موریشس سے آؓبیناز جان علی کی رپوٹ
موریشس کی اسلامی تنظیم کی پہل سے ۳ جون ۸۱۰۲ئ کو پورٹ لوئیس کے اسلامی ثقافتی مرکز میں تزک و احتشام سے قرآن کا عالمی دن منایا گیا۔ رمضان کے مبارک مہینے میں موریشس کی مسجدوں میں تراویح کی نمازیں پڑھانے کی غرض سے مصر، بنین اور ماداگاسکار جیسے ممالک سے حفاظ مدعو کئے جاتے ہیں۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی تنظیم نے ان حفاظ کو قرآن پاک کی تلاوت کے لئے یکجا کیا۔ مسلسل تین سالوں سے اس دن کو منایا جا رہا ہے۔ موریشس کی اسلامی تنظیم نے جب دیکھا کہ ۱۱ ستمبر کو امریکہ میں قرآن کو جلانے کا دن مقرر کیا جا رہاہے اور ایسا کوئی دن نہیں جو قرآن کے دن سے موسوم ہے تو اس تنظیم نے یہ اہم قدم اٹھایا۔ اس دن کے منانے کا نصب العین لوگوں کو اللہ کی کتاب سے رغبت پیدا کرانا ہے اوراس کے ساتھ ساتھ قرآن کو سمجھنے اور اسے اپنی روزمرہ کی زندگی میں شامل کرانا ہے۔ اس سال تقریب کا عنوان ’قرآن ہماری زندگی کا رہنما‘ رکھا گیا۔
تقریب ساڑھے دس بجے شروع ہوئی۔ سب سے پہلے اسلامک کڈزکے پانچ سال کے بچوں نے سورة فاتحہ فرانسسی ترجمہ کے ساتھ پڑھا۔ ان کی میٹھی آواز دل کو چھو گئی۔ خدا ہی عبادت کے لائق ہے۔ اس کی رحمت پر پوری انسانیت قائم ہے۔ اسی کی مہربانی سے ہم سراط المستقیم پرقدم رکھتے ہیں۔اس کے بعد موریشس کی اسلامی تنظیم کے امیریاسر ازیر نے اپنی استقبالیہ تقریر میں فرمایا کہ یہ دن مسلمانوں کو قرآن کے پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔ قرآن بہترین رہنما ہے لیکن افسوس اس پر کم تدبر کیا جاتا ہے۔ اس پر بے شک یقین رکھتے ہیںلیکن قرآن کو اپنی زندگی میں کم اہمیت دے پاتے ہیں۔ بس کسی کے انتقال کے وقت یا جمع کی نماز پر ہی قرآن کو کھولا جاتا ہے۔ قرآن ہمارا خزانہ ہے اور ہماری ترقی کا ضامن ہے۔ نئے سائنسی انکشافات پر جلد یقین کر لیتے ہیں لیکن ۰۰۴۱ سال پہلے ہمیں بتایا جا چکا ہے کہ ہمیں کس طرح کی زندگی بسر کرنی ہے۔ قرآن ہمیں درس دیتا ہے کہ بڑوں، بچوں، بزرگوں، بیوی اورپڑوسیوںسے کیسے اچھے رشتے استوار رکھنے چاہئے۔ قرآن خوشگوار زندگی اور حسین تر آخرت کی رہنمائی کرتا ہے۔
پہلے قاری مصر کے حافظ عزة تھے جنہوں نے صورة البقرة کی آیات ۳۵۱ تا ۷۵۱ سماعت فرمائی۔ اسکرین پر ان آیات کے فرانسسی ترجمے نشر ہوئے۔اس کے بعد اسلامی تنظیم کے رکن فواد آسوت علی صاحب نے ان آیات پر تفسیر پیش کی۔زندگی میں انسان لاتعداد مسائل سے ہمکنار ہوتا ہے۔ عہدِ جاہلیہ میں کسی کی موت کے وقت لوگوں کو حدرجہ صدمہ ہوتاتھا۔ وہ خود کو کانٹتے تھے، کھانا پینا ترک کردیتے تھے اور کئی دنوں تک رونے کا سلسلہ جاری وساری رہتا۔ قران نے ہمیں سکھایا کہ اللہ پانچ حالات سے ہمیں دوچارکر کے ہمارا امتحان لیتا ہے۔ ۱) خوف، ۲) غذا کی کمی، ۳)مال و دولت، ۴) موت اور ۵) فصل کی خرابی۔ کسی کو کاروبار میں نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو کسی کو نوکری نہیں ملتی، کسی کو اولاد کا سکھ نصیب نہیں ہوتا، کہیں جنگیں ہو رہی ہیں۔ غرض ان تمام چیزوں سے خدا بندے کی آزمائش کرتا ہے۔ خدا نہایت کرم والا ہے۔مصیبت کے وقت ابتسام سے کام لینا ضروری ہے اور خود کو یاد دلانا ہے کہ ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف واپس جانا ہے۔سولِ خدا ﷺ نے اپنی دعا میں اپنے خدا سے کہا کہ اگر تو مجھ سے ناراض نہیں ہے بلکہ یہ تیرا امتحان تو مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں۔ حضرت ایوب ؑ اپنی تکلیفیں آخر وقت تک برداشت کرتے کرتے صبروتحمل کی عمدہ مثال قائم کر گئے۔
