تاج الشریعہ :صلح کلیت کے خلاف حق کی آ ہنی دیوار

ڈاکٹر محمد امجد رضاامجدؔ

خانوادہ بریلی اپنے علمی وجاہت ،فقیہانہ کروفر ،اور عارفانہ جلال وجمال کے سبب ہردور میں ممتاز اوریکتائے روزگار رہاہے ،فقہ تصوف اور ادب میں اس خانوادہ کی خدمات کا کوئی بدل شاید ہی کہیں ملے،اعلیٰ حضرت امام احمدرضا قدس سرہ کے بعد حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضا خان ،مفتی اعظم مولانا شاہ مصطفےٰ رضاخان ،مفسر اعظم ہند مولانا شاہ ابراہیم رضاخان،اور تاج الشریعہ مولانا شاہ اختر رضاخان ازہری میاں قبلہ نے جس طرح گلستان علم وفن کی آبیاری، چمنستان شعروسخن کی سرسبزوشادابی اورمیکدہ عرفان کوآباد رکھنے میں خون جگر صرف کیا ہے اسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی ۔
ہمارے عہد کے مرد یگانہ جانشین حضور مفتی اعظم علامہ شاہ محمد اختر رضاقادری کوپروردگار عالم نے جن خوبیوں کاحامل بنایاہے اس کی نظیر کہیں اور نظر نہیںآتی آپ علم وفن میںیگانہ ،تصوف ومعرفت میںیکتا،خلق وکرم میں ممتازاورپیرویِ سنت میں امام اعظم ہیں،عالم شباب سے عمر کی اس منزل تک اپنے ہر عمل میں رضائے الٰہی کی طلب نے اس مرتبہ کمال تک پہنچادیاہے کہ آج ہر آنکھ آپ کے دید کی طالب ،ہر دل محبت کیش آپ کا تمنائی اورہر صالح ذہن فرد آپ کا شیدائی ہے ،عالمی سطح پر ابھی جو مقبولیت آپ کی ہے اس سے یہ حقیقت عیاں ہے کہ خلق خداکے دل میں آپ کی محبت ڈال دی گئی ہے اور یہ یقیناًاللہ کے ولی کی پہچان ہے ۔
تاج الشریعہ کی حیات وخدمات کی متنوع جہتیں ہیں اور ہرجہت ایک مستقل کتاب کی متقاضی ہے ،چند سطروں میں اسے بیان کرنا ساحل دریا کی سیر کے سوا کچھ نہیں مگر عشق وعرفان کے دریا میں جسے ڈوبنے کا حوصلہ نہ ہو اس کے لئے ساحل کی سیر بھی ’’توفیق ایزدی‘‘ ہے اس تناظر میں چند ضروری گزارشات حاضر خدمت ہیں ۔
آج بڑے لخلخہ سے تکفیری مہم ،تکفیری ٹولہ،شدت پسند ،متشدد جماعت ‘‘کے الفاظ رسائل وجرائد اور سوشل میڈیا پہ اچھالے جارہے ہیں ،مقصود انتشار کے آزار سے امت مسلمہ کو بچانا نہیں بلکہ اپنے اندر کے بخاراور اوردوسرے کی مقبولیت سے اپنی بیزاری کااظہار ہے ۔اس طرح کی مہم ان افراد کے ذریعہ سامنے آئی ہے جسے دین میں تصلب اور مسلکی ومذہبی حدود کی پابندی ناگوار گزرتی ہے ،جو شریعت کواپنی پسند کا پابند بناناچاہتے ہیں اور طبیعت کو شریعت پر غلبہ دینا جن کا مقصود ہے۔یہ ہنگامہ مختلف حلقوں سے اسی طرح کیاجارہاہے جس طرح انگریزوں نے افواہ پھیلا کر ملک میں بدامنی کی فضا پیدا کردی تھی،انہیں اگر اپنی تاریخ معلوم ہوتی،اپنے گھر کے بزرگوں کے احوال معلوم ہوتے اور عالمی سطح پراسلام اور مسلمانوں کے خلاف رچی گئی سازش کا علم ہوتا تو وہ اپنے محسن کے خلاف زبان کھولنے کے بجائے ان کا درد سمجھتے ،ان کے مشن کا حصہ بنتے ،اور اسلام وسنیت کو بدعقیدگی مداہنت اور صلح کلیت سے محفوظ رکھنے میں ان کی معاونت کرتے۔ مگرجماعتی بغاوت کا جنون، خانقاہی چشمک ،خاندانی تعصب اور معاصرانہ منفی رویہ نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے،یہ نہ حق سن سکتے ہیں اور نہ اسے قبول کرسکتے ہیں۔ایسے میں تاج الشریعہ کی حقیقت اور ان کے محاسبانہ روش کو سمجھنا کیسے ممکن ہے ؂
لطف مئے تجھ سے کیا کہوں زاہد
ہائے کم بخت تونے پی ہی نہیں
ہمارے بعض کرم فرماؤں نے حقائق سے آنکھیں موند کرجس طرح اکابر کی کردار کشی کو بطورمہم اپنارکھاہے اس کے نتائج کتنے بھیانک ہوں گے اس کا اندازہ انہیں اس وقت ہوگا جب حضور تاج الشریعہ کے سایہ کرم سے محروم ہوجائیں گے ، انہوں نے یہ دیکھاکہ تاج الشریعہ نے کسی معروف خطیب کے خلاف شرعی محاسبہ کیاہے مگریہ نہیں دیکھا کہ اس شرعی محاسبہ کے اسباب کیا ہیں؟