آٹھ سالہ محمد عظیم کی دردناک شہادت! 

مظفر کمال 

ماب لنچنگ (ہجومی تشدد) یعنی قانونی اختیار کے بغیر کسی کو جان سے ماردینا، یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو ہماری روزانہ کے بول چال کا حصہ بن چکی ہے، جس نے ہندوستانی مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کررکھا ہے، ان کی نیندیں حرام کر رکھی ہے، ماب لنچنگ کے اب تک ہندوستان میں سیکڑوں واقعات پیش آچکے ہیں، تازہ معاملہ دہلی کے ”بیگم پور“میں تعلیم حاصل کررہے آٹھ سالہ ننہا اور معصوم بچہ “محمد عظیم”کا ہے جسے نہایت سنگدلی سے موت کے گھاٹ اتاردیا گیا۔

“ملت ٹائمز”کی رپورٹ کے مطابق آٹھ سالہ عظیم اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مدرسہ کے احاطہ میں کھیل رہاتھا، اسی دواران چار، پانچ شرپسند لڑکے آئے اور ان بچوں پر پتھراو¿ کیا، پھر اسے مار مار کر بے ہوش کردیا، پھر وہاں پر کھڑی ایک بائیک پر نہایت بے دردی اور سنگدلی سے اس کے سر کو دے مارا، عظیم کے دوسرے ساتھی نے فورا استاذ کو اس کی اطلاع دی، اس کے بعد اسے ہسپتال لے جایا گیا جہاں اسے ایڈمٹ سے پہلے ہی مردہ قرار دیا گیا۔

یہ ہم سے کس نے لہو کا خراج پھر مانگا

ابھی تو لوٹے تھے مقتل کو سرخرو کرکے

آخر کون ہے اس گھناو¿نے کھیل کے پیچھے؟ کس کی ذہنیت کارفرما ہے؟ یہ کوئی دو چار دن یا سال دو سال کی لگائی ہوئی آگ کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ آزادی کے بعد سے ہی نفرت کی اس چنگاڑی کو سوکھی لکڑیاں دے کر شعلے میں تبدیل کرنے والوں کی ایک ٹیم اور تنظیم ہے جو ریل گاڑی کے ڈبوں، پارکوں اور عوامی مقامات پر ہندو مذہبی گیت گانے والوں، کتھا سنانے والوں اور پمفلٹ تقسیم کرنے والوں کو مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکانے اور افواہیں پھیلانے کے لیے استعمال کرتی ہے، مسلمانوں کے تعلق سے ان کے درمیان خوف پیدا کرتی ہے، انہیں یہ احساس دلاتی ہے کہ مسلمان تمہارے دشمن ہیں۔ظلم و تشدد کا یہ طوفان آخر کب تھمے گا؟ آنسووو¿ں کا یہ سیلاب کس دن ختم ہوگا؟ نفرت کے یہ شعلے کب ٹھنڈے ہونگے؟ 

کیا وہ تعصب اور مسلم دشمنی میں اتنے مدہوش ہوچکے ہیں کہ بے قصوروں کو سر عام کچلنے لگ گئے؟ کیا ان فرقہ پرستوں کے نزدیک جانور کی اہمیت انسان سے زیادہ ہوچکی ہے؟ کیا انہیں انسان کے دردوکرب کا ذرا بھی احساس نہیں رہا؟ 

ماب لنچنگ کے روزمرہ کے واقعات پر حکمرانوں کی خاموشی یا صرف زبانی جمع خرچ سے مجرموں کا کچھ نہیں بگڑے گا، ملک کے امن و سلامتی کے لیے سخت اقدامات کرنے ہونگے۔لیکن کرےگا کون؟ پولیس اہلکار خود حکومت کے دباو¿ میں ہیں، بہت سے تو سنگھی مزاج کے حامل ہیں، آخر کاروائی ہوتو کیسے ہو ؟ آج مجرم پکڑے جاتے ہیں اور کل چھوڑ دیے جاتے ہیں، ضمانت پر رہا کردیے جاتے ہیں، بلکہ اکثر واقعات میں تو مظلوموں پر ہی طرح طرح کے الزامات دھڑ دیے جاتے ہیں، قتل وغارت کا یہ کھیل آخر کب تک چلےگا؟

کسی بھی ملک کی سب سے بڑی طاقت عدالت ہوتی ہے، لیکن جب عدالت عظمیٰ کی ہدایت بھی بے اثر ثابت ہورہی ہے تو اور کس کی ہدایت پر حالات سازگار ہوں گے؟ سپریم کی سخت ہدایت کے بعد اس معاملہ کو حل کرنے کے لیے وزارت قانون نے دو رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ اگر ضروری ہوا تو اس پر قانون بھی لایا جائےگا، سوال قانون کا نہیں بلکہ عمل کا ہے جو کہیں بھی نظر نہیں آرہا ہے، پولیس لنچنگ میں ملوث افراد کو یا تو پکڑتی ہی نہیں ہے یاحراست میں لیتی بھی ہے تو ایسی دفعات لگاتی ہے کہ اسے فوراً ضمانت مل جاتی ہے۔آخر کب تک یہ حکمراں اور مسلم قائدین خاموش بیٹھے رہیں گے؟ مصلحت اور بزدلی کی چادر اوڑھ کر آخر کب تک سوتے رہیں گے۔

ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے جب تک ہم عمل کا رد عمل پیش نہیں کرینگے اور اس رد عمل کے لیے ٹھوس لائحہ عمل پیش نہیں کرینگے تب تک اخلاق سے عظیم تک کا یہ طویل سلسلہ نہیں رکےگا، اگر ہم اخلاق کے قاتلوں کے خلاف پوری طاقت سے اٹھ کھڑے ہوتے تو آج ماب لنچنگ کا سلسلہ آٹھ سالہ معصوم “عظیم”کی شہادت تک نہ پہونچتا 

جلتے گھر کو دیکھنے والے پھوس کا گھر آپ کا ہے 

آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے 

اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھامیرا نمبر اب آیا 

میرے قتل پہ آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کاہے

(مضمو ن نگار ایشاءکی عظیم دینی درس گاہ دارالعلوم دیوبند کے طالب علم ہیں )

muzaffarkamal789@gmail.com

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں