بوسینیا میں تاریخی مسجد کا افتتاح

پس آئینہ :شمس تبریز قاسمی Shams
بوسینیا جنوبی یورپ کا ایک قدیم ترین ملک ہے ،جس کا کل رقبہ 51129مربع کلومیٹر (19741مربع میل)ہے۔ تین اطراف سے کروشیا کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی ہے۔ مشرق میں سربیا اور جنوب میں مونٹینیگرو کے ساتھ یہ ملا ہوا ہے۔ سب سے بڑا شہر اور دارالحکومت سرائیوو ہے جہاں 1984 کی سرمائی اولمپک کھیلوں کا انعقاد بھی ہوا تھا، 1991کی مردم شماری کے وقت یہاں کی کل آبادی 44 لاکھ تھی،2014 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی کل آبادی کم ہوکراب صرف 3871643 ہے ،جس میں مسلمان 46 فیصد ہیں ،سیربیائی آرتھوڈوکس36فیصد ،کیتھولک عیسائی 15فیصد اور تین فیصد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔
بوسینادنیا کے قدیم ترین ملکوں میں سے ایک ہے ،ہزاروں سال پرانے آثار یہاں دریافت کئے گئے ہیں، جنوب مشرقی یورپ کے قدیم ترین آثاربھی اسی ملک سے ملے ہیں مثال کے طور پر پتھر کے زمانے کے 12000 سال قبل مسیح سے تعلق رکھنے والا ایک مجسمہ جس میں ایک گھوڑے کو تیر کھاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ یہ آثار ہرزیگووینا میں ستولاک( (Stolac نامی قصبہ سے دریافت ہوئے ہیں۔ اس زمانے میں لوگ غاروں میں رہتے تھے یا پہاڑیوں کی چوٹیوں پر گھر بناتے تھے۔ 1893میں سرائیوو کے قریب بھی قدیم بتمیر ثقافت کے آثار ملے ہیں۔ جن کا تعلق کانسی کے زمانے سے ہے۔ یہ ثقافت آج سے پانچ ہزار سال پہلے معدوم ہو گئی تھی۔ چار سو سال قبل مسیح میں کلتی لوگوں نے اس علاقہ پر قبضہ کیا تھا جس کے بعد وہ مغربی یورپ میں بھی پھیل گیا، یہ اپنے ساتھ لوہے کو اوزار اور پہیے لے کر آئے جس نے علاقے کی زراعت میں نمایاں تبدیلی پیدا کی۔
mosque3(1) (1)بوسینیا کی تاریخ کے مختلف ادوار ہیں ،مختلف خاندانوں نے اس پر حکومت کی ہے ،چھٹی صدی عیسوی سے گیارہویں صدی تک یہ مختلف مملکتوں کا حصہ بن کررہاہے ،ارلی میڈیل ایجیز کے دورمیں مغربی بوسینیا کورٹیا کا حصہ تھا جبکہ بقیہ کوریٹیا اور سربیا کے درمیان تقسیم تھا،آگے چل مشرقی رومن امپائر کے ایک گورنر نے بوسینیا کو ایک چھوٹا آئلینڈ قراردیا،بارہویں صدی میں ایک مستقل ایک ملک بن گیا ،تیرہویں صدی کے اخیر تک اس ملک پر یورپ کے دوخاندان سوبک اور کوٹرومانک نے حکومت کی ہے ،Tvrtko یہاں کا سب سے طاقتور بادشاہ گزارہے ،1391 میں اس کے انتقال کے بعد بادشاہت عدم استحکام کا شکارہوگئی ،دوسری طرف یورپ میں عثمانی سلطنت کی فتوحات کا سلسلہ یہاں تک پہونچ گیا اور بوسنیا کو عثمانی سلطنت کے جاں باز حکمرانو ں نے فتح کرکے 1463 میں اپنے قلمرو میں شامل کرلیا ۔
عثمانی سلطنت نے سیاسی ،سماجی،انتظامی سطح پر بے شمار تبدیلیاں کی ،ایک مہذب سماج کی بنیاد ڈالی ،نظم ونسق بے مثال بنایا ،رواداری کو فروغ دیا ،تقریبا چارصدی تک عثمانیوں کی حکومت میں بوسنیا کی چوطرفہ ترقی ہوئی اور عوام بے فکر ہوکی زندگی بسرکرتی رہی ،1878 میں عثمانی سلطنت کے خاتمہ کے بعد یہاں آسٹرو ہنگرین نے حکومت کرنا شروع کردیا ، پہلی عالمی جنگ کے بعد1918سے 1941 تک بوسینیا مملکت سوگوسلاویہ کا حصہ بن گیا ،دوسری عالمی جنگ کے دوران بھی مملکت یوگوسلاویہ نازی فوجیوں کے تعاون سے بوسینیا پر فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور اس طرح 1945 تک بوسنیا پر سوگوسلاویہ کی حکمرانی