عبد السلام صلاح الدین مدنی
اسلام ایک مہذب‘باثقافت و متمدن ‘شائستہ‘شستہ‘شفاف‘صاف‘نرالا‘تمام ادیان سے اعلی و بالا‘تمام غلاظتوں‘ اورگندگیوں سے پاک ایک نفیس اور نظیف مذہب ہے ‘اور اسلام کا یہ مطالبہ ہے کہ اس کے متبعین ‘پیروکار‘اور اس کے ماننے والے بھی اتنا ہی نفاست و نظافت کا بہترین مظاہرہ کریں‘اور حسن معاشرہ کی تشکیل میں بہترین رول ادا کریں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں ظلم و ستم کبھی روا نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اسے پسند کیا گیا ‘ بلکہ اس کی حرمت و قباحت کو خوب خوب بیان کیا گیا ‘اور اہل اسلام سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ہر کہی ہوئی بات پر نہ کان دھرا جائے‘ نہ ہی اس کو اہمیت دی جائے اور نہ ہی اسے ہوا دی جائے ‘بلکہ ہر کہی ہوئی بات کی نشر و اشاعت پر قد غن لگادیا ‘اور اسے تحقیق اور خوب خوب چھان بین کی تاکید کی گئی ‘اللہ تعالی نے فرمایا: ((يا أيها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا ))(الحجرات:۶)ائے ایمان والو! جب کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ۔ ایک دوسری قراءت میں ‘‘فتثبتوا‘‘ ہے
اس آیت کریمہ میں ان حضرات کی اللہ نے مذمت بیان فرمائی ہے ‘جو لوگ کسی بھی خبر کی تصدیق کے بغیر اسے دوسروں تک شیر کرتے رہتے ہیں ‘اور اس بات کی قطعی کوئی پرواہ نہیں کرتے ‘کہ آیا یہ خبر صحیح ہے یا غلط ‘خاص کر ایسے دور میں جبکہ خبریں منٹوں میں پورے عالم تک پھیل جاتی ہیں ‘اور بیک وقت پوری دنیا اسے پڑھتی ‘دیکھتی‘اور اسے پھیلاتی رہتی ہے ۔
پھر اللہ نے آخر میں (فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین ) فرماکر اس امر پر متنبہ فرمادیا ‘ یہ انتہائی خطرناک امر ہے کہ کسی خبر کو بغیر تصدیق پھیلائی جائے ‘خاص کر ایسے میں کہ اگر وہ خبر کسی پر اتہام و الزام ‘اور افتراپردازی کی ہو ‘اور یہ بھی واضح کردیا کہ ہو سکتا ہے ‘تمہیں سبکی ‘ذلت‘شرمندگی‘اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے ‘خاص کر ایسی صورت میں جبکہ اڑائی گئی خبر غلط ثابت ہوجائے ۔
خاص کر اگر علما کا طبقہ بے سر و پا کی خبریں اڑائے ‘بغیر چھان بین دوسروں تک شیر کرتا چلا جائے ‘اور بغیر تحقیق پھیلائے تو اس کی شناعت و قباحت اور اس کی برائی و مذمت دو چند ہو جاتی ہے ‘ خاص کر اگر وہ اپنے آپ کو کتاب و سنت کا حامل بھی کہتا ہو ‘تو اس کی خطرناکی مزید آگ اگلنے لگتی ہے ۔
ذاتی طور پر کتنی خبروں کے بارے میں میں جانتا ہوں کہ خبر اڑائی گئی ‘اور دشمنوں نے اڑائی ‘جس کی ٹانگ تھی ‘نہ سر ‘اور جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اساسا اس کی کوئی صحت ہی نہیں ‘اور کہیں سے اس کا سراغ نہیں ملتا ‘اور جب ان سے دلیل مانگی گئی تو ندارد ‘سوائے افواہ اور بے بنیاد بات کے ‘اور بغلیں جھانکتے نظر آئے ‘پھر ایسے لوگوں کو شرمندگی ‘اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا ‘لوگوں کے سامنے رسوا اور ذلیل بھی ہوئے ‘اور آخرت میں اللہ مالک ۔۔
نیز بڑا جھوٹا اور گنہگاراس آدمی کو قرار دیا گیا ‘جو ہر سنی سنائی بات کو لوگوں میں نشر کرتا پھرے ‘نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :‘‘ “كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ( السلسلة الصحيحة 2025( انسان کے گنہگار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے ‘بیان کرتا پھرے
اور ایک حدیث میں یوں اس خبیث مرض کی نقاب کشائی کی گئی ‘ فرمایا ((كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع ) ((رواه مسلم في المقدمة 6 صحيح الجامع 4482)) انسان کے جھوٹ کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے ‘بیان کرتا پھرے
مگر ہمارے معاشرے کا کیا جائے کہ ہر سنی سنائی بات بغیر کسی تحقیق ‘تفتیش ‘اور چھان بین کے بے سر و پر کی باتیں فضا میں اڑائی جاتی ہیں ‘اسے خاصی اہمیت دی جاتی ہے‘بعض تو یہاں تک بڑھے ہوتے ہیں کہ ان اخبار اور غلط بیانیوں کے اڑانے میں کوئی عار اور شرم محسوس نہیں کرتے ‘اور بے محابہ اسے دوسروں تک شیر کرتے چلے جاتے ہیں ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :‘‘اصل میں انسان غلط اور صحیح دونوں قسم کی باتیں سنتا ہے ‘تو جب ایسی باتیں بیان کرے جس کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو تو یہ جھوٹ ہوا ‘چاہے جان بوجھ کر اس کا ارتکاب کرے یا کسی اور طریقہ سے ( شرح صحیح مسلم )
نبی اکرم ﷺ نے تو اسے کبیرہ گناہ میں شامل فرمایا ہے : فرمایا : (( إن الله حرم عليكم عقوق الأمهات ووأد البنات ومنع وهات وكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال )
((رواه البخاري 2231.))
جو ہمارے معاشرے کا ناسور ہے ‘اور ہم اس میں بدسے بد تر طریقے سے پھنستے چلے جا رہے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں الزام تراشی ‘بہتان بافی‘اورافترا پردازی کا خوب چلن ہے ‘کیا خاص کیا عام ‘سب ہی اس مہلک مرض میں مبتلا ہیں ۔
بڑے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ علمائے کرام کا ایک معتد بہ طبقہ(جو منبر و محراب کی زینت ہیں‘اور وقت ملنے پر دھاڑ دھاڑ کر اور گلے پھاڑ پھاڑ کرتقریریں بھی فرماتا ہے) اس میں بہت آگے ہے ‘اور اس کی قباحت و شناعت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے‘انہیں اس بات کی قطعی حاجت نہیں ہوتی کہ اس کے کیا مضر اثرات ‘اور آخرت میں کیا خطرناک سزائیں ہو سکتی ہیں‘اور ہوں گی ‘پتہ نہیں اس میں انہیں مزہ کچھ زیادہ آتا ہے ‘یا انہیں عذاب الہی کا خوف و ڈر نہیں)
وہ حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ جن پر الزام لگایا جا رہا ہے ‘ہو سکتا ہے وہ اس سے پاک اور بری ہو ‘اور قیامت کے دن اس کے گناہ اس پر ڈال دئے جائیں گے ‘کبھی اس حدیث ِ مفلس پر ان حضرات کو غور کرنا چاہئے جس میں انتہائی خطرناک انداز میں ایسے بد قماشوں کی خبر لی گئی ہے ‘حدیث ملاحظہ فرمائیں : ((أتدرون ما المفلسُ؟” قالوا”:المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع. فقال:” إن المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي وقد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته ، فإن فنيت حسناتهُ قبل أن يقضي ما عليه، أخذ من خطاياهم فطُرحت عليه ، ثم طُرح في النار” (رواه مسلم 347: برقم) ۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا:کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ ‘صحابہ نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور مال و دولت کچھ بھی نہ ہو ‘تو آپ ﷺ نے فرمایا :‘‘میری امت کا مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن نماز‘روزہ‘زکاۃ لے کر آئے گا ‘اس حال میں کہ اس نے اس کو گالی دی ہوگی‘اس پر بہتان لگایا ہوگا ‘اس کا مال کھایا ہوگا ‘اس کا خون بہایا ہوگا ‘اسے مارا پیٹا ہوگا ‘چنانچہ اسے اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی‘اور اسے اس کی نیکیاں ‘اس کے حقوق کی ادائیگی سے قبل اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی ‘اس(مظلوم) کے گناہ اس پر انڈیل دئیے جائیں گے ‘پھر اسے واصل جہنم کردیا جائے گا ‘‘ (نعوذ باللہ )
اس حدیث پر غور فرمائیں کہ نمازیوں‘روزہ داروں ‘صدقہ و خیرات کرنے والوں کی بھی بری طرح خبر لی گئی ہے ‘قیامت میں ایسے لوگ خسارے ہی خسارے میں ہوں گے ‘اور جہنم کی آگ میں جلنا ہوگا‘باوجودیکہ ان کے پاس نماز ‘روزے‘صدقہ و خیرات ‘اور دیگر اعمال صالحہ کے طومار ہوں گے ۔
اس وبا کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اس کے نیکیوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے ‘بلکہ اس کی نیکیاں اس کو دے دی جائیں گی ‘اور جب نیکیاں کم پڑ جائیں گی تو الزام لگائے گئے شخص کے گناہ اس کی پیٹھ پر لاد دیئےجائیں گے ‘بھلا بتایا جائے اس سے بڑا اور کوئی خسارہ کیا ہو سکتا ہے؟
شریعت نے الزام تراشی اور بہتان بافی کی انتہائی کڑی سزا مقرر فرمائی ہے ‘اور اس میں کوئی رعایت نہیں برتی گئی ہے ۔
