مشن 2019 دلت مسلم ٹکراؤ: جامعہ ملیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی دلتوں کو ملے ریزرویشن

بنارس ہندو یونیورسٹی کی طرز پر ملے دلتوں کو ریزرویشن، کانگریس کا ہاتھ دہشت گردوں کے ساتھ، بی جے پی پر دلت مخالف الزام بے بنیاد، یوگی کا کانگریس پر لشکرطیبہ کی زبان بولنے کا الزام
قنوج: (عامر ظفرقاسمی)
انگریزی زبان میں شائع ہونے والے انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دلتوں کو ریزرویشن دیئے جانے کا مطالبہ کیاہے۔ انہوں نے کہا کہ بی ے پی پر دلت مخالف ہونے کا الزام لگانے والوں کو چاہئے کہ وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ یونیورسٹی میں بھی دلتوں کے لئے ریزرویشن کی آواز اٹھائیں اور اس کو یقینی بنانے کے لئے تحریک چلائیں۔ قنوج میں ایک پروگرام کے دوران انہوں نے کہا کہ دلتوں کے غمخواروں نے کبھی اس جانب توجہ نہیں دی کہ آخر ان دونوں یونیورسٹیوں میں دلت ریزرویشن سے محروم کیوں ہیں۔ اس تعلق سے سماج کے کسی شخص نے آواز بھی نہیں اٹھائی۔ یوگی نے کہا کہ جب دلتوں کو بنارس ہندو یونیورسٹی میں ریزرویشن کی سہولت ہے تو جامعہ اور علی گڑھ یونیورسٹی میں انہیں ریزرویشن کیوں نہیں دیا جاتا جب کہ یہ بھی مرکزی یونیورسٹیاں ہیں اور انہیں یوجی سی سے گرانٹ ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بابت نہ کوئی قلمکار لکھتا ہے اور نہ ہی ہمارے دلت بھائی آواز اٹھاتے ہیں۔ اس دوران انہوں نے راجیو گاندھی پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ میری اطلاع کے مطابق ان کے خاندان میں بھی آج تک کسی نے جنیو نہیں پہنالیکن جب انہیں ہندوستان کی بدلتی ہوئی حقیقت کاعلم ہوا تو انہیں مندر یاد آنے لگے۔ یوگی نے کہا کہ کانگریس کا ہاتھ دہشت گردوں کے ساتھ ہے، اسی لئے اس کے لیڈروان لشکر طیبہ کی زبان بول رہے ہیں۔
روزنامہ ’خبریں‘ کی اطلاع کے مطابق سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اور سنگھ دونوں آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات کو لے کر انتہائی فکر مند ہیں اور الگ الگ فارمولوں پر غور کر رہے ہیں۔سال 2019 میں ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کا اقتدار کس طرح بچایا جا سکے ، اس کے لئے بر سر اقتدار بی جے پی اور سنگھ نے کمر کس لی ہے ۔ سنگھ کے لئے بی جے پی کا اقتدار میں رہنا بہت ضروری ہے اور وہ کسی بھی طرح یہ نہیں چاہتا کہ بی جے پی کا حال وہی ہو جو سال 2004 میں واجپئی حکومت کاہوا تھا۔ اطلاع کے مطابق پچھلے دنوں ہی فریدآباد کے سورج کنڈ میں سنگھ اور بی جے پی کے سینئر رہنما سرجوڑ کر بیٹھے ۔ اس موقع پر ریاست کے تمام ذمہ داران سے ان کی رائے پوچھی گئی او ران کو آئندہ کی حکمت عملی کے بارے میں بتا یا گیا۔ذرائع کے مطابق بی جے پی اور سنگھ کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کام کی بنیاد پر نہیں جیتے جا سکتے اس لئے انتخابات کے لئے ذات پات اور مذہبی ایشوکو ہی جذباتی بنانے کی ضرورت ہے۔ سنگھ اور بی جے پی کے لئے کرناٹک میں بی جے پی کے اقتدار سے باہر رہنے اور اتر پردیش میں نئے سیاسی اتحاد کے ذریعہ تمام ضمنی انتخابات جیتنا باعث تشویش ہے۔ سنگھ اور بی جے پی سب سے زیادہ پریشان اتر پردیش میں تمام حزب اختلاف کی پارٹیوں کا متحد ہونا اور بہار جیسی ریاست میں نتیش کمار کی مقبولیت میں کمی آنا اور آر جے ڈی کی مقبولیت میں اضافہ سے ہے ۔اس اجلاس میں ارکان پارلیمنٹ کی رپورٹ کارڈ تیار کرنے کی بات ہوئی لیکن سنگھ اور بی جے پی کے لئے ارکان پارلیمنٹ کی رپورٹ کارڈ سے زیادہ بڑا مسئلہ بڑی ریاستوں میں بی جے پی مخالف اتحاد بننا ہے ۔ بی جے پی کے لئے سب سے بڑی فکر کی بات یہ ہے کہ کس طرح دلتوں کی ناراضگی دور کی جائے کیونکہ بی جے پی کو اس بات کا اندازہ ہے کہ خالص اونچی ذات کے ووٹوں سے اقتدار میں بنے نہیں رہا جا سکتا ۔ اس کے لئے سنگھ ایک ایسے منصوبہ پر بھی غور کر رہاہے جس سے دلتوں میں یہ پیغام دیا جا سکے کہ مسلمان امبیڈکر مخالف ہیں تاکہ کم از کم شمالی ہندوستان کے دلت اور مسلمان ایک پلیٹ فارم پر نہ آ سکیں ۔ اس کے لئے بہت ممکن ہے کہ اتر پردیش میں دلتوں اور مسلمانو ں کے درمیان فساد بھڑک اٹھیں۔
سنگھ اور بی جے پی رام مندر اور کشمیر کو بھی آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات کے لئے بڑا اور جذباتی مدا بنانا چاہتے ہیں۔ ادھر ریزر ویشن کے مدے کو وہ بالکل چھیڑنے کے حق میں نہیں ہیں ۔ سنگھ اور بی جے پی اس پر بھی غور کر رہے ہیں کہ مسلمان کسی ایک سیاسی پارٹی کے ساتھ نہ جائیں اور ان کے ووٹ تقسیم ہو جائیں ، اس کے لئے راشٹریہ مسلم منچ بہت متحرک ہے ۔ طلاق ثلاثہ کے معاملے پر مسلم خواتین کو تقسیم کرنا بھی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔سال 2014 میں بی جے پی اور سنگھ نے مل کر جو ہندوستانی عوام کو خواب دکھائے تھے ان میں سے کوئی بھی خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ، چاہے وہ ہر شہری کے بینک کھاتے میں 15 لاکھ جمع ہونے کا خواب ہو، چاہے نوجوانوں کو ہر سال دو کروڑ نوکریاں دینے کا خواب ہو، چاہے مہنگائی کم کرنے کا خواب ہو ، چاہے کسانوں کو پیداوار کی مناسب قیمت دلانے کا خواب ہو، چاہے ایک ہندوستانی فوجی کی موت کے بدلے میں دس پاکستانی فوجیوں کے سر لانے کا خواب ہو ۔ اس لئے سال 2019 کے عام انتخابات میں عوام کے پاس حکومت سے پوچھنے کے لئے بہت سوال ہیں، جس کی وجہ سے بی جے پی اور سنگھ آئندہ سال ہونے والے عام انتخابات میں کام اور وعدے نہیں بلکہ جذبات کو بھڑکانے والے مدوں پر چناؤ لڑنے کی حکمت عملی پر غور کر ہے ہیں۔