درختوں والی گلیدرختوں والی گلی

رابعہ الرَبّاء
’’ و ہ کسی کی ماں تھی نا اس کی کو ئی اولاد تھی۔ مگر دوختو ں والی گلی میں اس کی ما متا کے قصّو ں سے پھو ل کھلے ہو ئے ہیں ۔،،
’’مجھے ما ما کے پا س جا نا ہے،،وہ چار سال کا بچہ دلہن کو د یکھ کے رو رہا تھا ،بس یہی جملہ دہر ائے جا ر ہا تھا۔ وہ دلہن بن کے بہت حسین لگ رہی تھی اگر چہ حسن اس خا ندان کی میراث تھا مگر اس جیسے حسن میں کہ جس میں حسنِ اخلاص کے مو تی جڑے ہو ئے تھے، عاجزی کے سنہری
دھاگو ں سے پر ویا گیا تھا، سلیقہ جس کو بڑ ھاتا تھا اور پو ر پو ر مامتا کی مٹھا س تھی۔
شاید تبھی تو عدنا ن رو ر ہا تھا’’ مجھے ماما کے پا س جا نا ہے،، اور اس کی ما ما کو تو آج اپنے پیا کے گھر چلے جا نا ہے۔ اپنی مہک سے اب اس آنگن کو مہکانا ہے۔ مہک اس کی فطر ت کا حصہ جو ٹھہری۔۔۔
عدنا ن کو روتا چھو ڑ کر وہ اپنے با رہ بھا ئیو ں کی د عاؤں میں اپنے پیا کے ساتھ ر خصت ہو گئی ۔کہ آخر ہر لڑ کی کو یہی کر نا ہو تا ہے۔مامتا اس کی فطر ت کا ایسا حصہ تھی کہ بہت کم وقت میں اس نے اپنے شو ہر کو اپنی آغوش میں بھر لیا۔عدنا ن اسے بہت یا د آتا تھا ۔ مگر اب تو وہ خو د کسی کو اپنے جسم میں پا ل ر ہی تھی۔کہ اچانک اک روز اک درد اٹھا اور اس کے جسم کا اک ننھا سا
بچہ اس سے الگ ہو گیا ۔ درد در درد لیے وہ ہسپتا ل سے گھر آئی ۔ اس کا پیا بھی دکھی تھا ۔مگر اس نے ہمت کی اور ہمت دی کہ’’ کو ئی با ت نہیں اللہ کی یہی مر ضی تھی۔فطر ت کے سامنے سجد ہ ہی سجتا ہے،،لیکن ہو ا پھر یہ کہ یہ سجد ہ اسے اتنا پسند آیا کہ شادی کے مسلسل آٹھ سا ل اسے یہ سجد ہ کر ناپڑا۔اور اس کے بعد وقت نے اللہ کے حوالے کر دیا۔ اسی دوران اس کے جیٹھ اور دیور کو خا ندانی جا ئیداد کے چکر میں قتل کر دیا گیا۔’’دیہا توں کی زند گی دور سے جتنی حسین لگتی ہے۔پاس جاؤ تو معلو م ہو تا ہے ، زمین خو ن پی کر پلتی ہے۔کھیتو ں کی لہلہلاتیں خو ن سے سیراب ہو تی ہے۔توانسان کا پیٹ بھر تا ہے۔ زمین کی کو کھ میں چند خو ن کے قطرے ملیں تو ہی جا ن و روح سے سر فراز ہو تی ہے،،یہ سب بھی اسے شادی کے بعد ہی علم ہو ا کیو نکہ وہ بیا ہ کر زمین کی گو د میں جو چلی گئی تھی۔
وہ اپنے جیٹھ اور دیور کے بڑے بیٹوں کو اپنے پا س شہر لے آئی۔درختو ں والی گلی میں جہا ں کے ہر درخت نے شاید اس کا دودھ پیا تھا ۔ آٹھ بچے تو ر خصت ہو گئے مگر دودھ اتنا ہو تا کہ وہ کٹو ڑے بھر بھر درختو ں کی جڑوں میں ڈال دیتی۔
وہ دیور اور جیٹھ کے بچوں کو اپنی اولا د کی طر ح پا ل رہی تھی۔ پڑ ھا ر ہی تھی ۔ کہ نند کا بیٹا بھی گھر چھو ڑ کر اس کے پا س پڑ ھنے آ گیا ۔ وہ بھی پڑ ھنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنی نند کی اجا زت سے اسے بھی سینے سے لگا لیا ۔ وہ زند گی کے چکر میں ایسی مصروف ہو ئی کہ خود د فر امو شی کر نے لگی
مگر تھکی نہیں۔ زندہ ہو گئی۔
زندگی اپنے محو ر کے گر د گھو م ر ہی تھی کہ زیست کے تا لاب میں اک اور کنکر گرا۔اس کے سب سے بڑے بھا ئی کی اکلو تی بیٹی بیما ر ہو گئی۔بہت علا ج ہو ا مگر کو ئی افا قہ کہییں سے نہیں ہو رہا تھا۔وہ اکثر سوچتی یہ ڈبے کے دودھ کی پلی نسل محبتو ں کی خشک کو کھ کی ما نند ہے ۔ وہاں سے بھی اپنے پا س لے آئی۔ اس سارے میں اتنے بر س گز ر گئے کہ پتا ہی نہیں چلا ۔کہ بڑے بچے نو کر یو ں پہ بھی لگ گئے۔نند کے بیٹے کا ویزا بھی لگ گیا اور وہ با ہر چلا گیا ۔
عدنا ن نے بھی اب اپنا کا روبا ر شر و ع کر لیا تھا ۔ وہ شہر کا ایک کا میا ب بز نس بن گیا تھا ۔ چیمبر آف کا مر س کا ایک کامیاب ر کن۔ وہ بھی کبھی کبھی آتا ۔ اس سے لپٹ کر خو ب پیا ر کر تا۔ اسے آج بھی اس پر انی دلہن سے خو شبو آتی تھی۔محبت کی خو شبو، جس کو محسو س تو کیا جا سکتا ہے ۔ بیا ن نہیں کیا جا سکتا۔پھر عد نا ن نے اک روز شادی کر لی ،اسے بلا یا بھی نہیں ۔ وہ بہت د کھی ہو ئی ۔ نیٹ پر ۔ فیس بک پر اپنی بہو کو تلا ش کر تی ر ہی۔ وہ اپنی بہو کو اک با ر دور سے ہی د یکھ کر ، دور سے ہی پیا ر کر نا چاہتی تھی۔ اک محبت کی آگ سی تھی جو اس میں لگی ہو ئی تھی۔جو بس عا جزی کے خا مو ش رویو ں میں نظر آتی تھی۔
یہ گلی کیا تھی ، بس مشہو ر ہو گئی تھی۔ ایک بہت کشادہ سڑک سی تھی۔ بس جو شاہر اہ عا م نہیں تھی۔ جہا ں کو ئی سات آٹھ بڑے بڑے کشادہ گھر تھے۔ گھر تھے مکا ن نہیں ۔ گلی کے دونوں سر وں ہی سکیورٹی گیٹ لگے ہو ئے تھے ۔ جن پہ پہر ے دار بیٹھے ہو تے۔ گلی کا کو ئی بچہ بیما ر پڑ جا تا ۔ تو اس کے لیے وہ فکر مند ہو جا تی ۔ با دامو ں کا حلوہ، یخنی، سوپ ، ملٹھی کا شر بت ، غر ض جو بنا سکتی بنا کر لے جا تی۔یو ں اس نے محبت کے بیج بو د یے تھے جو پر وان چڑ ھتے رہے ۔