بعض سنی تنظیموں کے خلاف تاج الشریعہ کی برہمی دیکھی مگران تنظیموں کی قابل گرفت حرکتیں نہیں دیکھیں،بعض اہل خانقاہ سے ان کا اعراض دیکھا مگر ان صاحبان جبہ ودستار کی غیر صوفیانہ روش نہیں دیکھی،ڈاکٹر طاہر القادی کے خلاف ان کاسخت احتجاج اور مجاہدانہ کردار دیکھامگر طاہر القادری کے پردے میں چھپے دین کے غاصب کو نہیں دیکھا۔ان تمام سانحات کی تفصیل مختلف کتابوں میں بھری پڑی ہے انہیں دیکھے بغیر علمی وشرعی گرفت کرنے والے کے خلاف واویلا مچانا کہاں کی دانش مندی ہے،؟چور کا ہاتھ کاٹنے والا مجرم مگر چوری کرنے والا متقی؟سنگساری کا حکم دینے والا مجرم مگر مرتکب زنا مظلوم؟دین کے باغیوں کی گرفت کرنے والامجرم مگر دین سے کھلواڑ کرنے والامحبوب؟کیا اس کا نام دینی شعور اور پختہ ایمانی ہے؟
واویلا مچانے والے اپنی جان بچانے کی خاطر یہ کہہ کر جان چھڑاناچاہتے ہیں کہ کیایہ سب کے سب مجرم ہیں اور تنہا تاج الشریعہ صحیح ہیں؟ملک میں کسی اور نے ان کے خلاف ایکشن کیوں نہیں لیا ؟ہر معاملہ میں صرف تاج الشریعہ ہی پیش پیش کیوں ہیں؟ ان کرم فرماؤں کو اب کون سمجھائے کہ جو دین کاپیشوا ہوتا ہے اہل علم اور ذمہ داران مشکل معاملات میں انہیں سے رجوع کرتے ہیں اور اس یقین سے رجوع کرتے ہیں کہ یہاں شخص اور شخصیت کی پروا کئے بغیر شرعی حکم سنایاجاتاہے، ان کا یہ اعتماد اتنا پختہ اور یقینی ہے کہ ان اختلافی مسائل میں بھی سب سے پہلے وہ یہی دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں تاج الشریعہ کا موقف کیا ہے،جوان کا موقف ہوتاہے وہی حجت اور قول فیصل قرار پاتا ہے۔ان مذکورہ مسائل میں بھی تاج الشریعہ نے افرادو شخصیت کودیکھنے کے بجائے تقاضائے شرع پیش نظر رکھاہے اوردلائل کی روشنی میں حکم شرع سنایاہے ۔اس ’’آئین جواں مرداں‘‘اور ’’حق گوئی وبے باکی ‘‘پہ انہیں کوئی نفس پرست کوستاہے تو وہ اپنی عاقبت خراب کرتاہے کرے، مگریہ یقین رکھے کہ تاج الشریعہ نے اس ’’ایضاح حق اورحق گوئی وبے باکی ‘‘سے جہاں کروروں افراد کے ایمان عمل کو بچایاہے وہیں اپنے ہمعصروں اور اپنے بعد والوں کو حق کے اظہار اور شریعت کی پاسداری کا حوصلہ بھی دیاہے۔
تاج الشریعہ کے عہد کے فتنے:
یہ بہت بڑاالمیہ ہے کہ ہندوستان میں مغلوں کے دور سے اسلام کے خلاف فتنوں کے اٹھنے کا جو سلسلہ شروع ہواتھاوہ آج تک قائم ہے ،اکبر کے دور میں دین الٰہی کا فتنہ اٹھاحضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور بالخصوص حضرت مجدد الف ثانی نے اس کی سرکوبی کی،اس دور میں بھی دینی بے راہ روی کے ذمہ دار اکبر کے درباری ملا ابولفضل اور فیضی ہی تھے مگر حضرت مجدد نے اپنے مکتوبات وتصانیف اور عملی جدوجہد سے اس فتنہ کاکامیاب مقابلہ کیا۔ وہ فتنہ اس وقت ختم تو ہوگیا مگر اعلیٰ حضرت امام احمد رضاقدس سرہ کے دور میں نئے چہرے کے ساتھ مختلف انداز میں پھر نمایاں ہوا،یہ دور توگویا فتنوں کے سر ابھارنے کا دورتھا،وہابیت ،دیوبندیت، نیچریت،قادیانیت،غیر مقلدیت،ندویت اوردیگرفتنوں نے اس عہد میں جس طرح دین وسنت پہ حملے کئے،اس کی نظیر ماضی قریب میں نہیں ملتی ، مگر پروردگار عالم جل مجدہ نے ان فتنوں کی سرکوبی کے لئے اس عہد کے علماومشائخ بالخصوص اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کا پیدا فرمایااور دنیا نے دیکھا کہ کس طرح انہوں نے اپنے کرداروعمل،تصنیفات و فتاویٰ اور مکتوبات وملفوظات کے ذریعہ ان تمام فتنوں کامقابلہ کیا،انہیں فتنوں میں’’تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت ‘‘جیسا فتنہ بھی تھا، جس سے وابستہ ہندوستانی مسلمانوں کا سیاسی اعتبار سے نمائندہ طبقہ بے راہ رو ہورہاتھا اس طبقہ کی ذہنیت بھی اکبر کے ’’دین الٰہی ‘‘سے مستعار تھی، اعلیٰ حضرت نے اپنے خلفاوتلامذہ اور احباب کے ساتھ ان فتنوں کے خلاف علمی وعملی محاذ آرائی کی اور تاریخی ثبوت کے مطابق اسے وہیں دفن کردیا ۔ان کی اس پیش قدمی سے کتنے افراد کوتوبۂ صحیحہ اور رجوع الی الحق کی توفیق مرحمت ہوئی ان تاریخی حقائق کو دیکھنے کے لئے تصانیف رضا کے علاوہ حیات اعلیٰ حضرت؍ملک العلما مولانا سیدظفر الدین بہاری، امام احمد رضاایک مظلوم مفکر؍مولانا عبدالستار ہمدانی اورتنقیدات وتعاقبات ؍پروفیسر مسعود احمد مظہری‘‘کا مطالعہ کرنا چاہئے۔
