جے این یو انتظامیہ حکومت تک ایک طالب علم پر صرف ہونے والی پوری تفصیلات پہونچاتی ہے اور بتاتی ہے کہ ایک طالب علم پر اتنا خرچ ہوتاہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں نہ تو جے این یو میں ووٹ دیتے ہیں اور نہ جے یو کے باہر ووٹ دیتے ہیں ا س لئے ان پر خرچ کرکے کیا فائدہ ۔
نئی دہلی (ملت ٹائمز)
ہندوستان کی معروف عصری درس گاہ جواہر لال نہرو یونیورسیٹی (جے این یو )نے یہ فیصلہ لیاہے کہ آئندہ تعلیمی سال سے فورین لنگویج کے دوسرے سال میں جدید داخلہ نہیں لیاجائے گا،اب تک وہاں ہر سال گریجویشن کے سال دوم میں داخلہ ہورہاتھا اور بڑی تعداد میں غیر ملکی زبانوں کو سیکھنے میں دلچسپی رکھنے والے طلبہ اپنا داخلہ لینے میں کامیاب ہوتے تھے تاہم اب جے این یو انتظامیہ نے فیصلہ لیاہے کہ سال دوم میں داخلہ نہیں لیا جائے گا ۔
جے این یو میں پڑھائی جا نے والی غیر ملکی زبانوں میں سب سے زیادہ داخلہ عربی اور فارسی میں ہوتاہے بقیہ زبانوں کے امیدوار بہت ہی کم اور محدود ہوتے ہیں ،عربی اور فارسی میں داخلہ لینے والے تقریبا سبھی مسلمان ہوتے ہیں اس لئے یہ کہاجارہے کہ جے این یو انتظامیہ کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ متاثر مسلم طلبہ ہوں گے اور یونیورسیٹی میں مسلم طلبہ کی تعداد دس فیصد سے گھٹ کر پانچ فیصد سے بھی کم ہوجائے گی ۔تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ ایک طرح مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ مسلم طلبہ کو تعلیم سے دور رکھنے کی یہ سازش ہے ۔ جے این یو کے ایک ذمہ دار نے ملت ٹائمز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شر ط پر بتایاکہ سب سے زیادہ طلبہ عربی میں داخلہ لیتے تھے اور پھر ایم فل ،پی ایچ ڈی تک ان کا تعلیمی سفر جاری رہتاتھا جبکہ جرمن ،چائینز اور دیگر زبانوں میں داخلہ لینے والے بہت محدود تھے ،بیرونی زبان کے نام پر دراصل مسلم طلبہ کو تعلیم سے محروم رکھنے کی کوشش ہے ۔جے این یو انتظامیہ حکومت تک ایک طالب علم پر صرف ہونے والی پوری تفصیلات پہونچاتی ہے اور بتاتی ہے کہ ایک طالب علم پر اتنا خرچ ہوتاہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں نہ تو جے این یو میں ووٹ دیتے ہیں اور نہ جے یو کے باہر ووٹ دیتے ہیں ا س لئے ان پر خرچ کرکے کیا فائدہ ۔
جے این یو اسٹوڈینٹ یونین کے صدر این سائیں بالاجی نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جے این یو کے وی سی آر ایس ایس اور بی جے پی کے اشارے پر کام کررہے ہیں،طلبہ پڑھنا چاہتے ہیں اور انہوں نے داخلہ بند کردیاہے ،ہم پہلے بھی اس کے خلاف احتجاج کرچکے ہیں ،آئندہ بھی کریں گے اور اس معاملہ کو لیکر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایاکہ یہ فیصلہ کسی ایک کمیونٹی کے خلاف نہیں بلکہ پڑھنے کا شوق رکھنے والے تمام طلبہ کے خلاف ہے ۔
جے این یو میں شعبہ عبرانیات کے پرفیسر ڈاکٹر خورشید امام نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے بتایاکہ یہاں صرف بیرونی زبان کے شعبہ میں ہی سیکنڈ ایئر میں داخلہ ہوتاتھاجسے اب بندکردیاگیا ہے ،ا س فیصلے سے یقینی طور پر عربی کے طلبہ سب سے زیادہ متاثرہوں گے ،ندوہ او ردیگر مدارس کے طلبہ بڑی تعداد میں سال دوم میں ہی داخلہ لیتے تھے کیوں کہ بی اے کے سال اول میں سند اور دیگر ایشوز کی بنیاد پر داخل نہیں ہوپاتے تھے اب انہیں سال اول میں ہی داخلہ لینا ہوگا ،انہوں نے یہ بھی کہاکہ پہلے بی اے کے بعد براہ راست ایم اے میں داخلہ ہوجاتاتھا لیکن اب ایم اے کیلئے علاحدہ داخلہ امتحان دینا ہوگا جس سے تعلیم متاثر ہوگی او رطلبہ کی توجہ تعلیم کے بجائے امتحان کی تیاری پر مرکوز رہے گی ۔
جے این یو کے طالب علم ثاقب قمر نے ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کہاکہ جے این یو کے اس فیصلے کا براہ راست اثر مسلم طلبہ پر ہوگا اور اس کے بعد یونیورسیٹی میں مسلم طلبہ کی تعداد 10 فیصد سے کم ہوکر تین سے پانچ فیصد کے درمیان محدود ہوجائے گی ۔انہوں نے بتایاکہ عربی اور فارسی کے زیادہ ترا امیدوار مدارس کے طلبہ ہوتے ہیں لیکن وہ سال اول میں کامیاب نہیں ہوپاتے ہیں، پہلے سال میں زیادہ تر داخلہ غیر مسلموں اورر یضرب کوٹہ والوں کو ملتاہے جبکہ سال دوم میں مدارس کے طلبہ بآسانی داخلہ کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔انہوں نے بتایاکہ سال رواں بی اے عربی کے سال اول میں 27 طلبہ کاداخلہ ہواہے جن میں سے صرف تین مسلمان ہیں ،اب آئندہ سا ل سیکنڈ ایئر میں داخلہ لیاجاتا تو تقریبا 15 مسلم بچے شامل ہوجاتے ۔ ان کا کانناہے کہ شعبہ عربی میں آگے چل کر مسلمان طلبہ ہی بر قرارر ہ پاتے ہیں کیوں کہ سال اول میں جن لوگوں کا داخلہ ہوتاہے وہ اے ایم میں نہیں چل پاتے ہیں اور مجبور ا چھوڑ دیتے ہیں جبکہ مدارس کے طلبہ کیلئے یہ بہت آسان ہوتاہے سال اول میں مدارس کے طلبہ کا داخلہ نہ ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ سائنس اور ریاضی سے واقف نہیں ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر داخلہ امتحان مشکل ہوجاتاہے جبکہ سال دوم میں یہ پروبلم نہیں ہوتی ہے ۔ثاقب قمر کا مزید کہناتھاکہ یونیورسیٹی کے دس فیصد مسلم طلبہ میں تقریبا 7 فیصد مدارس سے پڑھ کر آنے والے ہوتے ہیں لیکن اب یہ تعداد پانچ فیصد سے کم ہوجائے گی او راس کا اثر سرکاری وغیر سرکاری سیکٹر میں ملازمت پر بھی پڑے گا جہاں پہلے مسلمانوں کو ترجیحی بنیاد پر ملازمت مل جاتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہوپائے گا ۔