پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی
ترکی میں معاشی بحران کوئی پہلی مرتبہ نہیں آیاہے ، آج سے تقریبا 15 سال قبل بھی ترکی شدید معاشی بحران سے دوچار تھا ،کرپشن ،رشوت اور اس جیسے مسائل کا شکار تھا ، ڈالر کے مقابلے میں لیرا کی کوئی حیثیت نہیں تھی، عالمی بینک کا بہت زیادہ قرضہ بھی تھا ،ان دنوں ترکی کا شمار ترقی یافتہ ملکوں میں بھی نہیں ہوتا تھا ،انقرہ اور استنبول میں کوئی طویل ترین عمارت نہیں تھی، یورپین ممالک اور ترکی میں نمایاں فرق تھا، 2002 میں اسلام پسند جسٹس اینڈ ڈیولیپمینٹ پارٹی کی حکومت بننے کے بعد وہاں کچھ تبدیلی آنی شروع ہوئی ،2003 میں وزیر اعظم بننے کے بعد موجودہ صدر رجب طیب ایردوان وہاں کے معاشی نظا م میں اصلاحات کی ،ڈالر کے نظام سے نکلنے کی کوشش کی ،عالمی بینک کا قرضہ ادا کردیا،لیر اور ڈالر کی قیمت تقریبا مساوی ہوگئی ۔ 2002سے 2007 تک کے پانچ برسوں میں ترکی کی جی ڈی پی میں سات فیصد کا تاریخی اضافہ ہوا اور یہ اضافہ ایسے وقت میں ہوا جب پوری دنیا میں اقتصادی بحران کا غلبہ تھا،فی کس آمدنی میں بھی چار فیصد کا اضافہ ہوگیا ،2005 میں ترکی نے یورپی یونین میں شامل ہونے کیلئے بات چیت کی شروعات کردی ،استنبول اور انقرہ جیسے شہروں میں طویل ترین عمارتوں کی تعمیر شروع ہوگئی ،یورپ اور دبئی جیسے شہروں کی جھلک ترکی میں نظر آنے لگی ۔بڑی تعداد میں ایئر پورٹ کی تعمیر کی گئی ،یونیورسٹیز بنائی گئی ،سیاحتی مقامات کو پر کشش بنایا گیا، ٹورزم سیکٹر میں بے پناہ اضافہ ہوا ، دنیا کے 20 مالدار ممالک کے گروپ جی 20 کا بھی حصہ بن گیا ۔طیب ایردوان نے معاشی نظام کے ساتھ سیاسی نظام میں بھی تبدیلی کی ،حکومت پر فوج کے کنٹرول کو کم کیا ،سیکولر اور لبر ل افسران کی جگہ اسلام پسندوں کو بحال کیا ،ملک میں اسلامی اقدار کو فروغ دیا رفتہ رفتہ انہوں نے وہاں کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کرکے مزید اگلے دس سالوں تک کیلئے اقتدار کو محفوظ کرلیا ہے، 2023 میں معاہدہ لوزان مکمل ہونے کے بعد اب وہ کچھ اہم اقدام کرنا چاہتے ہیں۔
ترکی کی یہ بڑھتی ہوئی ترقی مغربی طاقتوں کو منظور نہیں ہے ،نہ ہی یہ پسند ہے کہ ایردوان جیسا اسلامسٹ جمہوریت پسند وہاں 2023 تک برقرار رہے جس کی وجہ سے ترکی عالمی طاقت کا حصہ بن جائے گا ۔سچائی یہ ہے کہ ترکی عالمی طاقت کا اہم حصہ بن چکاہے ،اس کے پاس دنیا کی ساتویں سب سے بڑی فوج ہے ،روس سے وہ اہم ترین دفاعی ہتھیار خرید ررہاہے ،کچھ ملکوں کو اب وہ ہتھیار فروخت کرنے لگا ہے ،آنے والے دنوں میں وہ مزید مضبوط ہوجائے گا ،ڈالر کے معاشی نظام سے الگ ہوکر اپنی کرنسی میں وہ خرید وفروخت کرنے کو ترجیح د ے رہاہے ،اسٹیل ایکسپورٹ کرنے والے ٹاپ ٹین ممالک میں وہ سر فہرست ہے ،تعمیرات کے شعبہ میں ترکی کی کمپنیوں کو نمایاں امتیاز حاصل ہے ،دنیا کی اہم ترین 250 تعمیراتی کمپنیوں میں 46 تر کش ہیں،ساﺅتھ افریقہ اور روست میں ترکش کمپنیاں بہت زیادہ سر گرم ہیں ۔ایک طرف ترکی یورپین یونین میں رکنیت کا دعویدار ہے ،وسر ی طرف ایشاءمیں وہ اپنی زمینیں مضبوط کررہاہے ،دنیا کے سامنے یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ اسلامی اقدار اور تہذیب کے مطابق ترکی کی یہ ترقی ہورہی ہے ،معیشت بہتر ہوئی ہے اس لئے اسے کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، اسی مقصد کی تکمیل کیلئے امریکہ نے معاشی نظام پر حملہ کررکھا ہے جس کا مقصد ترکی کے بڑھتے قدم کو روکنا اور اپنا تابعدار بناناہے ۔بظاہر کہا جارہا ہے کہ امریکی پادری اینڈریو برونسن کو رہانہ کرنے کی وجہ امریکہ نے ترکی کے خلاف اقدام کیا ہے۔ ترکی کا الزام ہے کہ پادری اینڈ ریوبرونس ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث رہاہے، 2016 میں فوجی بغاوت میں وہ شریک تھا ،اس کے بعد کرد دہشت گرد تنظیم کے ساتھ مل کر کام کرنے کا بھی الزام ہے ، امریکہ نے جب رہائی کا مطالبہ کیا تو تر کی نے اسے فتح اللہ گولن کے مقابلے میں لاکر اسے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا جسے امریکہ نے منظور نہیں کیا ۔ٹرمپ نے ٹوئیٹر پر لکھا: ” ترکی کئی سالوں سے امریکہ کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس وقت انہوں نے ہمارے شاندار مسیحی پادری کو نظر بند کیا ہوا ہے جس سے اب میرا مطالبہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو ہمارے ملک کے عظیم محب وطن یرغمال کے طور پر پیش کرے۔ ہم ایک معصوم شخص کی رہائی کے لئے کوئی قیمت ادا نہیں کریں گے، لیکن ہم ترکی کو آڑے ہاتھوں لیں گے! “ اس پر ایردوان نے ٹرمپ کے ٹوئیٹ سے بھی مختصر تبصرہ کیا لیکن انتہائی معنی خیز تھا: ” تمہارے پاس بھی ایک پادری ہے “ ترکی نے 21 ماہ کیلئے پادری کو نظر بند کردیا ہے ادھر امریکہ نے ترکی سے بر آمد ہونے والے اسٹیل پر ٹیکس میں دوگنا اضافہ کردیاہے ۔ترکی سے جو اشیاءعالمی مارکیٹ میں ایکسپورٹ ہوتی ہیں اس میں اسٹیل سر فہرست ہے جس کا اثر براہ راست ترکی کی کرنسی پر پڑا اور اس میں 40 فیصد کی گرواٹ آگئی ،لیکن کرنسی میں یہ گرواٹ صرف امریکی ٹیکس کی وجہ سے نہیں ہوئی ہے بلکہ اس کی وجہ 35 فیصد عوام کا بینکوں سے اپنی رقم نکال لینا بھی ہے اور یہی اصل وجہ اس معاشی بحران کے پس پردہ ہے ۔طیب اردگان کے صدر بننے کے بعد مسلسل مغربی ایجنسیوں کے ذریعہ یہ پیر پیگنڈہ کیا جانے لگا کہ ترکی کی معیشت کو خطرات لاحق ہیں،وہاں کے بینک محفوظ نہیں ہیں ،کسی بھی وقت ترکی میں معاشی بحران پیدا ہوسکتاہے چناں چہ تقریبا 35 فیصد لوگوں نے اس پروپیگنڈہ سے متاثر ہوکر بینکوں سے اپنی رقم واپس نکال لی جس سے بھی کرنسی متاثر ہوئی اور لیرا کی قیمت کم ہوگئی، اب ایک ڈالر کی قیمت سات لیرا ہے جبکہ پہلے ایک ڈالر کی قیمت چار لیرا ہوتی تھی۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردون امریکہ کی معاشی پابندیوں کے سامنے جھکنے کیلئے تیار نہیں ہیں، انہوں نے روس اور دیگر ممالک سے اپنے رشتے ہموار کرنے شرو ع کردیئے ہیں، روس سے ہوالے دفاعی معاہدہ کا لین دین ڈالر کے بجائے کسی اور کرنسی میں کرنے پر اتفاق ہوگیا ہے ،چین ،ایران اور دیگر ممالک سے بھی اس طرح کا معاہدہ زیر غور ہے ،معاشی بحران پیدا ہونے کے بعد قطر سے ملنے والی امداد بھی انہوں نے ڈالر کے کے بجائی دوسری کرنسی میں وصول کی ہے ،امریکہ کو ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے ترکی حکومت نے امریکی مصنوعات پر بھی ٹیکس میں دوگنا اضافہ کردیا ہے ۔ تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ترکی کا یہ معاشی بحران عارضی ہے جس پر حکومت بہت جلد قابو پالے گی ،ملک کی جی ڈی پی میں کسی طرح کی کوئی گرواٹ نہیں ہے ، 5 فیصد سے زیادہ وہ کی جی ڈی پی ہے ،فی کس آمدنی کی صورت حال بھی برقرار ہے ، موجودہ صدر طیب ایردوان کے تئیں عوام کا اعتماد کمزور کرنے کیلئے مغربی ایجنسیاں منفی پروپیگنڈہ کرنے میں لگی ہیں لیکن اس میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں لگ رہاہے ۔
(کالم نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں )
stqasmi@gmail.com