دین بچاﺅ ۔دیش بچاﺅ کانفرنس میں مولانا محمد ولی رحمانی کا فکر انگیز صدارتی خطاب مکمل متن کیلئے یہاں کلک کریں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ رب العالمین والصلوة والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہ وازواجہ واصحابہ الطیبین وعلی من تبعہم الی یوم الدین ۔اما بعد:
اس گرم موسم میں شریعت کی فکر اور ملک کے درد کے ساتھ آنے والے بھائیو !
شہر پٹنہ اوراس کے مضافات سے تکلیف اٹھاکر آنے والی بہنواور بیٹیو!
آزاد بھارت میں اپنی آزادی کی نئی تاریخ خون سے لکھنے والے کرانتی کاریو!
آپ سب کو دل کی گہرائیوں سے میرا سلام ،لاکھ لاکھ سلام !
حضرات اور خواتین!

آپ آئے ،موسم کی تیزی جھیلتے آئے،جھیل رہے ہیں،حوصلہ اور جذبہ کے ساتھ آئے، عزم کو تازہ کرنے اور ارادہ کو پختہ کرنے کی نیت سے آئے،آپ کا یہ مجمع بتارہاہے کہ ہمارے اندر زندگی، توانائیوں کے ساتھ زندہ ہے،ہماری آنکھیں کھلی ہیں، ہم حالات کو سمجھ رہے ہیں، ہم اپنے مذہب کی حفاظت کرنے کا دم رکھتے ہیں،ہم شریعت کو بچانے کا حوصلہ رکھتے ہیں، شریعت پر عمل کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، ہم میں یہ صلاحیت ہے کہ ہم حالات سے پنجہ آزمائی کریں اوربگڑے حالات کو اپنے قربانیوں سے ٹھیک کریں۔
آپ سب میری آواز پر یہاں آئے، بہت بڑی تعداد میں آئے، تاریخی گاندھی میدان کی تاریخ میں ایک روشن تاریخ بڑھانے کے لئے آئے،آپ نے گھروں کی سہولتوں کو چھوڑا،کھیتی باڑی کو کنارے لگایا، تجارت بند کی، تعلیمی ادارے کو موقوف کیا، ملازمت سے چھٹی لی اورہر شعبہ¿ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کھلے آسمان کے نیچے ،گرم زمین کے اوپر اپنے اللہ کی خوشنودی اور پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی بقاءاور ملک کے مستقبل کی فکرمندی کے ساتھ جمع ہیں، میں آپ کی ہمت ،حمیت ،بیداری،بہادری اور جذبہ¿ خلوص کی قدر کرتاہوں ، آپ کا استقبال کرتاہوں۔
اللہ کے بندو! اللہ کی بندیو! ہمارا ملک بڑے برے دور سے گذر رہاہے، حکمراں ،ملک میں دہشت پھیلارہے ہیں، یہ خوف کے بیوپاری ہیں ، نفرت کی کاشت کاری کررہے ہیں،جھوٹ کی آبیاری ان کا پیشہ ہے،ان چیزوں نے پورے ماحول میں بے یقینی کی فضا بنادی ہے،اور یہ بے یقینی ہرسطح پر چھاگئی ہے۔
حدیہ ہے کہ قانون کا مطلب بتانے والی ،بے لگام انتظامیہ کو قابو میں رکھنے والی،،وطن عزیز کی جمہوریت کی حفاظت کرنے والی اورآئین کی پاسدارعدلیہ خود پریشان ہے،چار سینئر ججز پریس کانفرنس کرکے بتارہے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ ہے،عدالتیں آزاد نہیں ہیں، ایک خاص نظریہ کو تھوپنے کے لئے عدالتوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
