکلین چٹ دیے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے ان پر جوتااچھال دیا۔جرنیل سنگھ کوگرفتارتو کرلیاگیالیکن اس کے نتیجے میں ہندوستان کے سکھوں کاخون کھول گیااور ملک میں ایک بارپھراحتجاج شروع ہوگیا۔سنگھ کی رہائی کاشدت سے مطالبہ کیاگیااور اس کے لیے سکھ برادی کی طرف سے انعامات کے اعلان کیے گئے۔بعدمیں گرچہ جرنیل سنگھ نے اپنے اس طریقہ کارپرافسوس کا اظہارکیا لیکن اس کا نام پی چدمبرم کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ہم آغوش ہوگیا۔اس واقعے کوبھی ابھی چندروز ہی ہوئے تھے کہ اس وقت کے اپوزیشن لیڈراورقومی جمہوری اتحادکی طرف سے وزارت عظمی کے امیدواراور بی جے پی کو ثری سے ثریاتک لے جانے والے سنگھی لیڈرلاکرشن اڈوانی پر۱۶؍اپریل ۲۰۰۹ ؁کوخود انھی کی پارٹی کے مدھیہ پردیش سے تعلق رکھنے والے ایک ناراض ممبر پواس اگروال نے ان کے ساتھ بھی جوتاماری والی واردات انجام دی اور لعنت کایہ طوق ان کے گلے میں ڈال کرلازوال کردیا۔دوسری طرف اگلے دس دنوں کے بعد۲۶؍اپریل ۲۰۰۹ ؁کو اس وقت کے وزیراعظم ڈاکٹرمنموہن سنگھ پرجس وقت وہ احمدآباد میں ایک ریلی سے خطاب کررہے تھے ایک شخص نے آں موصوف پرجوتااچھال کراپنے احتجاج کا مظاہرہ کیا۔ اورپھرلگے ہاتھوں کرناٹک کے وزیراعلی مسٹریدی یورپاکو بھی ۲۸؍اپریل کو چپل کھاکرجوتاٹیم میں شامل ہوناپڑگیا۔گویاصرف چارمہینوں کے اندرپوری دنیامیں گرچہ کم لیکن ہندوستان میں جوتے کاڈنکابجنے لگا۔
بعدازاں جنوری ۲۰۱۰ ؁ میں خرطوم کے اندرجس وقت سوڈانی وزیراعظم عمرالبشیرخطاب کررہے تھے ان پرکسی شخص نے جوتااچھال دیا۔جوتا کھانے والوں کی فہرست سے ترک وزیراعظم رجب طیب اردوغان بھی اپنے کونہ بچاسکے ،چناں چہ فروری ۲۰۱۰ ؁ میں سویلیہ میں خطاب کے دوران ایک شامی شہری کردنے یہ چیختے ہوئے جوتاپھینکا:کردستان!تو جیے ہزاروں سال!یہ سلسلہ ملکوں اور سرحدوں کی قید سے آزاد ہرجگہ مقبول ہوتاگیاچناں چہ ۷؍اگست ۲۰۱۰ ؁کوپاکستان کے صدرآصف علی زرداری کی ان کے سفربرمنگھم کے دوران ایک پچاس سالہ شخص سردارخان نے جوتانوازی کی اور صرف ایک نہیں بل کہ ؛ دونوں جوتوں سے ساتھ ساتھ قاتل ہونے کے لقب سے نوازدیا۔
ہندوستان کے کئی ایک وزرائے اعلی کوبھی جوتے بازی کا سامناکرناپڑاہے،چناں چہ ۱۵؍اگست۲۰۱۰ ؁ جوکہ ہندوستان کایوم آزادی ہے میں ایک پولیس افسرعبدالاحدنے اس وقت کے جموں وکشمیرکے وزیراعلی عمرعبداللہ پرجس وقت کہ وہ ایک جلسے کو خطاب کرنے جارہے تھے جوتاپھینک کران کی آزادی کا جشن مکدرکردیا۔دوسری طرف ۴؍ستمبر۲۰۱۰ ؁ کو برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیرپر دوبلین،آئرلینڈ میں انڈوں اور جوتوں کی برسات ہوئی ۔اور پھردوبارہ انھی پر دوبلین میں ہی ۵؍ستمبرکو انڈوں ،بوتلوں اور جوتوں کی دوبارہ بارش ہوئی۔اور صرف ایک ہفتے کے بعدیونانی صدرجارج پاپنڈروپراسٹرجیوس نامی شخص کی طرف سے۱۱؍ستمبرکو جوتااچھالاگیا۔اور پھر۲۵؍اکتوبرکو سابق آسٹریلوی وزیراعظم جان ہاورڈ پر دوجوتے پھینکے گئے۔