نبی ٔ اکرم ﷺ نے فرمایا :‘‘ مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ فَقَدْ ضَادَّ اللَّهَ، وَمَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ وَهُوَ يَعْلَمُهُ لَمْ يَزَلْ فِي سَخَطِ اللَّهِ حَتَّى يَنْزِعَ [عَنْهُ]، وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ
) الصحیحۃ(437)
جس نے اللہ کے حدود میں سے کسی حد کو روکنے کی سفارش کی تو گویا اس نے اللہ کی مخالفت کی، اور جو جانتے ہو ئے کسی باطل امر کے لئے جھگڑے تو وہ برابر اللہ کی ناراضگی میں رہے گا یہاں تک کہ اس جھگڑے سے دستبر دار ہو جائے، اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جوا س میں نہیں تھی تو اللہ اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنا ئے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات سے تو بہ کر لے”۔
اس خبیث مرض کو تو نبی ٔ اکرم ﷺ نے سب سے بڑا اور بد ترین سود قرار دیا ہے ‘فرمایا : ((إن من أربى الربا الاستطالة في عرض المسلم بغير حق)) (رواه أبو داود ۴۸۷۶)‘اور سود ایسے ہے جیسے کہ کوئی شخص ۳۶ مرتبہ زنا کرے (صحیح الجامع:۳۳۷۵)بلکہ اس سے بھی کہیں سخت اور شدید ترین جرم کا حامل ہے ۔اللہ ہم سب کو اس بری وبا سے بچائے ۔
کیا مسلمانوں کی عزتوں پر حملہ کرنے والوں نے کبھی فکر و تامل کیا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ‘اور کیسی خباثت ‘بد باطنی اور ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دے رہے ہیں ‘اللہ بھلا کرے ۔
کل روز قیامت ان بد طینت لوگوں کا بہت برا حال ہوگا ‘جس کا مشاہدہ خود نبی ٔ اکرم ﷺ نے معراج والی رات میں فرمالیا تھا ‘آپ ﷺ کا گزر کچھ ایسے لوگوں سے ہوا تھا جو اپنے چہرے اور سینے اپنے پیتل کے ناخن سے نوچ رہے تھے ‘جب پوچھا گیا تو آپ کو بتلایا گیا کہ یہ وہ خبیث لوگ ہیں ‘جو لوگوں کی عزت و آبرو پر حملہ کرتے تھے (ابو داؤد۴۸۷۸)
آہ کس قدر درد ناک منظر ہوگا؟کبھی غور کیا ۔
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو ‘اس کے عذاب سے خوف کھاؤ
حضرات گرامی !مسلمانوں کی عزت و آبرو قیمتی سرمایہ ہے‘اس کی حفاظت ہی اصل مردانگی ہے (جسے ہم بھول بیٹھے ہیں)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ‘‘آدمی کی طنطنہ بازی پر خوش نہیں ہونا چاھئے ‘کیوں کہ مرد وہ ہے جو امانت ادا کر دیا کرے اور لوگوں کے عزت و آبرو پر حملہ نہ کرے (کتاب الزھد از ابن مبارک )
اسلام میں مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کا حکم دیا ‘اور اس پر حملہ اور دھاوا بولنے سے کلی طور پرمنع کیا ‘اور اپنے آخری خطبہ ٔ حجۃ الوداع کے بیان کردہ دستور میں سے ایک دستور قرار دیا ‘فرمایا : ((إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ )) (بخاری:۱۷۳۹‘مسلم :۱۶۷۹)تمہارے خون ‘تمہارے مال ‘اور تہاری عزتیں اسی طرح سے تمہارے اوپر حرام ہیں ‘جیسے کہ یہ دن ‘یہ شہر (مکہ)اور یہ ماہ (ذو الحجہ) حرمت والا ہے۔
نیز آپ ﷺ نے فرمایا : (کل المسلم علی المسلم حرام دمه وعرضه وماله),
(مسلم :۲۵۶۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے
امام نووی نے جو تبویب فرمائی ہے ‘کچھ یوں ہے ‘‘باب تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره ودمه و ماله و عرضه” جس سے معلوم ہوتا ہے ‘کسی کی عزت پر حملہ کرنا نہ صرف گناہ کبیرہ اور حرام ہے ‘بلکہ یہ ظلم بھی ہے ‘
اور ظلم سے متعلق شریعت ِ غراء کا جو موقف ہے ‘وہ انتہائی سخت گیر ‘اور عادلانہ ہے ‘تاکہ کسی بھی ناحیہ سے کسی پر ادنی طور بھی ظلم نہ ہو سکے‘اس سلسلہ میں بہت ساری نصوص ہیں ‘جن کا یہاں موقعہ نہیں ۔
نیز اس امر پر بھی غور کیا جائے کہ الزام تراشی ان سات امور میں سے ایک ہے ‘جو ہلاک و برباد کرنے والے ہیں ‘جن سے بچنے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے ‘نبی ٔ اکرم ﷺ نے فرمایا : ((إجتنبوا السبع الموبقات —–و قذف المحصنات المؤمنات الغافلات۔۔۔۔( بخاری :۲۶۱۵‘مسلم :۱۴۵)سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو ‘( ان میں سے ایک ) پاک دامن مؤمنہ خواتین پر الزام لگانا ۔
معلوم ہوا کہ الزام لگانا کوئی آسان اور معمولی کام نہیں‘بلکہ یہ انسان کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈھکیل دیتا ہے ‘جس سے بچنا انتہائی لازمی ہے ۔
الزام تراشی منافقین کی نشانی :
قرآن کریم کا بنظر غائر مطالعہ کیجئے ‘ٔ افک کا واقعہ بڑے سنہرے حروف میں نظر آئے گا ‘اور انتہائی سنگین اور بھیانک نتائج کے ساتھ ظاہر ہوتے پائیں گے‘قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے ‘اور سیرت نبویہ پڑھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس کار بد کے انجام دینے والے بد باطن ‘بد طینت ‘اور بد خو منافقین کی کا رستانیاں تھیں ‘اور وہی پیش پیش تھے ‘جو حرم نبوت میں کاری ضرب لگانا چاہتے تھے ‘امی عائشہ ۔رضی اللہ عنہا پر انتہائی سنگین ‘بدترین اور خطرناک الزام منڈھ دیا گیا ‘تاکہ اسلام اور رسول اسلام ﷺکو قلق و اضطراب میں مبتلا کیا جا سکے (ورنہ حقیقت سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہ تھا )نتیجتا خانوادہ ٔ نبوت‘اور گھرانہ ٔ صدیق ذہنی اذیت کے شکار ہوئے ‘عام مسلمان بھی گو مگو میں ملوث ہوگئے ‘اور یہ کیفیت تقریبا ایک ماہ تک رہی ‘جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ منافقین نے الزام کے جو تانے بانے بنے تھے کوئی معمولی نہ تھے ‘نیز اس بات کی بھی دلیل ہے کہ الزام تراشی اور افترا پردازی منافقین کا طرہ ٔ بد بخت ہے ۔
پھر اللہ تعالی نے ایک ماہ بعد سورہ ٔ نور کی پر کشش ‘نور بخش ‘اور اذہان و قلوب کو جلا بخشنے والی آیات کا نزول فرماکر اس فتنہ کی سر کوبی فرمائی ‘جس سے منافقین سر نگوں ہوئے ‘ان کے اصلی چہرے عام مسلمانوں کے روبرو آئے ‘اصل حقائق کی نقاب کشائی ہوئی ‘اور مطلع بالکل صاف ہوگیا ‘مگر یہ صاف ہوگیا کہ اس طرح کے منافقین صفت لوگ ہمیشہ ‘ہر دور ‘اور ہر زمانے میں پائے جاتے رہیں گے ۔
سورہ ٔ نور کی آیات : ۱۴۔ تا ۱۸ کا مطالعہ فرما جائیے ‘قرآن کے سورہ ٔ نور کا مطالعہ آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کرے گا ‘کہ اللہ تعالی نے ایک ماہ کے بعد برات کا نزول کیوں فرمایا ‘اگر چاہتا تو لمحہ بھر میں حقیقت کی نقاب کشائی کردیتا ‘اور مطلع بالکل صاف ہوجاتا ‘اس واقعہ کے پڑھنے ‘اس پر غور کرنے ‘اس کے سنگین نتائج پر تامل کرنے ‘اور اس پر مترتب ہونے والے اثرات پر تدبر کرنے کے بعد یہ چند حقائق سامنے آجاتے ہیں ۔
(۱)کسی بھی بے گناہ اور بے قصور مسلمان پر الزام لگانا ‘بہتان تراشی کرنا‘اور اسے ناکردہ گناہ کا مورد ِ الزام قرار دینا گوکہ ایک سنگین جرم ‘بدترین اخلاقی گناہ ِ عظیم ہے ‘مگر یہ ہمیشہ سے معاشرے کا اٹوٹ حصہ رہا ہے ‘اور رہے گا ‘اس سے مفر نہیں ہے ‘اگر اللہ چاہتا تو فورا ختم کر دیتا ‘مگر تاخیر کے باوجود بھی یہ طوفان بد تمیزی ختم نہ ہوئی تو خود اس واقعہ کو ((افک))(جھوٹا ) قرار دیا ‘اور مائی عائشہ۔رضی اللہ عنہ۔ کی برات کا اعلان فرمادیا ‘اور یہ پیغام دیا کہ اس طرح کے مسائل کے ظہور کے وقت برات کا اظہار ‘تریث‘تروی‘اور چھان بین کے بعد ہی کوئی اقدام کیا جائے ‘اور زبان کھولی جائے ‘اگر دلائل نہ ہوں ‘ثبوت نہ ملیں ‘تو عقل کے گھوڑے دوڑانے کی قطعی ضرورت نہیں ‘اس طرح کرنے سے تمہارا ہی نقصان ہوگا ‘ اورآخرت میں تم عذاب الیم کے مستحق قرار پاؤگے ‘شاید جس پر الزام لگایا جا رہا ہو وہ تم سے بہتر اور اللہ کے نزدیک تم سے اچھا ہو ‘مگر تم عذاب ربانی سے دو چار کر دئیے جاؤ ‘اور دنیا و آخرت میں سبکی اور بے عزتی کا سامنا ہو‘گویا بغیر علم و تحقیق کے اس بات کو آگے پھیلانا، دوسروں کو شیر کرنا ‘بے سر پا اڑانا ‘خود ایک منفی رائے قائم کرنا، دوسروں کی رائےسازی کرنا ایک بہت بڑی بات اور اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
(۲)حضرت عائشہ ۔رضی اللہ عنہا ۔ ام المؤمنین کے معاملے میں بہتان تو زنا کا لگایا گیا تھا، جو سر تا سر منافقین کی کارستانی تھی ‘مگر تردید کرتے وقت قرآن مجید نے زنا کا لفظ یکسر استعمال ہی نہیں کیا۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ قرآن مجید الزام تراشی و بہتان بازی کے اس رویے پر تنقید کو صرف زنا کے الزام کی حد تک محدود نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کے پیش نظر ہمیشہ و مدام ہی یہ بات ہے کہ کسی مسلمان پر اگر کسی اور پہلو سے بھی کوئی سنگین الزام لگایا جائے، جس طرح آج کل مسلمانوں کی نیت اور ان کے ایمان پر براہ راست حملے کر کے انہیں کافر اور گمراہ قرار دیا جاتا ہے، اس رویے کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے‘کسی کی عزت پر حملہ کرنا بڑا سنگین جرم ہے
مگراس کے ایمان اور نیت کو ہدف بنانا اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین جرم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو سمجھا اور اس کو بیان کیا ہے۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں اس مفہوم کی متعدد روایات ہمیں ملتی ہیں جس میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا خود اپنے کفر کا سبب بن جاتا ہے۔ یہی وہ دینی تعلیم ہے جس کا سمجھنے والا ہمیشہ اس بات میں محتاط رہے گا کہ کسی مسلمان پر کفر و گمراہی کے فتوے دے یا اس طرح کی چیزوں کو آگے بڑھائے، کیونکہ اس کے نتیجے میں اپنا ایمان سلب ہوجاتا ہے
(۳)جو لوگ اس وقت الزام لگارہے تھے ان سے کہا گیا کہ وہ چار گواہ لے کر آئیں۔ یہ بات عقل عام سے سمجھی جاسکتی ہے کہ زنا چھپ کر کیا جاتا ہے چار لوگوں کے سامنے نہیں۔ چنانچہ بہت سے لوگ اس بنا پر قرآن کا مذاق بھی اڑاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شرط ہی وہ رکھی ہے جو کبھی پوری نہیں کی جاسکتی۔ مگر درحقیقت الزام کو ثابت کرنے کے لیے اتنی سخت ترین شرط لگانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ معاشرے میں الزام لگانے کی سوچ کو ختم کیا جاسکے‘ایسے مریض القلب کے بیمار ذہن پر لگام کسی جائے ‘جو الزام و افترا کا کوئی بھی موقعہ ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے ۔ جب تک کہ ناقابل تردید ثبوت میسر نہ ہوں، کسی بھی شخص کے خلاف کسی پہلو سے زبان نہ کھولی جائے۔
اور الزام لگانے والے پر تین قسم کے احکامات نازل فرمادئے :
(۱) اسے ۸۰ کوڑے مارے جائیں ( تاکہ وہ دوبارہ وہ اس طرح کی حرکت کرنے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لا سکے‘اور الزام لگانے ‘زبان کھولنے ‘اور تہمت بازی سے پہلے ۱۰۰ بار سوچنے پر مجبور ہو )
(۲)اس کی گواہی کبھی قبول نہ کی جائے (کہ ایسا آدمی کسی بھی شخص کے بارے میں کچھ بھی بول سکتا ہے‘لہذا اس کی گواہی تا ابد مردود ہوگی ‘شریعت غراء تیری عظمت کو سلام )
(۳)اور وہ شحض فاسق و فاجر شمار ہوگا ‘عادل کبھی نہیں ہو سکتا
( مزید تفصیل کے لئے دیکھئے :تفسیر ابن کثیر:۶؍۱۳۔۱۴)
مذکورہ امور سے یہ بات مترشح ہوگئی کہ کسی بھی شخص پر الزام تراشی کوئی معمولی گناہ ‘ اورحقیرچیز نہیں ہے‘بلکہ یہ منافقوں کا شیوہ ‘فاسق لوگوں کی قبیح عادت ‘اور بد باطن افراد کی بری خصلت ہے‘جس سے احتراز لازم اور ضروری ہے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمارے دلوں میں ایمانی قوت و جذبہ پیدا فرمائے ‘تمام بری خصلتوں سے محفوظ رکھے
اسلام ایک مہذب‘باثقافت و متمدن ‘شائستہ‘شستہ‘شفاف‘صاف‘نرالا‘تمام ادیان سے اعلی و بالا‘تمام غلاظتوں‘ اورگندگیوں سے پاک ایک نفیس اور نظیف مذہب ہے ‘اور اسلام کا یہ مطالبہ ہے کہ اس کے متبعین ‘پیروکار‘اور اس کے ماننے والے بھی اتنا ہی نفاست و نظافت کا بہترین مظاہرہ کریں‘اور حسن معاشرہ کی تشکیل میں بہترین رول ادا کریں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں ظلم و ستم کبھی روا نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اسے پسند کیا گیا ‘ بلکہ اس کی حرمت و قباحت کو خوب خوب بیان کیا گیا ‘اور اہل اسلام سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ہر کہی ہوئی بات پر نہ کان دھرا جائے‘ نہ ہی اس کو اہمیت دی جائے اور نہ ہی اسے ہوا دی جائے ‘بلکہ ہر کہی ہوئی بات کی نشر و اشاعت پر قد غن لگادیا ‘اور اسے تحقیق اور خوب خوب چھان بین کی تاکید کی گئی ‘اللہ تعالی نے فرمایا: ((يا أيها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا ))(الحجرات:۶)ائے ایمان والو! جب کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ۔ ایک دوسری قراءت میں ‘‘فتثبتوا‘‘ ہے
اس آیت کریمہ میں ان حضرات کی اللہ نے مذمت بیان فرمائی ہے ‘جو لوگ کسی بھی خبر کی تصدیق کے بغیر اسے دوسروں تک شیر کرتے رہتے ہیں ‘اور اس بات کی قطعی کوئی پرواہ نہیں کرتے ‘کہ آیا یہ خبر صحیح ہے یا غلط ‘خاص کر ایسے دور میں جبکہ خبریں منٹوں میں پورے عالم تک پھیل جاتی ہیں ‘اور بیک وقت پوری دنیا اسے پڑھتی ‘دیکھتی‘اور اسے پھیلاتی رہتی ہے ۔
پھر اللہ نے آخر میں (فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین ) فرماکر اس امر پر متنبہ فرمادیا ‘ یہ انتہائی خطرناک امر ہے کہ کسی خبر کو بغیر تصدیق پھیلائی جائے ‘خاص کر ایسے میں کہ اگر وہ خبر کسی پر اتہام و الزام ‘اور افتراپردازی کی ہو ‘اور یہ بھی واضح کردیا کہ ہو سکتا ہے ‘تمہیں سبکی ‘ذلت‘شرمندگی‘اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے ‘خاص کر ایسی صورت میں جبکہ اڑائی گئی خبر غلط ثابت ہوجائے ۔
خاص کر اگر علما کا طبقہ بے سر و پا کی خبریں اڑائے ‘بغیر چھان بین دوسروں تک شیر کرتا چلا جائے ‘اور بغیر تحقیق پھیلائے تو اس کی شناعت و قباحت اور اس کی برائی و مذمت دو چند ہو جاتی ہے ‘ خاص کر اگر وہ اپنے آپ کو کتاب و سنت کا حامل بھی کہتا ہو ‘تو اس کی خطرناکی مزید آگ اگلنے لگتی ہے ۔
ذاتی طور پر کتنی خبروں کے بارے میں میں جانتا ہوں کہ خبر اڑائی گئی ‘اور دشمنوں نے اڑائی ‘جس کی ٹانگ تھی ‘نہ سر ‘اور جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اساسا اس کی کوئی صحت ہی نہیں ‘اور کہیں سے اس کا سراغ نہیں ملتا ‘اور جب ان سے دلیل مانگی گئی تو ندارد ‘سوائے افواہ اور بے بنیاد بات کے ‘اور بغلیں جھانکتے نظر آئے ‘پھر ایسے لوگوں کو شرمندگی ‘اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا ‘لوگوں کے سامنے رسوا اور ذلیل بھی ہوئے ‘اور آخرت میں اللہ مالک ۔۔
نیز بڑا جھوٹا اور گنہگاراس آدمی کو قرار دیا گیا ‘جو ہر سنی سنائی بات کو لوگوں میں نشر کرتا پھرے ‘نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :‘‘ “كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ( السلسلة الصحيحة 2025( انسان کے گنہگار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے ‘بیان کرتا پھرے
اور ایک حدیث میں یوں اس خبیث مرض کی نقاب کشائی کی گئی ‘ فرمایا ((كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع ) ((رواه مسلم في المقدمة 6 صحيح الجامع 4482)) انسان کے جھوٹ کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے ‘بیان کرتا پھرے
مگر ہمارے معاشرے کا کیا جائے کہ ہر سنی سنائی بات بغیر کسی تحقیق ‘تفتیش ‘اور چھان بین کے بے سر و پر کی باتیں فضا میں اڑائی جاتی ہیں ‘اسے خاصی اہمیت دی جاتی ہے‘بعض تو یہاں تک بڑھے ہوتے ہیں کہ ان اخبار اور غلط بیانیوں کے اڑانے میں کوئی عار اور شرم محسوس نہیں کرتے ‘اور بے محابہ اسے دوسروں تک شیر کرتے چلے جاتے ہیں ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :‘‘اصل میں انسان غلط اور صحیح دونوں قسم کی باتیں سنتا ہے ‘تو جب ایسی باتیں بیان کرے جس کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو تو یہ جھوٹ ہوا ‘چاہے جان بوجھ کر اس کا ارتکاب کرے یا کسی اور طریقہ سے ( شرح صحیح مسلم )
نبی اکرم ﷺ نے تو اسے کبیرہ گناہ میں شامل فرمایا ہے : فرمایا : (( إن الله حرم عليكم عقوق الأمهات ووأد البنات ومنع وهات وكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال )
((رواه البخاري 2231.))