فتنوں کے ظہور کا یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ اعلیٰ حضرت کے بعد ان کے شہزادگان حجۃ الاسلام مولانا شاہ حامد رضاخان اور سرکار مفتی اعظم ہندمولانا شاہ مصطفےٰ رضاخان علیہما الرحمہ کے عہد میں کئی فتنوں نے سرابھاراجس میں’’تحریک شدھی‘‘بہت نمایاں فتنہ تھااس کے ذریعہ دین سے ناآشنا مسلمانوں کو تبدیلی مذہب پہ مجبور کیاجارہاتھاکہیں لالچ اور کہیں خوف کے ذریعہ ہندوبنانے کی مہم چل رہی تھی،اس نازک مرحلہ میں اعلیٰ حضرت کے ان شہزادوں کے علاوہ ان کے خلفاوتلامذہ مثلا صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی،ملک العلما مولانا ظفر الدین بہاری،امام المتکلمین مولاناسید سلیمان اشرف بہاری ،صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی،محدث اعظم مولانا سید محمد اشرفی ،حضرت پیرسید جماعت علی شاہ ،شیر بیشہ اہل سنت مولانا حشمت علی خان پیلی بھیتی،برہان ملت مولانا برہان الحق جبل پوری،محسن ملت مولانا حامد علی فاروقی وغیرہ نے اس فتنہ کے استیصال کے لئے جو قربانیاں دیں اسے تاریخ نے اپنے صفحات میں محفوظ کرلیاہے ،حالات پڑھ کر جہاں ان کے ایثار وقربانی پہ آنکھیں چھلک پڑتی ہیں وہیں یہ احساس بھی ہوتاہے کہ اگر ان فتنوں کواس عہدمیں دبایا نہیں گیاہوتاتو ہندوستان میں اسلام اور مسلمانوں کاکیاحشر ہوتا ۔یہ اعلیٰ حضرت ہی کے فیض یافتگان کی قربانیاں ہیں کہ یہاں اسلام زندہ وتابندہ ہے۔
تاریخ پہ جن کی نگاہ ہے وہ خانوادہ رضاکی علمی ومذہبی خدمات کے ساتھ ان کی مجاہدانہ کارکردگی کے بھی معترف ہیں ،سیف وقلم دونوں سے جہاد واحقاق حق اسی خانوادہ کا طرہ امتیاز ہے، یہ خانوادہ رضاہی ہے جس نے ہردور میں مسلمانوں کے مذہبی وملی حالات پہ نگاہ رکھی ہے اوران کے دین وایمان کے تحفظ اور اسلام وسنت کی تبلیغ واشاعت کے لئے کوشاں رہاہے ۔عہد حاضر کا مذہبی ماحول بھی فتنوں سے خالی نہیں اگربنظر غائر جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ اکبر کا ’’دین الٰہی‘‘ٹکڑوں میں بٹ کر آج بھی زندہ ہے اور جب تک ہواوہوس کا بازار گرم رہے گا یہ فتنے بھی موجود رہیں گے۔
تاج الشریعہ کے دور کے فتنوں میں (۱)سب سے بڑا فتنہ منہاجیت ہے یعنی دین الٰہی کی تجدید،فیورک کی بدلی ہوئی شکل اور عمانزم کاترجمان اور(۲) دوسرا بڑافتنہ صلح کلیت ہے جس کاسب سے بڑا مراکز’’ سراواں الٰہ آباد‘‘اورسب سے بڑاآرگن ’’ماہنامہ جام نور‘‘ہے ۔ دنیا آج دونوں ’’سنیت نما‘‘فتنوں سے اس طرح دوچار ہے کہ درمیان میں کھڑے افراد کے لئے حق کی شناخت بظاہرمشکل ہوگئی ہے۔ یہ دونوں فتنے بنام اسلام اوربنام اہل سنت ہیں،جس کی وجہ سے کل جس طرح تقلید کی بنیاد پروہابیہ اور دیابنہ کی شناخت مشکل ہوگئی تھی، اسی طرح آج معمولات ومراسم کی بنیاد پراہل سنت وجماعت اور منہاجیت وصلح کلیت کی شناخت مشکل ہوگئی ہے ،مگرجس طرح رات کی تاریکی میں صحیح راستہ نظر نہیں آئے تو اس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ غلط راستہ بھی صحیح راستہ ہے اسی طرح مراسم ومعمولات کی بنیاد پراگرگمراہوں سے حق کی تمیز مشکل ہوجائے تو اس سے یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ سب جماعت ناجی اورصرط مستقیم پر گامزن ہے ۔
برسوں قبل جب تاج الشریعہ نے ڈاکٹر طاہر القادری کے اسلام مخالف نظریات پران کی گرفت کی اوراتمام حجت و یقین کامل کے بعد کہ یہ اہل سنت کے خلاف باطل راستہ پہ چل پڑے ہیں آپ نے حکم شرع سنایا تو دنیا حیرت زدہ تھی کہ اتنا قابل عالم اورمشہور خطیب بھلا گمراہ کیسے ہوسکتاہے مگر ’’قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید ‘‘آج دنیا تحقیق مزید کے بعد وہی کہہ رہی ہے جو تاج الشریعہ نے برسوں پہلے کہا تھا۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے رد میں تقریبا ۲۰ ؍کتابیں منظر عام پہ آچکی ہیں جو یہی ثابت کرہی ہیں کہ حضور تاج الشریعہ کا فیصلہ اسلامی اور امت کا اجماعی فیصلہ ہے اک نظر ان کتا بوں کو دیکھیں:
