مولانا محمد شبلی القاسمی
صوبہ بہارکا پٹنہ ہندوستان کے قدیم ترین شہروں میں ہے ، اور ہندوستان کے ہرتاریخی دور میں پٹنہ کو مرکزیت حاصل رہی ہے ، ہندو راجاؤں کے زمانہ میں بھی پٹنہ علم وسیاست کا مرکز تھا ، اور مسلمان بادشاہوں کے دور میں بھی اس نے اپنی خصوصیت کو باقی رکھا ، جس زمانہ میں علوم مشرقیہ کا عروج تھا ، ہر فن کے بہتر سے بہتر اساتذہ اور اچھے سے اچھے ماہر یہاں پیدا ہوئے اور عرصہ گذر جانے کے بعد بھی ان کی تصنیفات کو آج وہی قبولیت اور اہمیت حاصل ہے جو اس وقت تھی ۔
پٹنہ ضلع کے قریب میں ایک ضلع نالندہ ہے ، نالندہ کا ایک قصبہ بہار شریف ہے ، جس کے نام پر یہ صوبہ ”بہار “ کہلاتا ہے ، جس کو ہندوستان کے مشہور بزرگ حضرت شیخ شرف الدین رحمة اللہ علیہ کے مسکن ہونے کی عزت بھی حاصل ہے ، جنہیں عام طریقہ سے لوگ حضرت مخدوم بہاری کہا کرتے ہیں۔
اس قصبہ سے کچھ فاصلہ پر ” راجگیر “ ایک فرحت افزا اور صحت بخش مقام ہے ، جہاں حضرت مخدوم بہاری ریاضت و چلہ کشی وغیرہ کیا کرتے تھے۔
بہار شریف سے راج گیر سڑک جاتی ہے ، اسی سڑک پر چھ میل کے بعد پنہسہ ایک گاؤں ہے ، شہروں کی چہل پہل سے دور اور بازاروں کی رونق سے محروم، چھوٹی سی آبادی کا ایک ٹھیٹھ دیہات ہے ، جہاں نہ شہری تہذیب وتمدن سے واسطہ ہے اور نہ بازار بناؤ سنگار سے کوئی تعلق ، گاؤں پر سر سری نظر ڈالیے تو معلوم ہوگا کہ یہاں لوگ غریب مگر ایماندار اور قانع، لوگوں کا پیشہ کاشت کاری ہے اور ہر شخص اسی مین مشغول ہے ،لیکن اسی گاو ¿ں کے شمال میں ایک اونچی دہلیز کا مکان ہے جو پورے گاو ¿ں میں ممتاز معلوم ہوتا ہے ۔
صاحب خانہ مولوی سید حسین بخش صاحب ہیں، ماہ صفر ۱۰۳۱ھ میں مولوی حسین بخش صاحب کے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ، گھر میں خوشی منائی گئی ، گاؤں والوں نے آکر مبارکباد دی ، باپ نے بیٹے کا نام ”محمد سجاد “ رکھا کنیت ”ابو المحاسن“ ہوئی۔ یہ معلوم نہیں کہ کنیت کس نے رکھی ، لیکن یہ کنیت گویا الہامی تھی جو محمد سجاد کے مستقبل پر پوری طرح صادق آئی اور بالکل صحیح اتری۔
مولانا سجاد کے بچپن کا زمانہ تھا ابھی عمر صرف چار سال ہوئی تھی کہ ۴۰۳۱ھ میں مولوی حسین بخش صاحب کا انتقال ہو گیا اور اس طرح شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ اب مولانا کے سر پرست اپنے بڑے بھائی مولوی احمد سجاد صاحب تھے۔
مولانا نے مدرسہ اسعدیہ بہار شریف ، دیوبند ، کانپور، الٰہ آباد کے مدارس میں علوم و فنون کی تکمیل کی ۲۲۳۱ ھ مطابق ۵۰۹۱ءکو مدرسہ سبحانیہ الٰہ آباد میں آپ کی رسم دستار بندی ادا کی گئی فراغت کے بعد سترہ اٹھارہ سالوں تک درس وتدریس کا فریضہ انجام دیتے رہے ، مولانا کا زمانۂ تدریس بہت شاندار اور مکمل طور پر کامیاب اور مقبول رہا، جس مدرسہ میں پڑھایا وہاں کی حالت بدل گئی، مولانا کا کسی مدرسہ میں پہونچ جانا مدرسہ کی کامیابی کی ضمانت تھی ، ہندوستان میں بڑے فضلاء اور کامیاب ترین درس دینے والے گذرے ہیں مگر لوگوں کو یہ فخر حاصل ہے کہ مولانا بہت جلد علمی صفوں میں نمایاں ہو گئے ہواور مولانا کے علمی تبحر کو اہل علم نے تسلیم کرلیا، طلبہ کے ساتھ حد درجہ مشفقانہ معاملہ فرماتے تھے۔ آخر میں گیا تشریف لے آئے اور مدرسہ انوار العلوم کی داغ بیل ڈالی اور یہاں سے قومی اور سیاسی مسائل کے لئے فضا کو ہموار کرنے میں یک سوئی کے ساتھ منہمک ہو گئے۔
۷۱۹۱ءمیں انجمن علماء بہار قائم فرمایا ، اور اس کے دو برس بعد ۹۱۹۱ءمیں جمیعة علمائے ہند کی بنیاد ڈالی، اس کے بعد رفتہ رفتہ درس وتدریس کی مشغولیات میں کمی ہوتی گئی اور مکمل طور پر قومی میدان میں اتر گئے ، تا آنکہ مولانا کی زندگی کا لمحہ لمحہ قومی وملکی کاموں کے لئے وقف ہوگیا ، مولانا خود اپنے سے بیوی بچوں سے ، گھر جائداد سے بالکل بے نیاز ہو گئے ، جیسے ان کی کوئی چیزہی نہ ہو، بچوں کی بیماری ، بیوی کی علالت، رشتہ داروں کی مصیبت اور خود اپنی تکلیف کا انہیں کوئی احساس نہیں رہا۔ ؏
پھونک کر اپنے آشیانہ کو بخش دی روشنی زمانے کو
مولانا کی زندگی کی خاص بات خلوص و للہیت ہے۔مولانا کے سیاسی کیرکٹر میں بہت ہی اہم اور نمایاں پہلو خلوص و للہیت کا ہے۔ مولانا کی سیاسی زندگی پر جو بھی قلم اٹھائے گا ، وہ یہ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ مولانا نے کامیاب اور شاندار سیاسی زندگی گذاری، ایک طرف مولانا نے امارت شرعیہ قائم کرکے اس اہم ترین مسئلہ کو حل کیا کہ مسلمانوں کو ہندوستان میں کس طرح زندگی گذارنی چاہیے ، دوسری طرف مولانانے اسمبلی اور کونسل تک رسائی حاصل کرتے وزارت قائم کی اور سیاسی اقتدار وقوت اپنے ہاتھ میں لی اور یہ بتلا یا کہ طاقت وقوت کا کیا مصرف ہے اور دنیا کس طرح چلائی جاتی ہے۔
مولانا کو سیاسیات کا ذوق جنگ عظیم میں ترکی شکست اور ممالک اسلامیہ کی پرا گندگی سے ہوا، وہ اس وقت الٰہ آباد میں تھے، ان کے ایک انگریزی داں شاگرد ، ان سے عربی پڑھنے آتے تھے، وہ اپنے ساتھ اردو اور انگریزی اخبارات لاتے تھے اور مولانا سجاد ؒ کو پڑھ پڑھ کر سناتے تھے، یہ آگ روز بہ روز بھڑکتی چلی گئی ، مولانا ابو الکلام کے الہلال کی تحریک نے بنگال کے قرب کے سبب سے بہار پر پورا اثر ڈالا تھا ، اور بہت سے علماءنے ان کی اس تحریک پر لبیک کہا، ان میں سے مولانا سجاد ؒ کا نام بھی لیا جا سکتا ہے ۔
رانچی کی اسیری کے زمانہ میں مولانا ابو الکلام نے ہم خیال اور کار فرما علماء کی تلاش کا کام ایک مخلص کے سپرد کیا تھا ، انہوں نے جن علماءکی نشان دہی ان میں سے ایک مولانا سجاد ؒ بھی تھے جو اس وقت انوار العلوم گیا کی مسند درس پر تھے۔
۹۱۹۱ءکی تحریک خلافت کی ترقی کے ساتھ ساتھ مولانا کا ذوق ِ سیاست بھی بڑھتا گیا ۰۲۹۱ءمیں مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محلی کی تحریک اور مسیح الملک حکیم اجمل خان مرحوم کی تائید سے حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کی صدارت میں جب جمعیۃ العلماء دہلی کی بنیاد پڑی تو موصوف اس کے لبیک کہنے والوں میں سب سے اول تھے۔ اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ کتنے رفیق سفر تھک تھک کر اپنی جگہ پر بیٹھ رہے تھے ، مگر ان ہی کی ایک ہستی تھی جو آخر تک جمعیۃ کے ساتھ لگی رہی ، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ انہیں کی روح تھی جو اس کے قالب میں جلوہ گر ہوتی رہی۔
بہار میں امارت شرعیہ کا قیام ان کی سب سے بڑی کرامت ہے، زمین شور میں سنبل پیدا کرنا اور بنجر علاقہ میں لہلہاتی کھیتی کھڑی کر لینا ہر ایک کا کام نہیں
۸۱۹۱ءمیں معارف میں اس تحریک کو اٹھایا گیا اور اصلاحات کے سلسلہ میں اس کو پیش کیا گیا ، پھر یورپ سے واپسی کے بعد چاہا کہ اس کو ہندوستان کا مسئلہ بنایا جائے، مگر اس عہد کے جدید تعلیم یافتہ علم برداروں نے اس کو چلنے نہ دیا ، بہار میں مولانا ابو الکلام صاحب کی تحریک پر مولانا سجاد صاحب ؒ کی قوت عمل نے اس کو وجود کا قالب بخش دیا ۔
مولانا سجاد مرحوم کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ علماءسیاسیات میں بھی قوم کی رہبری کا فرض انجام دیں ، مسلمانوں میں دینی تنظیم قائم ہوجائے جس کے تحت میں ان کے تمام تبلیغی ، مذہبی اور تعلیمی وتمدنی کام انجام پائیں، دار القضاء قائم ہو کر مسلمانوں کے ہر قسم کے مقدمات و معاملات تصفیہ پائیں، مسلمانوں کا بیت المال ہو جہاں مسلمانوں کے صدقات و تبرعات وزکوٰة کی ساری رقمیں اکٹھی ہو کر ضروریات میں خرچ ہوں اور مستحقین میں تقسیم ہوں۔ مولانا ؒ نے عمر کے آخری بیس برس ان ہی کاموں میں صرف کیے اور حق یہ ہے کہ انہوں نے ہر قسم کی مالی بے بضاعتی ، مددگاروں کی کمی ، رفقاء کی ناسپاسی اور حالات کی مخالفت کے باوجود جو کچھ کر دکھایا وہ ان کی حیرت انگیز قوت عمل کا ثبوت ہے اور اللہ تعالیٰ کی توفیق خاص ہے ۔
ہندوستان کے علماءاور غیر علماء تمام مسلمانوں میں یہ شرف صرف مولانا محمد سجاد صاحب کو حاصل ہے کہ انہون نے یہ احساس کرتے ہوئے ”اس غیر اسلامی ملک میں مسلمانوں کی انفرادی واجتماعی زندگی میں اسلامی ماحول اور اسلامی اثرات پید اکرنے کے لئے امارت شرعیہ کے قیام کے بغیر چارہ کار نہیں ، بہار کے صوبہ میں اس کی داغ بیل امارت شرعیہ ڈال دی اور امارت شرعیہ صوبہ بہار کے لیے حضرت مولانا شاہ بدر الدین پھلواروی قدس سرہ العزیز کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ اگر چہ وہاں کے بعض صوفیاء بعض علماءاور انگریزی داں طبقے نے اپنی ذاتی مصالح کی بنا پر اس کی کافی مخالفت کی ، مگر مولانا کی سعی، سعی مشکور ثابت ہوئی اور اسلامی نظم وتنظیم کے لیے بہار میں بہر حال ایک نمونہ قائم ہو گیا اور تبلیغ اسلام ، اصلاح امت ، تنظیم زکوٰة ، اہل مصارف میں اس کی صحیح تقسیم ، مقدمات کے شرعی اصول پر طے کرنے کا سسٹم ، یہ اور اس سلسلہ کے دوسرے اہم شعبہ جات اس ادارہ کا مقصد قرار پایا، اور چوں کہ مولانا موصوف نائب امیر شریعت منتخب ہوئے اس لیے اس ادارہ کی نگرانی اور اس کے استحکام کی ذمہ داری تمام تر مولانا موصوف ہی کے کاندھوں پر رہی ۔
امارت شرعیہ کا قیام
