ہندوستان کیوں بنتا جا رہا ہے ’لِنچستان‘؟

ڈاکٹر یامین انصاری
جب حکومت کے نمائندے ہی کھلے عام مجرموں اور قاتلوں کی پذیرائی کریں گے تو ہجومی تشدد کے واقعات کم نہیں ہوں گے ، بلکہ ان میں اضافہ ہی ہوگا

اقتدار کے حصول کی خاطرجب اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا جائے، انسانیت کو بھلا دیا جائے، ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کیا جانے لگے، حکومت کے نمائندے، مرکزی وزراءاور حکمراں طبقے کے بڑے بڑے لیڈر مجرمین کی کھلے عام پذیرائی کریں، انہیں اپنے گھر پر بلا کر پھولوں کے ہار سے استقبال کریں اور دوسری جانب مظلومین کو مخصوص فرقہ کا ہونے کے سبب بالکل نظر انداز کر دیا جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ اب انصاف دم توڑ نے لگا ہے، امیدیں ختم ہونے لگی ہیں۔ گزشتہ چار برسوں میں ملک ایسے ہی حالات سے گزر رہا ہے۔ بلکہ دن بدن حالات دگر گوں ہی ہوتے جا رہے ہیں۔ بظاہر تو موجودہ حکومت ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ لگا کر یہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ سماج کے ہر طبقہ کے مفاد کے لئے کام کر رہی ہے، لیکن حقیقت میں تصویر اس کے بر عکس نظر آتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کیوں مودی کے کابینی رفقایکے بعد دیگرے مجرموں کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں؟ کیوں وہ بار بار ایک طبقہ کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ شر پسندی میں جس حد تک بھی گزر جائیں، کوئی ان کا بال بھی بانکا نہیں کر سکے گا؟کیوں وہ بار بارقانون اور انصاف کا مذاق اڑاتے ہیں؟ اورسب سے بڑھ کر یہ کہ ملک و بیرون ملک میں معمولی معمولی واقعات پر ٹوئیٹ کرنے والے وزیر اعظم مودی ایسے واقعات پر خاموشی اختیار کر جاتے ہیں؟ ایسے میں سوالات تو پیدا ہوں گے اور عام ہندوستانی کے ذہن میں اٹھنے والے اس طرح کے اور بھی سوالات کے جوابات آخر کون دے گا؟
موجودہ حکومت میںسب سے پڑھے لکھ سمجھے جانے والے مرکزی وزیر جینت سنہا کے ذریعہ جھارکھنڈ میں ضمانت پر رہا ہونے والے ہجومی تشدد کے مجرموں کو اپنے گھر بلا کران کا والہانہ استقبال کرنے کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے اس سلسلہ میں سخت تبصرہ کیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات کے لئے کوئی بھی دلیل قبول نہیں کی جا سکتی۔ بھیڑ کا ارادہ کچھ بھی ہو، وجہ کوئی بھی ہو، بھیڑ کے ذریعہ کسی کی جان لینا ایک سنگین جرم ہے اور اسے ہر حال میں روکا جانا چاہئے۔ ویسے سپریم کورٹ پہلے بھی اس طرح کے تبصرے کر چکا ہے۔ در اصل سپریم کورٹ کو یہ تبصرہ اس لئے کرنا پڑا کیوں کہ نظم و نسق کے لئے جواب دہ ریاستی حکومتوں کا رویہ مایوس کن اور افسوس ناک رہا ہے۔ ریاستی حکومتوں کو کم از سپریم کورٹ کے تبصرہ کا خیال کرتے ہوئے ہی اس سلسلہ میں سخت رخ اختیار کرنا چاہئے تھا، اس سے پہلے کہ حالات مزید بے قابو ہو جائیں۔ گزشتہ برس بھی گو ¿ رکشا کے نام پر ہو رہی غنڈہ گردی پر لگام لگانے کے لئے عدالت عظمیٰ نے کہا تھا کہ ایک ہفتہ کے اندر ہر ضلع میں ایک سینئر پولیس افسر کو نوڈل افسر کی شکل میں تعینات کیا جائے۔ لیکن اطلاعات کے مطابق کئی ریاستی حکومتوں نے اس سلسلہ میں کوئی قدم نہیں اٹھایا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت بھلے ہی کتنا ہی سخت رخ اختیار کرے، لیکن حکومتوں اور ان کے نمائندوں نے اخلاقیات اور انسانیت کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ حالانکہ حال ہی میں مرکزی حکومت نیند سے بیدار ہوئی، مرکزی وزارت داخلہ نے ریاستی حکومتوں سے کہا کہ ہجومی تشدد کے تشدد کے بڑھتے واقعات پر روک لگائیں۔ ضلع انتظامیہ کو ہدایت دیں کہ اس طرح کے ممکنہ علاقوں کو نشان زد کریں، لوگوں میں بیداری پیدا کریں،سوشل میڈیا خاص طور پر وہاٹس ایپ پر پھیلائے جا رہے اشتعال انگیز اور نفرت آمیز پیغامات پر نگرانی رکھیں۔ حالانکہ اس دوران شاید حکومت بھول گئی کہ اس کے نمائندے ہی سپریم کورٹ اور وزارت داخلہ کو آئینہ دکھا رہے ہیں، اس کی ہدایات کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اس کی تازہ مثال جینت سنہا اور گری راج سنگھ کے ذریعہ مجرموں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ وزارت داخلہ کی ہدایت کے دو روز بعد ہی مرکزی وزیر جینت سنہانے جھارکھنڈ کے رام گڑھ ہجومی تشدد کے مجرموں کو پھولوں کا ہار پہنا کر انھیں گلے لگا یا، اور کہاکہ عدالت نے اپنا کام کیا ہے، وہ عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے ان لوگوں سے ملے۔ تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آئین پر ہاتھ رکھ کر حلف لینے والے جینت سنہا عوامی نمائندے کی حیثیت سے مجرموں سے مل سکتے ہیں، لیکن آج تک انھوں نے مقتول علیم الدین انصاری کی بیوہ اور اس کے بچوں سے ہمدردی کے دو لفظ بھی بولے؟ علیم الدین انصاری کو گزشتہ برس محض بیف لے جانے کی افواہ پر ہی بھیڑ کے ذریعہ پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح دوسرے مرکزی وزیر گری راج سنگھ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر نفرت کی سیاست کرتے نظر آئے۔ انھوں نے بہار کے نوادہ ضلع میں فرقہ وارانہ فسادات کے قصورواروں سے نہ صرف ملاقات کی، بلکہ ان کے گھر جا کر آنسو بھی بہائے۔ در اصل یہ سب بڑی حکمت عملی کے ساتھ اور جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔ کیوں کہ یہ سلسلہ داداری میں اخلاق کے بے رحمانہ قتل کے بعد سے شروع ہوا اور آج بھی جاری ہے۔ ابھی لوگوں کے ذہن میں وہ سب تازہ ہے جب اخلاق کے قاتلوں کے ساتھ بی جے پی کے لیڈر میٹنگیں کر رہے تھے، ان کی حمایت میں بیان بازی کر رہے تھے۔ انہی قاتلوں میں سے ایک مجرم کی جب جیل میں بیماری کے سبب موت ہو گئی تو مرکزی وزیر ڈاکٹر مہیش گپتا بذات خود وہاں پہنچے اور اس کی لاش کو ترنگے میں لپیٹ کر باقاعدہ اعزاز دیا گیا۔ اس کے بعد ہریانہ میں یکے بعد دیگرے گو ¿ رکشا کے نام پر قتل کے کئی واقعات سامنے آئے۔ قتل کے فوراً بعد ریاستی وزرا اور بی جے پی کے مقامی لیڈران نے ایسے بیانات دئے کہ نہ صرف مجرموں کی حوصلہ افزائی کی، بلکہ ان کے دفاع میں کھل کر سامنے بھی آئے۔ جہاں قانو ن نے اپنا نام بھی کیا، وہاں اتنی کزور پیروی کی گئی کہ مجرمین بہت آرام سے بری ہو گئے۔ اسی طرح راجستھان کے راجسمند میں ایک حیوان نما انسان نے ایک غریب بنگالی مزدور کا صرف اس لئے قتل کر دیا کہ وہ مسلمان تھا، تو اس کی حوصلہ افزائی اور رہائی کے لئے عدالت تک کا محاصرہ کر لیا گیا۔ عدالت کے اوپر قومی پرچم کی جگہ بھگوا پرچم لہرا دیا گیا۔ اس معاملے میں کتنے لوگوں کو قانون کے مطابق سزا ملی، نہیں معلوم۔ بلکہ اس کے بر عکس مجرم شمبھو ناتھ سنگھ کے اہل خانہ کے لئے باقاعدہ چندہ کیا گیا اور ایک مذہبی جلوس کے دوران اس کی پذیرائی کے لئے اس کے نام سے جھانکی نکالی گئی۔ یہاں بھی قانون کا مذاق اڑانے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوا، نہیں معلوم۔ جموں و کشمیر کے کٹھوعہ میں ایک معصوم بچی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا گیا اور ہفتہ بھر تک اس کو اذیتیں دینے کے بعد بے رحمی سے اس کو قتل کر دیا گیا۔ قصوروار پکڑے گئے اور جب مجرمین کے خلاف قانون کا گھیرا تنگ ہوا تو یہاں بھی سب نے دیکھا کہ بی جے پی کے لیڈران اور ریاستی وزیر تک مجرمین کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔ پولیس اور وکلا کا راستہ روک لیا گیا۔غرض یہ کہ یہ ایک لمبا سلسلہ ہے جو بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
اگر اب بھی اس مسئلہ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیااور محض اقتدار کی خاطر ملک کے امن و امان اور دیرینہ روایات کو پامال کیا جاتارہا تو یقیناً ملک انارکی کی طرف بڑھ جائے گا اور حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ کیوں کہ ملک میں ہجومی تشدد کے واقعات کا دائرہ جتنی تیزی سے بڑھا ہے، اتنی ہی تیزی سے ہجومی تشدد کی شکل بھی بدلی ہے۔ کبھی مذہب کی بنیاد پر، کبھی فرقہ کی بنیاد پر، کبھی مبینہ لو جہاد کے نام پر اور کہیں محض افواہ کی بنیاد پر راہ چلتے لوگوں کو نشانہ بنایا جانا عام بات ہو گئی ہے۔ شروع میں یہ بھیڑ خاص مقصد اور خاص فکر کے ساتھ وارداتوں کو انجام دیتی تھی، لیکن یہی بھیڑ اب اتنی بے قابو ہو چکی ہے کہ جو طبقہ اس کی خاموش تائید کرتا نظر آتا تھا، ممکن ہے آنے والے دنوں میں وہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایات اورسخت تبصروں کے باوجود گزشتہ دو ماہ کے دوران ہجومی تشدد کے تقریباً ڈیڑھ درجن واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں ۷۲ افراد کی جان جا چکی ہے۔ لہذا ایسے حالات میں کیسے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ بے قابو ہوتی جا رہی بھیڑ کو آئندہ بھی کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔
(مضمون نگار تجزیہ نگارو رزنامہ انقلاب کے ریزڈینٹ ایڈیٹر ہیں)