اسلام میں عورت کی دیت علامہ احمد سعید کاظمی
دیت المرأہ علامہ عطا محمد بندیالوی
عورت کی دیت مفتی عبد اللہ قصوری
فتنہ طاہری کی حقیقت مفتی محبوب رضا
علمی گرفت مفتی محبوب رضا خان
اسلام اور وائرس مسیحیت مولانا محمد بشیر القادری
خطرہ کی گھنٹی مولانا ابوداؤد صادق رضوی
علمی وتحقیقی جائزہ
طاہر القادری کی حقیقت کیا ہے مفتی ولی محمد رضوی
یہ سب کیا ہے حافظ فریاد علی قادری
متنازع تری شخصیت نواز کھرل
سیف نعمان مفتی فضل رسول سیالوی
قہرالدیان مولانا عاقب فرید قادری
طاہرالقادری عقائد ونظریات مفتی اختر حسین قادری
طاہرالقادری جواب دیں علمائے اہل سنت اکاڑہ
اعلام بہ لزوم والتزام مفتی کوثر حسن قادری
ضرب حیدری مولانا غلام رسول
ڈاکٹر طاہر سنی نہیں تاج الشریعہ
واضح رہے کہ کسی شخص کے ایمان کی پرکھ کے لئے اس کی خدمات نہیں دیکھی جائیں گی عقائد ونظریات دیکھے جائیں گے اگر خدمات دیکھ کر فیصلہ کیاجائے تو منکرین زکوٰۃ کی بھی خدمات نکل آئیں گی،خارجی رافضی شیعہ اور قادیانی کی بھی کچھ نہ کچھ خدمات نکل آئیں گی،وہابیہ دیابنہ کو بھی خدمات کی بنیاد پہ حق پہ ہونے کادعویٰ ہوگا،پھر حق وباطل کے درمیان تمیز کی صورت کیا رہ جائے گی ؟چور ڈاکو شرابی برے ہونے کے باوجود کچھ اچھے کام کرتے ہی ہوں گے تو انہیں اس اچھے کام کی وجہ سے اچھا اور شریف کہہ دیاجائے؟ڈاکٹر طاہر القادری کی جو بھی خدمات ہوں ان سے انکار نہیں مگر اب ان کی فکر ’’فکر اسلامی‘‘نہیں رہی تو ان پر حکم شرع نافذ تو ہوگا ۔ہندوپاک کے ان علما ومشائخ نے اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھ کر عوام اہل سنت کو اس کے دام تزویر سے بچانے کے لئے ان پرجو حکم لگایاہے اسے اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
دین اور بے دینی کے درمیان مصالحت کے لئے بعض اہل ہواہوس نے’’ صلح کلیت وندویت ‘‘کی بنیاد رکھی تھی ،ایک صدی قبل اس فتنہ کے خلاف پورے ملک کے علما مشائخ نے صدائے احتجاج بلند کیا ،اس کے خلاف تحریکیں چلائیں، کتابیں لکھیں، اس کے دام فریب سے بچنے کے لئے مختلف شہروں میں بڑے بڑے اجلاس کئے، جس کی پیشوائی تاج الفحول مولانا شاہ عبد القادر بدایونی اور امام اہل سنت اعلیٰ حضرت علیہماالرحمہ نے کی، اس وقت کی تقریبا تمام بڑی خانقاہوں کے مشائخ نے بھی اسے وقت کی آواز سمجھتے ہوئے اس کی پشت پناہی کی ،اسے اپنے تعاون سے مستحکم کیااور اپنی دعائے نیم شبی سے اسے اتنا پراثر کیا کہ وہ فتنہ جو تحریک کی شکل میں اٹھاتھاایک’’ مدرسہ ‘‘میں سمٹ گیااور مسلمانوں کو اس سے نجات مل گئی ،مگراسے وقت کا المیہ ہی کہاجائے گاکہ ایک صدی گزرتے گزرتے پندار نفس کے شکار بعض افرادنے سوسال قابل کی جدوجہد پر پانی پھیرنا شروع کردیا،انہوں نے اپنے طبعی رقاضے کے تحت ’’صلح کلیت ‘‘کا معنیٰ ومفہوم بدل دیابلکہ اس لفظ سے ہی ان کو انقباض ہونے لگا،اب کوئی ایمان وکفرکو یکجاکردے،اچھے اور برے کو ایک سمجھے ،بدعقیدوں اور خوش عقیدوں کو ایک ہی خانہ میں رکھے،جن سے دور رہنے کا حکم ہے اس سے دوستی کر ے اورجس سے سلام وکلام منع ہے اس سے رشتہ داری کرے،معاذ اللہ!ان کے نزدیک وہ سچا مسلمان ہے اور اسی کو مقاصد شریعت کا ادارک نصیب ہواہے۔جدیدیت کے دلداہ افراد نے بہ یک جنبش قلم کس طرح اپنے گھر کے بزرگ اور جماعت اہل سنت کے اکابر علماکی قربانیوں کا مذاق اڑایاہے، دیدہ حیرت سے دیکھنے کے لائق ہے۔
کل کی بہ نسبت آج دین سے بے رغبتی، دین میں مداہنت اور دین کے خلاف بولنے والے افراد زیادہ ہیں اورحق کی آواز بلند کرنے والے کم۔دین میں آسانی اور سہل پسندی کے دلدادہ زیادہ ہیں اور تقویٰ وطریقت بلکہ شریعت کے آگے سر خم کرنے والے کم۔شخصیت سے متاثر ہوکر حکم شرع سنانے والے زیادہ ہیں اور حاکم وقت کے آگے بھی حکم شرع سنانے والے کم ۔ایسے میں اگرحق کی کوئی آواز بلند ہوتی ہے تو ’’کشتۂ تیغ نفس‘‘ بہ یک زبان’’تکفیری ٹولہ،شدت پسند،متشددجماعت‘‘کہہ کر اس حق کی آواز کو دبانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں،بتایاجائے یہ عمل دین کی حمایت میں ہے ؟اورکیا ایسا کرنے والے کودین کا مخلص کہہ سکتے ہیں؟وہ لوگ جو چلمن کی اوٹ سے ایسے لوگوں کی خاموش حمایت کررہے ہیں انہیںیاد رکھنا چاہئے کہ نفس پرستوں کا کوئی دھرم نہیں ہوتا وہ اپنے مطلب کے لئے روز اپنا قبلہ بدلتے ہیں اور بدلتے رہیں گے ،آج جو افرادسرکار تاج الشریعہ کی مخالفت اور ان کی کردار کشی پہ کمر بستہ ہیں کل ان کے دامن تقدس تک بھی یہ پنجۂ خونیں پہنچے گا اوراس وقت سوائے آہ وفغاں کے وہ کچھ نہیں کرسکیں گے۔ واضح رہے کہ باطل کے مقاملہ میں حق ہمیشہ سرخ رو رہاہے اور رہے گا ،آج حق کی علامت اور صلح کلیت کی یلغار کے مقابلہ میں حق کی آہنی دیوار کا نام ہے تاج الشریعہ ،یہ دیوار سلامت ہے تو دین خلاف اٹھنے والے ہر فتنے بھی ناکام رہیں گے اور آج تک ناکام ہیں۔
جا نشین مفتی اعظم اورمریدان مفتی اعظم:
جانشین مفتی اعظم ہند حضور تاج الشریعہ ادام اللہ فیوضہ علینا کی زندگی کا مطالعہ کرنے والوں سے یہ حقیقت مخفی نہیں کہ علم عمل تقویٰ فتویٰ احتیاط احتساب،عبادت وریاضت اور کشف وکرامت ہر اعتبار سے تاج الشریعہ جانشین مفتی اعظم ہیں ۔میں ان تمام پہلووں پہ حوالہ فراہم کرکے مضمون کو طول نہ دے کر صرف احتیاط کے حوالہ سے چند باتیں عرض کروں ۔
۔آج جماعت اہل سنت میں چند موضوعات پہ علمی اختلافات ہیں اگر بنظر انصاف دیکھیں تو ہر اختلافی مسئلہ میں حضور تاج الشریعہ کا موقف دلائل وشواہد کے علاوہ احتیاط کے اعتبار سے بھی بر حق معلوم ہوگا چند شواہد دیکھئے(۱)ٹی وی اور ویڈیو کے مسئلہ میں علمی اختلاف ہوا ، جواز وعدم جواز کو لے کر جماعت دو خیمے میں بٹ گئی ،آپ کا موقف عدم جواز کا تھا جس پر آپ شدت سے آج تک قائم ہیں۔قائلین جواز ’’ٹی وی اور ویڈیو کے شرعی استعمال ‘‘کا موقف رکھتے تھے جس میں کہیں سے بھی تصویر کشی کی اجازت نہیں تھی ،مگر آج ٹی وی اور ویڈیو کے شرعی استعمال ‘‘کی آڑ میں جس طرح کھلے عام تصویریں لی جارہی ہیں ،چھاپی جارہی ہیں اس کا کوئی جواز کہیں سے بنتاہے؟ اب تو حال یہ ہے کہ تصویر کشی کی حرمت کا تصور بھی ذہنوں سے محو ہوتاجارہاہے ،چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ،شادی، میت ،محفل، ٹرین، بس، ہوائی جہازجہاں دیکھئے تصویریں لی جارہی ہیں،کون اسے حرام سمجھتاہے؟ذراسوچئے !ٹی وی اور ویڈیو کے شرعی استعمال‘‘میں کہیں بھی اس کی اجازت تھی؟مگر جواز کے پہلو کی آڑ لے کراس طرح تصویر کی حرمت کو حلت سے بدل گیاہے کہ تصویرکی مخالفت کرنے والا ہی مجرم سمجھاجاتاہے۔
ایک دور وہ تھا کہ حضور مفتی اعظم ہند نے حج کے لئے بھی اس کار حرام کو جائز قرار نہیں دیا پھر باضابطہ بحث ومباحثہ کے بعد اسے ضرورت تک محدود کیا گیامگر آج کس طرح یہ وبا عام ہے بتانے کی ضرورت نہیں۔اب یہاں حضور تاج الشریعہ کے عدم جواز کا موقف دیکھیں ،تو انہیں معلوم ہوگا کہ امت مسلمہ کو گناہوں سے بچانے کے لئے آپ کا موقفِ عدم جواز احتیاط کے اعتبار سے بھی کتنا فائدہ مندہے ،ایمان داری سے دیکھیں تو پوری دنیا میں صرف تاج الشریعہ کی ایک ذات ایسی ہے جوآج قول وعمل دونوں اعتبار سے تصویر کشی کے خلاف ہے ،گویا تصویر کی حرمت والی حدیث معنوی اعتبار سے اگر کہیں محفوظ ہے تو وہ تاج الشریعہ کی شخصیت اور ان کاکردارہے ۔