جو ہمارے معاشرے کا ناسور ہے ‘اور ہم اس میں بدسے بد تر طریقے سے پھنستے چلے جا رہے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں الزام تراشی ‘بہتان بافی‘اورافترا پردازی کا خوب چلن ہے ‘کیا خاص کیا عام ‘سب ہی اس مہلک مرض میں مبتلا ہیں ۔
بڑے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ علمائے کرام کا ایک معتد بہ طبقہ(جو منبر و محراب کی زینت ہیں‘اور وقت ملنے پر دھاڑ دھاڑ کر اور گلے پھاڑ پھاڑ کرتقریریں بھی فرماتا ہے) اس میں بہت آگے ہے ‘اور اس کی قباحت و شناعت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے‘انہیں اس بات کی قطعی حاجت نہیں ہوتی کہ اس کے کیا مضر اثرات ‘اور آخرت میں کیا خطرناک سزائیں ہو سکتی ہیں‘اور ہوں گی ‘پتہ نہیں اس میں انہیں مزہ کچھ زیادہ آتا ہے ‘یا انہیں عذاب الہی کا خوف و ڈر نہیں)
وہ حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ جن پر الزام لگایا جا رہا ہے ‘ہو سکتا ہے وہ اس سے پاک اور بری ہو ‘اور قیامت کے دن اس کے گناہ اس پر ڈال دئے جائیں گے ‘کبھی اس حدیث ِ مفلس پر ان حضرات کو غور کرنا چاہئے جس میں انتہائی خطرناک انداز میں ایسے بد قماشوں کی خبر لی گئی ہے ‘حدیث ملاحظہ فرمائیں : ((أتدرون ما المفلسُ؟” قالوا”:المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع. فقال:” إن المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي وقد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته ، فإن فنيت حسناتهُ قبل أن يقضي ما عليه، أخذ من خطاياهم فطُرحت عليه ، ثم طُرح في النار” (رواه مسلم 347: برقم) ۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا:کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ ‘صحابہ نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور مال و دولت کچھ بھی نہ ہو ‘تو آپ ﷺ نے فرمایا :‘‘میری امت کا مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن نماز‘روزہ‘زکاۃ لے کر آئے گا ‘اس حال میں کہ اس نے اس کو گالی دی ہوگی‘اس پر بہتان لگایا ہوگا ‘اس کا مال کھایا ہوگا ‘اس کا خون بہایا ہوگا ‘اسے مارا پیٹا ہوگا ‘چنانچہ اسے اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی‘اور اسے اس کی نیکیاں ‘اس کے حقوق کی ادائیگی سے قبل اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی ‘اس(مظلوم) کے گناہ اس پر انڈیل دئیے جائیں گے ‘پھر اسے واصل جہنم کردیا جائے گا ‘‘ (نعوذ باللہ )
اس حدیث پر غور فرمائیں کہ نمازیوں‘روزہ داروں ‘صدقہ و خیرات کرنے والوں کی بھی بری طرح خبر لی گئی ہے ‘قیامت میں ایسے لوگ خسارے ہی خسارے میں ہوں گے ‘اور جہنم کی آگ میں جلنا ہوگا‘باوجودیکہ ان کے پاس نماز ‘روزے‘صدقہ و خیرات ‘اور دیگر اعمال صالحہ کے طومار ہوں گے ۔
اس وبا کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اس کے نیکیوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے ‘بلکہ اس کی نیکیاں اس کو دے دی جائیں گی ‘اور جب نیکیاں کم پڑ جائیں گی تو الزام لگائے گئے شخص کے گناہ اس کی پیٹھ پر لاد دیئےجائیں گے ‘بھلا بتایا جائے اس سے بڑا اور کوئی خسارہ کیا ہو سکتا ہے؟
شریعت نے الزام تراشی اور بہتان بافی کی انتہائی کڑی سزا مقرر فرمائی ہے ‘اور اس میں کوئی رعایت نہیں برتی گئی ہے ۔
نبی ٔ اکرم ﷺ نے فرمایا :‘‘ مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ فَقَدْ ضَادَّ اللَّهَ، وَمَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ وَهُوَ يَعْلَمُهُ لَمْ يَزَلْ فِي سَخَطِ اللَّهِ حَتَّى يَنْزِعَ [عَنْهُ]، وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ
) الصحیحۃ(437)
جس نے اللہ کے حدود میں سے کسی حد کو روکنے کی سفارش کی تو گویا اس نے اللہ کی مخالفت کی، اور جو جانتے ہو ئے کسی باطل امر کے لئے جھگڑے تو وہ برابر اللہ کی ناراضگی میں رہے گا یہاں تک کہ اس جھگڑے سے دستبر دار ہو جائے، اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جوا س میں نہیں تھی تو اللہ اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنا ئے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات سے تو بہ کر لے”۔
اس خبیث مرض کو تو نبی ٔ اکرم ﷺ نے سب سے بڑا اور بد ترین سود قرار دیا ہے ‘فرمایا : ((إن من أربى الربا الاستطالة في عرض المسلم بغير حق)) (رواه أبو داود ۴۸۷۶)‘اور سود ایسے ہے جیسے کہ کوئی شخص ۳۶ مرتبہ زنا کرے (صحیح الجامع:۳۳۷۵)بلکہ اس سے بھی کہیں سخت اور شدید ترین جرم کا حامل ہے ۔اللہ ہم سب کو اس بری وبا سے بچائے ۔
کیا مسلمانوں کی عزتوں پر حملہ کرنے والوں نے کبھی فکر و تامل کیا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ‘اور کیسی خباثت ‘بد باطنی اور ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دے رہے ہیں ‘اللہ بھلا کرے ۔
کل روز قیامت ان بد طینت لوگوں کا بہت برا حال ہوگا ‘جس کا مشاہدہ خود نبی ٔ اکرم ﷺ نے معراج والی رات میں فرمالیا تھا ‘آپ ﷺ کا گزر کچھ ایسے لوگوں سے ہوا تھا جو اپنے چہرے اور سینے اپنے پیتل کے ناخن سے نوچ رہے تھے ‘جب پوچھا گیا تو آپ کو بتلایا گیا کہ یہ وہ خبیث لوگ ہیں ‘جو لوگوں کی عزت و آبرو پر حملہ کرتے تھے (ابو داؤد۴۸۷۸)
آہ کس قدر درد ناک منظر ہوگا؟کبھی غور کیا ۔
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو ‘اس کے عذاب سے خوف کھاؤ
حضرات گرامی !مسلمانوں کی عزت و آبرو قیمتی سرمایہ ہے‘اس کی حفاظت ہی اصل مردانگی ہے (جسے ہم بھول بیٹھے ہیں)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ‘‘آدمی کی طنطنہ بازی پر خوش نہیں ہونا چاھئے ‘کیوں کہ مرد وہ ہے جو امانت ادا کر دیا کرے اور لوگوں کے عزت و آبرو پر حملہ نہ کرے (کتاب الزھد از ابن مبارک )
اسلام میں مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کا حکم دیا ‘اور اس پر حملہ اور دھاوا بولنے سے کلی طور پرمنع کیا ‘اور اپنے آخری خطبہ ٔ حجۃ الوداع کے بیان کردہ دستور میں سے ایک دستور قرار دیا ‘فرمایا : ((إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ )) (بخاری:۱۷۳۹‘مسلم :۱۶۷۹)تمہارے خون ‘تمہارے مال ‘اور تہاری عزتیں اسی طرح سے تمہارے اوپر حرام ہیں ‘جیسے کہ یہ دن ‘یہ شہر (مکہ)اور یہ ماہ (ذو الحجہ) حرمت والا ہے۔
نیز آپ ﷺ نے فرمایا : (کل المسلم علی المسلم حرام دمه وعرضه وماله),
(مسلم :۲۵۶۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے
امام نووی نے جو تبویب فرمائی ہے ‘کچھ یوں ہے ‘‘باب تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره ودمه و ماله و عرضه” جس سے معلوم ہوتا ہے ‘کسی کی عزت پر حملہ کرنا نہ صرف گناہ کبیرہ اور حرام ہے ‘بلکہ یہ ظلم بھی ہے ‘
اور ظلم سے متعلق شریعت ِ غراء کا جو موقف ہے ‘وہ انتہائی سخت گیر ‘اور عادلانہ ہے ‘تاکہ کسی بھی ناحیہ سے کسی پر ادنی طور بھی ظلم نہ ہو سکے‘اس سلسلہ میں بہت ساری نصوص ہیں ‘جن کا یہاں موقعہ نہیں ۔
نیز اس امر پر بھی غور کیا جائے کہ الزام تراشی ان سات امور میں سے ایک ہے ‘جو ہلاک و برباد کرنے والے ہیں ‘جن سے بچنے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے ‘نبی ٔ اکرم ﷺ نے فرمایا : ((إجتنبوا السبع الموبقات —–و قذف المحصنات المؤمنات الغافلات۔۔۔۔( بخاری :۲۶۱۵‘مسلم :۱۴۵)سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو ‘( ان میں سے ایک ) پاک دامن مؤمنہ خواتین پر الزام لگانا ۔
معلوم ہوا کہ الزام لگانا کوئی آسان اور معمولی کام نہیں‘بلکہ یہ انسان کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈھکیل دیتا ہے ‘جس سے بچنا انتہائی لازمی ہے ۔
الزام تراشی منافقین کی نشانی :
قرآن کریم کا بنظر غائر مطالعہ کیجئے ‘ٔ افک کا واقعہ بڑے سنہرے حروف میں نظر آئے گا ‘اور انتہائی سنگین اور بھیانک نتائج کے ساتھ ظاہر ہوتے پائیں گے‘قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے ‘اور سیرت نبویہ پڑھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس کار بد کے انجام دینے والے بد باطن ‘بد طینت ‘اور بد خو منافقین کی کا رستانیاں تھیں ‘اور وہی پیش پیش تھے ‘جو حرم نبوت میں کاری ضرب لگانا چاہتے تھے ‘امی عائشہ ۔رضی اللہ عنہا پر انتہائی سنگین ‘بدترین اور خطرناک الزام منڈھ دیا گیا ‘تاکہ اسلام اور رسول اسلام ﷺکو قلق و اضطراب میں مبتلا کیا جا سکے (ورنہ حقیقت سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہ تھا )نتیجتا خانوادہ ٔ نبوت‘اور گھرانہ ٔ صدیق ذہنی اذیت کے شکار ہوئے ‘عام مسلمان بھی گو مگو میں ملوث ہوگئے ‘اور یہ کیفیت تقریبا ایک ماہ تک رہی ‘جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ منافقین نے الزام کے جو تانے بانے بنے تھے کوئی معمولی نہ تھے ‘نیز اس بات کی بھی دلیل ہے کہ الزام تراشی اور افترا پردازی منافقین کا طرہ ٔ بد بخت ہے ۔
پھر اللہ تعالی نے ایک ماہ بعد سورہ ٔ نور کی پر کشش ‘نور بخش ‘اور اذہان و قلوب کو جلا بخشنے والی آیات کا نزول فرماکر اس فتنہ کی سر کوبی فرمائی ‘جس سے منافقین سر نگوں ہوئے ‘ان کے اصلی چہرے عام مسلمانوں کے روبرو آئے ‘اصل حقائق کی نقاب کشائی ہوئی ‘اور مطلع بالکل صاف ہوگیا ‘مگر یہ صاف ہوگیا کہ اس طرح کے منافقین صفت لوگ ہمیشہ ‘ہر دور ‘اور ہر زمانے میں پائے جاتے رہیں گے ۔
سورہ ٔ نور کی آیات : ۱۴۔ تا ۱۸ کا مطالعہ فرما جائیے ‘قرآن کے سورہ ٔ نور کا مطالعہ آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کرے گا ‘کہ اللہ تعالی نے ایک ماہ کے بعد برات کا نزول کیوں فرمایا ‘اگر چاہتا تو لمحہ بھر میں حقیقت کی نقاب کشائی کردیتا ‘اور مطلع بالکل صاف ہوجاتا ‘اس واقعہ کے پڑھنے ‘اس پر غور کرنے ‘اس کے سنگین نتائج پر تامل کرنے ‘اور اس پر مترتب ہونے والے اثرات پر تدبر کرنے کے بعد یہ چند حقائق سامنے آجاتے ہیں ۔
(۱)کسی بھی بے گناہ اور بے قصور مسلمان پر الزام لگانا ‘بہتان تراشی کرنا‘اور اسے ناکردہ گناہ کا مورد ِ الزام قرار دینا گوکہ ایک سنگین جرم ‘بدترین اخلاقی گناہ ِ عظیم ہے ‘مگر یہ ہمیشہ سے معاشرے کا اٹوٹ حصہ رہا ہے ‘اور رہے گا ‘اس سے مفر نہیں ہے ‘اگر اللہ چاہتا تو فورا ختم کر دیتا ‘مگر تاخیر کے باوجود بھی یہ طوفان بد تمیزی ختم نہ ہوئی تو خود اس واقعہ کو ((افک))(جھوٹا ) قرار دیا ‘اور مائی عائشہ۔رضی اللہ عنہ۔ کی برات کا اعلان فرمادیا ‘اور یہ پیغام دیا کہ اس طرح کے مسائل کے ظہور کے وقت برات کا اظہار ‘تریث‘تروی‘اور چھان بین کے بعد ہی کوئی اقدام کیا جائے ‘اور زبان کھولی جائے ‘اگر دلائل نہ ہوں ‘ثبوت نہ ملیں ‘تو عقل کے گھوڑے دوڑانے کی قطعی ضرورت نہیں ‘اس طرح کرنے سے تمہارا ہی نقصان ہوگا ‘ اورآخرت میں تم عذاب الیم کے مستحق قرار پاؤگے ‘شاید جس پر الزام لگایا جا رہا ہو وہ تم سے بہتر اور اللہ کے نزدیک تم سے اچھا ہو ‘مگر تم عذاب ربانی سے دو چار کر دئیے جاؤ ‘اور دنیا و آخرت میں سبکی اور بے عزتی کا سامنا ہو‘گویا بغیر علم و تحقیق کے اس بات کو آگے پھیلانا، دوسروں کو شیر کرنا ‘بے سر پا اڑانا ‘خود ایک منفی رائے قائم کرنا، دوسروں کی رائےسازی کرنا ایک بہت بڑی بات اور اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
(۲)حضرت عائشہ ۔رضی اللہ عنہا ۔ ام المؤمنین کے معاملے میں بہتان تو زنا کا لگایا گیا تھا، جو سر تا سر منافقین کی کارستانی تھی ‘مگر تردید کرتے وقت قرآن مجید نے زنا کا لفظ یکسر استعمال ہی نہیں کیا۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ قرآن مجید الزام تراشی و بہتان بازی کے اس رویے پر تنقید کو صرف زنا کے الزام کی حد تک محدود نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کے پیش نظر ہمیشہ و مدام ہی یہ بات ہے کہ کسی مسلمان پر اگر کسی اور پہلو سے بھی کوئی سنگین الزام لگایا جائے، جس طرح آج کل مسلمانوں کی نیت اور ان کے ایمان پر براہ راست حملے کر کے انہیں کافر اور گمراہ قرار دیا جاتا ہے، اس رویے کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے‘کسی کی عزت پر حملہ کرنا بڑا سنگین جرم ہے
مگراس کے ایمان اور نیت کو ہدف بنانا اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین جرم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو سمجھا اور اس کو بیان کیا ہے۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں اس مفہوم کی متعدد روایات ہمیں ملتی ہیں جس میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا خود اپنے کفر کا سبب بن جاتا ہے۔ یہی وہ دینی تعلیم ہے جس کا سمجھنے والا ہمیشہ اس بات میں محتاط رہے گا کہ کسی مسلمان پر کفر و گمراہی کے فتوے دے یا اس طرح کی چیزوں کو آگے بڑھائے، کیونکہ اس کے نتیجے میں اپنا ایمان سلب ہوجاتا ہے
