ڈی ایل ایڈ کورس اور اردو بطور ذریعہ امتحان

عمر فاروق قاسمی

این آئی او ایس کے ذریعے ڈی ایل ایڈ کورس جس وقت شروع ہوا تھا، اس وقت کورس کرنے والے اردو داں طبقے کو یہ پتہ تک نہیں تھا کہ اس کے اسائنمنٹ اور تھیوری پیپر کی جوابی کاپی اردو میں لکھی جاسکتی ہے، انتظامیہ نے بھی بطور میڈیم اردو کو اس طرح گول مول کردیا تھا کہ صحیح صورت حال سے واقفیت بڑی مشکل تھی، مجھے جب یہ معلوم ہوا کہ ہندی اور انگلش سمیت علاقائی زبانوں گجراتی، بنگالی اور مراٹھی تک میں نہ صرف جواب لکھ سکتے ہیں بلکہ اس کا مٹیریل بھی ویب سائٹ پر دستیاب ہے، اس کے بالمقابل نہ اردو میں میٹیریل ویب سائٹ پر دستیاب تھا اور نہ ہی اس کی کوئی وضاحت تھی کہ اردو میں جواب لکھا جاسکتا ہے یا نہیں۔ اردو استاد ہونے کی حیثیت سے راقم الحروف کے لیے یہ بڑی تکلیف دہ صورت حال تھی، چونکہ مادری زبان میں مافی الضمیر کی ادائیگی دگر زبانوں کے مقابلہ زیادہ بہتر انداز میں ہوتی ہے اس لیے راقم نے اس حوالے سے تحقیق شروع کی اور مختلف ذرائع سے پتہ کرنے کی کوشش کی تو جواب نفی ہی میں مل رہا تھا کہ اچانک جناب مولانا فروز عالم صاحب پٹنہ سے رابطہ ہوا اور انہوں نے جناب امام حسن صاحب دربھنگہ کے نام کی ایک چِٹھی ارسال کی، جو انہوں نے حق اطلاعات قانون کے تحت متعلقہ شعبہ سے حاصل کی تھی، اس چٹھی میں وضاحت تھی کہ اردو میں جواب لکھا بھی جاسکتا ہے اور اسائنمنٹ کی کاپی اردو میں جمع بھی کی جاسکتی ہے، انہی ایام میں مدہوبنی میں این آئی او ایس سے متعلقہ افسران اور ڈی ایل ایڈ اساتذہ کی میٹنگ ہوئی اس میں دربھنگہ کمشنری کے کوڈینیٹر جناب اشوک کمار سنگھ بھی موجود تھے، میں نے خود ان کو یہ چٹھی دکھائی اور تحقیق چاہی تو انہوں نے کھل کر بتایا کہ اردو انگلش اور ہندی سمیت نو زبانوں میں آپ جواب لکھ سکتے ہیں، یہیں سے میرے اندر طاقت پیدا ہوئی اور اپنے سینٹر پر بطور خاص اور دوسرے آس پاس کے سینئر پر ٹرینگ لینے والے اردو داں اساتذہ سے عموماً درخواست کی کہ آپ کی اردو اگر مضبوط ہے تو جواب اردو میں لکھیں، شروع میں تو اکثر لوگوں کو یقین نہیں آیا لیکن میں نے مختلف ذرائع سے سے انہیں اطمنان دلانے کی کوشش کی کہ آپ گھبراہٹ کے شکار نہ ہوں جیسے نمبرات ہندی میں لکھنے پر ملیں گے ویسے ہی اردو پر بھی ملیں گے، اگر ہندی میڈیم کے معیار کی کاپی اگر اردو کی بھی ہوگی تو اردو والی کاپی کا نمبر ہندی اور انگلش سے کم نہیں ہوگا، بہرکیف ہمارے سینٹر اسی طرح دوسرے سینٹر کے اردو کے کچھ اساتذہ نے میری بات پر یقین کیا اور نہ صرف اسائنمنٹ بلکہ تھیوری پیپر کی جوابی کاپی بھی اردو میں لکھی، جب کہ میڈیم کے خانے میں اردو نہ ہونے کی وجہ کر ہندی ہی اختیار کیا تھا، مجھے کچھ خوف ہورہا تھا کہ اگر اردو میں لکھنے کی وجہ سے ناکامی ملی یا نمبرات بہت کم آئے تو لوگ مجھے کوسیں گے، لیکن اس وقت مجھے بہت خوشی ملی جب فرسٹ سمسٹر کا رزلٹ سامنے آیا، ابھی اردو میں لکھنے والے میں جن کا رزلٹ میرے سامنے آیا ماشاءاللہ ننانوے فیصد لوگ نہ صرف کامیاب ہیں بلکہ أن میں سے اکثر بچوں کے نمبرات بھی اچھے ہیں، اور انہوں نے یہ ثابت کردیا کہ اردو میڈیم والے ہندی میڈیم والے سے کم نہیں ہیں، یہ بھی یاد رہے کہ اردو لکھنے والے کو یہ نمبرات کسی قومی ہمدردی کی وجہ سے نہیں ملے بلکہ مادری زبان میں لکھی جانے والی تحریر لائق تحسین ہوا ہی کرتی ہے کیونکہ اس میں انسانی صلاحیتیں بلاتکلف نکھر کے سامنے آتی ہیں دوسری طرف وہ اردو اساتذہ جنہوں نے اردو میں تیاری کر لی تھی، ان کی اردو ہندی کے مقابلے بہتر بھی تھی لیکن بعد میں انہیں میری بات پر یقین نہیں رہا اور ہندی ہی میں جواب لکھا یا تو فیل ہوگئے یا نمبرات کم آئے ، یہ رزلٹ ان حضرات کے لیے سبق ہے جو بطور میڈیم اردو نہیں رکھتے۔ بلاشبہ اردو کے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کیا جاتا ہے. میری معلومات کے مطابق بہت سارے کوڈینیٹر نے اردو میں اسائنمنٹ جمع لینے سے انکار کر دیا تھا ، لیکن اس سے ہمت نہیں ہارنی چاہیے، قانونی لڑائی لڑنے کی کوشش کیجئے، کم از کم معلومات اکٹھا کیجئے اور مضبوط انداز میں اپنی بات رکھئیے ، انشاءاللہ کامیابی ملے گی، اس موقع پر ان باحوصلہ اساتذہ کے ساتھ ساتھ جناب مولانا فروز عالم صاحب پٹنہ اور شفیق بھائی کو بھی مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ریاستی سطح پر اردو میں مواد دستیاب کرائے اور دفاتر سے لیکر عدالت تک پہنچے، ، اس سمسٹر میں فارم میں میڈیم کے خانے میں اردو نہیں ہندی لکھنا پڑا تھا، لیکن دوسرے سمسٹر میں اردو بطور میڈیم باضابطہ موجود ہے بلکہ جیسی خبریں آرہی ہیں کہ اردو میڈیم والے کو سوال بھی اردو میں ملے گا یہ بہت خوش آئند بات ہے، اردو داں طبقہ کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے، احساس کمتری کا شکار بالکل نہیں ہونا چاہیے. ماضی قریب میں لوگ میٹرک اور انٹر میں بھی ذریعہ امتحان اردو رکھتے تھے اور اچھے نمبرات سے کامیاب ہوتے تھے، راقم الحروف نے بی ایڈ کے تمام سبجیکٹ خواہ لازمی ہو یا غیرلازمی اردو رسم الخط میں ہی لکھا تھا اور ماشاءاللہ 78 فیصد سے کامیابی ملی، اس لیے میں تمام اردو داں حضرات سے درخواست کرتا ہوں کہ جہاں بھی یہ موقع ملے اردو کو ذریعہ امتحان ضرور بنائیں بھلے ہی قومی زبان کے طور پر ہندی اور عالمی زبان کی اہمیت کے پیش نظر انگریزی بھی سیکھیں، لیکن مادری زبان اردو کو فروغ دینے کی بھر پور کوشش کریں ؛ ۔
رابطہ : 9525755126