محمد اللہ قیصرقاسمی
ٹی وی ڈبیٹ کے دوران مفتی اعجاز ارشد صاحب کے ساتھ ہوئی بدتمیزی سے شروع ہونے والا قضیہ سنگین ہوتا جارہا ہے، بالخصوص سوشل میڈیا پر مختلف جہت سے گرما گرم بحث ہو رہی ہے، اس دوران لوگ مفتی اعجاز ارشد صاحب کی شخصیت اور ان کے ماضی کو بھی موضوعِ بحث بنارہے ہیں، ان کی علمی لیاقت پر سطحی قسم کے کمینٹس کئے جارہے ہیں، ان میں مخالف موافق دونوں طرح کے لوگ ہیں، مخالفت عموما اندھی ہوتی ہے، فرشتہ کو شیطان ثابت کرنا بچوں جیسا کھیل ہوجاتا ہے، یہاں بھی کچھ لوگ ایسا کرنے میں لگے ہیں، ایسے میں مناسب ہے کہ ان کی زندگی کی چند جھلکیاں سامنے لائی جائیں۔
مفتی اعجاز ارشد صاحب کا آبائی وطن صوبہ بہار کے مدھوبنی ضلع میں واقع ایک مردم خیز بستی چندرسین پور ہے، گاؤں میں ایک قدیم زمانے سے دینی تعلیم کا عمومی ماحول تھا، اس لئے یہ بستی ہمیشہ اہل علم کا مسکن اور مشاہیر علما کی بستی رہی ہے، ولی کامل مولانا بشارت کریم گڑھولوی رحمہ اللہ کے خلیفہ مجاز مولانا حفیظ الرحمن، مولانا سعید الرحمن، مولانا عتیق الرحمن مولانا امیر حسن رحمہم اللہ اور دور حاضر کے مشہور عالم دین مولانا زبیراحمد قاسمی کا تعلق اسی گاؤں سے ہے۔
مفتی اعجاز ارشد بچپن سے انتہائی ذہین و فطین تھے، یہ دیکھ کر والدین نے نو عمری میں ہی مدرسہ بشارت العلوم دربھنگہ میں داخل کردیا، جہاں بہت جلد اپنی ذہانت اور حصول علم کے ذوق و شوق کی بنا پر اساتذہ کے منظور نظر بن گئے، ہر درجہ میں اعلی نمبرات حاصل کرتے ہوئے کامیابی کے زینے طے کرتے رہے، ابتدائی عمر سے ہی لکھنے پڑھنے کے شوق نے گویا فطرت کی شکل اختیار کرلی، بنا بریں اپنے مخلص اساتذہ کے مشورے سے مدرسہ میں پہلی مرتبہ دیواری پرچہ نکالنے کا آغاز کیا، اپنے درجہ میں تمام ساتھیوں میں سب سے کم عمر؛ لیکن تعلیم میں سب پر فائق تھے، عربی پنجم تک بشارت العلوم میں رہے، پھر آنکھوں میں دارالعلوم دیوبند میں داخلے کا سپنا سجائے دیوبند کا رخ کیا، پہلی کوشش میں کامیابی ملی، یہاں بھی مفتی صاحب بہت کم عرصے میں کبار اساتذہ کی نظر اپنی جانب مبذول کرنے میں کامیاب ہو گئے، خوب سے خوب تر کی تلاش کے جذبے سے سرشار ایک نوجوان مدرسہ کے روایتی ماحول میں اپنے جیسے ہزاروں نوجوانوں کے بیچ پلتا بڑھتا رہا؛ لیکن ماہر غواص اساتذہ کی نظر اس در نایاب پر پڑی تو اس کی خوابیدہ صلاحتیں کسی سے پوشیدہ نہ رہ سکیں، جوہری کی نظر وں نے اس میں موجود تابناکی کی مخفی صلاحیت کو بھانپ لیا، اساتذہ نے ہر ممکن رہنمائی کی، ماہر سنگ تراش اس کی مناسب تراش خراش میں جٹے رہے 1996 – 97 میں دورۂ حدیث سے فراغت کے بعداپنے اندر موجود حصول علم کے جذبۂ فراواں کی تسکین کیلئے دارالافتا میں داخلہ لیا، پھر اپنی صحافتی تشنگی بجھانے کیلئے اور روایت سے ہٹ کر اپنے اندر موجود نئی اور تعمیری سوچ کو تجربہ کار اور ماہر رجال ساز کے ہاتھوں کندن بنانے کیلئے وہ ” شیخ الہند اکیڈمی “ میں داخل ہوئے، جہاں مولانا کفیل احمد علوی رحمہ اللہ کی تربیت نے ان کے قلم کو چار چاند لگا دیا، مولانا نے اس نوخیز گلاب کے پودے کو سجایا، سنوارا جس کی عطر بیز کلیاں مستقبل قریب میں گلشن کو لالہ زار اور ماحول کو معطر کرنے کیلئے بے قرار تھیں، سیپ سے نکلے ہوئے اس موتی کو در آبدار بنایا، جو عنقریب صحافت کی دنیا میں اپنی موجودگی سے روشنی بکھیرنے کو مچل رہا تھا، ابھی طالب علمی کا دور تھا کہ صحافت کے میدان میں ان کی شہرت دارالعلوم کی چہار دیواری سے نکل کر علم و فن کے قدردان، دانشوران، میدان صحافت کے شہسواروں اور مردم شناس، نباض اور تجرکار اہل علم کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگی، گویا میدان عمل میں آنے سے قبل ہی ان کی شہرت علم و فن کے میکدوں کے دروبام کا طواف کر رہی تھی، یہی وہ زمانہ تھا، جب ان کے فکر اخاذ اور زور دار و آبدار قلم سے میدان صحافت کے شہسواروں کی آنکھوں کو خیرہ کردینے والی کتاب ” من شاہ جہانم “ منظر عام پر آئی، فارغین مدارس پر الزام تھا کہ وہ صحافت کے گلیاروں سے گریز کرتے ہیں؛ بلکہ بھاگتے ہیں، یہ کتاب اردو میں فن صحافت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے والی ایسی کتاب تھی، جو صاحب کتاب کی خوب تر کی متلاشی فطرت کی عکاس تھی، جس کا ملک کے چوٹی کے صحافی اور اہل قلم حضرات نے دل کھول کے اعتراف کیا، ساتھ ہی نوعمر صاحبِ کتاب کے ذہنِ رسا کو بھی خوب داد و تحسین سے نوازا، پھر دنیا میں جب دہشت کا بھوت دکھا کر اسلام کو بدنام کرنے کی سازش رچی گئی اور اس کی آڑ میں مسلم ممالک کو تاراج کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، تو اس بین الاقوامی سازش اور شیطانی جال کی لپیٹ سے ہندستانی مسلمان کیسے محفوظ رہ سکتے تھے؛ چنانچہ ہوا بھی یہی کہ تقسیمِ ہند کے بعد ایک بار پھر امن و آشتی کے گہوارہ ہندستان میں مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے مقصد سے دہشت گردی کا ” بھوت “ مغربی دنیا سے درآمد کیا گیا، ابتدائی ایام تھے، ہر کوئی اسلام اور مسلمانوں کی سنگدلی کی کہانیاں بیچ رہا تھا ، اخبارات و رسائل اس شد و مد کے ساتھ اسلامی تعلیمات پر حملہ آور تھے کے مسلم لیڈران،علما و دانشورانِ قوم حواس باختہ ہوکر دفاعی پوزیشن میں آگئے تھے، اہل قلم کے ہاتھ اور خطیب کی زبان پر اس شدت سے لرزہ طاری تھا کہ دفاع کرتے کرتے مسلماتِ دین کا انکار روز مرہ کا واقعہ بن گیا، کوئی سرے سے جہاد کا انکار کر رہا تھا، کوئی الٹی سیدھی تاویل کرکے اہل وطن کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہا تھا، دہشت گردی کی مذمت اس انداز میں کی جارہی تھی گویا اس کے مرتکبین مسلمانوں کے علاوہ کوئی اور نہیں اور اس کا منبع اسلامی تعلیمات ہیں ،جس پر وہ شرمندہ ہیں اور ان تعلیمات میں تبدیلی یا ان کی ” تجدید “ وقت کی شدید ترین ضرورت ہے، ان کا دفاع اسلام اور مسلمانوں سے دہشت گردی کا داغ دھونے کی بجائے پورے عالمِ اسلام کو کٹہرے میں کھڑا کر رہا تھا، بہت چنندہ لوگ تھے ، جو پوری قوت، بھرپور اعتماد اور ایمان کامل سے لبریز ہوکر اسلام کے صحیح موقف کو اسی صورت میں پیش کر رہے تھے ، جیسا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا، اس موقع پر پھر ایک پچیس سالہ نوجوان قلم اٹھاتا ہے، عنوان ہے ” جہاد اور دہشت گردی “ کتاب مکمل ہوتی ہے، دارالعلوم کے کبار اساتذہ ایک ایک حرف پر تنقیدی نگاہ ڈالتے ہیں، ہر پہلو سے جائزہ لیتے ہیں، خدشہ ہے کہ کہیں نوجوان نے جذبات کی رو میں بہہ کر کوئی ایسی بات نہ لکھ دی ہو، جو اسلام کے منافی ہو یا ایسا انداز نہ اختیار کیا ہو، جس سے غیروں کو اسلامی تعلیمات پر چھینٹا کشی کا مزید موقع مل جائے؛ لیکن آخری حرف تک پہنچتے پہنچتے ہر کسی کی زبان اس نوجوان کیلئے دعائیہ کلمات سے لبریز ہوگئی، اساتذہ اپنے ہونہار شاگرد کیلئے داد و تحسین کے وہ کلمات استعمال کرتے ہیں ، جو علم کی دنیا میں بہت کم شاگردوں کو نصیب ہوئے۔
