زخم سب تیرے دئیے ہیں

قاسم سید

عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں ہندوتو نے نفسیاتی طور پر سیاست میں برتری حاصل کررکھی ہے اس کو لگاتار ایکسٹینشن ملا ہے اور اس کی نہ صرف پشت پناہی کی گئی بلکہ خاموش حوصلہ افزائی بھی۔ سرکاری سطح پر مقتدر حضرات کی طرف سے سند جواز ملنے کے بعد اس فکر اور نظریہ کو وقار وقبولیت کا جامہ پہنانے کی ہمہ جہتی کوششوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف گذشتہ چند سالوں میں ہی ہوا ہے یا بڑی محنت کے ساتھ آزادی کے بعد سے ہی اس کی پرورش وپرداخت کی گئی۔ سرکار کسی کی رہی ہو ہندوتو کو گودنہ لیا ہو لیکن اس کے تندرست و توانا ہونے کا بھرپور خیال رکھاگیا۔ غور سے ان تمام سرکاری منصوبوں اور اقدامات کاجائزہ لیا جائے خاص طور سے اقلیتوں کے تئیں رویہ اور حکمرانوں کے ذہنوں میں چھپی نفرت وعصبیت کو غیر جانداری کے ساتھ جانچیں پرکھیں تو معلوم ہوگا کہ جمہوریت کے لباس میں اکثریتی فاشزم پلتا رہا۔ ہندوستان کے تکثیری سماج میں مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ذات پات کے نظام کو انتخابات کے عمل نے مزید مستحکم کیا کیونکہ ذات پات کے سسٹم کو ہندو دھرم کی حمایت حاصل ہے ۔ اسکولوں سے لے کر سرکاری اسکیموں تک یہ زہر بھرا گیا۔ دوسری طرف اقلیتوں خاص طور سےمسلمانوں کی نسل کشی فرقہ وارانہ فسادات کے بہانے وقفہ وقفہ سے کی جاتی رہی۔ پاکھنڈی‘ ڈھونگی سیکولر فورسز نے آر ایس ایس کو خطرہ کے طور پر پیش کیا تو دوسری طرف آر ایس ایس کی پرورش بھی کرتی رہیں اگر آج مرکز میں بی جے پی بھرپور اکثریت کے ساتھ برسراقتدار ہے تو اس کا سوفیصد کریڈیٹ سیکولر فورسیز کو ہی جاتا ہے۔
جے پرکاش نرائن اور وی پی سنگھ دونوں سیکولر تھے مگر ان دونوں نے ہی فرقہ پرست جماعت کو سیاسی جواز عطا کرکے بلندیوں تک پہنچانے میں مدد ہی کی۔ اندرا گاندھی نے ملک میں پہلا ہندو وراٹ سمیلن ڈاکٹر کرن سنگھ کی نگرنی میں کرایا۔ راجیو گاندھی کے عہد میں ملیانہ اور ہاشم پورہ کا قتل عام ہوا۔ جمہوریت کے شامیانے تلے پہلی بار سیکورٹی فورسیز نے مسلم نوجوانوں کو قطار میں کھڑا کرکے گولیاں ماریں اور لاشیں ہنڈن ندی میں بہادیں۔ ان کے زریں دور میں ہی شاہ بانو کیس کے عوض بابری مسجد کا تالہ ہندوئوں کو عبادت کے لئے کھلوادیاگیا۔ نرسمہا رائو نے کلیان سنگھ کے تعاون سے بابری مسجد کی شہادت کا پورا انتظام کرایا۔ بابری مسجد گرتی رہی نیروبانسری بجاتا رہا۔ اس مقام پر عارضی مندر بنوادیا گیا ہندو فرقہ کو پوجا پاٹھ کی قانوناً اجازت دی گئی اور مسلمانوں پر دروازے بند کردئیے۔ جہاں تک فسادات کا تعلق ہے کوئی نیلی قتل عام کو بھول سکتا ہے جہاں 24 گھنٹوں میں سیکڑوں مسلمانوں کو موت کی نیند سلا دیا گیا۔ گجرات ایک دہائی تک فساد کے لئے ہی بدنام رہا۔ مودی کو کس نے شہہ دی‘ گجرات 2002 بلاشبہ ناقابل فراموش سانحہ ہے مگر کمال عیاری سے پاکھنڈی اورڈھونگی سیکولرفورسز نے سوئی وہاں پر اٹکادی ۔ مظفر نگر فساد کے پناہ گزیں آج بھی گھر نہیں لوٹ سکے اور یہ تعداد ہزاروں میں ہے۔ یعنی گناہ کی شدت اور اذیت دینے میں ڈگری کابھی فرق نہیں ہے۔ ممبئی کے بھیانک فساد کو بھولا جاسکتا ہے جس کے ردعمل میں ممبئی بم دھماکے ہوئے ۔ قانون فساد کے گنہگاروں کو نہیں پکڑسکا۔ ہاں ممبئی فساد کے مرتکبین کو انجام تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی گئی۔ جب فساد سے دل نہیں بھرا تو پھر دہشت گردی کے نام پر مسلم نوجوانوں کی کمر توڑی گئی۔ یہ کھیل ختم نہیں ہوا ہے۔ اس کی قہر سامانی جاری ہے اس کا کریڈیٹ بھی سیکولر فورسیز کو جاتا ہے۔ ایک نہیں ہزاروں مثالیں ہیں جو یہ احساس دلاتی ہیں کہ سیکولر فورسیز ہوں یا فرقہ پرست اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے حوالہ سے رویہ یکساں ہے فرق یہ ہے کہ سیکولر عناصر مکاری عیاری فریب اور ڈھونگ کی ردا اوڑھ کر قتل کرتے ہیں اور فرقہ پرستوں کو ان تکلفات کی ضرورت نہیں۔ اگر واقعی یہ مخلص ہوتے تو بی جے پی مرکز میں اقتدار کے مزے نہیں لوٹ رہی ہوتی۔ سلمان خورشید نے صرف کانگریس کے بارے میں کہا ہے کہ اس کے ہاتھ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں ہر سیکولر پارٹی کا دامن مسلمانوں کے لہو سے داغدار ہے۔ سکھوں کے قتل عام کا کریڈیٹ بھی ان کے ہی کھاتے میں ہے۔
بدقسمتی سے مسلمانوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی متبادل نہیں تھا کہ وہ اپنی قسمت کو ڈھونگی سیکولر سٹوں سے وابستہ کرلیں انہوں نے بھی صرف بالائی طبقہ کو اقتدار کی ملائی میں شریک کیا۔ عام مسلمان کو اس کاکوئی فائدہ نہیں ملا۔ ان کی وفاداری‘ وابستگان اور ارادت مندوں کی ضرورتیں‘ پوری کی جاتی رہیں ۔ سچر کمیٹی سیکولر پارٹیوں کے خلاف مکمل فرد جرم ہے کہنے کامطلب یہ ہے کہ ہندوتو کااپھان گذشتہ چار سالوں کا نتیجہ نہیں ہے پہلے اجتماعی قتل عام ہوتا تھا اب انفرادی طور پر مارکر سوشل میڈیا پر وائرل کرکے خوف ودہشت کی فضا بنائی جاتی ہے۔ منموہن سنگھ حکومت دس سال برسراقتدار رہی مسلم قیادت سے ہنی مون چلتا رہا۔مگرخوشگوار رشتوں اور سینکڑوں میمورنڈم کے باوجود انسداد فرقہ وارانہ فسادات بل لانے اور منظور کرانے پر مجبور نہیں کیا جاسکا۔ سیاست بڑی بے رحم ہے اس کے سینہ میں دل نہیں ہوتا ووٹ کا اثر بڑے بڑے حکمرانوں کو تلوے چاٹنے پر مجبور کردیتا ہے جیسا آج کل دلت ووٹوں کے لئے مارا ماری ہے کیونکہ اس کے تیور بگڑے ہوئے ہیں۔ مسلم ووٹ کچھ ان کی عیارانہ حکمت اور ہماری سادہ مزاجی کی بدولت بے اثر بلکہ صفر ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی گھاس ڈالنے اور منہ لگانے کو تیار نہیں ہے۔ہریانہ میں چند اوباش لڑکے جے شری رام کا نعرہ لگاکر سینکڑوں لوگوں کو جمعہ کی نماز پڑھنے سے روک دیتے ہیں۔ مٹھی بھر لڑکوں کی جسارت اور سینکڑوں مسلمانوں کے اندر کے ڈر سے صاف ظاہر ہے کہ ہندوتو وادی اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسٹیٹ اور قانون ان کے ساتھ ہے وہ جانتے ہیں کہ سیکولر سیاست ایسی کوئی مزاحمت نہیں کرے گی جس سے ان کا بال بھی بانکا ہو۔مدارس میں بڑے پیمانے پر قومی پرچم لہرانے اور دیش بھکتی کے اظہار کے جذبے کی مختلف علامتیں پوری قوت کے ساتھ سامنے آنے لگی ہیں۔ ہندوتوکہیں بھی کبھی بھی چڑھائی کرسکتا ہے اور سیاست کو اپنے اشاروں پر نچایا جاسکتا ہے۔ واقعات کو کامیابی کے ساتھ انجام دینا اور قانون کو انگوٹھے پر رکھنا اب زیادہ آسان ہوچکا ہے۔ گذشتہ چار سالوں میں یہ ہندوتو کا جدید ترین ایڈیشن ہے یعنی جو کام پہلے سلیقہ اور تہذیب کے ساتھ کیا جاتا تھا وہ اب بے باکی اور بھونڈے انداز میں کیاجانے لگا ہے۔ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو متنازع بنانے کا جو سلسلہ بابری مسجد سے شروع ہواتھا اب اس کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے۔ دوردرشن نے بہت پہلے بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع کو صرف رام جنم بھومی وواد تک محدود کر دیا تھا۔
مسلمانوں سے متعلق فرضی تنازعات کو جان بوجھ کر گرم کرنے سے ہندوتو کے بدن میں تازہ خون سپلائی کرنا ہے جبکہ سیکولر سیاست نے خود کو پوری طرح سے ایسے معاملات سے الگ کرلیا ہے۔ مثلاً نرسمہا رائو نے اس مقام پر بابری مسجد بنانے کا وعدہ دوردرشن پر عوام سے کیا تھا مگر اب کانگریس کی طرف سے اس پر بالکل خاموشی ہے۔ بلکہ کپل سبل کو بابری مسجد کیس سے دوری بنانے کا فرمان جاری کیا۔ ملائم سنگھ کی پارٹی 2002 تک 6 دسمبر کو کالا دوس مناتی تھی جب وہ 2002 میں وزیراعلی بن گئے ان کی پارٹی کالادوس منانا بھول گئی۔ این ڈی اے اور یوپی اے کی پارٹیوں کا تجزیہ کریں تو اکثر پارٹیوں کا ڈی این اے ایک ہی نظرآئے گا کیونکہ وہ نظریہ نہیں اقتدار کے دلدل میں توپھر فرقہ پرست اور سیکولر کی تقسیم کیسی اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔ جناح کے بہانے جو طوفان علی گڑھ یونیورسٹی میں کھڑا کیا گیا سیکولر پارٹیاں ابھی نفع نقصان کا جائزہ لینے میں مصروف ہیں۔ ایسے کتنے مواقع آئے جب مسلمانوں کو ان کے سہارے کی ضرورت ہوئی تو منہ پھیرا گیا جبکہ وہ توان کی عاشقی کے لئے بدنام ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں نے مل کر مسلم ووٹ کو بے اثر کردیا ہے۔ تاکہ ان کے نکیل ڈالی جاسکے رہا عام مسلمان تو بے چارے کو شریعت بچاوُ ‘ دین بچاوُ ‘ ملک بچاوُ اور ہمیں بچاؤ کے کھیل میں الجھادیاگیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ ان کانفرنسوں میں شرکت سے آخرت بھی محفوظ اور شریعت بھی۔ مداری تماشہ دکھاکر اور بخشش سمیٹ کر کسی دوسرے شہر کا رخ کرتا ہے چنانچہ عام مسلمان آج بھی اتنا ہی غریب‘بے روزگار ‘مفلوک الحال یتیم ویسیر ہے ملک کی سیکولر سیاست مسلم مخالف ماحول بنانے اور ہندوووٹوں کو اپنی طرف کھینچنے کی مہم میں شامل ہوگئی ہے۔ جس سے ہندوتوکا راستہ اور آسان ہوگیا ہے۔ سردست ہندوتو کے سامنے کوئی مضبوط چیلنج نہیں ہے جو کرسکتے تھے وہ جینو باہر نکال کر ہی زیادہ بڑا ہندو کانعرہ مستانہ لگا رہے ہیں۔ ہندوتو کے لئے بابری مسجد لٹمس ٹسٹ تھا جس میں سیکولر طبقہ ناکام ہوگیا اور مسلمان انتخابی سیاست میں زیرو ثابت ہوئے۔
دلتوں میں بیداری سے ہر سیاسی پارٹی بے چین ہے۔ ان پر ڈورے ڈال رہی ہیں۔اپنی پرانی قیادت کی برہمنی سیاست کے خلاف بغاوت اور نوجوان قیادت کے ابھار سے سب خوفزدہ ہیں۔ وہ زمینی سطح پر کام کر رہے ہیں ۔ حال ہی میں آئی آئی ٹی کئے 50انتہائی تعلیم یافتہ دلت نوجوانوں نے نوکریاں چھوڑ کر نئی پارٹی قائم کی ہے اور خود کو دلتوں کی ترقی کے لئے وقف کردیا ہے۔ حالانکہ دلتوں کو ہندو ہونے کی رعایت کے ساتھ آئین کے تحت بھی ریزرویشن دیاگیا پھر بھی وہ اپنی صورت حال سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہ احساس شدت اختیار کرگیا ہے کہ وہ سیاسی مراعات کے باوجود عزت ووقار حاصل نہیں کرسکتے اس کے لئے سیاسی باز آباد کاری ضروری ہے اس کے علاوہ میڈیا میں اپنی حصہ داری بڑھانے پر بھی زور دےرہے ہیں۔ نیز عدلیہ میں بھی حصہ مانگ رہے ہیں۔ یہی وہ تین پہلو ہیں جو کسی بھی کمیونٹی کی تعمیر نو اور نشاۃ ثانیہ کے لئے لازمی ہیں۔ کانفرنسیں اور جلسے جلوس گذشتہ ایک دہائی سے ہماری شناخت بن گئے ہیں۔ لہو میں حرکت کے لئے یہ حکمت عملی کا ایک حصہ ہوسکتے ہیں۔ لیکن ناگزیر عمل نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کی نئی قیادت متحرک ہو اجتماعیت کے ساتھ آگے بڑھے یہ قیادت ہر طرح کے نسلی ومسلکی تعصب سے آزاد ہواور سب کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت سے مالا مال ہو۔ مظلوم طبقات کی حمایت میں آگے آئے اور مظلومیت محرومیت کا رونا رونے اور ہر وقت مانگتے رہنے کی بجائے دینے کی عادت کا خوگربنے۔ مصنوعی آقائوں کی چاکری کی ذہنیت کا خاتمہ کرےیقینا اس مٹی کے خمیر سے نئے عہد کی تخلیق ہوسکتی ہے ۔۔۔

qasimsyed2008@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں