آئی پی ایل میں یو پی اوربہارکی ٹیم کیوں نہیں؟
بی سی سی آئی ،صنعت کاروں اور سیاست دانوں کے متعصبانہ رویوں پر کیوں نہیں اٹھائے جاتے سوال،
زین شمسی
ہندوستان میں کرکٹ مذہب ہے اور کھلاڑی بھگوان ہیں۔ہون ،پوجا بھی ہوتی ہے اور تشدد اور فسادات کی بھی وجہ بھی کرکٹ کا کرشمہ ہے۔ کرکٹ کے شیدائی اتنے جنونی ہوتے ہیں کہ میدان میں اپنی ٹیم کی شکست کو برداشت نہیں کر پاتے اور ہارٹ اٹیک کے شکار ہو جاتے ہیں، وہ اتنے پاگل ہوتے ہیں کہ اپنی ٹیم کی مخالفت پر کسی کی جان بھی لے سکتے ہیں۔ ایسی کتنی خبریں گردش کر چکی ہیں ، جس میں پاکستان کے کھلاڑیوں یا ٹیم کے لیے نعرہ لگانے والوں کو یا تو مارا پیٹا گیا یا اسے ملک مخالف کہہ کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا یا یونیورسٹیوں سے نکال دیا گیا۔
گویا اب کرکٹ مذہب نہیں رہا بلکہ کرکٹ میں ٹیم انڈیا کی حمایت کو مذہب مان لیا گیا۔ اب اچھی کرکٹ کی تعریف نہیں کی جاتی بلکہ ناقص کارکردگیوں کے باوجود اپنے ہی کھلاڑیوں کا قصیدہ پڑھنا لازمی ہو گیا ہے،لیکن پہلے ایسا نہیں تھا پہلے کوئی بھی ٹیم جیتے یا ہارے ،ہر حال میں جیتکرکٹ کی ہی ہوتی ،لیکن جب سے کرکٹ میں سیاست کا دخل ہوا اور کرکٹ کو سیاست بنا دیا گیا تب سے کرکٹ محدو د ہو کر رہ گئی اور اسی لیے کرکٹ کے مداح اس کھیل سے دور ہوتے گئے اور جنونی لوگوں کا اس کھیل پر قبضہ ہوگیا۔اس جنون کا فائدہ اشتہار دینے والی کمپنیوں ، بی سی سی آئی اور سیاستدانوں کو خوب ہوا۔انہوں نے اپنے حساب سے کھلاڑیوں کا سلیکشن کیا ، سیاسی دباؤ بھی خوب کام آیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت سٹے بازوں نے اس کھیل سے خوب پیسہ کمائے اور اب بھی کما رہے ہیں۔ کرکٹ کے خلاف کوئی نہیں لکھ سکتا اور نہ ہی کوئی بول سکتا ہے، تاہم اگر غور سے اور گہرائی سے اس کھیل کی سیاست پر بات کی جائے تو کئی پہلو سامنے آتے ہیں۔
آئی پی ایل کا نواں ایڈیشن عروج پر ہے۔ ملک کے تمام حصوں میں اس کا جنون جاری ہے ،میچ کے آخری مرحلہ میں تنگ گلیوں میں ٹی وی دیکھنے والے راہگیروں سمیت ، آفس سے جلد آجانے والے کرکٹ کے شائقین اپنی اپنی ٹیموں کی فتحیابی کے لیے دعائیں کرتے نظر آرہے ہیں۔کرکٹ یوں تو ہندوستان کے کئی صوبوں میں قومی اہمیت کا حامل بن چکا ہے ،لیکن بہار اور اترپردیش میں اس کھیل کا جنون یہ ہے کہ لوگوں کو اس موقع پر یہ بھی یادنہیں رہتا کہ انہیں امتحان دینا ہے یاپھر نوکریوں کے لیے دوڑ دھوپ کرنی ہے۔ ان دونوں ریاستوں میں بچے سے لے کر بوڑھے تک کرکٹ کے خمار میں ڈوبے رہتے ہیں ،لیکن وہ یہ نہیں سوچ پاتے کہ آئی پی ایل کا فارمیٹ بنانے کے دوران بی سی سی آئی نے اترپردیش اور بہار کو کیوں نظر انداز کیا۔ اترپردیش اور بہار کی ٹیمیں آئی پی ایل میں کیوں نہیں ہیں۔جب کہ مہاراشٹرکی دو ٹیمیں ممبئی انڈینس اور رائزنگ پنے سپر جائینٹس موجود ہیں ۔