ایئرٹیل کمپنی پر شعیب کو برخاست کرنے کا الزام سراسر افواہ، مسلم نوجوانوں کے جذباتی ردعمل کی شدید تنقید

نئی دہلی (ملت ٹائمز) ملک کی معروف ٹیلی کام کمپنی ایئرٹیل ان دنوں انتہا پسند ہندو خاتون پوجا کے ایک ٹوئٹ کی وجہ سے موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور کچھ مسلم نوجوانوں نے جذبات میں آکر اسے فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے ہندو بنام مسلم کا مسئلہ بنادیا ہے۔ 
تفصیلات کے مطابق گزشتہ دنوں لکھنو سے تعلق رکھنے والی پوجا نام کی ایک خاتون نے ایئرٹیل کمپنی کے کسی معاملے کو لیکر ٹوئٹر پر شکایت کی تھی جس کا جواب شعیب نام کے مسلم ملازم نے دیا۔ پوجا نے اس ٹوئٹ کے جواب میں ایک فرقہ وارانہ تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ شعیب ہم آپ کے جواب سے مطمئن نہیں ہیں کیوں کہ آپ مسلمان ہیں اور قرآن میں کسٹمر اور خدمات کے درمیان امتیاز برتا گیا ہے۔ اس کے بعد گگن نام کے دوسرے ملازم نے ٹوئٹر پر پوجا کو ریپلائی کیا۔کمپنی کا کہنا ہے کہ شعیب اور گگن نام کے دوملازم ٹوئٹر پر شکایت سننے کیلئے متعین ہیں اور ایک سے صارف کو اطمینان نہیں ہوتاہے تو دوسرا جواب دیتاہے یہاں بھی یہی معاملہ ہوا ،جب شعیب سے پوجا کو اطمیان نہیں ہوا تو گکن نے معاملہ کو سلجھایا ۔
اس دوران یہ ٹوئٹ وائرل ہوگیا اور صارفین نے ایئرٹیل کمپنی کی مذمت کی کچھ لوگوں نے شعیب کو برخاست کردیئے جانے کا بھی دعوی کیا۔ٹوئٹر نے اپنے آفیشیل اکاﺅنٹ پر موقف ظاہر کرتے ہوئے لکھاکہ کمپنی میں ہند۔مسلم اور کسی بھی مذہب کے نام پر کوئی امتیاز نہیں برتاجاتاہے ،ہمارے لئے تمام ملازمین یکساں ہیں ۔کمپنی کی جانب سے ایک لیٹر بھی گردش کررہاہے جس میں شعیب کی حمایت کرتے ہوئے پوجاکی تنقید کی گئی ہے ۔
دوسری طرف سوشل میڈیا پر کچھ جذباتی مسلم لڑکوں نے حقیقت جانے بغیر اسے ہندومسلم بناکر فرقہ وارانہ رنگ دے رکھاہے اور ایئر ٹیل کے سیم کوپورٹ کرانے کی اپیل شروع کردی ہے۔حالاں جیسے ہی کچھ مسلم نوجوانوں کی جانب سے اس طرح کا جذباتی ردعمل سامنے آیا سوشل میڈیا پر سرگرم سنجیدہ مسلم صارفین نے اس طرح کے ری ایکشن کی شدیدمذمت کرتے ہوئے اسے ایک لایعنی اور مسلمانوں کیلئے مضراقدام بتاتے ہوئے نہ صرف اس کی مذمت کی بلکہ ایسی جذباتی حرکتوں سے بازرہنے کی تلقین کی ۔
چناں چہ دارالعلوم دیوبند کے سینئر فاضل مسعود جاوید فیس بک پر لکھتے ہیں ۔