گلی بھر میں،چھت پر اور لا ن میں پر ندوں کے دانے پا نی کے بر تن رکھتیں ۔ خو د صاف کر تیں۔ان کے دانے کا خیا ل رکھتیں۔ایک بھکارن ہر جمعرات کو ما نگنے آتی۔ اس کی بیٹی اس کے ساتھ ہو تی۔مگر وہ مانگتی نہیں تھی۔کہتی’’با جی بس ہم کو بسکٹ ، کیک، پیزا،جو توں کے خا لی ڈبے اور کا غذ دے دیاکر و۔ وہ ہفتہ بھر اس کے لیے یہ سب جمع کر تی ر ہتی۔کا غذچننے والے دو بچوں کو دوپہر کا کھا نا کھلاتیں۔مگر ان سے کہتی کے لان میں گرے سوکھے پتے اٹھا دو۔ تا کہ وہ کا م چور نا بن جائیں۔ملازمو ں کے بچوں کے کھانے کا خا ص خیال ر کھتی۔
اس کی بھتیجی اس کے پا س کئی ماہ رہی ۔ ٹھیک ہو گئی ۔ اب یہ گھر اس کو اپنا لگنے لگاَ ۔ مگر اس کو جا نا تھا ۔ زند گی اس کو آ واز دے رہی تھی۔ وہ سب آنکھو ں کو روتا چھو ڑ کر اپنی نم آنکھیں چڑ اتے چلی گئی۔
اسی دورا ن اس کی ایک دور پا ٹ کی بھا نجی کی اس شہر نوکر ی لگ گئی۔وہ اسے بھی اپنے پا س لے آئی ۔کہ نا بھئی ،ما نا کہ ز ما نہ بد ل گیا ، پر نہیں ہم نہیں بدلے ہما ری روایا ت میں ہما ری ز ند گی تک دم ر ہے گا، میرا اتنا بڑا گھر خا لی پڑا ہے۔ ایک کمر ے میں وہ رہ بھی لے گی تو کیا فر ق پڑ تا ہے۔ ڈاکٹر ہے صبح چلی جا ئے گی رات کو دو با تیں خا لہ سے کر لیا کر ے گی تو خا لہ کا بھی دل لگ جا ئے گا۔
جیٹھ اور دیور کے بیٹو ں کی شا دیا ں ہو گئیں ۔ان کے بچے اسے دا دی کہتے تو اس کا دل بہا روں کی طر ح مہک اٹھتا۔ وہ ان کے لیے طر ح طرح کی شاپنگ کر تی گھنٹو ں با زاوں میں پھر تی۔
بھا نجی کا دل یہا ں لگ گیا ۔ شر وع میں وہ حیر ان ہو تی کہ اس درختو ں والی گلی میں ز ند گی اتنی ٹھہر ی ہو ئی اور پر سکو ن کیسے ہے۔ پھر وہ سوالو ں سے بے نیا ز ہو کر اس کو انجوائے کر نے لگی تو گر ھیں جیسے خو د بخو د کھلنے لگیں۔اس نے دیکھا خا لہ اپنے شوہر کا خیا ل اپنے بچو ں کی طر ح ر کھتی ہیں۔
تب اسے کا لج کے وہ دن یا د آ جا تے جب وہ کا لج کے ر سا لے کی ا یڈیٹر تھی اور ایک کہا نی پہ وہ اور کو ایڈیٹر کی خو ب بحث رہی کہ کہا نی میں لکھا تھا ۔ ’’ عورت کا بس ایک ہی روپ ہو تا ہے اور وہ ما ں کا ہے۔کامیاب عورت ہر ر شتے کو ما ں بن کا نبھا تی ہے اور جیت جا تی ہے،یہ فتح نظر نہیں آتی بلکہ مہکتی ہے،،
اب اسے خالہ کو د یکھ کے محسوس ہو اکہ مہک کیا ہو تی ہے۔ خالو ایک اعلی سر کاری عہد ے سے ر یٹا ئیرڈ تھے۔پینشن پہ گھر چلتا تھا مگر گھر میں جیسے بر کتو ں کے پھل لگے ہو ئے تھے۔ گھر کا دروازہ دربا روں کی طر ح ہر کسی پہ یکسا ں کھلا ہو ا تھا ۔
وہ ڈاکٹر تھی مگر عورت کی زندگی کا جو ہر خالہ سے سیکھ ر ہی تھی۔
ایک روز پو چھنے لگی۔’’ خالہ جب آپ بیا ہ کر یہا ں آئیں تو کیا یہ گلی یو نہی ہر ی بھر ی تھی، تب بھی اسے درختو ں والی گلی کہتے تھے،،
’’ ہا ں بٹیا ، یہ گھر اللہ بخشے میرے سسر کے ابّا نے بنو ایا تھا ۔جب وہ اورپھر ان کے بعد میر ے سسر جب بھی شہر آتے تو یہی ٹھہرتے تھے، ان کے سر کاری اور غیر سر کاری مہما نو ں کے ٹھہرنے کا بندو بست بھی یہی ہو تا تھا۔ جب میں آئی یہا ں درخت تھے ،یو نہی بہت تھے۔ مگر اتنے گھنے اور اونچے نہیں تھے۔۔۔،،
ان کے لہجے میں جیسے صدیو ں کی یا دوں کا بو جھ تھا۔جسے وہ کسی کے حوالے کر نا چاہ ر ہی تھیں۔
’’اب یہ پیڑ بن چکے ہیں ۔ میرے آٹھو ں بچو ں کا دودھ پیا ہے اِ نہو ں نے۔۔۔،،
ان کی آواز بھڑا گئی
’’میر ے گھر نجانے کتنے بچے آئے ، میں نے نہیں معلو م کس کس کو پا لا ۔ میں نجا نے کتنے بچو ں کی ما ں ہو ں ، مجھے اب یا د بھی نہیں۔۔۔اب تو بچو ں کے بچے بھی ہو گئے ہیں۔۔۔میں دادی ۔۔۔ نا نی بن گئی ہو ں۔۔۔،،
وہ حیر ت سے بو لی’’ خا لہ آپ تھکی نہیں؟آپ نے کبھی گلہ بھی نہیں کیا کسی سے؟،،
خالہ نے مسکرا تے ہو ئے اطمئنا ن سے اپنا جو گیا دوپٹہ سر پہ ٹھیک کر تے ہو ئے کہا ’’بٹیا عورت تھک جا تی ہے ما ں کبھی نہیں تھکتی۔۔۔وہ تو ایک کے بعد ایک نسل پروان چڑ ھا رہی ہو تی ہے۔۔،،
اچانک اسے چکر آ نے لگے ۔اور اس کا چہر ہ سر خ ہو گیا۔ڈا کٹر نے اسے پا نی پلا یا ۔ مگر طبعت نا سنبھلی۔ اس کا بلڈ پر یشر چیک کیا ۔بہت ہا ئی تھا ، گو لی دی۔مگر افا قہ نہیں ہو ر ہا تھا۔
آج گھر پہ کو ئی تھا بھی نہیں ،ڈرائیوربھی چھٹی پہ تھا۔ اور خالو بھی شہر سے با ہر تھے۔ اس نے ہسپتا ل سے ایمبولینس بلوائی۔مگر راستے سے ہی خالہ اپنی منز ل کو چلی گئیں۔
اگلے روز درختو ں والی گلی ان کے بچو ں سے بھر ی ہو ئی تھی۔چر ند پر ند ، انسان ، درخت ، سب خا مو ش تھے۔ آسما ن بھی گہر ا ہو گیا تھا۔صبح سے ہی اندھیرا اندھیرا تھا۔
عدنا ن ایک درخت سے لگا یہی کہہ ر ہا تھا’’ پھوپو آپ نے بتا یا بھی نہیں کہ آپ بیما ر ہیں۔۔۔ہم میں سے کسی کو روک ہی لیا ہو تا کسی ایک کو
ہی۔۔۔کسی ایک کوبھی ۔۔۔پھو پو۔۔۔۔۔۔،،
’’وہ کسی کی ما ں نہیں تھی ۔ نا ہی اس کی کو ئی اولاد تھی۔ مگر اس کے بہت سے بچے تھے۔ جن میں ایک میں بھی ہوں،،(ملت ٹائمز)
(رابعہ الربا کا شمار پاکستان کے مشہور ادیبوں میں ہوتاہے ،مختلف اخبارات ورسائل میں آپ کی ادبی تحریری اہتمام کے ساتھ شائع ہوتی ہیں )