اس کا جواز یہ دیا جا سکتا ہے کہ کوئی صنعت کار ان ریاستوں کی ٹیمیں نہیں بنانا چاہتا ،ہو سکتا ہے کہ یہ بات درست ہو ،لیکن بی سی سی آئی خود آگے بڑھ کر صنعت کاروں کو پابند نہیں کر سکتی کہ انہیں یو پی اور بہار کی ٹیمیں بنانی ہوں گی یا اگر وہ ان دنوں ریاستوں کی ٹیمیں بناتے ہیں تو بی سی سی آئی انہیں منظوری دے سکتی ہے۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ صنعت کار وں نے بھی بہار اور یوپی کی ٹیمیں بنانے میں دلچسپی نہیں لی ،اترپردیش میں سہارا شہر کھڑا کردینے والے سبرت رائے نے جب آئی پی ایل میں سرمایہ کاری کی تو انہوں نے پنے کی ٹیم خریدا ۔وہ چاہتے تو اتر پردیش کی ٹیم خرید سکتے تھے۔ اتر پردیش نے انہیں اتنی بڑی زمین معمولی رقم کی لیز پر دی ہے ، جہاں انہوں نے اپنا سامراج کھڑا کیا،لیکن جب یوپی کو کچھ دینے کی باری آئی تو انہوں نے پنے پر مہربانی کی۔ صرف اس لیے کہ ان کے نام اسٹیڈیم قائم کرنے کو منظوری ملی تھی،مگر یہ ایک چھوٹی سی بات ہے۔ اربوں کا مالک بی سی سی آئی اگر کوشش کرتا تو یو پی اور بہار کی ٹیم کھڑی کر سکتا تھا۔مگر ان دونوں ریاستوں کے ساتھ متعصبانہ رویے نے ان ریاستوں میں کرکٹ کھیلنے والوں کی آنکھوں سے خواب چھین لیا ہے۔ٹسٹ اور ون ڈے میں جگہ نہیں ملنے پر ہی ان دونوں ریاستوں کے کھلاڑی یوں ہی مایوس ہیں ،کم از کم آئی پی ایل میں وہ اپنی اہلیت کا جوہر دکھا سکتے تھے۔ کچھ تو صنعت کاروں کی بے حسی اور کچھ بی سی سی آئی کی کاہلی نے ان دونوں ریاستوں کو کرکٹ سے دور رکھنے کی سازش رچ دی ہے۔
بین الاقوامی کرکٹ میں کھلاڑیوں کی بات تو جانے دیجئے آئی پی ایل میں بھی بہار اور یوپی کی ٹیم کی تشکیل میں بی سی سی آئی کا متعصبانہ رویہ جگ ظاہر ہے۔نواں ایڈیشن چل رہا ہے ،مگر یو پی اور بہار کے کرکٹ مداح دوسری ریاستوں کی ٹیموں کو جتانے کے لیے سڑکوں اور دفتروں میں ٹی وی سے چپکے رہتے ہیں۔ آئی پی ایل بہار اور یوپی کے مداحوں کے لیے بیگانے کی شادی میں عبداللہ کے دیوانے ہونے جیسا ہے۔
زمانہ گزر رہا ہے ،کرکٹ کی تاریخ لمبی ہوتی جا رہی ہے ،لیکن یوپی اور بہار کے لیے کرکٹ میں اچھے دن نہیں آئے ہیں۔ بہت سارے ٹیلنٹ جیبی کرکٹ ٹورنامنٹ کھیلتے ہوئے ریٹائر ہوگئے۔قومی سطح پر اپنی شناخت بنانے کا خواب بہار اور یوپی کے نوجوان کرکٹ کھلاڑیوں کی آنکھوں میں دم توڑنے لگا ہے۔تاہم کبھی کبھی کسی کھلاڑی کو انٹر نیشنل کرکٹ میں جگہ دی گئی ،لیکن انہیں مستقل کرکٹ کھیلنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ محمد کیف ،آر پی سنگھ ،پیوش چاؤلہ ، محمد شامعی ،سریش رینا،امیش یادو،پروین کمار،منوج پربھاکر،اشیش زیدی،جیسے نام یو پی سے منسلک رہے ہیں، مگریہ حیرت کی بات ہے کہ محمد کیف ، آر پی سنگھ ،محمد شامعی ،منوج پربھاکر ،کچھ دنوں کے لیے یوپی رنجی ٹرافی سے منسلک رہے ،لیکن بعد میں یوپی کوٹا کے ساتھ بی سی سی آئی کے تعصب کی وجہ سے ان لوگوں نے اپنی اسٹیٹ چھوڑ کر دوسری ریاستوں سے کھیلنا شروع کر دیا۔جہاں یوپی رنجی ٹرافی کے کپتان رہ چکے محمد کیف آندھرا پردیش کرکٹ سے جڑے وہیں آر پی سنگھ گجرات کرکٹ ایسوسی ایشن سے منسلک ہوگئے۔ محمد شامعی بھی حیدر آباد سے جڑے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو یہ غم ستا رہا ہے کہ اگر یوپی میں ہی رہے تو ان کا کیرئر ختم ہو جائے گا۔ محمد کیف نے تاہم سوربھ گانگولی کی کپتانی میں کرکٹ کے جوہر دکھائیاور رینا دھونی کی کپتانی میں پھل پھول رہے ہیں ،لیکن یہ تعداد اونٹ کے منہ میں زیرہ جیسی ہے۔ ان لوگوں کو ٹیم میں رکھا ضرور گیا ،لیکن ہمیشہ انخلا کی تلواریں لٹکتی رہیں۔یو پی کرکٹ ایسو سی ایشن نے بھی کبھی بی سی سی آئی پر زور نہیں دیا کہ اتنے بڑی ریاست میں انٹرنیشنل سطح کا اسٹیڈیم بنایا جائے اور یہاں کے کھلاڑیوں کی صلاحیت کو ابھارنے کا موقع تلاش کیا جائے ۔ پھر بھی کچھ کھلاڑیوں نے بین الاقوامی کرکٹ میں اپنی پہچان بنائی،مگر اس میں ان کی اپنی صلاحیت کا عمل دخل زیادہ ہے۔ کرکٹ کے اداروں نے ان کی کوئی مدد نہیں کی۔
بہار کا معاملہ تو انتہائی تکلیف دہ ہے۔ بہار اور جھارکھنڈ کا بٹوارہ ہوا تو بی سی سی آئی نے جھارکھنڈ کرکٹ ایسو سی ایشن کو منظوری دے دی اور بہار کرکٹ ایسو سی ایشن کو تسلیم نہیں کیا۔ظاہر ہے کہ بی سی سی آئی کی داداگری اس کا بڑا سبب ہے۔
ریاست کی تقسیم کے بعد شروع میں سب کچھ ٹھیک تھا۔ لالو پرساد یادو کی پارٹی تب بہار میں اقتدار میں تھی اور اسے دیکھتے ہوئے لالو پرساد یادو کو بہار کرکٹ ایسوسی ایشن کا صدر بنایا گیا تھا۔ لالو یادو نے بطور صدر بی سی سی آئی کے اجلاس میں حصہ لیا اور بورڈ کے سلیکشن میں اپنا ووٹ بھی ڈالا تھا۔ تب بورڈ صدر کے لئے جگموہن ڈالمیا اور اے سی مرلی میں مقابلہ تھا۔ لالو نے مرلی کو ووٹ کیا تھا لیکن انتخابات ڈالمیا جیت گئے اور اسی کے بعد بہار کرکٹ پرگاج گر گئی۔ ڈالمیا نے ووٹ کا بدلہ بہار کرکٹ سے لیا۔ادھر بہار میں اب کرکٹ کھلاڑیوں کا صبرٹوٹنے لگا ہے۔سید صبا کریم، سبرت بنرجی، اویناش کمار، امیکر دیال، سنیل کمار اور ذیشان علی جیسے کھلاڑی بن کر قومی سطح پر اپنی شناخت بنانے کا خواب بہار کے نوجوان کرکٹ کھلاڑیوں کی آنکھوں میں دم توڑنے لگا ہے۔کچھ کرکٹروں نے اپنے دم پر یا کسی اور ریاست کا حصہ بن کر بین الاقوامی کرکٹ میں جگہ بنائی ،لیکن اس کا کیریئر محفوظ نہیں رہ سکا۔بہار میں کرکٹ کے مداح ضرور ٹی وی سے چپکے رہتے ہیں ،لیکن وہاں کے کھلاڑیوں کا کیرئر داؤ پر ہے۔انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔اب جبکہ بہار میں نتیش کمار اور لالو یادو کی سرکار ترقی کی بات کر رہی ہے تو اس ترقی میں انہیں اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ بہار میں کرکٹ کے اچھے دن لائیں۔سرمایہ کاری کی باتیں بھی ہو رہی ہیں۔کیا سرکار کسی ایسے سرمایہ کار کواس بات کے لیے راضی نہیں کر سکتی کہ آئی پی ایل کے لیے بہار ٹیم کی تشکیل کریں۔کیا کرکٹ کی دنیا میں یوپی اور بہار کی یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ اپنے حق کے لیے تحریک چلائیں۔(ملت ٹائمز)
(مضمون نگار معروف صحافی اور روزنامہ خبریں کے جوائنٹ ایڈیٹر ہیں)