(۳)جو لوگ اس وقت الزام لگارہے تھے ان سے کہا گیا کہ وہ چار گواہ لے کر آئیں۔ یہ بات عقل عام سے سمجھی جاسکتی ہے کہ زنا چھپ کر کیا جاتا ہے چار لوگوں کے سامنے نہیں۔ چنانچہ بہت سے لوگ اس بنا پر قرآن کا مذاق بھی اڑاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شرط ہی وہ رکھی ہے جو کبھی پوری نہیں کی جاسکتی۔ مگر درحقیقت الزام کو ثابت کرنے کے لیے اتنی سخت ترین شرط لگانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ معاشرے میں الزام لگانے کی سوچ کو ختم کیا جاسکے‘ایسے مریض القلب کے بیمار ذہن پر لگام کسی جائے ‘جو الزام و افترا کا کوئی بھی موقعہ ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے ۔ جب تک کہ ناقابل تردید ثبوت میسر نہ ہوں، کسی بھی شخص کے خلاف کسی پہلو سے زبان نہ کھولی جائے۔
اور الزام لگانے والے پر تین قسم کے احکامات نازل فرمادئے :
(۱) اسے ۸۰ کوڑے مارے جائیں ( تاکہ وہ دوبارہ وہ اس طرح کی حرکت کرنے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لا سکے‘اور الزام لگانے ‘زبان کھولنے ‘اور تہمت بازی سے پہلے ۱۰۰ بار سوچنے پر مجبور ہو )
(۲)اس کی گواہی کبھی قبول نہ کی جائے (کہ ایسا آدمی کسی بھی شخص کے بارے میں کچھ بھی بول سکتا ہے‘لہذا اس کی گواہی تا ابد مردود ہوگی ‘شریعت غراء تیری عظمت کو سلام )
(۳)اور وہ شحض فاسق و فاجر شمار ہوگا ‘عادل کبھی نہیں ہو سکتا
( مزید تفصیل کے لئے دیکھئے :تفسیر ابن کثیر:۶؍۱۳۔۱۴)
مذکورہ امور سے یہ بات مترشح ہوگئی کہ کسی بھی شخص پر الزام تراشی کوئی معمولی گناہ ‘ اورحقیرچیز نہیں ہے‘بلکہ یہ منافقوں کا شیوہ ‘فاسق لوگوں کی قبیح عادت ‘اور بد باطن افراد کی بری خصلت ہے‘جس سے احتراز لازم اور ضروری ہے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمارے دلوں میں ایمانی قوت و جذبہ پیدا فرمائے ‘تمام بری خصلتوں سے محفوظ رکھے
اسلام ایک مہذب‘باثقافت و متمدن ‘شائستہ‘شستہ‘شفاف‘صاف‘نرالا‘تمام ادیان سے اعلی و بالا‘تمام غلاظتوں‘ اورگندگیوں سے پاک ایک نفیس اور نظیف مذہب ہے ‘اور اسلام کا یہ مطالبہ ہے کہ اس کے متبعین ‘پیروکار‘اور اس کے ماننے والے بھی اتنا ہی نفاست و نظافت کا بہترین مظاہرہ کریں‘اور حسن معاشرہ کی تشکیل میں بہترین رول ادا کریں ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلام میں ظلم و ستم کبھی روا نہیں رکھا گیا اور نہ ہی اسے پسند کیا گیا ‘ بلکہ اس کی حرمت و قباحت کو خوب خوب بیان کیا گیا ‘اور اہل اسلام سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ ہر کہی ہوئی بات پر نہ کان دھرا جائے‘ نہ ہی اس کو اہمیت دی جائے اور نہ ہی اسے ہوا دی جائے ‘بلکہ ہر کہی ہوئی بات کی نشر و اشاعت پر قد غن لگادیا ‘اور اسے تحقیق اور خوب خوب چھان بین کی تاکید کی گئی ‘اللہ تعالی نے فرمایا: ((يا أيها الذين آمنوا إن جاءكم فاسق بنبأ فتبينوا ))(الحجرات:۶)ائے ایمان والو! جب کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو ۔ ایک دوسری قراءت میں ‘‘فتثبتوا‘‘ ہے
اس آیت کریمہ میں ان حضرات کی اللہ نے مذمت بیان فرمائی ہے ‘جو لوگ کسی بھی خبر کی تصدیق کے بغیر اسے دوسروں تک شیر کرتے رہتے ہیں ‘اور اس بات کی قطعی کوئی پرواہ نہیں کرتے ‘کہ آیا یہ خبر صحیح ہے یا غلط ‘خاص کر ایسے دور میں جبکہ خبریں منٹوں میں پورے عالم تک پھیل جاتی ہیں ‘اور بیک وقت پوری دنیا اسے پڑھتی ‘دیکھتی‘اور اسے پھیلاتی رہتی ہے ۔
پھر اللہ نے آخر میں (فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین ) فرماکر اس امر پر متنبہ فرمادیا ‘ یہ انتہائی خطرناک امر ہے کہ کسی خبر کو بغیر تصدیق پھیلائی جائے ‘خاص کر ایسے میں کہ اگر وہ خبر کسی پر اتہام و الزام ‘اور افتراپردازی کی ہو ‘اور یہ بھی واضح کردیا کہ ہو سکتا ہے ‘تمہیں سبکی ‘ذلت‘شرمندگی‘اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑے ‘خاص کر ایسی صورت میں جبکہ اڑائی گئی خبر غلط ثابت ہوجائے ۔
خاص کر اگر علما کا طبقہ بے سر و پا کی خبریں اڑائے ‘بغیر چھان بین دوسروں تک شیر کرتا چلا جائے ‘اور بغیر تحقیق پھیلائے تو اس کی شناعت و قباحت اور اس کی برائی و مذمت دو چند ہو جاتی ہے ‘ خاص کر اگر وہ اپنے آپ کو کتاب و سنت کا حامل بھی کہتا ہو ‘تو اس کی خطرناکی مزید آگ اگلنے لگتی ہے ۔
ذاتی طور پر کتنی خبروں کے بارے میں میں جانتا ہوں کہ خبر اڑائی گئی ‘اور دشمنوں نے اڑائی ‘جس کی ٹانگ تھی ‘نہ سر ‘اور جب تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ اساسا اس کی کوئی صحت ہی نہیں ‘اور کہیں سے اس کا سراغ نہیں ملتا ‘اور جب ان سے دلیل مانگی گئی تو ندارد ‘سوائے افواہ اور بے بنیاد بات کے ‘اور بغلیں جھانکتے نظر آئے ‘پھر ایسے لوگوں کو شرمندگی ‘اور ذلت کا سامنا کرنا پڑا ‘لوگوں کے سامنے رسوا اور ذلیل بھی ہوئے ‘اور آخرت میں اللہ مالک ۔۔
نیز بڑا جھوٹا اور گنہگاراس آدمی کو قرار دیا گیا ‘جو ہر سنی سنائی بات کو لوگوں میں نشر کرتا پھرے ‘نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :‘‘ “كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ( السلسلة الصحيحة 2025( انسان کے گنہگار ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے ‘بیان کرتا پھرے
اور ایک حدیث میں یوں اس خبیث مرض کی نقاب کشائی کی گئی ‘ فرمایا ((كفى بالمرء كذبا أن يحدث بكل ما سمع ) ((رواه مسلم في المقدمة 6 صحيح الجامع 4482)) انسان کے جھوٹ کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے ‘بیان کرتا پھرے
مگر ہمارے معاشرے کا کیا جائے کہ ہر سنی سنائی بات بغیر کسی تحقیق ‘تفتیش ‘اور چھان بین کے بے سر و پر کی باتیں فضا میں اڑائی جاتی ہیں ‘اسے خاصی اہمیت دی جاتی ہے‘بعض تو یہاں تک بڑھے ہوتے ہیں کہ ان اخبار اور غلط بیانیوں کے اڑانے میں کوئی عار اور شرم محسوس نہیں کرتے ‘اور بے محابہ اسے دوسروں تک شیر کرتے چلے جاتے ہیں ۔
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :‘‘اصل میں انسان غلط اور صحیح دونوں قسم کی باتیں سنتا ہے ‘تو جب ایسی باتیں بیان کرے جس کی کوئی حقیقت ہی نہ ہو تو یہ جھوٹ ہوا ‘چاہے جان بوجھ کر اس کا ارتکاب کرے یا کسی اور طریقہ سے ( شرح صحیح مسلم )
نبی اکرم ﷺ نے تو اسے کبیرہ گناہ میں شامل فرمایا ہے : فرمایا : (( إن الله حرم عليكم عقوق الأمهات ووأد البنات ومنع وهات وكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال )
((رواه البخاري 2231.))
