منڈل بنام کمنڈل پارٹ ٹو

قاسم سید
کیا ملک پھر علاقائی سیاست کی مرکزیت کی طرف لوٹ رہا ہے۔ کیامنڈل بنام کمنڈل کی جنگ پھر چھڑ گئی ہے۔ کیاذات پات کی پرانی سوشل انجینئرنگ کے عہد کی واپسی ہوگئی ہے اور کمنڈل پوری طاقت جھونکنے کے باوجود اپنا اثر کھونے کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔ علاقائی پارٹیوں کی کھوئی طاقت سے قومی سیاست میں جس طرح کا عدم توازن پیداہو رہا تھا اور ٹوپارٹی سسٹم کے امکانات بڑھ گئے تھے۔ وہ خطرہ کم ہورہا ہے اور مخلوط حکومت کا دور ایک بار پھر دستک دے رہا ہے ۔ اس میں حاشیے پر چلا گیا مسلمان اپنی اہمیت کو دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا اور کیامسلمان سے اچھوتوں جیسارویہ اختیار کرنے والی نام نہاد سیکولرپارٹیاں اس کے وجود کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوں گی اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ بدلتے تناظر میں ہماری بالغ نظر بیدارمغز قیادت مربوط جامع حکمت عملی پر غور کرنے کی زحمت کرے گی یاپھر روایتی بوسیدہ سڑانڈ والی سیاسی پالیسی پر عمل میں ہی عافیت سمجھتی رہے گی۔ یہ سوالات اس لئے پیدا ہو رہے ہیں کہ بی جے پی سرکار کے خلاف عوام کے اندر غصہ بڑھتاجارہا ہے۔ سماج کا ہر طبقہ خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہاہے ۔ اس لئے جب بھی ضمنی انتخابات ہوئے ہیں اس کا اظہار ہوتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 2017 کے بعد ہونے والے ریاستی انتخابات میں دو تین ریاستوں کو چھوڑ کر بکھری پوزیشن ناکام ونامراد رہی اور بی جے پی کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے میں کامیاب رہی ہے لیکن کیرانہ کا انتخاب بی جے پی سے زیادہ بھگوادھاری سنت یوگی آدتیہ ناتھ کالٹمس ٹسٹ تھا کیونکہ گورکھپور اور پھول پور کی سیٹیں بقول وزیراعلی حد سے زیادہ خود اعتمادی کے سبب ہارے تھے یہاں پر پوری کیبنٹ خیمہ زن تھی وزیراعلی نے گنا بمقابلہ جناح کا نعرہ دیاتھا ۔ مظفر نگر کے زخم کریدے گئے تھے۔ جاٹ مسلم کشیدگی کو ہوا دینے کی پوری کوشش کی گئی یہاں تک کہہ دیاگیا کہ کیرانہ میں بی جے پی کی ہار پر پاکستان میں شادیانے بجیں گے حالانکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ ہندوستان میں بی جے پی کی حکومت پاکستان کے دو قومی نظریہ کو زیادہ سوٹ کرتی ہے جتنی ہندو مسلم منافرت میں اضافہ ہوگا اس کے موقف کو مضبوطی ملے گی ۔ قانون ساز اداروں میں مسلمانوں کی کم ہوتی نمائندگی اس کے وجود کو جواز فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کانام بی جے پی کی مدد کرتا ہے اس لئے گجرات ہو یاکرناٹک یا پھر کیرانہ گھوم پھر کر پاکستان اس کی انتخابی مہم کی مرکزیت میں آجاتا ہے۔
