ڈاکٹر فرقان حمید
گزشتہ ہفتے کے کالم میں اپنے قارئین کو ترکی کی حزبِ اختلاف کی جانب سے صدر ایردوان کے مقابلے میں ایک مشترکہ صدارتی امیدوار کے تلاش کے بارے میں آگاہ کیا تھا اور یہ بھی بتایا تھا کہ حزب اختلاف مشترکہ طور پر ترکی کے سابق صدر اور جسٹس اینڈ ڈولپمینٹ پارٹی (آق پارٹی ) ہی کے سابق چئیرمین عبداللہ گل کو مشترکہ امیدوار کے طور پر سامنے لانا چاہتی تھی تاکہ آق پارٹی سے بھی ووٹ حاصل کرتے ہوئے صدر ایردوان کے لیے مشکلات کھڑی کی جاسکیں لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہنے پر حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوں نے صدر ایردوان کے اتحاد جسے ” اتحادِ جمہور” کا نام دیا جاتا ہے اور جس میں آق پارٹی کے ساتھ نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی بھی شامل ہے کے مقابلے میں ” اتحادِملت” کے نام سے اتحاد قائم کیا ہے۔ اس نئے اتحاد میں چار جماعتیں ” ری پبلیکن پیپلز پارٹی، گڈ پارٹی، سعادت پارٹی اور ڈیموکریٹ پارٹی” شامل ہیں۔ اس پارٹی میں کردوں کی پیپلز ڈیمو کریٹ پارٹی ( (HDP نے فی الحال شامل ہونے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ حزبِ اختلاف کی جانب سے قائم کردہ اتحاد ” اتحادِ ملت ” نے اگرچہ صدر ایردوان کے خلاف اتحاد تو قائم کرلیا ہے لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ سب جماعتیں مشترکہ امیدوار ڈھونڈنے میں ناکام رہی ہیں لیکن پارلیمانی انتخابات میں اراکین پارلیمنٹ کے انتخاب کے وقت ہی آپس میں اتحاد کرنے اور مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ صدارتی انتخابات کے لیے ان تمام جماعتوں نے اپنے اپنے صدارتی امیدار کا اعلان کیا ہے۔ صدارتی انتخابات میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد میں شامل” گڈ پارٹی ” کی چئیر پرسن میرالآقشینر ،سعادت پارٹی کے چئیرمین تے مل قارا مولا اولو اور حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ” ری پبلیکن پیپلز پارٹی” کے چئیرمین کمال کلیچدار اولو نے ” ایک تیر سے دو شکار ” کہاوت پر عملدرآمد کرتے ہوئے کمال ہوشیاری سے اپنے نام کو صدارتی امیدوار کے طور پر پیش نہ کیا بلکہ پارٹی کے ایک دیگر رکن ” محرم انجے” جو پارٹی چئیرمین کے انتخابات کے دوران شکست سے دوچار ہوگئے تھے کا نام صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کرتے ہوئے مستقبل میں پارٹی کے چئیرمین کےعہدے پر فائز رہنے اور محرم انجے سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ میرے ذاتی خیال کے مطابق کمال کلیچدار اولو اپنی اس گیم میں کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ محرم انجے کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ صدارتی انتخابات میں “میرالآقشنر ” کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دوسری پویشن حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ محرم انجے دراصل ری پبلیکن پیپلز پارٹی میں بلندیوں کو چھونے والے مرحوم وزیراعظم بلنتایجوت کی راہ پر چلنے والے رہنما ہیں اور ان کو بھی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے طبقے میں ایجوت کی طرح بڑی مقبولیت حاصل ہے، عوام دوست، ایک اچھے مقرر اور انکسار پسند انسان ہیں جو ان کو کمال کلیچدار اولو پر سبقت دلاتی ہے اور کمال کلیچدار اولو محرم انجے سے چھٹکارا پانےکےاس کھیل کا خود ہی شکار بن سکتے ہیں۔ محرم انجے اگرچہ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انسان ہیں لیکن ان کی فیملی بڑی کینزرویٹو اور مذہب سے رغبت رکھنے والی فیملی ہے۔ محرم انجے اپنے والد کے ایک ٹرک ڈرائیور ہونے اور مذہبی تعلیم اپنی فیملی سے حاصل کرنے پر فخر محسوس کرنے والے انسان ہیں ۔ اس لیے جب ان کی پارٹی نے ان کا نام صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کیا تو انہوں نے اپنی پارٹی کے بانی غازی مصطفےٰ کمال اتاترک کی پیروی کرتے ہوئے سب سے پہلے انقرہ میں ” حاجی بیرام” کے مزرا پر حاضری دی اور نماز جمعہ ادا کرتے ہوئے اللہ کا شکریہ ادا کیاجبکہ ری پبلیکن پیپلز پارٹی جو اپنے آپ کو ہمیشہ مذہب سے دور اور سیکولر کہلوانے پر اتراتی ہےکے پہلی بار مذہب دشمن جماعت نہ ہونے کا احساس دلوایا جا رہا ہے۔دیکھا جائے تو ترکی اور دنیا میں چند ایک مذہبی حلقوں میں ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے بانی غازی مصطفےٰ کمال کو دین دشمن قرار دیا جاتا ہے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ انہوں نے ہمیشہ اپنی زندگی میں جو قدم بھی اٹھائے اس سے پہلے مذہبی رہنماؤں سے لازمی طور پر مشاورت کرتے اور پھر اسی کے نتیجے میں اقدامات اٹھاتے۔ اتاترک نے ترکی کی پہلی قومی اسمبلی کے 23 اپریل 1920 کو افتتاح کے موقع پر حاجی بیرام کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی ، مولود شریف پڑ ھا اور قومی اسمبلی کی جانب پیدل سفر کے دوران پورے راستے میں کلمہ شہادت اور تکبیر پڑھتے رہے جبکہ ان کے ساتھ ہی سنوپ کے رکنِ پارلیمنٹ حوجہ عبداللہ افندی نے سر پر سبز رنگ کے غلاف میں لپٹا ہوا قرآن کریم اٹھا رکھا تھا۔ قومی اسمبلی پہنچنے پر انہوں نے اسٹیج پر قران کریم کا نسخہ اور ” ثقل شریف” رکھتے ہوئے اجلاس کی کاروائی کا آغاز کیا۔ یہاں پر اتاترک کا ذکر کرنا اس لیے ضروری سمجھا ہے کہ پاکستان اور دنیا میں چند ایک حلقوں کی جانب سے اتاترک کو مذہب دشمن قرار دیا جاتا ہے جبکہ ان کے اس عمل سے صاف عیاں ہے کہ وہ بھی اس دور کے دیگر مسلمان ترکوں کی طرح مذہبی روایات ( غیر اسلامی نہیں ) پر پوری طرح عمل درآمد کرتے تھے۔ اتاترک کے مذہب سے لگاو کے بارے میں اس سے پہلے بھی چند ایک آرٹیکل لکھا چکا ہوں جن پر جنگ آرکائیو کے ذریعے نگاہ ڈالی جاسکتی ہے۔ محرم انجے نے حاجی بیرام مزار پر حاضری دیتے اور نماز ِ جمعہ ادا کرتے ہوئے دراصل مذہبی حلقوں کی بھی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے جو ہمیشہ ری پبلیکن پیپلز پارٹی سے دور رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ محرم انجے اپنے اس مقصد میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں تاہم ایک بات بڑے وثوق سے کہی جاسکتی ہے اگر وہ صدر ارتی انتخابات میں صدر ایردوان کے مقابلے میں دوسرے نمبر پر رہتے ہیں تو پھر لازمی طور پر ری پبلیکن پیپلز پارٹی کے آئندہ چئیر مین منتخب ہو جائیں گے۔ جہاں تک سعادت پارٹی کے امیدوار کا تعلق ہے انہوں نے صرف کاغذی کاروائی پوری کرنے اور “سعادت پارٹی ” کے ترکی میں اپنا وجود برقرار رکھنے سے آگاہ کرنے کے لیے اپنا نام صدارتی امیدوار کے طور پر پیش کیا ہے لیکن یہ بات قطعی ہے ان کو پچھلے پارلیمانی انتخابات میں ملنے والے صفر اعشاریہ پانچ فیصد وو ٹ سے بھی کم ووٹ پڑیں گے تاہم ان کی جماعت نئے اتحاد” اتحادِ ملت ” میں شامل ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ کی چند ایک نشستیں ضرور حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ جہاں تک “گڈ پارٹی” کی صدارتی امیدوار ” میرالآقشینر” کا تعلق ہے کو غیر ملکی میڈیا میں ایردوان کو ٹف ٹائم دینے والی امیدوار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہےلیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر وہ عبداللہ گل کے مقابلے میں اپنی امیدواری سے دستبردار ہونے کا اعلان کردیتیں تو عبداللہ گل حزبِ اختلاف کی جماعت کا مشترکہ امیدوار بن کر آق پارٹی سے کچھ حد تک ووٹ حاصل کرتے ہوئے اور پھر HDP کی بھی حمایت حاصل کرکے ( HDP عبداللہ گل کو زیادہ ڈیمو کرٹیس سمجھتی ہے ) صدارتی انتخابات میں ہل چل پیدا کرسکتے تھے لیکن اب ان صدارتی انتخابات میں صدر ایردوان کو زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور پہلے ہی راونڈ میں واضح اکثریت حاصل کرتے ہوئے ایک بار پھر صدر منتخب ہو جائیں گے۔
صدر ایردوان نے اپنی صدارتی مہم کا آغاز کرتے ہوئے عوام کو اس بات کا یقین دلا ہے کہ جس طرح انہوں نے ماضی میں ترکی میں معجزے رونما ( ناممکن پراجیکٹ کو ممکن بنایا ) کیے ہیں اور ترکی کو دنیا کی عظیم ترین طاقتوں میں شامل کیا ہے وہ مستقبل میں بھی ترکی کو دنیا کی ایک عظیم قوت بناتے ہوئے ترک عوام کے معیار زندگی کو نہ صرف بلند کریں گے ،بلکہ دفاع کے معاملے میں ترکی کا غیر ممالک پر انحصار بالکل ختم کردیں گے، ترکی میں مقامی سطح پر جدید ٹکنولوجی کے حامل سازما ان کو تیار کیا جائے گا، مقامی سطح پر گاڑیاں اور طیارے تیار کیے جائیں گے، ترکی کے شہروں کو ثقافتی اور فنون ِلطیفہ کے مراکز کا روپ دیا جائے گا اور ترکی کے مختلف علاقوں میں نئے نئے کارخانے قائم کرتے ہوئے روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔ صدر ایردوان نے اس موقع پر دنیا کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے کہا کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ انسانی امداد کرنے والا ملک ترکی پہلے نمبر پر ہے جس سے ترکی کے ایک امن پسند، انسان دوست اور امداد پر ملک کی عکاسی ہوتی ہے۔
furqan61hameed@hotmail.com