اسی طرح لاؤڈ اسپیکر پر نماز کے جواز وعدم جواز ،آلات جدیدہ کے ذریعہ چاند کے ثبوت اور چلتی ٹرین میں پڑھی گئی نماز کے اعادہ کے مسئلہ میں آپ کا موقف جہاں دلائل وشواہد کی روشنی میں صحیح ہے وہیں تقاضائے احتیاط بھی تاج الشریعہ کے موقف کی تائید میں ہے۔غور کریں تو یہ حقیقت سامنے آجائے گی ۔لاؤڈ اسپیکر کے استعمال سے نماز کے صحیح ہونے نہیں ہونے میں اختلاف ہے لیکن اگر اس کا استعمال ہی نہ کیا جائے تو نماز کے ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔آلات جدیدہ کے ذریعہ چاند کے ا ثبات میں اختلاف ہے لیکن آلات جدیدہ کے بجائے قدیم طریقے پر چاند کے ا ثبات میں کسی کاکوئی اختلاف نہیں۔چلتی ٹرین میں پڑھی گئی فرض وواجب نماز کے اعادہ کے حکم میں اختلاف ہے،اگر پرانے موقف پہ قائم رہتے ہوئے اعادہ کرلیاجائے توکسی کے یہاں کوئی اختلاف نہیں۔اس پہلو کو سامنے رکھ کر سوچیں تو تمام جدید مسائل میں تاج الشریعہ کا موقف صاف شفاف محتاط اور برحق نظرآئے گااور اسی سے یہ بھی آئینہ ہوجائے گا کہ علم وعمل اور عبادت وریاضت کے علاوہ حزم واحتیاط کے اعتبار سے بھی آپ واقعی جانشین مفتی اعظم ہیں ۔
حضور تاج الشریعہ ’’جانشین مفتی اعظم ‘‘ہیں اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ مریدان مفتی اعظم کے لئے بھی آپ کی شخصیت قابل احترام اور اکتساب فیض کا محور ہے۔پیری مریدی کے آداب سے جو حضرات واقف ہیں انہیں یہ خوب معلوم ہے کہ پیر کا ادب ان کی شخصیت تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کے شہران کی اولاد،ان کے خلفاء وجانشین اور ان سے نسبت رکھنے والی چیزوں کا ادب بھی پیر ہی کا ادب ہے اور ان کے شہر،اولاد، خلفاو جانشین کی ایذا وبے حرمتی پیر کی ایذا اور ان کی بے حرمتی ہے۔ اللہ والوں کی سیرت سے اس کی حقیقت اور اس کا عرفان حاصل کیاجاسکتا ہے ،سبع سنابل شریف میں ہے:
’’ایک مرتبہ حضرت سلطان المشائخ (محبوب الٰہی نظام الدین اولیا قدس سرہ) اپنے احباب کے ساتھ تشریف فرماتھے ،کہ ناگاہ کھڑے ہوگئے پھر بیٹھ گئے حاضرین مجلس نے آپ سے دریافت کیا کہ حضور !کس بنا پر کھڑے ہوئے ؟فرمایا کہ ہمارے پیر دستگیر کی خانقاہ میں ایک کتارہتاتھا آج اسی صورت کا ایک کتا مجھے نظر آیا کہ اس گلی میں گزررہاہے۔میں اس کتے کی تعظیم کی خاطر اٹھاتھا‘‘
سچے اور اہل دل مرید کا تعلق اپنے مرشد سے کیسا ہوتا ہے اندازہ لگایاجاسکتاہے۔بہار کے مشہور علاقہ ’’پورنیہ ‘‘کے بزرگ شیخ الاسلام مولانا غلام یٰسین رشیدی علیہ الرحمہ کے تعلق سے بھی ایک واقعہ مشہور ہے چنانچہ’’شیخ الاسلام حیات ومکتوبات‘‘ میں منقول ہے کہ’’ ان کا لڑکا ’’جمیل الرشید ‘‘ایک بار لالٹین کی روشنی میں اپنا سبق یاد کررہاتھا اس نے لالٹین کی روشنی سے اپنی آنکھوں کو بچانے کے لئے چمنی پر ایک پوسٹ کارڈ رکھ لیاتھا ،آپ ٹہلتے ٹہلتے وہاں تک پہنچے تویہ منظر دیکھ کر بیتاب ہوگئے پوسٹ کارڈ کواٹھایا بوسہ دیا اور خط کو لالٹین پر رکھنے کے سبب بیٹے کی زبردست پٹائی کردی، وجہ پوچھنے پر بتایا کہ یہ خط میرے پیر ومرشد منبع البرکات حضرت سید شاہ شاہد علی سبز پوش کاہے جسے اس نے لالٹین کی چمنی پر چسپاں کیا تھا‘‘ذرا سوچئے !خط ہی تو تھا اس کے لالٹین پرر کھنے سے ایسا کیا ہوگیا کہ اس کی وجہ سے بچہ کی پٹائی کردی گئی،ظاہر بیں آنکھوں کے لئے ایساکچھ نہیں، مگر مرید صادق کے لئے بہت بڑی بات تھی کہ اس خط سے ان کے پیر کی نسبت جڑی ہوئی تھی،جس کی بے وقعتی ہورہی تھی ۔جماعت اہل سنت کے نامور بزرگ حضور مجاہد ملت کے بارے میں منقول ہے کہ:
’’ایک مرتبہ آپ بریلی شریف تشریف لے گئے رکشا پر سوار ہوئے ،کچھ دیر رکشا چلا کہ آپ نے رکشاوالے سے اس کا نام پوچھا ،اس نے اپنا نام ’’حامد ‘‘بتایا ،اتنا سنتے ہی آپ نے رکشار کوادیااور اس کو مطلوبہ رقم سے زائد رقم دے کرجانے لگے، رکشاوالا بھی یہ منظر دیکھ کرحیرت میں تھا ،اس نے پوچھا ’’حضور بات سمجھ میں نہیں آئی ،آپ رکشا سے اتر بھی گئے اور مطلوبہ رقم سے زائد رقم بھی دی‘‘ فرمایا ’’میرے مرشد کانام بھی حامد ہے،(مجھے یہ کیسے گوارہ ہو کہ اس نام کے آدمی سے ایسا کام لوں) نام کی مناسبت کی بنا پر احتراما میں رکشا سے اتر گیا ‘‘(مجاہد ملت نمبر ص ۳۹۷)
پیر کا فیضان یوں نہیں ملتا بلکہ’’تومن شدی من تو شدم ‘‘کی منزل سے گزرنا پڑتا ہے ،جب یہ منزل مل جاتی ہے تو فیضان کا دریا بہنے لگتاہے ،حضور مجاہد ملت کیا تھے یہ زمانہ پہ روشن ہے مگر اس مقام تک کیسے پہنچے یہ اس طرح کے واقعات سے معلوم کیاجاسکتاہے۔یہ پیر کی محبت وعظمت اوران سے نیازمندانہ تعلق ہی کا نتیجہ تھا کہ انہوں عمر کے واضح فرق کے باوجود حضور تاج الشریعہ کا وہ ادب واحترام کیا جس کا تصور کاملوں ہی سے کیا جاسکتاہے ،چنانچہ ڈاکٹر غلام مصطفےٰ نجم القادری اپنی کتاب ’’حضور مجاہدملت اور مسلک اعلیٰ حضرت ‘‘میں لکھتے ہیں:
مجاہد ملت تاج الشریعہ کا اتناادب واحترام کرتے تھے کہ آج لوگ اپنے استاذ کا احترام نہیں کر پاتے یہ عشق تو جھکنا چاہتا ہے مگر عقل کسر شان کا فلسفہ کھڑاکر دیتی ہے ۔حضور تاج الشریعہ حضور مجاہد سے عمر میں ظاہر ہے بہت چھوٹے تھے ،ان کی جوانی تھی تو حضرت کی ضعیفی وپیری مگر اس تفاوت کے باوجود مجاہد ملت کا انداز وفا دیکھئے،تاج الشریعہ ایک بار بھدرک تشریف لائے مجاہد ملت اپنے متعلقین کے ساتھ موجود ہیں،پل پل خدمت ومدارات پر نظر رکھے ہوئے ہیں ،اسی دوران ایک صاحب حضور مجاہد ملت کی بارگاہ میں مرید ہونے کے لئے حاضر ہوئے اور کہا حضور مجھے آپ مرید فرمالیں،یہ سن کر حضور مجاہد ملت جلال میں آگئے اور فرمایا’’ میرے مخدوم اور مخدوم زادے ،بریلی شریف کے شہزادے تشریف لائے ہوئے ہیں ان کی موجود گی میں میں بیعت کروں ؟حبیب الرحمٰن کی یہ مجال کہ اتنی بڑی جرأت کرے،یہ تمہارا نصیب ہے کہ حضور تشریف فر ما ہیں ،تمہیں شہزادے صاحب ہی سے بیعت ہونا ہے،خودلے جاکر ان صاحب کو تاج الشریعہ سے بیعت کروایا‘‘
ان واقعات کی روشنی میں اہل دل اور اہل نظر حضرات اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب پیر سے منسوب اشیا کا یہ مقام ومرتبہ ہے تو جن کی رگوں میں پیر کا خون گردش کررہاہے ان کا مقام ومرتبہ کیا ہوگا ؟ حضورتاج الشریعہ ’’جانشین مفتی اعظم‘‘بھی ہیں اور نواسہ مفتی اعظم بھی اور دونوں اعتبار سے مریدان مفتی اعظم کے ان کی ذات منبع فیوض اور جامع البرکات ہے ،کہ یہاں نسبت ارادت بھی ہے اور نسبت نسب بھی، اگر پیر کی سچی محبت دل میں موجود ہے توانہیں اسی ذات میں مفتی اعظم کا عکس نظر آئے گاان کا تقویٰ، علم، اتباعِ سنت ، معاندین ومخالفین کے جواب میں صبر اورسفر وحضر میں بھی لمحہ لمحہ کا علمی وروحانی استعمال یقیناًمفتی اعظم کے جانشین ہی کے حصے کی چیز ہے ،مگر یہ حیرت کا مقام ہے کہ پیر سے دعویٰ محبت کے باوجود ان کے نسبی جانشین سے وہ مطلوبہ محبت وتعلق دیکھنے میں کم آتاہے جو پیر کی نگاہ میں ’’وفاشعار‘‘رہنے کے لئے ضروری ہے۔ ایک طرف حضرت محبوب الٰہی کا پیر کے شہر کے مشابہ کتے کا احترام دوسری طرف پیر کے جانشین سے دوری اور ان سے اختلاف،ایک طرف پیر کے خط کی بے وقعتی سے مریدکی برہمی ،دوسری طرف پیر کے جانشین کے مخالفین سے دوستی و ہمنوائی ،ایک طرف مجاہد ملت کا پیر کے پوتے کا ادب واحترام دوسری طرف اپنے پیر کے جانشین سے بے رغبتی،اندازہ لگائیں کیا اسی کانام بیعت وارادت اوراسی کانام شیخ کا ادب واحترام ہے ؟کیا شیخ کے جانشین کو ایذادینا شیخ کو ایذادینا نہیں ؟اور کی کیا ایسے میں پیر کا فیضان جاری رہ سکتاہے؟
واضح رہے کہ کسی مسئلہ میں علمی اختلاف (اختلاف کی اہلیت ہوتو) الگ چیز ہے مگر دیگر معاملات میں اختلاف اور معاندین مذہب ومسلک سے تعلق ودوستی یقیناًمحل نظر ہے، ایسے لوگوں کو اپنے مرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوکراپنی محبت کا جائزہ لینا چاہئے۔تاج الشریعہ ابھی حق کی علامت ،حق کی پہنچان اور کاروان حق کے سپہ سالار ہیں ان سے وابستگی ہی پیر کی بارگاہ میں خراج اور دین کی بڑی خدمت ہے ۔ سرکار مفتی اعظم کے دست گرفتہ اور فیض یافتگان سے یہی عرض ہے کہ وہ حالات کے تقاضے کو سمجھیں معاندینِ مسلک اور مخالفین تاج الشریعہ کے خفیہ عزائم کوسمجھیں وہ اگر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں تو حالات کا منظر بدل سکتاہے اور انہیں بدلنا ہوگا کہ روح مفتی اعظم کی پکار یہی ہے ،اب تاج الشریعہ کی مخالفت کرتے کرتے معاندین حسام الحرمین کی حقانیت سے لوگوں کو مشکوک بنارہے ہیں قدیم اختلافی مسائل کوسامنے لاکر انتشار کی خلیج بڑھا رہے ہیں اب ایسے میں بھی خاموش تماشائی بنے رہنا مسلک اہل سنت کومشکوک اور مفتی اعظم کے مشن کوکمزور کرنے کے مترادف ہے جس کی توقع ان کے مریدوں سے نہیں کی جاسکتی ؂
اندکے پیش تو گفتم غم دل ترسیدم
کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیاراست
سرکارتاج الشریعہ کی زندگی کا مطالعہ کیاجائے تو ان کے تصلب وتصوف اورتقویٰ وطریقت کے آگے سرنیاز خم ہوجاتاہے،
اور جدید مسائل میں دو بڑی خانقاہوں کا اختلاف (خانقاہ اشرفیہ اور خانقاہ بریلی ، جماعت میں انتشار ہونے کو ہوگیا مگر دنیا آج زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ جواز وعدم جواز سے ہٹ بھی دیکھیں تو تاج الشریعہ کا موقف احتیاط کے اعتبار سے بھی اہم اور صحیح ہے آج لوگ اپنی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ ٹی وی کے شرعی جوازکی آڑ میں تصویریں لینے کی روش عام ہوگئی ہے ،اخبارات ورسائل میں تصویریں شائع کی جارہی ہیں ،دینی درسائل میں جام نورنے اس بدعت کی شروعات کی ہے مگر قدغن لگانے والاکوئی نہیں ،جام نور کی واہ واہی کرنے والے بتائیں کیا اس طرح تصاویر کی اشاعت شرعا جائز ہے؟ )
احتیاط کا پہلو
فوٹو اور ویڈیو گرافی میں احتیاط
جواز واحتیاط میں احتیاط کے پہلوکو اختیار کرنا ہی تقویٰ کہلاتاہے
اپنے اور اس کا سارا ٹھیکرا حضور تاج الشریعہ کی جانب لاکر توڑاجارہاہے،اس سلسلہ میں کچھ عرض کرنے
سے پہلے یہی عرض کردوں کہ اللہ والوں کو اعلائے کلمۃ الحق کی بنیاد پر ہر دور اور صدی میں مورد الزام ٹھہرایاگیاہے ان کے خلاف الزامات عائد کئے ہیں اور ان کی حق گوئی کو فساد سے تعبیر کیاگیاہے ۔صحیح ہے حاسدین نہ ہوں تو مقبولوں کا پتہ نہ چلے ، اُن کا حسد اور اِن کا صبریہی بتانے کے لئے ہوتاہے کہ دونوں فریق کے مزاج ،سوچ اور فطرت کا حال آشکارہوجائے، حسد کس کی صفت ہے یہ معلوم ہوجائے اور صبر کس کی شان ہے اس راز سے بھی پردہ اٹھ جائے ۔
علائے کلمۃ الحق:
سادات کا احترام:
مفتی اعظم کے مریدین سے گزارش :
تاج الشریعہ کے مخالفین

عشق رسول کاجوہر ،عفودرگزر ،

شریعت وطریقت کا سنگم،عشق رسول میں سرشار، نہ ان کا کوئی ثانی ،دنیا ان پر فریفتہ اور انہیں اک نگاہ دیکھنے کے لئے بیتاب ہے ، ؂
یہی ماحول اعلیٰ حضرت کے دور میں بھی تھا لوگ ان سے بھی حسد کرتے تھے اسی ماحول میں آپ نے کہا تھا
حسد سے ان کے سینے پاک کردے
کہ بدتر دق سے بھی یہ سل ہے یا غوث
دیا مجھ کو انہیں محروم چھوڑا
مرا کیا جرم حق فاضل ہے یا غوث

ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ برکف
بامید آں کہ روزے بشکار خواہی آمد
کا منظر بنی ہوئی ہے،بن دیکھے بھی اتنے عشاق ہیں کہ
تاج الشریعہ
بحیثیت مرشد
بحیثیت مفتی
بحیثیت مصنف
حضرت مولانا روم نے لکھا ہے ؂
بر مرید صادق صاحب تمیز ہست ذکر سیرت پیراں عزیز
ذکر پیراں تازہ ایمانش کند قصہ شاں جلوہ برجانش کند
یعنی تمیز والے مرید صادق کو اپنے پیروں کی سیرت کا ذکر بڑا عزیز ہوتاہے پیر کا ذکر ان کے ایمان کو تازہ کرتا ہے اور ان کے واقعات اس کے ایمان پر تجلی ڈالتے ہیں ۔
اور یہ سوچ کر سر فخر سے اونچا ہوجاتاہے کہ کل جب دیناآج کی تاریخ پڑھے گی اور تاج الشریعہ کی سیرت ان کے کردار اور ان کی خدمات کوخراج پیش کرے گی تو ہماری روحیں بھی شادکام ہوں گی کہ تم جن کے قصیدے پڑھ رہے ہو ہماری آنکھوں نے انہیں دیکھاہے ان کی صدائے حق سنی ہے ناور ان کی داستان عزیمت میں کہیں نہ کہیں ہم کھڑے ہیں۔(ملت ٹائمز)