منڈل سیاست کی واپسی تو بہار میں مہاگٹھ بندھن کی تشکیل کے ساتھ 2015 میں ہوگئی تھی جس میں اوبی سی کے ساتھ دلت‘ مہادلت اور مسلمان شامل ہوگئے جس نے ہندوتو کے پڑاخچے اڑادئیے۔ بی جے پی ہر حربہ آزمانے کےباوجود صرف 53سیٹیں حاصل کرسکی 2017میں اترپردیش میں منڈل ووٹ کے بکھرائو اور مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے اثر کرنے کی کامیاب حکمت عملی نے بی جے پی کو تاریخی فتح سے ہم کنار کیا اس کے پس پشت بی جے پی آر ایس ایس کی گائوں گائوں کھچڑی مہم تھی۔ آر ایس ایس کے رضا کاروں نے دلتوں کے پائوں دھلاکر ان سے ووٹ کا عہد لیا اورسردھڑ کی بازی لگادی۔ بے شک عوامی رابطہ میں آر ایس ایس کا کوئی ثانی نہیں ہے جس کے ہزاروں منہ اور ہاتھ پیرہمہ وقت خاموشی کے ساتھ بغیر نام ونمود کی تمنا کے سرگرم رہتے ہیں ۔80فیصد کے باوجود ہندو اور ہندودھرم خطرے میں ہے کا پروپیگنڈہ عام ہندو کے اندر خوف اور نفرت کی نفسیات پیداکرتا ہے اس کے ساتھ ہندو گورویعنی ایک ہزار سالہ غلامی کے بعد ہندوئوں کی سرکار کا قیام غلامی کے دور کا انتقام مسلمانوں کی موجودہ نسل سے لینے پر اکسانے کی مہم گئو رکشکوں کے غول سڑکوں پر بے گناہوں کو پیٹ پیٹ کر قتل کرنے اور ان کے ویڈیو وائرل کرنے سوشل میڈیا پر نفرت انگیز پروپیگنڈہ کی چھوٹ اور سرکار کی ان دیکھی ان موالیوں اور غنڈوں کی سرکاری سرپرستی سے اقلیتوں کو دب کر رہنے کا پیغام دینا ہے۔ سنگھ کے نظریہ سازوں نے عیسائیوں کمیونسٹوں اور مسلمانوں کو ملک کے لئے خطرہ بتایا ہے یہ کام سب کا ساتھ سب کا وکاس کی چھتری کے نیچے کیاجاتا ہے تاکہ دنیا کی نظروں میں دھول جھونکی جاسکے لیکن عالمی اداروں کی وقتا فوقتا آنے والی رپورٹوں سے بین الاقوامی سطح پر مودی سرکار کی شبیہ کو زبردست نقصان ہوا ہے۔
یہ بات سمجھنی ہوگی کہ منڈل کی سیاست آر ایس ایس اور بی جے پی کی دکھتی رگ ہے اس کو جتنا دبائیں گے اس کی ٹیس اور چیخوں میں اضافہ ہوگا۔ منڈل سنگھ کے ہندوتو کے کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے یہ سانپ اور نیولے کا معاملہ ہے۔ سنگھ کا برہمی نظام اعلی ذاتوں کے محاذ پر برتری اور نچلی ذاتوں پر حکمرانی پر قائم ہے جب بھی شودر اور دیگر نچلی ذاتوں کی طرف سے مزاحمت ہوئی ہے اونا جیسے واقعات سامنے آجاتے ہیں ۔ ہندو دھرم ذات پات کا مجموعہ ہے معروف معنوں میں کوئی مذہب نہیں ہے سنگھ اس بات کو بخوبی سمجھتا ہے اس لئے ہندوتو کے فیوی کول سے ہندوئوں کو جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ایک مزعومہ دشمن تیار رکھاجاتا ہے تاکہ توجہ اس پر مرکوز ہے۔ اگر منڈل کی سیاست نے پھر زور پکڑا جیسا کہ توقع ہے تو آر ایس ایس کی سو سال کی محنت پر پانی پھر جائے گا۔ ہندو راشٹر کا خواب جو اسے حقیقت بنتے ہوئے دکھائی دے رہا ہے اس کے غبارے سے ہوانکل جائے گی ۔ کمزور اور مخلوط حکومت مسلمانوں کے لئے ہمیشہ نعمت رہی ہے اکثریتی فسطائی کو اگرلوک سبھا میں بھرپور طاقت مل جائے تو اس کی پالیسیوں میں اقلیتوں کے تئیں سفاکیت بڑھ جاتی ہے سرکار کسی کی ہو فرق صرف ڈگری کا ہوتا ہے چھوٹی اور کمزور ذاتیں14فیصد مسلمانوں کے ساتھ کے بغیر سرکار میں نہیں آسکتیں کانگریس اور بی جے پی دونوں نے پوری کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کو سماجی سیاسی اور معاشی میدانوں میں بے اثر اور بے حیثیت کر دیاجائے آج کئی ریاستیں لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی سے محروم ہیں۔ کانگریس پر ہمارا اندھا اعتماد بی جے پی سے سیاسی دشمنی کا رویہ اور حالات کے اعتبار سے ٹھوس حکمت عملی کا فقدان اس صورت حال کے ذمہ دار ہیں۔ مودی سرکار کی آمریت‘ مسلمانوں اور عیسائیوں کو دیوار سے لگانے اور علاقائی پارٹیوں کو ختم کرنے کی کوشش نے ملک میں شدید ردعمل پیداکیا ہے۔ اپنے وجود کو سلامت رکھنے کے لئے علاقائی اور قومی سطح پر فرنٹ ان کی مجبوری ہے۔ دلتوں نے سردست قومی سیاست میں مرکزیت حاصل کرلی ہے۔کیرانہ کے نتیجہ نے جاٹ مسلم دلت اتحاد کو جنم دیا ہے جو کم از کم اترپردیش میں سیاست کو نیا رخ اور نیا قبلہ عطا کرے گا۔ منڈل کی سیاست میں ہر چھوٹی پارٹی اور ہر سیٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے جتنی طاقت اتنی حصہ داری۔
اب سوال یہ ہے کہ کیابدلتی سیاست سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ پہنچے گا۔ بلکہ یہ کہاجائے گا کہ کیا مسلمان اس کا کوئی فائدہ لینے کے لئے تیارہوں گے۔ کیا وہ ٹیکنیکل ووٹنگ کے مردہ گھوڑے کی سواری سے توبہ کریں گے اور بی جے پی ہرائو یا جو بی جے پی کو ہرائے اس کو جتائو کی منفی یک رخی پالیسی کی جگہ مثبت پالیسی بنائیں گے یعنی کسی کو ہرانے یا جتانے کی لڑائی میں رضا کارانہ وزن ڈالنے کی بجائے معاہداتی سیاست کا راستہ اپنائیں گے۔ تمام مسلم جماعتیں خواہ مذہبی ہوں یا سیاسی کیونکہ تبلیغی جماعت کو چھوڑ کر تمام مذہبی جماعتیں جوش وخروش کے ساتھ سیاست میں ملوث ہیں کوئی کانگریس کے حلقہ بگوش ہے تو کسی کو سماج وادی ‘بی ایس پی یا آر جے ڈی پسند ہے چاند دیکھنے والی کمیٹیاں بھی سیاسی عزائم رکھتی ہیں کسی کے حق میں یا کسی کے خلاف اپیلیں کرتی ہیں جب خالص دینوی مقاصد کے لئے سرگرم قیادت اپنے اختلافات بھلاکر محض اقتدار کے لئے ایک ٹیلہ پر اکٹھا ہوسکتی ہیں تو ایک کلمہ پڑھنے والے مشترکہ طور پر کوئی چار ٹرآف ڈیمانڈ کیوں تیار نہیں کرسکتے۔فدویانہ سیاست نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ کانگریس اوردیگر سیکولر کہلائی جانے والی پارٹیوں نے زخم دینے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ہے تو پھر ان سے رحم کا سلوک کیوں کیاجائے۔ سیاست سنگدل ہوتی ہے یہ دل سے نہیں دماغ سے کی جاتی ہے۔
یہ قدرت کی طرف سے سیاسی جلا وطنی بے اثری وبے توقیری ختم کرنے کا ایک موقع ہے۔ منڈل کے منترسے کمنڈل کا جن بوتل میں بند کیاجاسکتا ہے۔ مسلمان ایک بار پھر بیلنس پاور بن سکتا ہے۔ لیکن یہ وسیع تر مفاد کے لئے ہوناچاہئے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس آسانی سے ہار نہیں ماننے والے ان کے پاس بے پناہ وسائل لاتعداد افرادی قوت اور سرکار کی طاقت ہے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں ہمیں اپنے اہداف پر نظر رکھنی ہوگی۔ مصنوعی چیلنجوں سے دور رکھنا ہوگا ۔ منڈل بنام کمنڈل کی لڑائی پارٹ ٹو میں مسلمانوں کے لئے موقع ہے دیکھتے ہیں کہ ہماری تجربہ کار قیادت اس کا کیسے استعمال کرتی ہے۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں