ڈاکٹر یامین انصاری
یو پی کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ نے بے روزگاروں کی تضحیک تو کی ہی ہے، ساتھ ہی نو جوانوں کی اہلیت و صلاحیت پر بھی سوال اٹھا یا ہے
ابھی تک تو یہی سنتے آئے ہیں کہ ہندوستان ایک نوجوان ملک ہے، یہ ’ینگ انڈیا‘ ہے،یہاں کے نوجوانوں میں صلاحیتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں، پوری دنیا ہندوستانی باشندوں کے ہنر کی قائل ہے، یہاں کے شہریوں میں ’پرتیبھا‘ کی کوئی کمی نہیں ہے، لیکن موجودہ حکمرانوں نے اب اس خیال کو یاد ماضی بنانے کی کوشش کی ہے۔ کروڑوں لوگوں کو نوکریاں دینے کا وعدہ کرکے کہیںکوئی پکوڑے بنانے کا مشورہ دے رہا ہے، کہیں کوئی چائے کی بات کر رہا ہے، تو کوئی پنکچر بنانے کا ذکر کر رہا ہے۔ آخر موجودہ حکمراں اس ملک کو کس سمت لے جانا چاہتے ہیں۔ ملک کے نوجوان روزگار کے لئے در در بھٹک رہے ہیں۔ جو تعلیم یافتہ ہیں وہ ملازمتوں کے لئے جد و جہد کر رہے ہیں۔ جن کے پاس کوئی ہنر ہے وہ چھوٹے موٹے کاروبار کی تلاش میں مصروف ہےں۔وہیں دوسری جانب میڈیا سے لے کر حکومت تک ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ کوئی بنیادی مسائل پر بات ہی نہیں کر رہا ہے۔ نہ کہیں تعلیم کا ذکر ہے، نہ کہیں بے روزگاری پر بحث ہے اور نہ کہیں غربت اور مہنگائی کا تذکرہ ہے۔ ذرا بھی کہیں سے اس قسم کی کوئی بات اٹھتی ہے، فوراً ہی ’گودی میڈیا‘ کے ذریعہ ملک میں فرقہ پرستی کی ہوا بنا دی جاتی ہے، ہندو مسلم پر بحث و مباحثے شروع کروا دئے جاتے ہیں۔اور یہ سب بڑی حکمت عملی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
در اصل عام انتخابات کی آمد آمد ہے۔ حکمراں طبقہ کے پاس ایسا کوئی ایشو نہیں ہے، ایسی کوئی حصولیابی نہیں ہے جس کی بنیاد پر دوبارہ عوام کی عدالت میں کھڑے ہوسکیں۔وہ ان کے پاس جانے کی ہمت نہیں کر پا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب مہنگائی اور بدعنوانی کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے تو حکمراں بی جے پی کے لیڈران عوام کا ذہن منتشر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہ بتانے کے لئے خصوصی پریس کانفرنس کرتے ہیں کہ کانگریس صدر راہل گاندھی چین کے راستے مان سروور یاترا پر کیوں گئے؟ جیسے کہ وزیر اعظم یا ان کی کابینہ کے دوسرے رفقا نے نہ تو چین کا منھ دیکھا ہے اور نہ ہی وہاں کے دورے کئے ہیں۔ یا پھر بی جے پی حکومت چین سے دو دو ہاتھ کرنے کو تیار بیٹھی ہے۔بہر حال، بات در اصل بے روزگاری کی کرنی تھی، جس سے نہ تو ’گودی میڈیا‘کو کوئی مطلب ہے اور نہ ہی حکومت کو کچھ لینا دینا ہے۔ تبھی تو یو پی کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ کہتے ہیں کہ یو پی میں روزگار کی کمی نہیں، یہاں اہل امیدوار ہی نہیں ہیں۔ایک باوقار عہدے پر بیٹھے ہوئے شخص کو یہ قطعی زیب نہیں دیتا کہ وہ عوام کے سامنے کھلے عام جھوٹ بولے۔ اس میں یوگی کی بھی خطا نہیں ہے، جب اوپر سے ہی جھوٹ کا سہارا لے کر حکومت چلائی جا رہی ہے تو پھر ما تحتوں سے کیا امید کی جا سکتی ہے۔ پھر بھی اس بات پر کیسے یقین کر لیا جائے کہ یو پی میں با صلاحیت یا اہل امیدواروں کی کمی ہے۔ جس ریاست میں تقریباً ۵ کروڑ لوگ بے روزگار ہوں، وہاں چند ہزار اساتذاہ کے لئے اہل امیدوار نہیں ملیں گے؟ جہاں چپراسی یا چوتھے درجہ کی ملازمتوں کے لئے پوسٹ گریجو ایٹ، ایم بی اے، ایم ٹیک اور پی ایچ ڈی سند یافتہ نوجوان امیدوار ہوں، تو کیسے کوئی مان لے کہ یو پی میں اہل نوجوانوں کی کمی ہے؟
فرقہ پرستی، تشدد اور نفرت کی سیاست کرنے والے بے روزگار نوجوانوں کا دردکیا سمجھیںگے، ان کے کرب کو کیا محسوس کریںگے۔ انھیں تو ان بے روزگار نوجوانوں کی بھیڑ صرف ایک سیاسی ہتھیار نظر آتی ہے، ان کے نزدیک یہ بھیڑ فرقہ وارانہ فسادات کی آگ کا محض ایندھن ہے، وہ ان نوجوانوں کو صرف ہجوم کی شکل میں تشدد برپا کرنے والی بھیڑ سمجھتے ہیں۔یہ نئے ہندوستان کی سیاست کا ہی نتیجہ ہے کہ جن نوجوانوں کو روزگار اور ملازمتوں کے لئے سڑکوں پر آنا چاہئے تھا، وہ فسادی بھیڑ بنتے جا رہے ہیں۔ نہ انھیں اپنے مستقبل کی فکر ہے، نہ کرئیر کو لے کر حساس ہیں اور نہ ہی سرکار سے کوئی سوال کر رہے ہیں کہ آپ نے وعدہ تو کیا تھا کہ ہر سال دو کروڑ نوکریاں دیں گے، اس وعدے کا کیا ہوا؟گزشتہ جولائی میںپولیس محکمہ میں پیغام رسانی کے لئے ۲۶ اعہدوں پرتقرری کے لئے اشتہار نکالا گیا تھا، جس میں کم از کم تعلیمی لیاقت پانچویں جماعت پاس اور سائیکل چلانے کی شرط رکھی گئی تھی۔ لیکن درخواست دہندگان میں ۰۹ فیصد گریجوایٹ، ایم ٹیک اور ایم بی اے سند یافتہ تھے۔ ٹیلی کام کے ڈی جی کے مطابق کل ملا کر ۳۹ ہزار سے بھی زیادہ درخواستیں آئی تھیں۔ ان کا امتحان کرانے میں تقریباً ۳ کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ لہذا اس سلسلہ میں حکومت کو بذریعہ خط مطلع کر دیا گیا ہے۔ یہ تو ایک مثال ہے، ورنہ دیگر ریاستوں میں بھی آئے دن یہ خبریں سننے کو ملتی ہی رہتی ہیںکہ چند ہزار یا سیکڑوں ملازمتوں کے لئے کئی کئی لاکھ درخواستیں آئی ہیں۔ ان میں بھی ضروری لیاقت سے کہیں زیادہ اعلی تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوان امیدوار ہوتے ہیں۔ پھر کیسے یقین کر لیا جائے کہ یو پی میں یا ملک میں نوکریاں ہیں، با صلاحیت یا اہل نوجوان نہیں ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر سال ملک کے ۵۱ فیصد آئی اے ایس یو پی سے ہی آتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق ۳۴۴۴ آئی اے ایس افسران میں سے ۱۷۶ یو پی کے ہی باشندے ہیں۔ یہی نہیں، ۲۷۹۱ءسے ۷۱۰۲ءکے درمیان اتر پردیش کے نوجوانوں نے پانچ مرتبہ آئی اے ایس کے مشکل ترین امتحان میں ٹاپ کیا ہے۔ ریاست میں رجسٹرڈ بے روزگاروں کی ہی اگر بات کی جائے تو خود حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ یو پی میں ۰۳ جون ۸۱۰۲ءتک کل ۱۲ لاکھ ۹۳ ہزار ۱۱۸ بے روزگار رجسٹرڈ تھے۔ یہ وہ بے روزگار ہیں جو بالکل ناکارہ ہو چکے سرکاری ’ روزگار دفتر‘میں جا کر اپنی تعلیمی سند اور ڈگری کے ساتھ رجسٹریشن کرواتے ہیں۔ ان روزگار دفاتر کی موجودہ صورت حال کیا ہے، آپ خود جا کر یو پی کے کسی بھی ضلع میں دیکھ سکتے ہیں۔ وہاں جائیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم آج بھی ۰۸ یا ۰۹ کی دہائی کے کسی دفتر میں پہنچ گئے۔
