ماضی میں بین المذاہبی کشیدگی اور سفارتی کھچاؤ کی علامت بنے رہنے والے استنبول کے صدیوں پرانے میوزیم حاجیہ صوفیہ میں ترک صدر ایردوآن کی طرف سے قرآنی آیات کی تلاوت کا تازہ ترین واقعہ بین الاقوامی سرخیوں کا موضوع بن گیا ہے۔
استنبول۔یکم اپریل(ایجنسیاں)
ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول سے، جو ایشیا اور یورپ دونوں براعظموں میں واقع ہے اور ماضی میں قسطنطنیہ کہلاتا تھا، ہفتہ اکتیس مارچ کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ترک صدر رجب طیب ایردوآن کو آج اسی شہر میں ایک آرٹ فیسٹیول کا افتتاح کرنا تھا۔
حاجیہ صوفیہ میں فنون لطیفہ کے اس میلے کے افتتاح کے موقع پر ترک صدر نے اپنے خطاب کے دوران چند قرآنی آیات کی تلاوت بھی کی، جس کے بعد انہوں نے کہا کہ انہوں نے یہ آیات ’ان (افراد کی) روحوں کے لیے تلاوت کی ہیں، جنہوں نے ترک عوام کے لیے اپنے پیچھے یہ (حاجیہ صوفیہ) عظیم میراث چھوڑی ہے، اور جن میں خاص طور پر استنبول کو فتح کرنے والے حکمران بھی شامل ہیں۔‘‘حاجیہ صوفیہ آج بھی استنبول کی ایک ایسی تاریخی پہچان ہے، جس نے گزشتہ کئی صدیوں کے دوران مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے ادوار میں کئی مختلف عہد اور بہت سے مذہبی، ثقافتی اور تاریخی اتار چڑھاؤ دیکھے۔
تاریخی حقائق کی روشنی میں حاجیہ صوفیہ کو، جو عرف عام میں آیا صوفیہ بھی کہلاتا ہے، بازنطین مسیحی سلطنت کے دور میں چھٹی صدی عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ پھر یہی تاریخی عمارت طویل عرصے تک یونانی آرتھوڈوکس کلیسا کی روحانی طاقت کا سرچشمہ بھی رہی تھی۔
کئی صدیوں تک مسیحیت کی یونانی آرتھوڈوکس شاخ کا روحانی مرکز بنے رہنے کے بعد 1453ء میں عثمانی مسلم حکمرانوں نے جب استنبول کو فتح کیا تھا، تو ساتھ ہی آیا صوفیہ کی حیثیت کو تبدیل کرتے ہوئے اسے ایک عظیم الشان شاہی مسجد میں بدل دیا گیا تھا۔
اب اکتیس مارچ کے روز ایک آرٹ فیسٹیول کے افتتاح کے موقع پر ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی طرف سے صدیوں پرانی اسی عمارت میں قرآن کی تلاوت اس لیے ایک بڑی خبر بن گئی کہ جدید ترکی کے بانی کمال اتاترک نے جب سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سیکولر ترک ریاست کی بنیاد رکھی تھی، تو 1935ء میں حاجیہ صوفیہ کو ایک میوزیم کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس تناظر میں ایک ایسے میوزیم میں، جس کا اب قانوناﹰ کسی بھی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے، صدر ایردوآن کو وہاں اپنے خطاب کے دوران قرآن کی تلاوت نہیں کرنا چاہیے تھی تاکہ اس عمارت کی لادین شناخت برقرار رہتی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس پس منظر میں یہ بات بھی اہم ہے کہ ترکی میں گزشتہ کئی برسوں سے صدر ایردوآن کی اسلام پسند سیاسی جماعت حکومت میں ہے، جو واضح طور پر اسلام کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے اور انقرہ حکومت میں کئی بار اس موضوع پر بحث بھی ہو چکی ہے کہ حاجیہ صوفیہ کو دوبارہ ایک مسجد میں بدل دیا جانا چاہیے۔
اس سلسلے میں یونان کی طرف سے، جس کے کئی مختلف تاریخی، سیاسی اور مذہبی عوامل کے باعث ترکی کے ساتھ اختلافات صدیوں پرانے ہیں، اس الزام کے ساتھ باقاعدہ احتجاج بھی کیا گیا ہے کہ ترک حکومت کی طرف سے حاجیہ صوفیہ کو مسلم مذہبی حوالے سے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ڈی ڈبلیوکے مطابق حاجیہ صوفیہ کے بارے میں بالآخر کیا فیصلہ ہو گا، اس بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ ترکی میں حزب اختلاف کی قوم پرست جماعت ’MHP‘ اسے مسجد میں تبدیل کرنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے اور پارلیمان میں اُس کی دو قراردادیں بھی مسترد ہو چکی ہیں۔ یونیسکو بھی اس حوالے سے فکر مند ہے کیونکہ 1985ء سے اس میوزیم کو عالمی ثقافتی ورثے کا درجہ دیا جا چکا ہے۔