جو ہمارے معاشرے کا ناسور ہے ‘اور ہم اس میں بدسے بد تر طریقے سے پھنستے چلے جا رہے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں الزام تراشی ‘بہتان بافی‘اورافترا پردازی کا خوب چلن ہے ‘کیا خاص کیا عام ‘سب ہی اس مہلک مرض میں مبتلا ہیں ۔
بڑے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ علمائے کرام کا ایک معتد بہ طبقہ(جو منبر و محراب کی زینت ہیں‘اور وقت ملنے پر دھاڑ دھاڑ کر اور گلے پھاڑ پھاڑ کرتقریریں بھی فرماتا ہے) اس میں بہت آگے ہے ‘اور اس کی قباحت و شناعت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی ہے‘انہیں اس بات کی قطعی حاجت نہیں ہوتی کہ اس کے کیا مضر اثرات ‘اور آخرت میں کیا خطرناک سزائیں ہو سکتی ہیں‘اور ہوں گی ‘پتہ نہیں اس میں انہیں مزہ کچھ زیادہ آتا ہے ‘یا انہیں عذاب الہی کا خوف و ڈر نہیں)
وہ حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ جن پر الزام لگایا جا رہا ہے ‘ہو سکتا ہے وہ اس سے پاک اور بری ہو ‘اور قیامت کے دن اس کے گناہ اس پر ڈال دئے جائیں گے ‘کبھی اس حدیث ِ مفلس پر ان حضرات کو غور کرنا چاہئے جس میں انتہائی خطرناک انداز میں ایسے بد قماشوں کی خبر لی گئی ہے ‘حدیث ملاحظہ فرمائیں : ((أتدرون ما المفلسُ؟” قالوا”:المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع. فقال:” إن المفلس من أمتي من يأتي يوم القيامة بصلاة وصيام وزكاة، ويأتي وقد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته ، فإن فنيت حسناتهُ قبل أن يقضي ما عليه، أخذ من خطاياهم فطُرحت عليه ، ثم طُرح في النار” (رواه مسلم 347: برقم) ۔
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا:کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ ‘صحابہ نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور مال و دولت کچھ بھی نہ ہو ‘تو آپ ﷺ نے فرمایا :‘‘میری امت کا مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن نماز‘روزہ‘زکاۃ لے کر آئے گا ‘اس حال میں کہ اس نے اس کو گالی دی ہوگی‘اس پر بہتان لگایا ہوگا ‘اس کا مال کھایا ہوگا ‘اس کا خون بہایا ہوگا ‘اسے مارا پیٹا ہوگا ‘چنانچہ اسے اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی‘اور اسے اس کی نیکیاں ‘اس کے حقوق کی ادائیگی سے قبل اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی ‘اس(مظلوم) کے گناہ اس پر انڈیل دئیے جائیں گے ‘پھر اسے واصل جہنم کردیا جائے گا ‘‘ (نعوذ باللہ )
اس حدیث پر غور فرمائیں کہ نمازیوں‘روزہ داروں ‘صدقہ و خیرات کرنے والوں کی بھی بری طرح خبر لی گئی ہے ‘قیامت میں ایسے لوگ خسارے ہی خسارے میں ہوں گے ‘اور جہنم کی آگ میں جلنا ہوگا‘باوجودیکہ ان کے پاس نماز ‘روزے‘صدقہ و خیرات ‘اور دیگر اعمال صالحہ کے طومار ہوں گے ۔
اس وبا کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اس کے نیکیوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے ‘بلکہ اس کی نیکیاں اس کو دے دی جائیں گی ‘اور جب نیکیاں کم پڑ جائیں گی تو الزام لگائے گئے شخص کے گناہ اس کی پیٹھ پر لاد دیئےجائیں گے ‘بھلا بتایا جائے اس سے بڑا اور کوئی خسارہ کیا ہو سکتا ہے؟
شریعت نے الزام تراشی اور بہتان بافی کی انتہائی کڑی سزا مقرر فرمائی ہے ‘اور اس میں کوئی رعایت نہیں برتی گئی ہے ۔
نبی ٔ اکرم ﷺ نے فرمایا :‘‘ مَنْ حَالَتْ شَفَاعَتُهُ دُونَ حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ فَقَدْ ضَادَّ اللَّهَ، وَمَنْ خَاصَمَ فِي بَاطِلٍ وَهُوَ يَعْلَمُهُ لَمْ يَزَلْ فِي سَخَطِ اللَّهِ حَتَّى يَنْزِعَ [عَنْهُ]، وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ
) الصحیحۃ(437)
جس نے اللہ کے حدود میں سے کسی حد کو روکنے کی سفارش کی تو گویا اس نے اللہ کی مخالفت کی، اور جو جانتے ہو ئے کسی باطل امر کے لئے جھگڑے تو وہ برابر اللہ کی ناراضگی میں رہے گا یہاں تک کہ اس جھگڑے سے دستبر دار ہو جائے، اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جوا س میں نہیں تھی تو اللہ اس کا ٹھکانہ جہنمیوں میں بنا ئے گا یہاں تک کہ اپنی کہی ہوئی بات سے تو بہ کر لے”۔
اس خبیث مرض کو تو نبی ٔ اکرم ﷺ نے سب سے بڑا اور بد ترین سود قرار دیا ہے ‘فرمایا : ((إن من أربى الربا الاستطالة في عرض المسلم بغير حق)) (رواه أبو داود ۴۸۷۶)‘اور سود ایسے ہے جیسے کہ کوئی شخص ۳۶ مرتبہ زنا کرے (صحیح الجامع:۳۳۷۵)بلکہ اس سے بھی کہیں سخت اور شدید ترین جرم کا حامل ہے ۔اللہ ہم سب کو اس بری وبا سے بچائے ۔
کیا مسلمانوں کی عزتوں پر حملہ کرنے والوں نے کبھی فکر و تامل کیا کہ وہ کیا کر رہے ہیں ‘اور کیسی خباثت ‘بد باطنی اور ناعاقبت اندیشی کا ثبوت دے رہے ہیں ‘اللہ بھلا کرے ۔
کل روز قیامت ان بد طینت لوگوں کا بہت برا حال ہوگا ‘جس کا مشاہدہ خود نبی ٔ اکرم ﷺ نے معراج والی رات میں فرمالیا تھا ‘آپ ﷺ کا گزر کچھ ایسے لوگوں سے ہوا تھا جو اپنے چہرے اور سینے اپنے پیتل کے ناخن سے نوچ رہے تھے ‘جب پوچھا گیا تو آپ کو بتلایا گیا کہ یہ وہ خبیث لوگ ہیں ‘جو لوگوں کی عزت و آبرو پر حملہ کرتے تھے (ابو داؤد۴۸۷۸)
آہ کس قدر درد ناک منظر ہوگا؟کبھی غور کیا ۔
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو ‘اس کے عذاب سے خوف کھاؤ
حضرات گرامی !مسلمانوں کی عزت و آبرو قیمتی سرمایہ ہے‘اس کی حفاظت ہی اصل مردانگی ہے (جسے ہم بھول بیٹھے ہیں)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ‘‘آدمی کی طنطنہ بازی پر خوش نہیں ہونا چاھئے ‘کیوں کہ مرد وہ ہے جو امانت ادا کر دیا کرے اور لوگوں کے عزت و آبرو پر حملہ نہ کرے (کتاب الزھد از ابن مبارک )
اسلام میں مسلمانوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کا حکم دیا ‘اور اس پر حملہ اور دھاوا بولنے سے کلی طور پرمنع کیا ‘اور اپنے آخری خطبہ ٔ حجۃ الوداع کے بیان کردہ دستور میں سے ایک دستور قرار دیا ‘فرمایا : ((إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ عَلَيْكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ )) (بخاری:۱۷۳۹‘مسلم :۱۶۷۹)تمہارے خون ‘تمہارے مال ‘اور تہاری عزتیں اسی طرح سے تمہارے اوپر حرام ہیں ‘جیسے کہ یہ دن ‘یہ شہر (مکہ)اور یہ ماہ (ذو الحجہ) حرمت والا ہے۔
نیز آپ ﷺ نے فرمایا : (کل المسلم علی المسلم حرام دمه وعرضه وماله),
(مسلم :۲۵۶۴)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ہر مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے
امام نووی نے جو تبویب فرمائی ہے ‘کچھ یوں ہے ‘‘باب تحريم ظلم المسلم وخذله واحتقاره ودمه و ماله و عرضه” جس سے معلوم ہوتا ہے ‘کسی کی عزت پر حملہ کرنا نہ صرف گناہ کبیرہ اور حرام ہے ‘بلکہ یہ ظلم بھی ہے ‘
اور ظلم سے متعلق شریعت ِ غراء کا جو موقف ہے ‘وہ انتہائی سخت گیر ‘اور عادلانہ ہے ‘تاکہ کسی بھی ناحیہ سے کسی پر ادنی طور بھی ظلم نہ ہو سکے‘اس سلسلہ میں بہت ساری نصوص ہیں ‘جن کا یہاں موقعہ نہیں ۔