سیاستداں اور موجودہ حکمراں بھلے ہی بیان بازی کرتے رہیں اور جھوٹے دعوے کرتے رہیں، لیکن یو پی ہی نہیں پورے ملک میں بے روزگاری کے اعداد و شمار حیران اور پریشان کرنے والے ہیں۔ چند ماہ پہلے انٹر نیشنل لیبر آرگنائیزیشن یعنی آئی ایل او نے روزگار سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی تھی۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ ہندوستا ن میں بے روزگاری کی سطح میںگزشتہ برس کے مقابلے اس سال اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۷۱۰۲ءمیں ہندوستان میں ایک کروڑ ۳۸ لاکھ لوگ بے روزگار تھے۔ ۸۱۰۲ءمیں بے روزگاروں کی تعداد بڑھ کر ایک کروڑ ۶۸ لاکھ ہو گئی۔ اس سے پہلے کی اگر بات کریں تو ’بھارت روزگار ۶۱۰۲ئ‘کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں کل ۱۱ کروڑ ۰۷ لاکھ بے روزگار تھے۔ جس میں سے ایک کروڑ ۰۳ لاکھ با ضابطہ ، ۵ کروڑ ۰۲ لاکھ غیر رجسٹرڈ بے روزگار اور وہیں ۵ کروڑ ۰۲ لاکھ ایسی خواتین شامل تھی، جو کام نہیں کرتی تھیں۔ ان سبھی اعداد و شمار کو ماہر اقتصادیات موہن گرو سوامی نے ایک کانکلیو کے دوران بتایا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ہندوستان میں کل آبادی میں سے ۱۱ کروڑ ۰۷ لاکھ لوگوں کو آج بھی ملازمت نہیں ملی ہے۔’لیبر بیورو‘ کی رپورٹ پر نظر ڈالیں تو ہندوستان دنیا کے سب سے زیادہ بے روزگاروں کا ملک بن گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی ۱۱ فیصد آبادی تقریباً ۲۱ کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ سال ۵۱۰۲ءمیں صرف ایک لاکھ ۵۳ ہزار لوگوں کو ہی ملازمت ملی۔ رپورٹ کے مطابق ہر روز ۰۵۵ نوکریاں ختم ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی لیبر ایجنسی کی رپورٹ میں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ سال ۸۱۰۲ءمیں ہندوستان میں بے روزگاری کی سطح بڑھ سکتی ہے۔ اس سب کے باوجود ملک کی سب سے بڑی ریاست کا وزیر اعلی کہتا ہے کہ روزگار تو ہیں، اہل امیدوار نہیں ہیں۔ یو پی میں عام اساتذہ کی تقرری ہی نہیں ہو پا رہی ہے، ایسے میں موجودہ حکومت سے اردو اساتذہ کی تقرری کی کیا امید کی جائے؟ اکھلیش حکومت میں تقریباً ۴ ہزار اردو اساتذہ کی بھرتی ہونا تھی، کاؤنسلنگ بھی ہو گئی، فائنل لسٹ باقی تھی کہ نئی حکومت آ گئی۔ آج بھی امیدواروں کو تقرری کا انتظار ہے، جبکہ ان کی زندگی بھر کی کمائی یعنی اسناد وغیرہ ابھی تک مختلف اضلاع میں’ بیسک شکشا ادھیکاری‘ کے دفاتر میں دھول کھا رہی ہیں۔
(مضمون نگار معروف صحافی اور روزنامہ انقلاب کے ریزڈینٹ ایڈیٹر ہیں )