اس ناچیز نے اور مختلف لوگوں نے بارہا اپیل کی ہے کہ ابھی سے لے کر آنے والے 2019 عام انتخابات تک اس طرح کی حرکتیں ہوتی رہیں گی اور مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کا کام چلتے رہےگا. اور جس قدر مسلمانوں کا جذباتی رد عمل ہوگا اتنا ہی ہندو ووٹ کی لام بندی ہوگی. 125 کروڑ والے ملک میں اس طرح کے واقعات روز ہوتے ہیں اس کا تعلق مذہب ، ذات اور علاقائی تعصب سے نہیں ہے مگر چند واقعات دانستہ طور پر وائرل کئے جاتے ہیں اس کے لئے وہاں متعصب ٹی وی چینل والے موجود ہوتے ہیں جو اس خبر کو مرچ مصالحہ لگا کر پروستے ہیں تاکہ مسلم فرقہ میں ہیجان برپا ہو اور مسلم سماج کے لوگ جوش و جذبات میں کوئی ایسا غیر دانشمندانہ قدم اٹھائے جس سے ان کو خوب بدنام کیا جائے دہشت گردانہ مزاج اور طالبانی سوچ کا لیبل لگایا جائے۔
سینئر تجزیہ نگاربدر کاظمی کا ماننا ہے کہ ایسے واقعات پر متشددانہ رویہ خود ہمارے لئے مضر ہے، اس طرح کے چھٹ پٹ معاملات کو نظر انداز کرنا اور عقل سلیم کا استعمال کرنا چاہیے، یہ ایک منصوبہ بند طرز عمل ہے جو آئندہ انتخابات کو سامنے رکھ کر کیا جارہا ہے، ہمیں انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔۔
سوشل میڈیا پر سرگرم اور ٹیک علما ءکے نام سے بلاگ چلانے والے دارالعلوم کے ایک اور فاضل مولانا محمد فرقان غنی نے پورے معاملے کی تحقیق کرتے ہوئے لکھاہے :ائیرٹیل کی طرف سے ٹویٹر پر کسٹمر کو ہنڈل کرنے کے لئے دو بندے تعینات ہیں ایک شعیب اور دوسرے گگن نامی شخص, یہ دونوں آپسی سمجھ اور تال میل کے ساتھ کام کرتے ہیں, اس واقعہ میں بھی یہی کیا گیا کہ جب اس لڑکی نے یہ مطالبہ کیا تو شعیب نے اس کو نظر انداز کیا اور گگن نامی شخص نے اس کو اٹینڈ کیا اور اسی طرح کام کیاجاتا ہے ,اب تک اس میں ائرٹیل کے ہائر اٹھاریٹی کا کوئی دخل نہ تھا اور جونہی یہ معاملہ اوپر پہنچا گرچہ تاخیر سے ہی صحیح مگر ائرٹیل نے اس طرح کی امتیازی سلوک پر اپنا موقف واضح کرکے اپنے ملازم کی حمایت کی یہ اصل واقعہ ہے۔نیز یہ میٹر سم کا نھیں ڈی ٹی ایچ کا ہے شاید یہاں بھی لوگوں سے چونک ہوئی ہے۔تو جب ائیرٹیل نے نہ تو شعیب کو ملازمت سے نکالا نہ تو اسکی پوزیشن سے نکالا بلکہ اسکی حمایت میں ٹیم لیڈر ہمانشو نے ٹویٹ بھی کیا تو اب کیا باقی رہ گیا ہے؟ایسا نہ ہو کہ ائیرٹیل کو اس کی ناکردہ گناہ کی سزا ملے( جیسا کہ بہت سے مجاہدین پورٹ کرکے جھاد کا ثواب پانا چاہتے ہیں)اور پھر وہ وہی کرے جو انہوں نے نھیں کیا اس کا خمیازہ آپ کو نہیں بلکہ کمپنی میں کام کرنے والے ان تمام بھائیوں کو بھگتنا پڑیگا جنکی کوئی غلطی نھیں تھی۔لھذا حقائق سمجھے جائیں اور پھر قلم اٹھایا جائے کہ ایک کمپنی جو خسارے میں ہو اور اپنے وجود و بقا کی جنگ لڑرہی ہو کیسے اس طرح کی بچکانہ حرکت کرسکتی ہے, زیادہ سے زیادہ مجھے کچھ زہریلی تحریروں سے یہی سمجھ میں آتا ہے وہ غیر ضروری معاملے میں بلاتحقیق اپنا اور ہمارا وقت ضائع کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ پوجاکا تعلق بی جے پی سے ہے اور اسے ٹوئٹر پر کئی ایم پی اور سیاسی لیڈران فلو کرتے ہیں جس میں سابق کانگریسی لیڈر شہزاد پونے والاکا نام بھی شامل ہے ۔