ڈاکٹر فرقان حمید
امریکہ جو پاکستان ، ترکی اور ایران جیسے ممالک کی سیاست میں اور اندرونی معاملات میں بڑی گہری دلچسپی لیتا رہا ہے اب ان ممالک سے دوری اختیار کرنے کے لیے مختلف طریقہ کار استعمال کر رہا ہے۔ اگرچہ ایران کے ساتھ تو امریکہ کے تعلقات 1989ء کے اسلامی انقلاب کے فوراً بعد ہی ختم ہوگئے تھے جو آج تک بحال نہ ہوسکے۔ اگرچہ اوباما دور میں فائیو پلس ون اور ایران کے درمیان طے پانے والے سمجھوتے سے ایران نے کچھ حد تک سکھ کا سانس لیا تھا صدر ٹرمپ نے سمجھوتے کو ردی کی ٹوکری کی زینت بناتے ہوئے ایران پر ایک بار پھر نہ صرف خود پابندیاں عائد کردیں بلکہ دنیا کے دیگر ممالک کو بھی ان پابندیوں پر عمل درآمد کروانے کےلیے دباؤ ڈالنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گئے تھے اور اس وقت کے پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان جنہیں سویت یونین کے دورے کی دعوت دی گئی تھی کی جگہ امریکہ کے دورے کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے پاکستان کو امریکی بلاک کا حصہ بنانے کی راہ ہموار کردی اور اس کے بعد پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے اور انیس سو چون میں پاکستان نے امریکہ کے ساؤتھ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن (سیٹو) معاہدہ میں شمولیت اختیار کی اور پھر انیس سو پچپن میں بغداد پیکٹ میں شرکت اختیار کرلی جس میں عراق، ایران، ترکی جیسے اسلامی ممالک بھی شامل تھے ۔ اس معاہدے کا اصل محرک امریکہ تھا جو بعد میں 1959ء میں اس تنظیم کا رکن بنا۔ 1958ء میں جنرل کریم قاسم نے عراق میں قائم بادشاہت کا تختہ الُٹ دیا اور 1959ء میں حکومتِ عراق نے بغداد پیکٹ سے دست برداری کا اعلان کردیا جس پر اسے ” سینٹرل ٹریٹی اورگنائزیشن (سینٹو) کا نام دے دیا گیا اور اس ادارے کو ترکی منتقل کردیا گیا۔ یہ ادارہ جو ابتداء میں اراکین کے اجتماعی دفاع کے لیے قائم کیا گیا تھا، فوجی اتحاد سے بڑھ کر رفتہ رفتہ معاشی اور ٹیکنالوجی کے تعاون کا ذریعہ بنتا گیا۔ سینٹو کے مغرب کی جانب جھکاؤ کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں اسے شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ جبکہ بھارت نے سوویت یونین کے پُرجوش اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے غیروابستہ تحریک (NAM) کے پلیٹ فارم سے سینٹو (اور سیٹو) کی کھل کر مخالفت کی۔ جولائی 1964ء میں امریکہ ہی کے اصرار پر ایران، پاکستان اور ترکی جو دنیا سے متعلق ایک جیسا موقف رکھتے تھے پر مشتمل علاقائی تعاون و ترقی تنظیم (RCD) کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد خطے میں سماجی و معاشی تعمیر و ترقی کا فروغ تھا۔ اقتصادی، سیاسی اور انتظامی مسائل کی وجہ سے ابتداءً تجارتی سرگرمیوں کی رفتار سست رہی۔ تجارت کا مجموعی حجم ارکان کے مجموعی جی ڈی پی کا صرف دو فی صد تک پہنچ سکا۔ 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے آر سی ڈی سے علیحدگی اختیار کرلی اور یہ فورم تحلیل ہوگیا جو بعد میں جنوری 1985ء میں پاکستان، ایران اور ترکی ہی کی کوششوں کے نتیجے میں اقتصادی تعاون تنظیم (ECO)کے نام سے ابھر کر سامنے آیا اور 1992ء میں افغانستان، آذربائیجان، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان نے اس تنظیم میں شمولیت اختیار کرلی تاہم ابھی تک یہ ادارہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کوئی زیادہ کامیاب دکھائی نہیں دیتا ہے تاہم اقتصادی تعاون تنظیم میں ایک مضبوط سیاسی اتحاد بننے کی بھرپور صلاحیت ہے اور شاید موجودہ حالات میں جب امریکہ ترکی اور پاکستان کو دیوار پر لگانے کی کوششوں میں مصروف ہے اس تنظیم کے ذریعے مشکلات سے بچا جاسکتا ہے۔
دیکھا جائے امریکہ ہمیشہ ہی مشکل حالات میں پاکستان کی جانب دیکھتا رہا ہے اگر چین سے تعلقات قائم کرنے تھے تو پاکستان ہی نے امریکہ اور چین کے درمیان حالات کو بہتر بنانے اور اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے خفیہ دورہ چین کو بندو بست کیا۔ صدرنکسن اور ان کے وزیرخارجہ ہنری کسنجر کے زمانہ میں امریکی انتظامیہ کے پاکستان سے دوستانہ تعلقات تھے ستر کی دہائی کے دوران میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کے دور میں امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار رہے لیکن امریکہ نے ایک بار پھر پلٹا کھایا اور سویت یونین کے افغانستان میں فوجیں اتارنے کے بعد امریکہ نے فوری طور پر پاکستان کی امداد بحال کی۔ انیس سو اکیاسی میں صدر رونالڈ ریگن کا دور پاکستان اور امریکہ کے اچھے تعلقات کا دور ثابت ہوا۔ افغانستان سے سوویت یونین کے نکل جانے کے بعد اور پاکستان میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی منتخب حکومتوں کے دور میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ایک بار پھر دوری آگئی اور موجودہ وزیراعظم عمران خان کے دور میں اب ان تعلقات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا وقت ہی بتائے گا لیکن امریکہ کے صدر ٹرمپ کی بجائے وزیر خارجہ پمپیو کی جانب سے عمران خان کو مبارکباد کے ٹیلی فون نے بھی دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری کی ایک ایسی لہر پیدا کردی ہے جس سے امریکہ کے مستقبل قریب میں عمران خان کے دور میں تعلقات کے کس نہج پر ہونے کی ابھی ہی سے عکاسی ہو جاتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکہ ہر دس سال بعد پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات پرنظر ثانی پر مجبور ہوجاتا ہے ماضی میں ایسا ہی ہوا ہے اس کی بڑی وجہ پاکستان کے اسٹریٹجیک لحاظ سے بڑی اہمیت کے حامل خطے میں واقع ہونا ہے۔
جہاں تک ترکی کا تعلق ہے ترکی کے ساتھ بھی امریکہ کے تعلقات بڑی قریبی رہے ہیں اور ہمیشہ ہی امریکہ نے ترک فوج کی تنظیم میں اور اسے مضبوط بنانے میں بڑانمایاں کردار ادا کیا ہے۔ امریکہ نے ترکی پر 1974 کی قبرص جنگ میں ترکی پر پابندیاں عائد کی تھیں حالانکہ ترکی اس وقت سینٹو اور نیٹو کا رکن تھا اور اب ترکی ابھی تک نیٹو کا رکن ہے۔ ترکی کے صدر اوباما کے آخری دور ہی میں تعلقات خراب ہونا شروع ہوگئے تھے اور خاص طور پر 15 جولائی 2016ء کی ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد ترکی اور امریکہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے اور پھر صدر ٹرمپ کے دور میں دونوں ممالک انتہائی کشیدہ اس وقت ہوگئے جب صدر ٹرمپ نے صدر ایردوان کو ٹیلی فون کرتے ہوئے اڑتالیس گھنٹوں کے اندر اندر امریکی پادری انڈریو برنسن کو امریکہ کے حوالے کرنے کی جو دہمکی دی تھی اور ترکی کی جانب سے جب اس پادری کو امریکہ کے حوالے نہ کیا گیا تو امریکہ نے ترکی پر فولاد اور ایلومینیم پر لگا ئے جانے والے ٹیکس پر پچاس فیصد اضافے کی وجہ سے ترکی کی اقتصادیات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن ترکی بھی اپنے موقف سے ٹس سے مس نہیں ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ترکی پاکستان اور ایران کے لیے بہترین موقع ہے کہ یہ تینوں ممالک ایک بار پھر آر سی ڈی جو کہ ایکو کا روپ اختیار کرچکی ہے کو مزید مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم میں روس اور چین کے ساتھ مل کر اپنے مستقبل کی راہ متعین کریں تاکہ امریکہ ترکی اور پاکستان کو ان کی ضرورت کے وقت بلیک میل نہ کرسکے ۔ ترکی کے روس کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات قائم ہوچکے ہیں جبکہ چین پاکستان کا سب سے قابلِ بھروسہ ملک ہے اور یہی وقت امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے اپنی من مانی کاروائیوں سے روکنا ہےتاکہ خطے میں امریکہ نے اسلامی ممالک کے ساتھ طویل عرصے سے کھیل کھیلنے کا جو سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اس کو لگام دی جاسکے اور خطے کے ممالک کو بھی اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کا اختیار حاصل ہوسکے۔ ترکی اس وقت دفاعی پروڈکٹس میں دنیا کے گنے چنے ممالک کی صف میں شامل ہوچکا ہے اور وہ امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک کے ساتھ مل کر ایف 35 طیاروں کی تیاری کے منصوبوں میں شریک ہےلیکن امریکہ ترکی کے روس سے ایس 400 میزائیلوں کی خریداری پر سخت اعتراض ہے اور اس کےترکی آئے ہوئے وفد نےترکی سے روس کے ساتھ اس ڈیل کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہےجبکہ پاکستان چین کے ساتھ مل کر ایف 17 تھنڈر طیارے تیار کررہا ہے جو امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ یہ تمام علاقائی ممالک دفاعی سازو سامان خود تیار کرتے ہوئے امریکہ کے کھیل کو بگاڑے اور تینوں ممالک دیگر ممالک کو بھی اپنے ساتھ ملا کر خطے کو ایک نیا رنگ و روپ عطا کریں۔
Mob:+90 535 870 06 75
furqan61hameed@hotmail.com