نیز اس امر پر بھی غور کیا جائے کہ الزام تراشی ان سات امور میں سے ایک ہے ‘جو ہلاک و برباد کرنے والے ہیں ‘جن سے بچنے کا تاکیدی حکم دیا گیا ہے ‘نبی ٔ اکرم ﷺ نے فرمایا : ((إجتنبوا السبع الموبقات —–و قذف المحصنات المؤمنات الغافلات۔۔۔۔( بخاری :۲۶۱۵‘مسلم :۱۴۵)سات ہلاک کردینے والی چیزوں سے بچو ‘( ان میں سے ایک ) پاک دامن مؤمنہ خواتین پر الزام لگانا ۔
معلوم ہوا کہ الزام لگانا کوئی آسان اور معمولی کام نہیں‘بلکہ یہ انسان کو ہلاکت کے گڑھے میں ڈھکیل دیتا ہے ‘جس سے بچنا انتہائی لازمی ہے ۔
الزام تراشی منافقین کی نشانی :
قرآن کریم کا بنظر غائر مطالعہ کیجئے ‘ٔ افک کا واقعہ بڑے سنہرے حروف میں نظر آئے گا ‘اور انتہائی سنگین اور بھیانک نتائج کے ساتھ ظاہر ہوتے پائیں گے‘قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والے ‘اور سیرت نبویہ پڑھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اس کار بد کے انجام دینے والے بد باطن ‘بد طینت ‘اور بد خو منافقین کی کا رستانیاں تھیں ‘اور وہی پیش پیش تھے ‘جو حرم نبوت میں کاری ضرب لگانا چاہتے تھے ‘امی عائشہ ۔رضی اللہ عنہا پر انتہائی سنگین ‘بدترین اور خطرناک الزام منڈھ دیا گیا ‘تاکہ اسلام اور رسول اسلام ﷺکو قلق و اضطراب میں مبتلا کیا جا سکے (ورنہ حقیقت سے اس کا دور دور تک کوئی واسطہ ہی نہ تھا )نتیجتا خانوادہ ٔ نبوت‘اور گھرانہ ٔ صدیق ذہنی اذیت کے شکار ہوئے ‘عام مسلمان بھی گو مگو میں ملوث ہوگئے ‘اور یہ کیفیت تقریبا ایک ماہ تک رہی ‘جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ منافقین نے الزام کے جو تانے بانے بنے تھے کوئی معمولی نہ تھے ‘نیز اس بات کی بھی دلیل ہے کہ الزام تراشی اور افترا پردازی منافقین کا طرہ ٔ بد بخت ہے ۔
پھر اللہ تعالی نے ایک ماہ بعد سورہ ٔ نور کی پر کشش ‘نور بخش ‘اور اذہان و قلوب کو جلا بخشنے والی آیات کا نزول فرماکر اس فتنہ کی سر کوبی فرمائی ‘جس سے منافقین سر نگوں ہوئے ‘ان کے اصلی چہرے عام مسلمانوں کے روبرو آئے ‘اصل حقائق کی نقاب کشائی ہوئی ‘اور مطلع بالکل صاف ہوگیا ‘مگر یہ صاف ہوگیا کہ اس طرح کے منافقین صفت لوگ ہمیشہ ‘ہر دور ‘اور ہر زمانے میں پائے جاتے رہیں گے ۔
سورہ ٔ نور کی آیات : ۱۴۔ تا ۱۸ کا مطالعہ فرما جائیے ‘قرآن کے سورہ ٔ نور کا مطالعہ آپ کو یہ سوچنے پر مجبور کرے گا ‘کہ اللہ تعالی نے ایک ماہ کے بعد برات کا نزول کیوں فرمایا ‘اگر چاہتا تو لمحہ بھر میں حقیقت کی نقاب کشائی کردیتا ‘اور مطلع بالکل صاف ہوجاتا ‘اس واقعہ کے پڑھنے ‘اس پر غور کرنے ‘اس کے سنگین نتائج پر تامل کرنے ‘اور اس پر مترتب ہونے والے اثرات پر تدبر کرنے کے بعد یہ چند حقائق سامنے آجاتے ہیں ۔
(۱)کسی بھی بے گناہ اور بے قصور مسلمان پر الزام لگانا ‘بہتان تراشی کرنا‘اور اسے ناکردہ گناہ کا مورد ِ الزام قرار دینا گوکہ ایک سنگین جرم ‘بدترین اخلاقی گناہ ِ عظیم ہے ‘مگر یہ ہمیشہ سے معاشرے کا اٹوٹ حصہ رہا ہے ‘اور رہے گا ‘اس سے مفر نہیں ہے ‘اگر اللہ چاہتا تو فورا ختم کر دیتا ‘مگر تاخیر کے باوجود بھی یہ طوفان بد تمیزی ختم نہ ہوئی تو خود اس واقعہ کو ((افک))(جھوٹا ) قرار دیا ‘اور مائی عائشہ۔رضی اللہ عنہ۔ کی برات کا اعلان فرمادیا ‘اور یہ پیغام دیا کہ اس طرح کے مسائل کے ظہور کے وقت برات کا اظہار ‘تریث‘تروی‘اور چھان بین کے بعد ہی کوئی اقدام کیا جائے ‘اور زبان کھولی جائے ‘اگر دلائل نہ ہوں ‘ثبوت نہ ملیں ‘تو عقل کے گھوڑے دوڑانے کی قطعی ضرورت نہیں ‘اس طرح کرنے سے تمہارا ہی نقصان ہوگا ‘ اورآخرت میں تم عذاب الیم کے مستحق قرار پاؤگے ‘شاید جس پر الزام لگایا جا رہا ہو وہ تم سے بہتر اور اللہ کے نزدیک تم سے اچھا ہو ‘مگر تم عذاب ربانی سے دو چار کر دئیے جاؤ ‘اور دنیا و آخرت میں سبکی اور بے عزتی کا سامنا ہو‘گویا بغیر علم و تحقیق کے اس بات کو آگے پھیلانا، دوسروں کو شیر کرنا ‘بے سر پا اڑانا ‘خود ایک منفی رائے قائم کرنا، دوسروں کی رائےسازی کرنا ایک بہت بڑی بات اور اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔
(۲)حضرت عائشہ ۔رضی اللہ عنہا ۔ ام المؤمنین کے معاملے میں بہتان تو زنا کا لگایا گیا تھا، جو سر تا سر منافقین کی کارستانی تھی ‘مگر تردید کرتے وقت قرآن مجید نے زنا کا لفظ یکسر استعمال ہی نہیں کیا۔ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ قرآن مجید الزام تراشی و بہتان بازی کے اس رویے پر تنقید کو صرف زنا کے الزام کی حد تک محدود نہیں کرنا چاہتا بلکہ اس کے پیش نظر ہمیشہ و مدام ہی یہ بات ہے کہ کسی مسلمان پر اگر کسی اور پہلو سے بھی کوئی سنگین الزام لگایا جائے، جس طرح آج کل مسلمانوں کی نیت اور ان کے ایمان پر براہ راست حملے کر کے انہیں کافر اور گمراہ قرار دیا جاتا ہے، اس رویے کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے‘کسی کی عزت پر حملہ کرنا بڑا سنگین جرم ہے
مگراس کے ایمان اور نیت کو ہدف بنانا اس سے بھی کہیں زیادہ سنگین جرم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو سمجھا اور اس کو بیان کیا ہے۔ چنانچہ بخاری و مسلم میں اس مفہوم کی متعدد روایات ہمیں ملتی ہیں جس میں واضح کیا گیا ہے کہ کسی مسلمان کو کافر کہنا خود اپنے کفر کا سبب بن جاتا ہے۔ یہی وہ دینی تعلیم ہے جس کا سمجھنے والا ہمیشہ اس بات میں محتاط رہے گا کہ کسی مسلمان پر کفر و گمراہی کے فتوے دے یا اس طرح کی چیزوں کو آگے بڑھائے، کیونکہ اس کے نتیجے میں اپنا ایمان سلب ہوجاتا ہے
(۳)جو لوگ اس وقت الزام لگارہے تھے ان سے کہا گیا کہ وہ چار گواہ لے کر آئیں۔ یہ بات عقل عام سے سمجھی جاسکتی ہے کہ زنا چھپ کر کیا جاتا ہے چار لوگوں کے سامنے نہیں۔ چنانچہ بہت سے لوگ اس بنا پر قرآن کا مذاق بھی اڑاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے شرط ہی وہ رکھی ہے جو کبھی پوری نہیں کی جاسکتی۔ مگر درحقیقت الزام کو ثابت کرنے کے لیے اتنی سخت ترین شرط لگانے کا مقصد ہی یہی ہے کہ معاشرے میں الزام لگانے کی سوچ کو ختم کیا جاسکے‘ایسے مریض القلب کے بیمار ذہن پر لگام کسی جائے ‘جو الزام و افترا کا کوئی بھی موقعہ ضائع نہیں ہونے دینا چاہتے ۔ جب تک کہ ناقابل تردید ثبوت میسر نہ ہوں، کسی بھی شخص کے خلاف کسی پہلو سے زبان نہ کھولی جائے۔
اور الزام لگانے والے پر تین قسم کے احکامات نازل فرمادئے :
(۱) اسے ۸۰ کوڑے مارے جائیں ( تاکہ وہ دوبارہ وہ اس طرح کی حرکت کرنے کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لا سکے‘اور الزام لگانے ‘زبان کھولنے ‘اور تہمت بازی سے پہلے ۱۰۰ بار سوچنے پر مجبور ہو )
(۲)اس کی گواہی کبھی قبول نہ کی جائے (کہ ایسا آدمی کسی بھی شخص کے بارے میں کچھ بھی بول سکتا ہے‘لہذا اس کی گواہی تا ابد مردود ہوگی ‘شریعت غراء تیری عظمت کو سلام )
(۳)اور وہ شحض فاسق و فاجر شمار ہوگا ‘عادل کبھی نہیں ہو سکتا
( مزید تفصیل کے لئے دیکھئے :تفسیر ابن کثیر:۶؍۱۳۔۱۴)
مذکورہ امور سے یہ بات مترشح ہوگئی کہ کسی بھی شخص پر الزام تراشی کوئی معمولی گناہ ‘ اورحقیرچیز نہیں ہے‘بلکہ یہ منافقوں کا شیوہ ‘فاسق لوگوں کی قبیح عادت ‘اور بد باطن افراد کی بری خصلت ہے‘جس سے احتراز لازم اور ضروری ہے ۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمارے دلوں میں ایمانی قوت و جذبہ پیدا فرمائے ‘تمام بری خصلتوں سے محفوظ رکھے