مفتی اعجاز ارشد صاحب کو انہی گوناگوں خوبیوں کی بنا پر دارالعلوم میں شعبۂ انٹرنیٹ کی پوری ذمے داری دے کر میڈیا سیل کا انجارچ بنایا گیا، طالب علمی کے دور میں ہی ملی مسائل پر غور کرتے، خدشات و توقعات کا جائزہ لیتے، مسائل کو نظر انداز کرکے مواقع کے بہتر سے بہتر استعمال کے طریقوں پر غور کرتے، ملی اور اجتماعی امور انجام دینے کیلئے طلبہ کا ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچہ تیار کرنے کے امکانات پر غور کرتے رہے؛ چناں چہ اپنی بے چین طبیعت کے تقاضے پر ابتداءً اپنے ضلع مدھوبنی کے طلبہ کو لیکر ” اسٹوڈنٹس اسلامک فیڈریشن “ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی، جس میں مدارس کے علاوہ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ بھی شامل تھے، بہت کم عرصے میں نئے اور تعمیری و انقلابی کاموں کی وجہ سے تنظیم کی شہرت مدھوبنی کے گوشے گوشے میں پھیل گئی، دارالعلوم میں موجود صوبۂ بہار کے تمام طلبہ کو لیکر پہلی مرتبہ دارالعلوم سے باہر مدھوبنی میں ” آل بہار مسابقہ تحریر و تقریر “ کا انعقاد کیا۔ ایک عرصے تک دارالعلوم میں خدمت انجام دینے کے بعد انہوں نے دہلی کو اپنا مستقر بنایا، یہیں ان کے ہاتھوں آن لائن فتوی سینٹر کا قیام عمل میں آیا، دہلی وقف بورڈ کے ممبر منتخب ہوئے اور تاحال اس عہدے پر ہیں، دینی و ملی مسائل میں مفتی صاحب کے فعال کردار کو دیکھتے ہوئے انہیں مسلم پرسنل لا کا ممبر منتخب کیا گیا، ان کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ حالات چاہے جتنے سنگین ہوں، مخالفت چاہے جتنی تیز و تند آندھی کی شکل اختیار کرلے، اپنے ایمان و اعتقاد، اقدار و روایات اور ملی مسائل پر مسلمانوں کے عمومی موقف کی تشریح و توضیح میں کبھی لاگ لپیٹ اور ایسی بے جا تاویل سے کام نہیں لیتے، جس سے فائدہ کم اور نقصان کا خطرہ دوبالا ہوجائے، ایسے مواقع پر کبھی بھی مصلحت کی چادر تان کر ایسا ڈھل مل رویہ نہیں اپناتے ، جس میں ملی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر مخالف کی خوشنودی کو اولیت دی جائے، اگرچہ ان کے اس رویے نے ان کے بے شمار دشمن کھڑے کر دیئے اور ابتک انہیں غیر تو غیر ، اپنوں کی جانب سے نہ جانے کتنے نقصانات اٹھانے پڑے ہیں۔
ہاں اس میں بھی شک نہیں کہ وہ ایک انسان ہیں، ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئی ہیں، ان کے استعجالی فیصلوں نے کئی مرتبہ انھیں شدید نقصان پہنچایا ہے، حالیہ قضیے میں بھی غور کریں، تو یہی ہوا ہے۔
اس مشکل گھڑی میں پوری ملت مفتی اعجاز ارشد صاحب کے ساتھ ہے ہم انہیں یہی کہیں گے کہ ؎
تندی باد مخالف سے نہ گھبرائیے اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے