دانا و بینا، دور اندیش، مثالی منتظم : مولانا مفتی بلال احمد صاحب قاسمی شیرکوٹی رحمۃ اللہ علیہ

مولانا سراج الدین قاسمی

اس دنیا رنگ و بو میں ازل سے مو ت و حیا ت کی کشمکش جاری ہے اور ہمیشہ حیا ت پر مو ت فا تح بنتی چلی آئی ہے، لیکن جب کوئی ایسا انسا ن دنیا سے رخصت ہو تا ہے، جس کی حیا ت خو د اس کے لئے کم ، دوسروں کے لئے زیا دہ نا فع تھی، تو اس کی نا فعیت کے بقدر اہل دنیا کو اسکے رخصت ہو نیکا غم ہو تا ہے اور اس کو کھو دینے کے بعد اسکی قدر و قیمت کا اندا زہ ہو تا ہے ، خا ص طو ر سے تب احسا س اور زیا دہ ہو تا ہے، جبکہ اسکا کوئی جا نشیں نظر نہیں آتا اور افا دہ واستفا دہ کے سلسلہ میں کسی بے مو زو ں فرد پر انحصا ر بالجبر کر نا پڑتا ہے ۔
کچھ اسی طرح کا منظر فخر بجنو ر حضرت مو لا نا مفتی بلا ل احمد صا حب رحمة اللہ علیہ کے چلے جا نے کے بعد ہمارے سا منے ہے ۔
مفتی بلال احمد صاحب رحمة اللہ علیہ مورخہ: ۰۲ذیقعدہ ۹۷۳۱ھ ۔ مطابق: ۶۱ مئی ۰۶۹۱ ء ضلع بجنور( یوپی) کے مردم خیز قصبہ” شیرکوٹ“ میں مولود ہوئے۔آپ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے اور بہت چھوٹے تھے ،ابتدائی تعلیم مقامی ”مدرسہ رفاہ المسلمین“ میں دینیات درجہ پنجم تک حاصل کی، اس کے بعد پھر عصری تعلیم کے سلسلہ کو آگے بڑھانے کی غرض سے آر، یو ،ایم اسکول میں داخلہ لیا ،ہائی اسکول تک یہاں رہے اور امتیازی شان سے تعلیم کا سفر جاری رکھا ،اسکول کی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور اپنے ساتھیوں میں ممتاز مقام حاصل کرتے،مگر قدرت کو آپ کو اُس طرف سے اِس طرف لانا تھا، تو ہائی اسکول میں فیل ہو گئے اور ایک خاص واقعہ کے پس منظر میں آپ کو والد ماجد ”مدرسہ رحمانیہ شیر کوٹ“ میں حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب ؒ شیرکوٹی کے حوالہ کر آئے ۔یہاں سے آپ کا دینی تعلیم کا سفر شروع ہوا، آپ نے یہاں پرعربی پنجم تک کی تعلیم دار العلوم دیوبند کے نصاب کے مطابق حاصل کی ،آپ اپنے استاذ کی نگرانی میں پڑھتے بھیرہے اور استاذ کی خدمت بھی کرتے رہے،اکثر کتابیں آپ نے حضرت مولانا ہی سے پڑھیں اور پھر یہاں سے آپ دار العلوم دیوبند میں داخل ہو گئے ،دار العلوم سے آپ نے افتاءتک کی تعلیم حاصل کی اور پھر آپ کو آپ کے مربی وسرپرست، استاذ محترم حضرت مولانا محفوظ الرحمن صاحب ؒ نے شیرکوٹ کے مسلم فنڈ میں ملازمت پر مامور کرادیا، مگر آپ اندر سے اس ملازمت سے مطمئن نہ تھے ،اس کا اظہار آپ نے اپنے مولانا سے تو کیا نہیں، البتہ حضرت مولانا امام الدین صاحب رام نگری سے کردیا، تو ان کے اشارہ پر آپ اپنے مولانا کو پتہ دئے بغیر جامعہ عربیہ نا صرالعلوم کانٹھ ضلع مرادآبادبغرض تدریس چلے آئے۔
بقول خود مفتی صاحب ؒ پہلے ہی دن کانٹھ کے نزدیک دو کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ایک گاو ¿ں”سلیم پور“ میں رات کو مفتی صاحب کا کسی گھر پر وعظ ہو ا اور بس پھر تو آپ کا وعظ وتقریر کا سلسلہ ¿ ِ دراز شروع ہو گیا اور آپ یہیں کے ہو کر رہ گئے ۔
حضرت مفتی بلا ل احمد صا حب ؒ شیر کو ٹی کی کمی ،را قم الحرو ف سمیت پورے اسٹاف جا معہ عر بیہ نا صر العلو م کا نٹھ ضلع مرادآباد (جہا نپر مرحو م نے پو ری تد ریسی زندگی گزا ری )کو خا ص طو ر سے محسو س ہو رہی ہے اور کیو ں نہ ہو ،کہ حضرت مفتی صا حبؒ جیسا زیر ک، چا لا ک ، ہو شیا ر ، دور بیں ، دور رس ، عاقبت اندیش ، صا حب ِ بصیرت ، حا مل ِ فرا ست ، نہا یت دا نا و بینا ،حا کما نہ رو یہ سے کو سو ں دو ر ،حکیما نہ سلو ک سے معمو ر ، کسی مدرسہ کا منتظم نہ کبھی پہلے دیکھا اور نہ شا ید بعد میں دیکھنے کو ملے گا ۔
مفتی صا حبؒ ما در علمی دا رالعلو م دیو بند سے فرا غت کے بعد سیدھے جا معہ نا صر العلو م کا نٹھ مرا دآبا د میں” صدر مدرس“ کی حیثیت سے آئے اور تا دم ِحیا ت جا معہ ہی سے وا بستہ رہے ، آخری چند سا لو ں میں جا معہ کی کمیٹی نے آپ کو” نا ظم ِاعلیٰ “ کے عہدہ ¿ ِجلیلہ پر برا جما ن کر دیا تھا، لیکن حقیقت یہ ہیکہ مفتی صا حبؒ ابتدا ءہی سے انتظا م و اہتما م کے تما م فرا ئض بحسن وخو بی خودانجا م دیتے چلے آئے تھے ۔
مفتی صا حب مدرسہ میں اگر چہ ایک معلم کی حیثیت سے آئے تھے ،لیکن خدا ئے ذو الجلا ل نے ان کو قیا دت و سیا دت کی بے پنا ہ صلا حیتو ں سے نوا زا تھا، تو آپ نے علا قہ کی دینی قیا دت میں نمایا ں کا ر نا مے انجا م دئیے اور فتح مندیو ں نے میدا ن عمل میں بے طرح ان کے قد م چو مے ۔
حضرت مفتی صا حب کے اندر مرد م شنا سی کا عنصر کو ٹ کو ٹ کر بھرا ہو ا تھا ، وہ پہلی ملاقا ت ہی میں پہچا ن لیا کر تے تھے کہ یہ آدمی کس مدکا ہے ؟ اس سے کیا کا م لیا جا سکتا ہے ؟ اس سے کیا نفع ہو سکتا ہے اور کیا نقصا ن ؟ چنا نچہ مدرسہ کے عملہ میں اسی را ز ِبستہ کے مطا بق تقسیم ِکا ر کیا کر تے اور اس میں وہ کا میا ب ثا بت ہو تے ۔
اہل دانش جا نتے ہیں کہ لا ئق آدمیو ںکا حصو ل جتنا مشکل ہوتاہے، اس سے بھی کہیں زیا دہ مشکل ان سے کا م لینا ہوتا ہے اور یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے، کہ ہر لا ئق آدمی کے اندر کچھ نہ کچھ، کہیں نہ کہیں، نا لائقی کا جرثومہ ضرور ہوتا ہے اور ایک دا نشمند آدمی کی دا نشمندی یہ ہیکہ وہ لا ئق کی لیاقت سے استفا دہ کے لئے اسکی نا لائقی کو ہنر مندی کے سا تھ، نہ صرف یہ کہ گوا را کر تا ہے، بلکہ کبھی کبھی اسکو اپنا جو ہر دکھا نے کا خوب مو قع فرا ہم کر تا ہے۔ مفتی بلا ل احمد صاحب ؒ کو متنوع الاستعدا د، لا ئق وقابل افرا دمیں سے کچھ کی نا لا ئقی سے بھی سابقہ پڑا ،مگر انہو ں نے بہت ہی ہو شیا ری کے سا تھ ان کی استعدا دسے پھر پو ر استفا دہ کیا، اور ان کے اس جرثوم کو برداشت کیا ،جو ا ن کے دا نا و بینا ہو نیکی واضح دلیل ہے ۔
جمعیة علماءسے دلچسپی آپ کو وراثت میں ملی تھی ،آپ کے والد ِمحترم حکیم محمد نقی صاحب ؒجمعیة کے دلدادہ تھے ،اکابرین ِجمعیة آپ کے گھر آتے جاتے رہے تھے ،اسی لئے آپ کو ان اکابرین خصوصاً مدنی خانوادہ سے والہانہ لگاو ¿ اور تعلق تھا، جو دم ِمرگ تک باقی رہا ،یہی وجہ ہیکہ جمعیة کی تقسیم سے قبل کچھ نادان لوگوں (جن میں سے کچھ تقسیم ِجمعیة کے بعد صدر وناظم کے عہدوں پربھی فائزہو چکے ہیں)کی طرف سے جمعیة یا اکابرین ِجمعیة کے سلسلہ میں کوئی نا زیبا بات سامنے آتی، تو مفتی صاحب ؒ سے رَہا نہ جاتا اور ان کو وہ کھری کھوٹی سناتے ،کہ چھٹی کا دودھ یاد آجاتا،حلقہ کانٹھ میں جمعیة سے لوگ بلکل نا آشنا یا کم آشنا تھے ،مفتی بلال احمد صاحبؒہی نے یہاں جمعیة کو متعارف کرایا ،نگر نگر، قریہ قریہ ،جمعیة کی شاخوں کی داغ بیل ڈالی اور نمایاں کرنامے انجام دئے ،آپ نے قائدانہ رول ادا کیا تو لوگوں نے آپ کی قیادت کو تسلیم کیا ،آپ کیایک آواز پر ہزاروں افراد بیک وقت جمع ہوجاتے اور آپ کی آواز کو مضبوط کرنے میں معاون ثابت ہو تے ۔
بقول ایک عالم”مفتی بلال احمد صاحب ؒ ایک اچھے عالم بھی تھے واعظ بھی ،شاندار خطیب بھی تھے مقر بھی، بہترین مدرس بھی تھے معلم بھی،کام کے مفسر بھی تھے محدّث بھی،ہوشیار مہتمم بھی تھے منتظم بھی، مخلص پیر بھی تھے فقیر بھی ،مگر یہ سب کچھ بعد میں تھے ،سب سے پہلے وہ ”جمعیتی“ تھے“ ۔
مفتی بلال احمد صاحب ؒ نے جمعیة علماءکے پلیٹ فارم سے بے لوث خدمات انجام دیں ، اسی کے نتیجہ میں وہ ضلع مرادآباد (امروہہ،سنبھل الگ ضلع بننے سے پہلے) کے ایک عرصہ ¿ ِ دراز تک ”سکریٹری“ کے عہدہ پر فائز رہے اور پھرکئی ٹرم سے تا حال” صدر “بنے رہے ،اس بیچ ایک ٹرم میں جمعیة علماءاتر پردیش کے نا ئب صدر بھی رہے، جمعیة علماءکی صوبائی ومرکزی عاملہ میں بحیثیت ”مدعو خصوصی “شریک ہوتے رہے اور اپنے بڑوں ومعاصرین کی موجودگی میں اظہار رائے ایسے پیرایہ میں کرتے رہے کہ آ پ کی بات اثر انداز ہوئے بغیر نہ رہتی،دہلی یا ممبئی میں منعقدہ جمعیة کے بڑے بڑے اجلاسوں میں بولنے کا موقع ملتا ،آپ کوئی تجویز یا تائید پیش کرتے، تو اس میں بھی بے باکی صاف جھلکتی محسوس ہوتی۔
مفتی بلال احمد صاحب ؒ کو قسّام ِازل نے حلم وبردباری کے سمندر سے پانی بہت زیادہ پلایا تھا،جمعیة علماءضلع بجنور کے تحت چلنے والے ”محکمہ شرعیہ“کے آپ رکن ِرکین تھے ،جس کا ہیڈ آفس اسلامی جدید بیت المال نگینہ ضلع بجنور میں واقع ہے ،اس کے دیگر ایک اہم رکن استاذالاساتذہ،استاذ ِمحترم حضرت الحاج مولانا جما ل الدین صاحب مظاہری دامت برکاتہم العالیہ (سابق استاذ ِاساسی مدرسہ مدینة العلوم نگینہ ضلع بجنور،حال ناظم اعلیٰ جامعہ عربیہ نور العلوم روانہ شکارپور ضلع بجنور )نے خود اس راقم سے کسی موقع پر بیان کیاتھا کہ ”محکمہ شرعیہ میں آنے والے مقدمات سے وابستہ کچھ افراد ایسے نا خواندہ اور گنوار آتے ہیں، کہ ان کو بات کرنے کا سلیقہ وتمیز بلکل نہیں ہو تی، جس کی بنا پر کبھی کبھی وہ ایسی باتیں کہہ ڈالتے ہیں کہ ہمیں سب کو غصہ آجاتا ہے، مگر یہ مفتی بلال صاحب ایسے ہیں کہ غصہ نہیں ہوتے ،بلکہ تحمل سے کام لیتے ہیں اور ان سے بات کرکے ان کو مطمئن کرتے ہیں۔
آپ ایک امن پسند ،سیکولرزم کے حامی ،انسانیت نواز ،انسان دوست انسان تھے ،اسی لئے آپ سے غیر مسلموں کی خاصی تعداد وابستہ تھی ،آپ ان کے منچ پہ جاکر شانتی کا پیغام دیتے تو وہ لوگ بھی مفتی صاحبؒ کے اسٹیج پر امن کے گُن گاتے ،آپ گیلی لکڑیوں میں آگ لگادینے والے شعلہ بیاں خطیب تھے، لیکن کمال یہ ہیکہ آج تک ملک وملت کے حوالہ سے آپ کا ایک جملہ بھی گرفت میں نہیںآسکا ، آپ جذبات سے لبریز مگر ہوش وحواس پر کنٹرول رکھتے ہوئے تقریر کیا کرتے تھے ۔
مفتی صاحب ؒ کو بدیع السموات والارض نے غضب کی ذہانت ،بلا کی فطانت ،عجب دور بینی ،عاقبت اندیشی سے نوازا تھا ،میری اپنی چودہ سالہ مصاحبانہ زندگی میں ایک دو نہیں بلکہ درجنوں واقعات ایسے ہیں جو اس دعوی کی بین دلیل اور واضح ثبوت ہیں۔
مفتی بلال احمد صاحبؒ تصوف وسلوک سے بھی کافی رغبت رکھتے تھے ،انہوں نے سلسلہ بیعت کے چاروں سلسلوں کو خوب پڑھ رکھا تھا ، ہر ایک سلسلہ کے منسوب الیہ سے اچھے واقف کا رکھتے تھے،آپ بذات خود پہلے تو حضرت مدنیؒ کے خلیفہ حضرت سید احمد شاہ صاحب مرادآبادیؒ سے مرید تھے ،ان کے وصال کے بعد حضرت شاہ مفتی محمد عبد اللہ صاحب پھولپوری ؒ سے وابستہ ہو گئے تھے ،آخر الذکر شیخ نے جن با توفیق خوش نصیب حضرات کو” مجاز بیعت “ڈکلیئر کیا تھا ،مفتی صاحب ان میں سر فہرست تھے ،قیاس کیا جارہا تھا کہ اگر حضرت کی طرف سے کوئی فہرست ”مجازین بیعت “کی جاری ہوتی تو اس میں بھی مفتی صاحب ؒ موجود ہوتے ،تاہم اول الذکر پیرو مرشد کے خلیفہ ¿ ِ اجل حضرت حاجی شریف احمد صاحب دامت برکا تہم (نانگل سوتی بجنور)نے کئی سال پہلے ”خلافت واجازت ِبیعت“سے آپ کونواز دیا تھا ۔(اجازت کے لئے ارادت شرط نہیں ہے)
یوں تو مفتی صاحب ؒ دسیوں سال سے ”شوگر“ جیسی مہلک بیماری میں مبتلا تھے، لیکن بقول خود مفتی صاحب ؒ اپنی جسمانی توانائی کی وجہ سے وہ کئی سال تک اس پر غالب چلتے رہے، مگر عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ توانائی کمزوری سے مبدل ہو تی چلی گئی، تو شوگرغالب آتی گئی اور تقریبا ًپانچ سال سے گردے متاثر ہو تے چلے گئے ، دوسال قبل ڈائلیسس پر آگئے اور کچھ کم دوسال اس پر چلتے رہے،کلمہ طیبہ کا ورد ،توبہ واستغفارکی کثرت معمول بن گیا تھا ،آخری چار پانچ ماہ میں نقاہت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی، ہوش وحواس درست تھے البتہ آواز دب گئی تھی ،دوسروں کو سنائی نہ دیتی تھی ،آپ کے خادم وداما د مولوی محمد آصف صاحب کے مطابق عصر کے بعد طبیعت میں قدرے بگاڑ پیداہوا جو بڑھتا ہی چلا گیا اور ٹھیک مغرب کی اذان پرمو ¿رخہ: ۵۱ ذیقعدہ ۹۳۴۱ ھ۔مطابق:۹۲جولائی ۸۱۰۲ ءبروز اتوار آپ نے اپنی جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ رحمہ اللہ تعالی رحمۃ واسعۃ ۔
پسماندگان میں صرف ایک بیٹی اور اہلیہ موجود ہیں ،واضح ہو کہ خلاق عالم نے آپ کو واحد بیٹی عطا کی تھی جس کا عقد نہایت سادگی ساتھ اپنے ایک خادم وشاگرد مولوی محمد آصف ساکن مقصود پور ضلع بجنور سے کردیا تھا جن سے الحمد للہ دو بیٹے دو بیٹیاں موجود ہیں ۔
(مضمون نگار جامعہ عربیہ ناصر العلوم قصبہ کانٹھ ضلع مرادآباد یوپی کے ناظم تعلیمات ہیں )