آئین کی حکمرانی ،قانون کی بالادستی ،انصاف اور مساوات اوربنیادی حقوق کمزور پڑتے جارہے ہیں، ایک طرف دلہے صاحب ہیلی کاپٹر سے سسرا ل جارہے ہیں،دوسری طرف یہ خواہش بھی پوری نہیں ہوسکتی کہ بارات میںدولہا گھوڑے پر سوار ہو، اور سوار ہوا تو زندگی موت کے حوالہ کردی گئی،جھولے میں کوئی گوشت لے جارہاہے تو اس کی درگت بنادی جائے گی،مسلمان کو پہچان کر اس کی اتنی پٹائی کی جائے گی کہ وہ مرجائے،اونچی تعلیم گاہوں کا ماحول ایسی گھٹن والا بنادیا اور ایسے جبروظلم کی فضا بنائی گئی کہ طالب علم خود کشی کرلے،اس کا جرم کیا ہے؟،صرف ایک !شڈولڈکاسٹ ،شڈولڈ ٹرائب سے تعلق رکھتاہے، وہ مظلوم طبقہ سے تعلق رکھتاہے، وہ مسلمان ہے، وہ اقلیتی طبقہ کا فرد ہے، یہی جرم ہے اس کا،چرچوں پہ حملے کئے گئے،پادریوں کو ختم کیا گیا،جرم یہ تھاکہ ان کی تعداد تھوڑی ہے،کیا یہی قانون کی حکمرانی ہے،؟ کیا یہی آئین کی بالادستی ہے۔؟
ایک کھرا سچ یہ ہے کہ ظلم ایجاد کرنے والوں، ظلم ڈھانے والوں کا ایک بڑا طبقہ تیار ہوگیا ہے ،جس نے الگ الگ ناموں کی تنظیم بنارکھی ہے، اور وہ بہانے دھونڈ کے پیداکررہاہے جفاکے لئے! مسلمانوں کا خون بہاکر انہیں مزہ آتاہے، مسلمانوں کے دوکانوں کو آگ لگاکر انہیں خوشی ہوتی ہے، ان کو برباد کرکے ان کو سکون ملتاہے، ایس سی/ایس ٹی کو موت کے گھاٹ اتارا جارہاہے، ظالموں کی یہ جماعت انہیں عزت کے ساتھ بٹھانے کے لئے تیار نہیں،یہی ذہنیت آئین ہند سے کھلواڑ کررہی ہے، دستور کو بدلنا چاہتی ہے، انسانوں کے خون کو سستا اور گائے کے پیشاب کو مہنگا کررہی ہے۔
اسی طبقہ کے لوگ واٹس اپ کے ذریعہ دل آزار اور اہانت آمیز پیغام بھیجتے ہیں، اذان کو بند کرانے کی کوشش کرتے ہیں، مسجدوں کو نقصان پہونچاتے ہیں، مذہبی کتابوں کی توہین کرتے ہیں، قانون کی دھجیاں اڑاتے ہیں، اور ملک کی بدقسمتی ہے کہ یہ حالات وہ لوگ پید ا کررہے ہیں، جن کے نمائندے حکمرانی کررہے ہیں، یہ حکمران سماج میں دشمن عناصر کی پرورش اور پرداخت کررہے ہیں اوران کا شکار مسلمان ،ایس سی /ایس ٹی ،عیسائی اور اقلیتیں ہیں، یہ سب مظلوم ہیں، ان کے درد کا مداوا ،پریشانیوںکا علاج ،اور ہونے والے مظالم کے خاتمہ کا طریقہ یہ ہے کہ یہ مظلوم طبقہ ،یہ الگ الگ رہنے والا کمزور طبقہ ،ظلم کے خلاف ،زیادتی کو مٹانے کے لئے ایک جٹ ہوجائیں اور مشکل وقت میں یہ مظلوم طبقات ایک دوسرے کا ساتھ دیں۔
مسئلہ صرف جان ومال کی حفاظت ،عزت وآبرو کا بچانا اور پروقار زندگی گذارنے کا نہیں ہے۔ان مسائل سے زیادہ اہم اپنے دین کی حفاظت ،اپنے شعائر اور شعار کی حفاظت ،اپنے ملی تشخص کی حفاظت ،اپنی تہذیب اورزبان کی حفاظت کا معاملہ بڑا اہم ہے۔شریعت ہماری روح ہے، قرآن ہماری بنیاد ہے، سنت نبوی ہماری راہ نماہے، ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جاہ وجلال ہماری جان ہے۔ان سے کھلواڑ کی کوششوں کو ہم کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟
یہ بھی یاد رکھئے! ان حالات میں بھڑکنا،جذباتیت کا مظاہرہ کرنا، بلاوجہ جوش میں آجانا مسئلہ کا حل نہیں ہے____مسئلہ کا حل آئین کے دائرے میں تلاش کرنا ہے،ٹھنڈے دل ودماغ سے فیصلہ کرنا ہے، لانبی پلاننگ کرنی ہے، دشمنوں کو پہچاننا ہے، نئے دوستوں کو تلاش کرنا ہے اور ان غلطیوں سے بچنا ہے جنہیں اس ملت نے ماضی قریب یا ماضی بعید میں کیا ہے۔
میرے عزیزو! ہمیں مثبت حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے،اپنے جمہوری حقوق کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا ہے، ہمیں اپنے سماج کے مزاج کو بدلنے کی پالیسی بنانی ہے، ہمیں اندھی حمایت اور روایتی وابستگی سے باہر نکلنا ہوگا،ہماری ذمہ داری ہے کہ سیاسی استحصال کرنے والوں کو پہچانیں، اپنے اندر شعور وآگہی پیدا کریں ،اورکلمہ واحدہ کی بنیاد پر جینے کا مزاج پیدا کریں۔
مسلک راہ عمل ہے،یہ دینی راہ ہے،یہ اختلاف اور ٹکراﺅ کا ذریعہ نہیں ہے، ہم نے اس دینی راہ کو اختلاف وانتشار کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔اسلام نے دوسرے مذاہب کے قدرمشترک کو آواز دی ہے، کیا شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ان کے نام لیوا تھوڑے سے مسلکی اختلا ف کو ایک واضح دائرہ میں نہیں رکھ سکتے ؟ اورآپس میں بھائی بھائی بن کر نہیں رہ سکتے؟
اللہ کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ،برادری، گورے اور کالے کے فرق کو مٹایا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دیوار ڈھادی جو قبیلہ واد اور برادری واد کے نام پر جاہلی عرب نے قائم کیا تھا۔لیکن ہم دورجاہلیت کی اس لعنت کی طرف لوٹ رہے ہیں ،ہم پھران دیواروں کو کھڑا کررہے ہیں ۔سرکاری مراعات کے لئے اگر کوئی کام ہورہاہے اسے وہیں تک محدود رکھیں،عقل کا تقاضہ اور دین سے وابستگی کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دامن اورکانٹوں میں نہ الجھے۔
ہماری ذمہ داری ہے اور دینی سمجھ کا تقاضہ ہے کہ ہم مسلک پر عمل کرتے رہیں، مسلک پر جھگڑا نہ کریں، یہ تھوڑے تھوڑے فرق اور فاصلے اور یہ سارے راستے شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے نشان قدم تک پہونچتے ہیں،یہ برادریاں جو پائی جاتی ہیں، اسلام نے انہیں معیار نہیں بنایا ،اسلام نے تقوی اور پرہیزگاری کو معیار اور مطلوب بنایا ہے،سچائی یہ ہے کہ ہماری یہ ساری برادریاں بھارتی تہذیب اور رواج کی دین ہیں، یہ ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہےں۔انہیں اختلاف کا ذریعہ بنانا ناسمجھی ہے،اوردینی فکر سے ناواقفیت کی علامت ! ہماری ذمہ داری ہے کہ نفرتوں ،دوریوں اور اونچ نیچ کے جن احساسات کو ہمارے آقاصلی اللہ علیہ وسلم نے مٹایا ،ہم انہیں پنپنے نہ دیں۔
