مذاکرات اور باہمی گفتگو سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں، عداوتیں ختم ہوجاتی ہیں، جرأت و ہمت کے ساتھ ہم سب کوآگے آنا ہوگا، امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید سید جلال الدین عمری کا ’روزنامہ خبریں‘کے چیف ایڈیٹر جناب قاسم سید سے گفتگو کے دوران اظہار خیال
نئی دہلی : ہندوستانی سماج ایک تکثیری سماج ہے، یہاں مختلف مذہب و کلچر اور زبانیں ہیں۔ ملک کے بہت سے مسائل ہیں، ان کے حل کے بارے میں ہمارے درمیان اختلاف ہوسکتا ہے اور ہوگا، اسے برداشت کرنا ہوگا، نیز اس اختلاف کو حل کرنے کے لئے بحث و مباحثہ کا طریقۂ کار اختیار کرنا ہوگا، کیونکہ ایک دوسرے کو حریف سمجھنے، اس کے نقطہ نظر کو دشمن کا نقطہ نظر تصور کرنے کی جگہ اسے سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کرنی ہوگی۔ مذاکرات اور باہمی گفتگو سے بہت سے مسائل ہوتے ہیں۔ بسااوقات اس سے عداوتیں ختم ہوتی ہیں، دوستی و رفاقت کی راہیں کھلتی ہیں۔ جماعت اسلامی ملک کے تمام مذہبی و سیاسی گروپوں سے کھلے مذاکرات کے لئے تیار ہے، کیونکہ ملک کی اس وقت سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ نفرت و عدالت کی جو آندھی چلی آرہی ہے اسے محبت و خیرخواہی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور افہام و تفہیم کی خنک ہوائوں میں تبدیل کیا جائے۔ اس کے لئے جرأت و ہمت کے ساتھ ہم سب کو آنا ہوگا۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر، معروف مسلم رہنما اور جماعت اسلامی ہند کے امیر مولانا سید جلال الدین عمری نے ’روزنامہ خبریں‘ سے گفتگو کے دوران ان خیالات کا اظہار کیا۔
یہ سوال کرنے پر کہ کیا کھلے مذاکرات کی پیشکش میں سرکار، آر ایس ایس، بی جے پی وغیرہ بھی ہیں، امیر جماعت نے کہا کہ خواہ کوئی ہو اس کے سامنے ہماری پوزیشن اور موقف تو آنا چاہئے۔ مثلاً اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان اس ملک کے دشمن ہیں اور ہم اس کے خلاف محاذ بنائیں، دوسری شکل یہ ہے کہ ہم اس سے مل کر سمجھیں کہ ہمیں دشمن کیوں سمجھتے ہیں، اس کے اعتراضات و شبہات کا جواب دیں، انھیں سوچنا ہوگا کہ دوری کے اسباب کیا ہیں؟ اگر مسلمان ووٹ نہیں دیتا تو کیوں نہیں دیتا؟ آخر اتنی بڑی آبادی دور کیوں ہے؟ کیا یہ رویہ ملک کے حق میں ہے اور اتنی بڑی آبادی کو الگ رکھ کر ملک ترقی کے راستے پر چل سکتا ہے؟ مولانا نے بتایا کہ ایک مرتبہ بی جے پی کے ایک ذمہ دار سے گفتگو کے دوران کہا کہ آپ کا دعویٰ ہے کہ مسلمان ہمارے بارے میں غلط سوچتے ہیں تو عوامی طور پر اس کا اظہار کیوں نہیں کرتے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ اختلافات و غلط فہمیاں اس وقت اور بڑھ جاتی ہیں جب گفتگو اور مذاکرات کے راستے بند کردیے جائیں، جبکہ ہر پیچیدہ مسئلہ مذاکرات سے ہی حل ہوتا ہے، اس کے ذریعہ حریف طاقتیں اور ایک دوسرے کے دشمن ممالک اپنے مسائل کا حل نکال لیتے ہیں۔ تازہ مثال ٹرمپ اور کم جونگ کی ہے، ماضی قریب میں دیوار برلن گرگئی، دشمن ملک پھر ایک ہوگئے تو پھر ہم اپنے وطن میں باہم گفتگو اور کھلے تبادلہ خیال سے تنازعات حل نہیں کرسکتے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اختلافات کو دور کرنے کے لئے ایک میز کے گرد جمع ہونے سے ہم گھبراتے ہیں، آخر یہ راستہ ہم کیوں نہیں اختیار کرتے۔
موب لنچنگ کے بڑھتے واقعات پر مولانا عمری نے کہا کہ ملک کے ایک طبقہ یا یوں کہئے کہ بعض لوگوں میں یہ احساس ضرورت سے زیادہ ہے کہ ملک ان کا ہے، اقتدار ان کا ہے وہ جو چاہے کرسکتے ہیں۔ قانون ان پر نافذ نہیں ہوتا، اسی کا مظاہرہ ہے جو موب لنچنگ یا عبادت گاہوں پر حملوں کی شکل میں ہوتا رہتا ہے۔ مختلف مواقع پر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہوتی ہے، لیکن مختلف وجوہ سے وہ بے اثر ہے، اس سے اقلیتوں میں احساس ابھر رہا ہے کہ وہ غیرمحفوظ ہیں، ان کے لئے ترقی کے مواقع نہیں ہیں یا محدود ہیں۔ اب تو ایسے واقعات کا بین الاقوامی سطح پر بھی نوٹس لیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کی تصویر بگڑرہی ہے، حالات کو ٹھیک کرنا اور کمزور طبقات کو اعتماد میں لینا حکومت کی ذمے داری ہے، لیکن لگتا یہی ہے کہ اس طرف اس کی کوئی توجہ نہیں۔ بہرحال فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی شدید ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے حصے کی ذمے داری تو ادا کرنی ہوگی