مولانا کے کارناموں میں سے سب سے بڑا کارنامہ امارت شرعیہ کا قیام ہے۔ امارت شرعیہ کے ہندوستان کے قیام کے لئے کافی پہلے سے کوشاں تھے جب شیخ الہند حضرت مولانا محمودحسن صاحب ؒ جب مالٹا کی اسارت سے ہندوستان واپس آئے تو حضرت مولانا دیو بند جاکر ملے اور شیخ الہند ؒ سے امارت شرعیہ کے متعلق گفتگو فرمائی حضرت شیخ الہند ؒ نے اس کو پسند فرمایا ، لیکن اس تمام سعی وکوشش اور تمام علماءہند کی رضا و ہم خیالی کے با وجود بعض ایسے اسباب پیش آئے کہ امیر الہند کا انتخاب نہ ہو سکا، تب حضرت مولانا ؒ نے صوبہ بہار میں ہی پہلے امارت شرعیہ کے قیام کی سعی کی اور جمعیۃ علماء صوبہ بہار کے غیر معمولی اجلاس پٹنہ میں ۹۱ ۰۲ شوال ۹۳۴۱ھ کو حضرت مولانا ابو الکلام آزاد کی صدارت میں منعقد ہوا۔
صوبہ بہار کے علماءاور دوسرے اصحاب حل وعقد نے باتفاق رائے حضرت مولانا شاہ محمد بدر الدین صاحب رحمة اللہ علیہ سجادہ نشیں خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کو امیر شریعت اور حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمة اللہ علیہ کو نائب امیر شریعت منتخب کیا اور ۹ اصحاب کی مجلس شوریٰ بنائی ، جس میں اس وقت حسب ذیل حضرات منتخب کیے گئے۔
حضرت مولانا شاہ محمد محی الدین صاحب ، حضرت مولانا عبد الوہاب صاحب دربھنگہ ، حضرت مولانا سید سلیمان صاحب ندوی، حضرت مولانا شاہ محمد نور الحسن صاحب پھلواروی، حضرت مولانا عبد الاحد صاحب، حضرت مولانا فرخند علی صاحب مرحوم، حضرت مولانا کفایت حسین صاحب مرحوم، حضرت مولانا زین العابدین صاحب ڈھاکہ اور حضرت مولانا محمد عثمان غنی،
۹ ذی قعدہ ۹۳۳۱ھ کو دفتر امارت شرعیہ قائم کرکے ارکان مجلس شوریٰ کو دعوتی خط لکھا گیا ۔
حضرت مولانا ؒ کی تحریک پر مجلس شوریٰ نے حضرت مولانا محمد عثمان غنی علیہ الرحمہ کو ناظم امارت شرعیہ مقرر کیا، اور صوبہ میں بیعت امارت کے لیے ایک وفد کی تجویز مرتب کی ۔ جمعیۃ علماء بہار نے کچھ ماہ قبل اپنی ایک تجویز کے ذریعہ بیت المال اور دار القضاءقائم کیا تھا ۔ قیام امارت کے بعد مجلس شوریٰ نے بیت المال اور دار القضاء کو امیر شریعت کی نگرانی میں لے لیا۔
مولانا نے اپنی صلاحیت اور زندگی کی ساری توانائی امارت شرعیہ کے لئے آخر تم تک جھونک دی، متحدہ بہار کے کونے کونے اور گاوں گاؤں پہونچ کر امارت شرعیہ سے لوگوں کو وابستہ کرتے رہے ۔ امارت شرعیہ ہی کے لیے چمپارن کے دورہ پر تھے وہیں ملیریا بخار میں مبتلا ہو گئے پھلواری شریف واپس آئے ۹ دنوں تک بخارمیں مبتلا رہے اور ۷۱ شوال ۹۵۳۱ھ مطابق ۸ نومبر ۰۴۹۱ءروز شنبہ پونے پانچ بجے شام میں رفیق اعلیٰ سے جا ملے ، انا للہ وانا الیہ راجعون ، خانقاہ مجیبیہ پھلواری شریف کے قبرستان میں ہمیشہ کے لئے آسودہ خواب ہو گیے ۔
مولانا نے ساٹھ سال کی عمر پائی ، جس نے بھی مولانا کی زندگی کو دیکھا یا مطالعہ کیا ہے وہ اس اعتراف پر مجبور ہو گا کہ اتنے بہتر دل و دماغ کا مالک، فکر و عمل کا ایسا جامع ، ایثار و قربانی ایسا پتلا، علوم و فنون کا ایسا ماہر خلوص و للہیت کا ایسا مجسمہ اور پھر ان ساری خوبیوں کے ساتھ ایسا منکسر المزاج اور متواضع شخص کم دیکھا گیا۔
(مضمون نگار امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کے نائب ناظم ہیں )
نوٹ : مضمون نگار کی رائے سے ملت ٹائمز اور اس کی پالیسی کامتفق ہونا ضروری نہیں ہے