جہاں ملتی شفایابی وہاں اب مرض ملتا ہے

Umar Farooqعمر فاروق قاسمی
طبقاتی تفاوت کا سب سے کٹر دشمن اسلام ہے، اسلام ہی نے سب سے پہلے مساوات کا نعرہ دیا تھا، قرآن ہی نے کہا تھا کہ اے لوگوں ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے درمیان خاندان اور قبائل اس لئے بنائے کے تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، تم میں بڑا صرف وہ ہے جو تم میں اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نہ کسی عربی کو عجمی پر فضیلت ہے، نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ گورے کو کالے پر،اور نہ کالے کو گورے پر، تم ایک ماں باپ کی اولاد ہو ، اسلام کا یہی نظام مساوات تھا جس نے طبقاتی نظام میں بندھے ہوئے ہندوستانی دلتوں کو معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کی ہاتھ پر لاکھوں کی تعداد میں اسلام قبول کر نے پر مجبور کر دیا تھا، دلتوں کو مندر میں جانے کی اجازت نہیں تھی، وہ وید نہیں پڑھ سکتے تھے، برہمنوں کے بینچ پر بیٹھنے کی سزا سرین کو داغ دینا تھی، ادھر اعلی و ادنی ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے، محمود و ایاز کا کوئی فرق مسجد میں نظر نہیں آتا، خدا کے دربار میں محتاج و غنی سب ایک ہوئے، عدالتی نظام میں قاضی کے سامنے خلیفہ اور رعایا کا کوئی فرق نہیں تھا، بھرے مجمع میں ایک بوڑھا ایک تہائی دنیا کے حکمران عمر فاروق سے سوال کر سکتا تھا، اسلام کی یہی خوبی دیکھ کر غول کے غول اور فوج کے فوج سارے مشقِ ستم کے باوجود اسلام کے سائے میں پناہ لینے لگے تھے، اور آندھی اور طوفان کی طرح اسلام پوری دنیا میں اپنا پرچم لہرانے لگا تھا ، تمام مذاہب کو چھوڑ کر لوگ اسلام ہی کو اپنی منزل سمجھنے لگا کون عیسائی کون ہندو کون بڈھسٹ اور کون پارسی سبھی نے اسلام ہی کو اپنا مَاوٰی و ملجا سمجھا۔ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ روہت ویمولا جو مسلمانوں ہی کے لئے لڑائی لڑتا رہا، مسلمانوں ہی کے لیے اس نے بیف پارٹی کا انعقاد کرایا، یعقوب میمن اور افضل گرو کی پھانسی کی سزا کا مخالفت کرتا رہا اس کے گھر والے نے ہندو مذہب کے طبقاتی نظام سے تنگ آکر اسلام مذہب نہ قبول کر کے بودھ مذہب کو کیوں اختیار کیا؟ ، کہیں ایسا تو نہیں کہ جس طبقاتی نظام سے یہ لوگ تنگ آچکے تھے اس کا علاج مسلمانوں کے درمیان بھی نہیں تھا، یا اسلام میں اس کا علاج تو مکمل طور پر تھا لیکن اس خاندان کو کوئی سمجھانے والا نہیں تھا کہ جس بیماری سے تم شفا چاہتے ہو اس کا دارالشفااسلام ہے۔
ہمارے درمیان دو غیر اسلامی جھگڑے ہی لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے مانع بن رہے ہیں، ایک ہے مسلکی اختلاف اور دوسرا ہے ذات پات پر مبنی طبقاتی تفاوت ، اب غیر مسلموں کو بھی پتہ چل گیا ہے کہ مسلمانوں میں بھی ہندوؤں کی طرح سینکڑوں گڑوپ ہیں، کوئی سنی مسلمان ہے کوئی شیعہ کوئی دیوبندی ہے تو کوئی بریلوی، اور یہ اختلاف اس حد تک ہے کہ ایک دوسرے کو کافر تک کہہ دیتے ہیں، غیروں کے درمیان بیٹھ کر ہم مسلکی جھگڑا کرتے ہیں، بات بات پر مسلک کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ اسی طرح آباؤ اجداد اور اسلاف کی شرافت پر فخر کرنا مسلمانوں کا شیوہ بن گیا ہے ہم میں کوئی شیخ ہے، کوئی انصاری، کوئی منصور ی، یہ اختلاف بھی اس قدر شدید ہے کہ ایک دوسرے کے یہاں شادی تک نہیں کرتے، ہندوؤں کی طرح طبقاتی نظام ہمارے یہاں بھی قائم ہو گیا ہے، ایک تیسری وجہ یہ ہے کہ مسلمان بننے کے بعد ہم اس سے بھائی والا سلوک نہیں کرتے، اگر وہ پہلے سے چمار ذات کا ہے، تو مسلمان ہونے کے باوجود ہم اس کو اسی طرح گھٹیا سمجھتے ہیں جیسا پہلے سمجھا جاتا تھا، اس سے یا اس کے بال بچوں سے شادی کرنے کو عیب اور گھٹیا سمجھتے ہیں، ہمارے تعلقات کے ایک نومسلم ہیں ان کی عالمہ فاضلہ بچیوں کی شادیوں میں صرف اس لئے دشواری کا سامنا کرنا پڑا کہ ان کے والد پہلے غیر مسلم لوہار تھے؛ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر نے اسلام کا ارادہ ترک کر کے بودھ مذھب اختیار کر لیا تھا، کہا جاتا ہے کہ گاندھی جی نے ان سے کہا تھا کہ جس طبقاتی نظام کے ڈر سے ہندو مذہب چھوڑ کر اسلام کے دروازے پر دستک دینے جارہے رہے ہیں وہ مسلمانوں میں بھی ہے، آپ کون مسلمان بنیں گے شیعہ مسلمان سنی مسلمان، دیوبندی یا بریلوی مسلمان، انصاری یا شیخ ؟؟؟ نتیجہ کہ طور پر امبیڈکر نے اسلام کا ارادہ کرنے کے باوجود بودھ مذہب اختیار کر لیا۔ اختلاف رائے فطری چیز ہے لیکن وہ صرف درسگاہوں اور گھروں تک محدود ہونا چاہیے تھا مساجد کے منبر و محراب، چوک چوراہے، اخبارات میں منافرت آمیز بیانات اور ٹیلی ویژن کا اسکرین اس کا موقع اور محل نہیں ہے، لیکن ہمارا جھگڑا سڑکوں پر آچکا ہے اور جس طبقاتی نظام کا اسلام دشمن ہے بدقسمتی سے ہمارے درمیان بھی جڑ پکڑ چکا ہے، شاید یہی سب سوچ کر روہت ویمولا کے گھر والوں نے اسلام جیسے صاف ستھرے مذہب کی طرف رخ نہ کر کے بودھ مذھب اپنا لیا ہو۔(ملت ٹائمز)

SHARE