آسام کی موجودہ صورتحال کیلئے کانگریس کی ریاستی قیادت ذمہ دار،اسمبلی انتخابات کی طرح 2019میں بھی مفاہمت کا بظاہر کوئی امکان نہیں

مرکز المعارف کے روح رواں مولانا بدرالدین اجمل صاحب
اے آئی یو ڈی ایف کی اتحاد کی ہر ممکن کوشش کو گگوئی نے ناکام کردیا، 2019 میں بھی مفاہمت کا بظاہر کوئی امکان نہیں، کوئی پارٹی 
مسلمانوں کو اقتدار میں حصے داری نہیں دینا چاہتی: خصوصی انٹرویو کے دوران مولانا بدرالدین اجمل ایم پی کا اظہار خیال
نئی دہلی (قاسم سیّدملت ٹائمز)
آسام کی موجودہ صورت حال کے لئے کانگریس کی ریاستی قیادت مکمل طور پر ذمہ دار ہے، جس نے مفاہمت اور اتحاد کی تمام راہوں کو مسدود کردیا۔ جہاں تک آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کا سوال ہے اس نے گزشتہ اسمبلی انتخابات میں حتی الامکان کوشش کی کہ بی جے پی کے خلاف متحدہ محاذ بن جائے، کانگریس ہائی کمان کی بھی یہی خواہش تھی مگر گگوئی نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے تیزطرار سربراہ اور معروف رہنما مولانا بدرالدین اجمل قاسمی نے روزنامہ خبریں اور ملت ٹائمزسے خصوصی گفتگو کے دوران یہ دعویٰ کیا۔ ان سے سوال کیا گیا تھا کہ آسام میں موجودہ صورتِ حال کا ذمہ دار آپ کو مانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ آپ نے اپنی حیثیت سے زیادہ خواب دیکھنا شروع کردیا تھا۔ مولانا نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کانگریس سے اتحاد کی ہر ممکن کوشش کی۔ کے سی تیاگی، رام جیٹھ ملانی اور پرشانت کشور جانتے ہیں کہ کیا کچھ ہوا تھا، کیونکہ ان کے سامنے بہار کے مہاگٹھ بندھن کا تجزیہ تھا، مگر افسوس کانگریس نے ایسا نہیں کیا۔ ہم پر تو بی جے پی سے 500 کروڑ روپے لینے کا بھی الزام لگا۔ دوسری طرف اس بی جے پی سرکار نے ہمارے اوپر دسیوں کیس کررکھے ہیں اور جہاں تک بات حیثیت سے زیادہ سوچنے کی ہے تو ہمارے پاس پہلے سے 8 ایم ایل اے تھے، پارٹی کارکنان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے بہت کچھ کہا جاتا ہے، کوئی بھی پارٹی سربراہ اپنے بارے میں یہ نہیں کہتا کہ ہم ہار رہے ہیں، میں نے خود کو کنگ میکر کبھی نہیں کہا، یہ اخبارات کی کارستانی تھی، وہ لکھتے رہے کہ ہمارے بغیر سرکار نہیں بن سکتی، ہماری کوشش بی جے پی کو روکنے کی تھی، اس کے لئے ہم 20سیٹیں لینے پر آمادہ تھے، لیکن کانگریس پھر بھی نہیں مانی۔
یہ سوال کرنے پر کہ کیا 2019میں بھی یہی پوزیشن ہونے والی ہے؟ مولانا بدرالدین اجمل نے کہا کہ ہم تو دل سے چاہتے ہیں کہ کانگریس سے اتحاد ہوجائے، لیکن فی الحال ایسا ممکن نہیں لگ رہا ہے اور وہ شامل کرنا ہی نہیں چاہتے، مجبوری میں ہمیں علیحدہ ہی الیکشن لڑنا پڑے گا۔ اب یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ہم الیکشن لڑنا چھوڑدیں۔ دیکھئے سچی بات یہ ہے کہ کانگریس میں آر ایس ایس کے آدمی موجود ہیں، تصویریں وائرل ہورہی ہیں، سب جانتے ہیں۔ ان سے معلوم کیا گیا کہ کانگریس کی ریاستی لیڈرشپ پارٹی ہائی کمان پر اتنی حاوی ہے وہ کیوں نہیں سمجھتی؟ مولانا اجمل نے کہا کہ گگوئی بہت پرانے لیڈر ہیں اور ان کا پس منظر آر ایس ایس کا ہے، شاید موجودہ قیادت ان کی سینئرٹی کا خیال کرکے چپ ہوجاتی ہے، پھر ریاستی یونٹ کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اس کی رائے کی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔ یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ سے اتحاد نہ کرنا کانگریس کو مہنگا پڑا۔ سرکار ہاتھ سے چلی گئی اور ووٹوں کی تقسیم کا نقصان ہمیں بھی اٹھانا پڑا، مگر ریاستی قیادت ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہندو ہندو کے گیم کو مولانا نے ڈرامہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ نوراکشی ہے، وہ صرف مسلم ووٹ لینا چاہتے ہیں، اقتدار میں حصہ داری بالکل منظور نہیں، کیونکہ جب بات مسلمان کی آتی ہے تو پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں۔ بہرحال یہ وقت آزمائش اور صبر و تحمل کا ہے۔ کیا مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم ہونی چاہئے؟ اے آئی یو ڈی ایف کے صدر نے کہا کہ ہندوستان جیسے تکثیری ملک میں تنہا مسلم پارٹی کبھی فائدہ کا سودا نہیں ہوسکتی۔ سیکولر طاقتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں فائدہ اور بہتری ہے۔ یو ڈی ایف اس کا بہترین نمونہ ہے۔ اس سوال پر کہ لگتا ہے آپ کے ہاتھ سے ہندو ووٹ نکل گیا ہے اس لئے نمائندگی گھٹ گئی؟ انھوں نے اس کی پرزور تردید کرتے ہوئے بتایا کہ ہندو بھائیوں کی اکثریت ہمارے ساتھ ہے۔یو ڈی ایف سے ہمیشہ ہندو نمائندے جیت حاصل کرتے آئے ہیں، لوک سبھا میں ہمارے تین ممبران میں سے ایک رادھے شیام ہیں، غیرمسلم ایم ایل اے بھی منتخب ہوکر آئے ہیں۔
اس عمومی احساس پر کہ مودی سرکار کے آنے کے بعد آپ کا لب و لہجہ نرم ہوگیا ہے اور عالم دین ہونے کے باوجود مسلم ایشوز پر نہیں بولتے، طلاق بل پر لوک سبھا میں موجود نہیں تھے؟ مولانا بدرالدین اجمل نے پرزور انداز میں کہا کہ ایسا ہرگز نہیں، لوک سبھا کی کارروائی کا ریکارڈ نکال لیں اور بتائیں کہ کس مسئلہ پر نہیں بولا۔ یہ الزام بے بنیاد ہے۔ جہاں تک طلاق بل کی بات ہے تو وہ حکومت نے چالاکی کے ساتھ بغیر کسی اطلاع کے بل پیش کردیا، سوئے اتفاق سے اس دن میں دہلی میں نہیں تھا۔ بل پہلے پیش کیا جاتا ہے پھر اس پر بحث ہوتی ہے، لیکن حکومت نے اس دن پیش کرکے بحث کرادی اور پاس بھی کردیا۔ ہمارے ایم پی راھے شیام نے اس کی کھل کر مخالفت کی اور پارٹی کا موقف مضبوطی سے رکھا، ہم بھی تیار تھے مگر سب کچھ اچانک ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ پیش آیا۔ طلاق کا معاملہ شریعت و ایمان کا ہے، اس پر کیسے سمجھوتے کرسکتے ہیں۔
آسام میں این آر سی کے معاملے پر موصوف نے کہا کہ یہ ہندو مسلم مسئلہ نہیں ہے، این آر سی فہرست سے خارج کئے گئے چالیس لاکھ میں بڑی تعداد غیرمسلم قبائلی اور نیپالی باشندوں کی بھی ہے، بی جے پی اسے ہندو مسلم ایشو بنانا چاہتی ہے، جس کو آسام کے عوام اور پارٹیوں نے مسترد کردیا۔ سپریم کورٹ سے امید ہے کہ جن کا نام چھوٹ گیا اس کے فیصلہ سے وہ بھی دائرے میں آجائیں گے۔ ہمارا واضح اسٹینڈ ہے کہ کسی ہندوستانی کا نام چھوٹنے نہ پائے اور کسی بنگلہ دیشی کا آنے نہ پائے۔
SHARE