رہی، 1945 سے 1992 تک کا دور اشتراکی جمہوریہ کا کہلاتاہے جو عملی طور پر مملکت یوگوسلاویہ کاہی حصہ تھا جسےSocialist Federal Republic of Yugoslaviaکہاجاتاہے ، مذہبی انتہاء پسندی اور سیاسی کشمکش کی بناپر صورت حال قابومیں آنے کے بجائے دن بدن بگڑتی چلی جارہی تھی،بالآخر یکم مارچ1992 میں بوسینیا کی مکمل آزادی کا اعلان کردیا گیا جس کے بعد ایک خوفناک جنگ چھڑ گئی، 6 اپریل 1992 سے باضابطہ ایک مسلح جنگ شروع ہوگئی جو 14 دسمبر 1995 تک جاری رہی ،پڑوسی ملک سربیاکی مددسے عیسائی فوجی جنرل ملاڈچ نے مسلمانوں کا بے دریغ قتل کیا سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس جنگ میں 38 ہزار سے زائد شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاراگیا جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی،دوسرے لفظوں میں یوں کہئے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں یہ پہلی مسلم نسل کشی تھی ،اس جنگ میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے ساتھ ان کی مساجد اور تاریخی عمارتیں بھی منہدم کردی گئی،انتہاء پسند سرب یہودیوں نے مسلمانوں کا نام ونشان مٹانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ، برسوں سے آباد مسلمانوں کو اس ملک سے ختم کرنے کی منظم سازش رچی گئی ،پڑوسی ملکوں کی حمایت انہیں مزید تقویت فراہم کررہی تھی ۔ اس مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ 614 مسجدیں بھی مہندم کردی گئیں ،ان مسجدوں میں عثمانی دور کی بنائی ہوئی فرہادپاشانامی مسجد بھی شامل تھی ۔
Bosiniaفرہادپاشا سولہویں صدی کی بنائی گئی ایک عظیم شاہکار اور یادگارمسجد ہے ،جسے 1993 میں منہدم کردیاگیا تھا لیکن خداکا شکر ہے کہ وہ مسجد دوبارہ بحال ہوگئی ہے ،مسجد کی تعمیر میں ترکی نے خصوصی مالی تعاون کیا ہے ، مسجد کی تعمیر پرانے پتھر اور قدیم نقشے کے مطابق ہی کی گئی ہے ، تقریبا 75 فیصد ڈیزائن عثمانی طرز تعمیر کے مطابق ہے ،مسجد کی تعمیر نوکا آغاز 2001 میں ہواتھا،سنگِ بنیاد رکھنے کی تقریب میں میں آنے والے لوگوں پر انتہا پرست سرب یہودیوں کی جانب سے کیے گئے حملوں میں ایک مسلمان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے، چودہ سالوں بعد یہ مسجد آج مکمل ہوگئی ہے جس کی افتتاحی تقریب 7 مئی کو منعقد کی گئی ،دس ہزار سے زیادہ مسلمان اس موقع پر وہاں موجودتھے، افتتاحی تقریب میں ترک وزیر اعظم داؤاوگلو نے بھی ترجیحی طور پر شرکت کی ، اس موقع پر انہوں نے مسلمانوں ،یہودیوں اور عیسائیوں سے باہمی امن ومحبت کے ساتھ رہنے کی تلقین کی اور کہاکہ اس تاریخی مسجد کا دوبارہ آغاز آپ تمام کی جانب سے دنیا کے لئے امن کا پیغام ہے۔
mosque2(1)نسلی بنیادوں پر تقسیم بوسینیا میں ایک تاریخی مسجد کا آغاز اہم پیش رفت ہے ، امریکی اخبار پی بی ایس کی خبروں سے پتہ چلتاہے کہ وہاں مسلمانوں اور سرب یہودیوں کے درمیان نفرت کی دیواریں مہندم ہونے لگی ہے ،دونوں حریف آپس میں محبت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، اخبار نے کئی مسلم ،یہودی اور عیسائی کا انٹرویو پیش کیا ہے جس سے پتہ چلتاہے کہ آپس میں وہ ایک دوسرے کے تئیں خیرخواہی کا جذبہ رکھتے ہیں ،ماضی کی لہولہان او رخوفناک داستان کو فراموش کرکے اتحادویکجہتی کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں ۔(ملت ٹائمز)
stqasmi@gmail.com