اس کے بعد بنین کے حافظ محمد ثانی نے سورة الحجرات کے آیات ۰۱۔۳۱ کی قرا¿ت سماعت فرمائی جس کی تفسیر عادل راجہ صاحب نے پیش کی۔ یہ تین اہم آیات ہماری شخصیت، کردار اور زندگی پر اثر کرتی ہیں۔ اسلام بھارچارگی اور اخوت کا سبق سکھاتا ہے۔ جب تک ہم ایک دوسرے کو پسند نہیں کریں گے ہم ایمان والوں میں سے نہیں ہونگے اورجب تک ہم ایمان نہیں لائیں گے ہم جنّت میں داخل نہیں ہوپائیں گے۔ ایک حدیث کے مطابق اپنے بھائی کی مدد کرنا مسجد میں نماز پڑھنے اور روزے رکھنے سے بہتر ہے۔قرآن کسی کا مذاق اڑانے کے خلاف ہے۔ جدید سماج کا المیہ یہ ہے کہ ہم اس بھاچارگی کے جذبے کو بروئے کار نہیں لا رہے ہیں۔قرآن کا فرمان ہے کہ کوئی مرد کسی دوسرے مرد کو مذاق نہ اڑائے۔ ایک خاتون کسی دوسری خاتون کو بیچا نہ دکھائے۔ کسی کو ذلیل نہ کرو۔ کسی کی توہین نہ کرو۔کسی کو ذلت کے نام سے نہ پکارا جائے ورنہ ہم ظالموں کے ضمرے میں شامل ہو جائیں گے۔
اس کے بعد کڈز کلب کے بچوں نے اپنی معصوم آوازوں میں سورة الرحمٰن کی آیات ۱۔۳۱ سنائیں۔اسلامی پہراہن میں ملبوس ان ننھے فرشتوں نے سامعین کو محظوظ کیا۔ اس کے بعد مصر کے حافظ عسام نے سورة الماعون سماعت فرمائی۔ موریشس کی اسلامی تنظیم کے رکن ظننورالعین حسن علی نے اس سورت کی تفسیر کے دوران بتایا کہ جو لوگ آخرت پر یقین نہیں رکھتے وہ اپنی نمازوں میں غفلت برتتے ہیں اور یتیموں اور مصیبت میں مبتلا لوگوں کی مدد نہیں کرتے ہیں۔
پھر ماداگاسکارکے حافظ حلید نے سورة المﺅمنون کی تلاوت کی۔ یاسر اوزیرصاحب نے ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا کہ جنت ان لوگوں کے حق میں آئے گی جو اپنا وعدہ نبھاتے ہیں۔انسانوں کے درمیان جو معاہدہ طے ہوتا ہے اس کے شرائط و ضوابط کا احترام کیا جائے۔ دوسروں کے راز کو افشاں نہ کرو۔ ذمے داریوں کو نبھاﺅ اور امانت میں خیانت نہ کرو۔ کسی کی چیز کو سلیقے سے نہیں رکھنا یا نوکری میں سہولیات کا غیر مناسب استعمال کرنا قرآن کے فرمانوںکے خلاف ہیں۔ صحابہ اس بات کا خیال رکھتے تھے کہ وہ اپنی بیویوںپر بھی کسی دوسرے کا رازعیاں نہیں ہونے دیتے تھے۔ رسولِ پاک ﷺکو الامین کا لقب دیا جاتا تھا۔ ناسازگار حالات میں مکّہ کو خیرباد کرتے وقت بھی انہوں نے سب کی امانت ان کو واپس کر دیں۔جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور بھروسہ توڑنا منافقوں کی خصلتیں ہے۔
اس کے بعد کڈزکلب کی ایک بچی نے انگریزی میں ایک نظم پڑھی جس کا عنوان تھا ’قرآن ہماری روزمرہ کی زندگی کا ساتھی۔‘ پروگرام کے اختتام سے پہلے مصر، بنین اور ماداگاسکار کے حفاظ نے مختلف سورتوں سے سامعین کے دلوں کو منور کیا ۔ اسکرین پر انگریزی میں ان کے ترجمے بھی نشر ہوئے۔ نیز فیس بک لئیو کے ذریعے یہ پروگرام نشر بھی ہوا۔
ربِ دو جہاں سے دعا ہے کہ ہم قرآن کا ساتھ کبھی نہ چھوڑیں اور اس کے نایاب اسباق سے مستفیض ہو کر روشن دینا اور روشن تر مستقبل کی طرف خود اعتمادی سے قدم بڑھائیں۔