ہمارا قومی مزاج یہ بھی ہے کہ ہم نے اپنی قیادت پر زیادہ پر اعتماد نہیں کیا، ہم نے جذباتی باتوں کو قبول کیا، مگر سنجیدگی ،دوراندیشی اور یکسوئی سے معاملات پر سوچانہیں ، جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے، حالات برے ہوتے چلے گئے،اور بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں۔سوچ سمجھ کر صحیح قیادت کو قبول کیجئے،اوریکسوئی کے ساتھ اس کی باتوں کو مانئے ،اپنے آپ کو خوف کی نفسیات سے نکالئے،اورایک زندہ ، باغیرت، باحمیت ، باضمیر ملت کی طرح زندگی گذارئیے،مشقتوں کو دل سے قبول کیجئے، ملت کی اجتماعی زندگی کے لئے وقت نکالئے اور وقت لگائیے۔وقت کی قربانی دیجئے،مال نچھاور کیجئے اور ضرورت پڑے تو جان دینے سے پیچھے نہ رہئے،انفرادی قربانیاں ملت کی اجتماعی زندگی کا ذریعہ ہیں۔

آپ کے سامنے کاموں کی مثال موجود ہے، قربانیوں کے نمونے سامنے ہیں،آپ ان سے سبق لیجئے۔آزاد بھارت میں مسلمانوں کے خلاف کتنے فسادات ہوئے ،کسی کو یاد بھی نہیں ہے، مظلوم مسلمان ایف آئی آر بھی درج نہیں کراتا، کیس لڑنے کے لئے تیار نہیں، جب تک آپ اپنے جذبہ¿ انتقام کی عقل وہمت سے ملاقات نہیں کرائیں گے ،جب تک سنجیدگی کے ساتھ قانونی چارہ جوئی نہیں کریں گے ،نتیجہ ہاتھ آنے والا نہیں ہے۔
یادکیجئے ۴۸۹۱ءمیں سکھ ہندوفسادات ہوئے تھے، بڑے پیمانہ پر تباہی ہوئی تھی، ایک ایک جان اورایک ایک لوٹی ہوئی دوکانوں کا معاوضہ ہمارے سکھ بھائیوں نے وصول کیا، ان کی زندگی کی گاڑی پٹری پر آگئی۔ مگر وہ آج بھی مزید معاوضہ کے لئے کورٹ میں حاضری لگارہے ہیں،اور حکومتوں سے مطالبے جاری ہیں!
ابھی کل کی بات ہے ،ایس سی/ایس ٹی قانون میں سپریم کورٹ نے کچھ تبدیلی کردی، ساری برادری کھڑی ہوگئی، پورے ملک میں مظاہرے ہوئے، بند منایا گیا،نوانسانوں نے اپنے خون سے بند کی تاریخ لکھی، یہ جو ہوا ،نہ ہوتا تو بہت اچھا تھا۔ مگر بند کے نتیجہ میں ایس سی /ایس ٹی مخالف مرکزی حکومت سپریم کورٹ میں نئی درخواست کے ساتھ پیش ہوگئی۔
یاد رکھئے ! زندہ قومیں خوف کے ماحول میں نہیں رہتیں،وہ جان دیکر اپنی تاریخ بناتی ہیں، وہ نظم وضبط کے ساتھ زندگی گذارتی ہیں، انہیں اپنے قائدین پر لازوال اعتماد ہوتاہے، اور وہ ملت کی زندگی کے لئے دو دو ہاتھ کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتی ہیں،آپ کو ان چیزوں سے سبق لینا چاہئے !