سال ۲۰۱۱ ؁ کے آغازمیں ۶؍فروری کو سابق پاکستانی صدرجنرل پرویز مشرف پرایک خطاب کے دوران جوتے اچھالے گئے،۱۸؍اکتوبر ۲۰۱۱ ؁ میں لکھنؤکے اندرجیتندرپاٹھک نامی شخص نے مسٹراروندکیجری وال کو جوتاپھینک کے مارالیکن وہ بچ گئے۔اور پھر۱۲؍دسمبر ۲۰۱۱ ؁ کو ایس راشدنامی شخص نے ایرانی صدرمحموداحمدی نجادکوجوتے پھینک کرمارا۔اور ان دونوں نے بھی جوتا کلب میں اپنی سیٹ بک کروالی ۔چھوٹابڑاکوئی بھی جوتوں کے تبرک سے دامن نہیں بچاپایاچناں چہ ۲۳؍جنوری ۲۰۱۲ ؁کوکانگریس کے اس وقت کے جنرل سکریٹری مسٹر راہول گاندھی دہرادون میں ایک الیکشن ریلی کے دوران جوتاکھانے والوں کی فہرست میں شامل ہوگئے جب ایک شخص نے ان پراپناجوتاپھینکا۔
ہندوستانی وزرائے اعلی جن پر جوتے نچھاورکیے گئے میں ایک نام بہارکے سابق وزیراعلی جیتن رام مانجھی کا بھی ہے کہ ایک شخص نے ۵؍جنوری ۲۰۱۵ ؁ کو پٹنہ میں ان پرجوتا پھینک کر مارا۔یدی یوروپاصاحب تواس سلسلے کے سابقین اولین میں سے ہیں اوراب ۹؍اپریل ۲۰۱۶ کودہلی کے وزیراعلی مسٹراروندکیجری وال پرویدپرتاپ کی طرف سے جوتوں سے دوسری بارحملہ کیاگیا۔
دوبارجوتاکھانے والوں کی تعدادبھی کم نہیں ہے ،جن میں سرفہرست ایران کے سابق صدرمحمود احمدی نجاد، پاکستان کے سابق صدرپرویز مشرف ، آسٹریلیاکے سابق صدرجان ہاورڈ وغیرہ بڑے نام ہیں۔اس لیے کیجری وال جی پردوسری بارجوتوں کاحملہ کوئی ان ہونی یانئی چیزنہیں ہے لہذااس کی وجہ سے انھیں کسی طرح کی احساس کمتری میں بھی مبتلانہیں ہوناچاہیے۔ویسے کیجری وال جی اپنے ساتھ ہونے والی ا ن ہو نیوں کی وجہ سے کافی مشہورہیں چناں چہ اسی ۹؍اپریل کودوسال قبل۲۰۱۴ ؁میں ایک آٹووالے نے انھیں پھول پہنانے کے بہانے تھپڑرسیدکردیاتھاجس کی وجہ سے ان کی بائیں آنکھ سوج آئی تھی اور اس سے قبل بھی ان پرانڈے، سیاہی اور موبل آئیل بھی پھینکے گئے۔
بش سے شروع اس منحوس روایت نے ان گنت لوگوں کو جوتا یا اس کی ہواکھلادی ہے۔مذکورہ بالا تفصیلات میں عمومابہت بڑے یا ہندوستانی حضرات جو جوتابازی اور جوتاماری کے شکارہوئے ہیں ان کے بارے میں ایک سرسری معلومات فراہم کی گئی ہیں ورنہ تو جوتوں کاتبرک دنیاکے تمام گوشوں میں مختلف لیڈران نے وقفے وقفے سے حاصل کیاہواہے۔ جس کی تفصیلات دائرۃ المعارف پرموجودہیں۔
جوتوں کا چلن ہوجانے کی وجہ سے پوری دنیاکے لیڈران کانفرنسوں اور بھاشنوں کے درمیان ایک بارضرورسوچتے ہوں گے کہ پرسوں بش کل کیجری اور آج کہیں ان سے یہ جوتاہم آغوش نہ ہونے لگے۔جوتوں کی روایت کے عام ہونے کی وجہ سے لیڈران کا چاہے کوئی فائدہ ہواہویانہ ہواہولیکن پھینکنے والوں نے اس سے بہت فائدہ اٹھایاہے اور شایداٹھاتے رہیں گے،لہذاضرورت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ اب بین الاقوامی طورپر کانفرنسوں اور جلسوں میں جوتاچپل پہن کرآنے پر پابندی عائدکی جائے یاپہن کرآنے کومخالف وطنیت عمل قراردیاجائے ورنہ اگلانمبر۔۔۔کاہے۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار اذان انٹرنیشنل اسکول ٹولی چوکی حیدرآباد میں شعبہ اسلامیات کے صدر ہیں )

SHARE