اس لئے میرے عزیزو ! اپنے رویہ،اپنی سونچ،اپنے طریقہ¿ کار میں تبدیلی لائیے،ملی کاموں کے لئے مسلسل محنت اور قربانی کا مزاج بنائیے،اپنی قیادت پر بھروسہ کرنا سیکھئے، آپ کی صالح قیادت ہی آپ کو منزل تک پہونچا سکتی ہے۔
آپ نے پچھلے مہینوں میں دو بڑے کام کئے ہیں، ایک تو قانون شریعت کی حمایت اور یونیفارم سول کوڈ کی مخالفت میں دستخطی مہم ،جس میں چارکروڑ تراسی لاکھ دستخط ہوئے۔دوسرے خواتین اسلام کے شریعت کی حمایت میں مظاہرے۔ دنیا کی تاریخ میں عورتوں کے ایسے مظاہرے کہیں نہیں اور کبھی نہیں ہوئے، اوراب آپ کا اتنی بڑی تعداد میں جمع ہونا ،یہ سب ملی زندگی کے تربیتی مراحل ہےں، تاکہ آپ حوصلہ اور ہمت کے ساتھ اپنی اپنی جگہوں پر زندگی گذاریں، اور وقت اور حالات کے تقاضہ کے مطابق زندگی کو ڈھالتے رہیں۔
آخر میں میں خاص طور پر پٹنہ سے آئی ہوئی باحوصلہ خواتین، بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ اور ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے اسلام کے جیالے فرزندوں کو مبارکباد دیتاہوں، کہ آپ لوگ دین اور دیش کی حفاظت کے لئے جمع ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کی حاضری کو قبول فرمائے ،آپ کو اور ہم سبھوں کو ایمان پر قائم رکھے اور شریعت کا محافظ بنائے، آمین یا رب العالمین۔
اب تھوڑی دیر کے بعد آپ کو واپس ہونا ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو خوش خوش گھر پہونچائے، اورآپ کو تازم دم رکھے، باحوصلہ اور باعمل رکھے، آپ نئے جوش نئے جذبہ سے بھرپور ہمت کے ساتھ زندگی گذاریں،
اس کانفرنس کے انعقاد میں امارت شرعیہ کے ساتھ ریاست کی تمام ملی تنظیموں نے محنت کی ہے، خاص طورپر جمعیة علمائ، جماعت اسلامی، جماعت اہل حدیث ،ادارہ شرعیہ ،خانقاہ مجیبیہ ،خانقاہ عمادیہ، خانقاہ منعمیہ،خانقاہ منیر شریف، خانقاہ دیوان شاہ ارزاں،ادارہ تیغیہ مظفرپور، تنظیم ائمہ مساجد،مجلس استقبالیہ کے اراکین،پٹنہ کی مختلف انجمنوں کے ذمہ داران،اراکین ورضاکار نوجوان اور دیگر افراد،مدارس ،اسکول وکالج کے اساتذہ وطلبہ نے تعاون دیا ہے، تمام مقامی اور ضلعی اداروں ،مدارس ،بلاک اور لوکل سطح کی کمیٹیوں نے جانفشانی کے ساتھ کام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سبھوں کی خدمات اور تعاون کو قبول فرمائے، امارت شرعیہ کے تمام ارکان ،نظمائ،قضاة،دارالقضاء،دارالافتاء،اور شعبہ جات کے تمام ذمہ داروں اور کارکنوں ،مبلغین اور کارکنان نے بڑی تندہی اور جانفشانی کے ساتھ دن رات محنت کی ہے، اللہ تعالیٰ ان کی محنتوں کو قبول فرمائے اور بہترین بدلہ دے(آمین) پٹنہ اور پوری ریاست میں انتظامیہ نے بسوں اور گاڑیوں کی آمد ورفت کے لئے اپنی بہترین صلاحیت پیش کی اورمختلف ضرورتوں کی انجام دہی کے لئے وہ مستعد ہے، جس کے لئے میں انتظامیہ کا اور ریاست کے وزیر اعلیٰ جناب نتیش کمار کا شکریہ ادا کرتاہوں، اس کانفرنس کے لئے دن رات ایک کرنے والے اور دفتری کاموں کو سلیقہ سے انجام دینے والے عزیزی مولانا سہیل اختر ،اوران کی ٹیم بھی مبارکباد کی مستحق ہے، اسی طرح کانفرنس کی تخیل میں میرے ذہن کے مطابق رنگ بھرنے والے تقریبا تین ماہ تک بڑی محنت اور جانفشانی کے ساتھ کاموں کو انجام تک پہونچانے والے عزیزی ڈاکٹر خالد انور کے لئے دلی دعائیں اور مبارکباد ہے۔
اللہ تعالیٰ اس کانفرنس کو ہماری بیداری، اولوالعزمی، اجتماعیت کاذریعہ بنائے اور ہمارے اندر حکمت ،بردباری اورجرا¿ت کے ساتھ آگے بڑھنے کا جذبہ عطا فرمائے۔آمین یارب العالمین۔
محمد ولی رحمانی
امیر شریعت بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ
تاریخ: ۷۲رجب المرجب ۹۳۴۱ھ
مطابق ۵۱اپریل ۸۱۰۲ئ